Rooh Nasheen by S Merwa Mirza Complete Novel

 

Rooh Nasheen by S Merwa Mirza.

Romance, Revenge Genre, Multiple Love Stories based. Forced Marriage/ After Marriage Romantic and lovely stories. 

A Story Of Chameleon, A Man Of Justice Who find the Truth About His Father's Murder. Friendship Based, Haseeb & Ozaan Friendship lift up this Beautiful Novel.

ROOH Shanaas ka Rooh Nasheen tk puhanchny ka khobsort safer jo apko kisi or hi khawab naak dunia main ly jye ga. 4 couples. Police Offers, Army Officer, and Doctors struggles. Little bit Political Touch, religious Touch and Fun.
*****

صبح بخیر بابا سائیں

ایزل مریم جو اس حویلی کی بڑی بہو اور آئی جان کے نام سے جانی جاتی تھیں، نے ملازمہ کے سنگ بابا جان کا سپیشل ناشتہ (خاص قسم کا ابلی سبزیوں کا سیلڈ) انکے سامنے سرو کیے محبت اور شائستگی کے سنگ صبح کا سلام کیا اور مسکرا کر اپنی کرسی پر بیٹھیں تو فیروز شمشیر نے شفقت بھری نگاہ اپنی بڑی بہو پر سر ہلاتے جمائی جیسے وہ صبح کے سلام کا جواب دے رہے ہوں۔

گڈ مارننگ بابا جانی

ساتھ ہی کنول بھی چاپلوس ہنسی ہنستی آکر فیروز شاہ کی لاڈلی بنی پہلے آکر ان سے لپٹی پھر ساتھ ہی براجمان ہوئی، سسر صاحب اس والی بہو کو دیکھ کر کھل اٹھتے تھے، اور کنول نے بھابھی کے عین روبرو کرسی پر تفاخر اور متکبر تاثرات کے سنگ براجمان ہوتے تفاخر سے اپنی گردن اکڑائی جس پر ایزل بس اس عورت کی شیخی بگاڑنے پر پس لب تھکا سا مسکرا دیں۔

میرا ببر شیر نہیں اٹھا؟ اپنے لاڈلے کا پوچھتے سمے وہ اخبار کو غیر ضروری قرار دیے تہہ لگا کر سامنے میز کی سطح پر رکھتے ایزل کی جانب متوجہ ہوئے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی اٹھا کر آئی تھی، فریش ہو کر آتا ہے بابا سائیں۔۔۔ رات کافی لیٹ آیا تھا، پوچھا تو بتایا نہیں اس نے بس یہی کہا کہ آپکے کام سے گیا تھا، پتا نہیں کیا کیا کرتا پھرتا ہے، رات بھی اسکی شرٹ کے کف پر خون لگا تھا، میں تو اس لڑکے کی ان پراسرار اور خوفناک حرکتوں سے تنگ آ چکی ہوں۔

ایزل مریم کی آزردہ فکر پر اول تو فیروز صاحب کے بڑی بڑی سفید داڑھی اور مونچھ سے سجے جاذب چہرے پر سنجیدگی سی اتری مگر اگلے ہی لمحے وہ متوازن سا مسکرا دیے، کنول کی توجہ اسی جانب تھی۔

ہم دشمن دار لوگ ہیں بہو، وہ خون ہمارے دشمنوں کا ہوتا ہے اسکا نہیں اور یہ مرد کی شان ہے کہ وہ فساد اور شرارت میں مبتلا ہو کر آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے کا کلیجہ نوچ لے،ویسے بھی مردوں کے کاموں میں گھر کی عورتوں کو نہیں بولنا چاہیے۔ اس کے سر پر اسکے دادا کا ہاتھ ہے پھر بھی تم فکر کرتی رہتی ہو۔ حیرت ہے۔

لہجے میں غرور سا لیے وہ ایزل سے مخاطب ضرور تھے مگر انکی یہ دلیل اور وضاحت کسی اور کے جسم کی رگوں کا خون ضرور چھلکا گئی تھی۔

یہی تو ساری پریشانی ہے کہ اسکے سر پر آپکا ہاتھ ہے محترم، اپنی طرح کا بے حس تو آپ اسے بنا ہی چکے ہیں، لیکن اسے اپنی گندی چالوں، سیاست اور لالچ سے دور رکھیں یہی آپکے لیے بہتر ہوگا۔

یہ خشونت بھری سخت آواز کسی اور کی نہیں، گھر کے چھوٹے بیٹے طلال انصاری کی تھی، چہرے پر سنگین قسم کی خفگی لیے وہ ہر لفظ پر زور دیتے نک سک شلوار سوٹ پر کوٹ پہنے، پیروں میں سیاہ دفتری شوز چڑھائے، نکھرے مگر برہم سے کہیں روانگی کے لیے تیار قریب آکر رکتے بولے تو جہاں فیروز صاحب کے چہرے پر مخظوظ ہوتی مسکراہٹ تھی وہیں کنول اپنے شوہر کے غیض و غضب سے کچھ بیزار لگی، صبح صبح اس بندے کی منہ ماری کی عادت اسے سلگا دیتی، جبکہ ایزل مریم کی آنکھوں میں خوف رقم تھا۔

Post a Comment

0 Comments