Dastak Mere Dil Py by Angel Urooj Complete Novel

 

Dastak Mere Dil Py by Angel Urooj.

Kidnapping, Revenge based and Innocent Heroin Rude Hero based Cousin Romantic Story.

وہ لوگ ساتھ ہی حویلی میں داخل ہوئے تو تقریباً سب ہی ہال میں جما تھے۔ سوئے اجالا کے جو پیپر دینے گئی ہوئی تھی۔ شاہ ویر کو شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

اسلام و علیکم۔ دونوں نے ہم آواز سلام کیا تو سب کی نظریں حال میں داخل ہوتے شاہ ویر اور حیات پر گئی۔

شرم نہیں آئی تمہیں یہ سب کرتے ہوئے شاہ ویر۔ شاہ ویر کو دیکھتے دادا جان غصے سے گرج اٹھے کے حیات بھی ایک پل کو ڈر گئی۔

دادا جان۔۔ وہ کہتا آگے بڑها جب باقی کے الفاظ صوفے پر بیٹھی آنسوں بہاتی وانیہ کو دیکھتے منہ میں ہی رہ گئے۔ جو اپنی ماں کے سینے سے لگی سسکیاں بھر رہی تھی۔

بولو اب کیا بولو گے اپنی صفائی میں۔۔ بلکے تم بتاؤ بہو کیا یہ کل رات حویلی سے باہر گیا تھا۔ وہ شاہ ویر کو شعلہ بار نظروں سے دیکھتے حیات سے سوال کرنے لگے جو خود بھی گھبرائی ہوئی کھڑی سچویشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

دادا جان شاہ ویر نے۔۔ میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔ حیات کی بات کاٹتے دادا جان نے سختی سے اپنی بات پر زور دیا۔

جی لیکن۔۔ بس۔۔ ہمیں اتنا ہی سنا تھا۔۔ دادا جان نے حیات کو آگے بولنے سے باز کیا۔

شاہ ویر تمہاری گاڑی کہاں ہے۔ کاشان صاحب بھی اپنے بیٹے کے مقابل آئے۔ انہوں پتہ چل گیا تھا کے شاہ ویر نے دوسری گاڑی منگوائی ہے۔

وہ خراب ہو گئی تھی۔ اسنے خود پر ضبط کرتے کہا۔

خراب ہو گئی تھی یا تم نے نشے کی حالت میں اسے ٹھوک دیا۔ دادا جان کی طنز سے بھری آواز سنتے اسنے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔

یہ آپ لوگ کیا بول رہے ہیں۔ اسنے سب کو دیکھا۔ جو دکھ اور غصے سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اسے افسوس ہوا کے پوری بات جانے بغیر سب لوگ اسے غلط سمجھ رہے ہیں۔

تجھے شرم نہیں آئی۔ اپنے ہی گھر کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہوئے۔ دادی جان دکھ سے کہتی اٹھ کے اسکے سامنے آئیں۔

دادی جان آپ ایسا کیسے بول سکتی ہیں۔ آپ کو کیا اپنے پوتے پر یقین نہیں ہے۔ آپ کو لگتا ہے کے آپ کا پوتا ایسی کوئی حرکت کر سکتا ہے۔اسنے دادی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے۔ جو انہوں نے آرام سے اسکے ہاتھ سے نکال لیئے۔

وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتا رہ گیا۔ مطلب اب اس پر جان دینے والی دادی کو بھی اس پر یقین نہیں تھا۔

تو تم کہنا چارہے ہو کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ میں اپنی عزت خود خراب کرؤ گی۔ وانیہ چیختے ہوئے اسکے سامنے آئی اور سب سے نظریں بچاتی آنکھ ماری۔ وہ اسکا چہرہ دیکھتا رہ گیا جہاں جگہ جگہ خراشوں کے نشان تھے باقی وہ پوری چادر میں چھپی ہوئی تھی۔

ہاں تم جھوٹ بول رہی ہو۔ تم نے خود مجھے وہاں بلایا تھا۔ تم نے خود مجھے جوس میں نشے کی گولی ملا کے دی تھی۔سب تمہارا پلین تھا لیکن میں نے تمہارے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ وہ بھی اپنا ضبط کھوتا غصے سے دھاڑا۔

ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے تمہیں بلایا تھا کیونکہ میں مشکل میں تھی اور اس وقت مجھے جو سمجھ آیا میں نے ہو کیا لیکن باقی باتیں جو تم بتا رہے ہو ایسا میں نے کچھ نہیں کیا۔ تم نشہ کر کے ہی آئے تھے اور موقع کا فائدہ اٹھاتے تم نے میرے ساتھ۔ وہ کہتی سسک اٹھی۔ جب کے شاہ ویر تو اسکی ارادہ کاری دیکھتا ہے رہ گیا۔

شاہ ویر میں تمہیں بہت سمجھدار سمجھتی تھی تم نے ہی میری بیٹی کو کہیں منہ دھیکانے کے لائک نہیں چھوڑا۔ پھپھو اپنی بیٹی کو کندھوں سے تھامتی نم آواز میں بولیں۔

پھپھو آپ کیا بول رہی ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کے میں نشہ نہیں کرتا پھر بھی آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کر رہے۔ وہ غم و غصے سے بولا۔

بس بہت ہوگیا شاہ ویر تم نے ہی اس کی زندگی برباد کی ہے اور اب تم ہی اسکی زندگی آباد کرو گے!!!! تم ابھی اور اسی وقت میری بیٹی سے نکاح کرو گے۔ پھوپھا جو کافی دیر سے سب برداشت کر رہے تھے۔ اب مزید اپنی بیٹی کی حالت نا دیکھ سکے۔ اور غصے سے اٹھتے شاہ ویر کا گریبان پکڑتے غرائے۔

پھوپھا جان چھوڑیں۔ حیات نے آگے بڑھتے انہیں شاہ ویر سے دور کیا۔ فرہاد تم فکر نہیں کرو ۔۔۔ آج ہی تمہاری بیٹی کا نکاح ہوگا شاہ ویر کے ساتھ۔ دادا جان شاہ ویر کو دیکھتے تحکمانہ بولے۔ تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

مگر دادا جان میں نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں ہے تو کیوں میں نکاح کروں۔ جب کے میں تو اس کے مجھے نشے کی دوائی دیتے ہی وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ بے بسی سے اپنا یقین دلا رہا تھا۔

ہمیں کچھ نہیں سننا۔ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ دادا جان نے کرخت آواز میں کہا۔ اس وقت حال میں موجود بچوں بڑوں سب کی آنکھیں نم تھیں۔

دادا جان یہ آپ کیا بول رہے ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے آپ شاہ ویر کو اتنی بڑی سزا کیسے دے سکتے ہیں۔ حیات نے حیرت سے گنگ ہوتے دادا جان کو دیکھا۔

حیات کیا تمہیں میری حالت دیکھ کے بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں سکتیں میرے چہرے کے نشان۔ اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو چلو میرے ساتھ کمرے میں۔ میں تمہیں پوری رات کی اذیت کے نشان دیکھاؤ۔ وانیہ حیات کے مقابل آئی ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے آنسو صاف کرتی بولی۔

شاہ ویر نے حیات کو دیکھا۔ جیسے کہہ رہا ہو یہ جھوٹ بول رہی ہے۔

بس۔۔ تم سب جاؤ اور نکاح کی تیاری کرو تھوڑی دیر میں نکاح ہوگا۔ دادا جان کہتے ضبط سے مٹھیاں بھیجتے مڑ کے اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھا گئے۔ مطلب صاف تھا کہ وہ اب کچھ بولنا یا سننا نہیں چاہتے۔

Post a Comment

1 Comments

Thanks for feedback