Atibar Zarori Tha Na by Najmun Nisa Novel

 

Atibar Zarori Tha Na by Najmun Nisa Novel.

Strong Heroine and Cousin Based New Urdu Novels.

روح کو جما دینے والی سردی تھی اور ہوتی بھی کیوں نہ یکم جنوری جو تھی جس نے پارہ کو مزید منفی کر رکھا تھا اور ہر طرف برف ہی برف تھی مشکل سے لوگ سفر کر رہے تھے۔ لیکن زندگی کبھی رکی نہیں ہے کیونکہ جب اک ماں اپنے جوان بیٹے کو کھو کر بھی ژندہ رہ سکتی ہے اور جی سکتی ہے تو مطلب یہی ہے نا کہ ہر وقت زندگی چلتی رہتی ہے اور اب بھی حالات کچھ ایسے ہی تھے۔

بیٹا چاندنی وکیل صاحب آ گئے۔ شبانہ نے دروازہ کھول کر اسے انفارم کیا تھا۔

جی ماسی میں آتی ہوں۔ وہ جو اپنے کمرے میں ہیٹر کے پاس بیٹھی تھی بے دلی سے اٹھ کر باہر آ گئی۔

مس چاندنی چوہدری آپ کے پاپا نے یہ وصیت بنائی ہے۔ جی آپ بتائیں میں سن رہی ہوں۔ وہ اب بھی کسی احساس کے بغیر ہی بیٹھی تھی۔

آپ کے پاپا نے یہ سارے بزنس کا مالک آپ کے چاچا علی چوہدری کو بنایا ہے۔ وکیل وصیت پڑھ رہا تھا کہ اچانک چاندنی نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

کون علی چاچا؟ اس کے دماغ میں ایسا کوئی رشتہ یاد نہیں آ رہا تھا۔

چاندنی بیٹا تمھارے پاپا قدیر چوہدری میرے بہت اچھے دوست تھے کم از کم اکیس سال سے، مطلب جب سے وہ یہاں مری زبیدہ بھابھی کے ساتھ رہتے تھے اور وہ یہاں اس لیے رہتے تھے کیونکہ تمھاری دادی منیرہ چوہدری کو تمھاری ماں پسند نہیں تھی۔ اس لیے قدیر نے کراچی کو چھوڑ دیا اور یہاں تمھاری ماں کے گاؤں مری چلے آئے۔ وہ اب ہال میں سامنے لگی تصویر دیکھ رہے تھے جس میں قدیر اور زبیدہ مسکرا رہے تھے۔

تم پانچ سال کی تھی جب بھابھی کی موت ہو گئی اور اس وقت بھی قدیر بھائی واپس کراچی نہیں گئے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا ماں ان کی دوسری شادی کروا دیتی اور تم ماں باپ دونوں سے دور ہو جاتی۔ وہ اسے حقیقت سے آگاہ کر رہے تھے۔

اور اب ان کو پتہ تھا وہ نہیں بچ سکتے اس لیے انہوں نے یہ وصیت بنائی ہے تاکہ تم اکیلی نہ رہو۔ انہوں نے دوبارہ کاغذ اٹھا لیے۔

تو اس میں اور یہ ہے کہ تمھارا نکاح علی چوہدری کے بیٹے وقار چوہدری سے کیا جائے۔ اس جملے نے چاندنی پہ پہاڑ گرایا گیا تھا۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، اور۔۔ اور میں تو جانتی بھی نہیں کسی کو۔ اس پہ نئی مصیبت آ چکی تھی۔

بیٹا تم بیس سال کی ہو بالغ ہو خود مختار ہو پر بیٹا یہ تمھارے پاپا کی آخر خواہش ہے بیٹا۔ انہوں نے چاندنی کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا مشورہ دیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments