Matlab Parast by Warda Jaffri Complete Novel

Matlab Parast by Warda Jaffri Novel


Matlab Parast by Warda Jaffri Novel

Age difference, Revenge based and Caring Hero based
Suspenseful New Urdu Novel by Warda Jaffri.

یہ طوفان کہاں سے آگیا؟ شور و غل سنتے ساتھ ہی زبیر جو کرسی سے ٹیک لگائے دو پل کو آنکھیں موند کر آرام کرنے کا ارادہ زیرِ غور رکھتا تھا یکدم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

اف یہ سرپِھری پھر سے آٹپکی ہے ادھر۔۔ اس مرتبہ کسی دوسرے پولیس افسر کی آواز کانوں سے ٹکرائی تو اسے ماجرا سنگین لگا تھا۔

کہاں ہے تمہارا رشوت خور ایس پی؟ اب کی بار ایک صنف نازک تمام تر جلال لئے دھڑلے سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔

تمیز سے میڈم۔۔ اپنی اس قدر توہین پر ایس پی زبیر حسن نے تیور چڑھاتے ہوئے اسے خبردار کیا تھا۔

رشوت خوروں سے میں اتنی ہی تمیز سے بات کرتی ہوں۔۔ اس کا برپا کردہ طوفانِ بدتمیزی تھمنے کا روادار نہ تھا۔

ہیلو مسٹر۔۔ اسے کرسی سے اٹھتا دیکھ کر رومانا حمید کا پارا مزید چڑھا تھا جو وردی میں ملبوس خود کو کوئی اعلیٰ مخلوق سمجھے بیٹھا تھا۔

زبیرـ۔۔ ایس پی زبیر حسن۔ اس نے بافخر انداز میں اپنا مقام جتایا تھا۔

وٹ ایوّر۔۔۔آئندہ اگر تم یا تمہارے تھانے سے کوئی بھی میری دوست کو دھمکانے اس کے گھر گیا تو میڈیا کو ساتھ لے کر آوں گی ادھر۔۔ اسے انگلی اٹھا کر دھمکاتے ہوئے وہ بپھری ہوئی شیرنی لگی تھی۔

آپ کی تعریف؟ اب کی بار زبیر کو اس کی عمر اور قد سے بڑی دھمکیوں پر ہنسی بھی آئی تھی۔

تم سے برداشت نہیں ہوگی پھر بھی تجسس ٹِک کر بیٹھنے نہیں دے رہا تو کسی سے بھی پوچھ لینا۔ اسے دوبدو جواب دیتی وہ اسی رفتار سے واپس نکلی تھی جس برق رفتاری سے وہاں اس کی آمد ہوئی تھی۔

یہ کیا تیز آندھی تھی؟ زبیر نے ماتھا رگڑ کر پاس کھڑے عملے سے دریافت کیا تھا۔

سوشل ورکر رومانا حمید ہے یہ بلا۔۔ ایک سب انسپیکٹر نے منہ چڑھا کر بتایا تھا۔

لیکن اس کو مجھ سے کیا تکلیف ہے؟ وہ ابھی تک اپنا جرم جانچنے سے قاصر تھا۔

آپ سے پہلے والے صاحب نے اس کی دوست کو کیس واپس لینے پے مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ تو کل چلے گئے اور یہ آج آپ کو سنا گئی۔ اس نے پوری روداد ایس پی زبیر حسن کے نذر کی تھی۔

آئی سی۔۔ اسے اب اصل معاملہ سجھ آیا تو موصوفہ کا غصہ بےسبب نہ لگا تھا۔ صبح صبح ہی اس قدر عزت افزائی کے بعد پورا دن سر درد کی اذیت کاٹتا گزرا تھا۔ تبادلے کے بعد نئے شہر میں آج اس کا پہلا دن تھا جو کہ توقع سے زیادہ شاندار گزرا تھا۔ ابھی تھکان اتری بھی نہ تھی کہ بلاوجہ اسے پہلے ہی روز وہ طوفانی مخلوق جھاڑ پلا کر چلتی بنی تھی۔
*****

میں پوچھتا ہوں تمہیں ضرورت کیا تھی تھانے جا کر شور شرابہ کرنے کی؟ شاہ حویلی کے مرکزی ہال میں وہ دادی کے ہمراہ بیٹھی تھی جب جلدبازی میں دفتر سے گھر آنے کے بعد اسفند اسے بےنقد سنا رہا تھا۔

اسفند بھائی اس کرپٹ ایس پی نے میری معصوم دوست کو ہراساں کیا ہے۔ اس نے سہمتے ہوئے جواب دیا تھا۔

اللہ کی بندی اس کا کل شام تبادلہ ہوگیا ہے اور تم اس کے حصے کی جھاڑ کسی اور کو پلا آئی ہو۔۔۔ آئی سمجھ؟ اسفند شاہ نے کل ہی سفارش پر پرانے ایس پی کا تبادلہ کروایا تھا جس کی موجودگی بہن کے لئے دن با دن خطرہ بنتی جا رہی تھی اور محترمہ آج نئے افسر سے بھی خاصی منہ ماری کر آئی تھیں۔

واٹ؟ اسے دھچکا لگا تھا۔

یس۔۔ اسفند جو طیش میں یہاں سے وہاں چل رہا تھا اس نے رک کر طنزیہ نگاہوں سے بہن کو شرمندہ کیا تھا۔

عینی اپنے غصے پر قابو کرنا سیکھو بچے۔۔ دادی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے سمجھایا تھا۔

میں جب بھی کوئی گھریلو تشدد کا کیس دیکھتی ہوں تو خود پر سے اختیار کھو دیتی ہوں بھائی۔۔ یوں لگتا ہے کہ ایک اور معصوم کسی سنگدل کے تشدد سے برباد ہوجائے گی۔۔ سوری بھائی سوری دادو۔۔ اسفند سے اپنی جذباتی کیفیت بیان کرتے ہوئے وہ پشیمانی سے سر جھکا گئی تھی۔

اٹس اوکے۔۔ اس کی بات سے لاجواب ہوتا وہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد کمرے کا رخ کر گیا تھا۔ جو ذکر عینی نے چھیڑا تھا وہ درحقیقت اس کے سارے زخم کرید گیا تھا۔ 

Post a Comment

1 Comments

Thanks for feedback