Dheery Dheery Meri Zindagi Main Ana by Ayesha Noor Novel

 

Dheery Dheery Meri Zindagi Main Ana by Ayesha Noor Complete Novel.

Cousin based Joint Family Forced Marriage Romantic Novel For Eid Special.

زاویار امپائر کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا اور اپنی مرضی کے فیصلہ دے رہا تھا۔ چاچو یار کہاں دھیان ہے آپکا اسکا گول نہیں ہوا۔ شجاع بولا تھا۔

بس کردو چلو کھانا کھائیں۔ نہیں ہم نے کھیلنا ہے۔ ملیحہ جو سب میں چھوٹی تھی بولی۔ مرچی صبح سکول بھی جانا ہے۔ زاویار نے اسکے کان کھینچنے۔

زاویار چلتا ہوا عبیرہ کے پاس جا بیٹھا۔ ہیلو میڈم تم کیا یہاں پتھر بنی بیٹھی ہو۔ زاویار اسکے پاس بیٹھا تو گھبرا کر بولی۔

حج۔۔ جی۔۔

کیا ڈر کیوں رہی ہو۔ زاویار اسے دیکھتا بولا۔ نن۔۔نہیں۔۔ تو ڈری نہیں بس چونک گئی۔

یار چاچو آپ جیسے جلاد کو دیکھ کر کوئی بھی لڑکی ڈر جائے وہ تو پھر بچاری معصوم سی ہے۔ عطا انکے پاس آتا شرارتی لہجہ میں بولا۔

زاویار لمبا چوڑا کسرتی جسامت کا مالک تھا۔ ہلکی بڑھی ہوئی بئیرڈ تیکھے نین نقش، ماتھے پہ بکھرے سیاہ بال وہ بہت پرکشش شخصیت کا مالک تھا۔

اچھا اور تو چلغوزے کے چھلکے خود کیا ہے۔

چاچو بھوک لگی ہے ملیحہ نے آواز دی چلو پھر سامنے ہوٹل پہ سب۔ زاویار نے پتھر سے چھلانگ مار کر اتر گیا اور سب ہی ہوٹل کی جانب بڑھنے لگے۔ مگر عبیرہ ابھی بھی اس بڑے سے پتھر پہ بیٹھی تھی جیسے تیسے کر کے وہ چڑھ گئی تھی مگر اب اترنا محال تھا اسکے لئے، ڈر رہی تھی ایک طرف پانی ہے تو دوسری طرف پتھر، وہ کیا کرے، ڈر کے مارے اس سے بولا بھی نا گیا کہ اترنا ہے۔ 

سب آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہر طرف تاریکی چھا رہی تھی ہمت کرتی چھلانگ لگائی کہ پانی میں جا گرتی اگر زاویار بروقت اسکا ہاتھ نا تھام لیتا۔ زوردار۔۔۔ چیخ مارتے اس نے زور سے آنکھیں بند کرلیں تھی۔ مگر اپنا ہاتھ کسی کی گرفت میں آتے بچ جانے کی امید در آئی، سامنے اپنے بچانے والے محسن کو آنکھ کھول کر دیکھنا چاہا جو شاید وہیں تھا اور اسے پوری قوت سے اونچائی کی جانب کھینچ رہا تھا۔ اس نے بھی ہمت کرتے اوپر آنے کی کوشش کی اور زاویار اسے کھینچنے میں کامیاب ہوا تھا۔

عبیرہ زمین پہ آتے ہی زاویار کے سینے سے لگی تھی۔ ہلکا ہلکا سا کانپ رہی تھی۔ عبیرہ تم ٹھیک ہو اسے خود سے نرمی سے الگ کرتے نرمی سے اسکے چہرے کو دیکھتے پوچھا۔

حج۔۔ جی۔۔ تھینکس آپ نے بچا لیا اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو۔۔ انتہائی معصومانہ انداز تھا۔ یلو لانگ فراک پہنے، ہم رنگ شفون کا دوپٹہ لئے، بالوں کو کھلا چھوڑے موٹی جھیل سی آنکھیں باریک ستواں ناک گلابی ہونٹ، چہرے پہ بے انتہا معصومیت سجائے ہوئے

Post a Comment

0 Comments