Dhanak by Rabia Khan Complete Pdf Novel


Complete Urdu Novel in Pdf Dhanak by Rabia Khan Based on Forced Marriage and Rude Hero Based Urdu Novel Downloadable in Free Pdf Format and Online Urdu Novel Reading in Mobile Free Pdf Complete Posted on Novel Bank.

جو رات کو آپ نے میرے ساتھ کیا ارسل، وہ کسی بھی طرح قابلِ فراموش نہیں ہے۔ یہ مت سمجھئے گا کہ میں وہ سب بھول گئی ہوں۔ میں کچھ بھی نہیں بھولی ہوں۔ اور جو رات آپکا رویہ تھا، اسکی وضاحت آپ پر ادھار رہی۔ ابھی پوچھ کر میں آپکے چہرے کا یہ رنگ نہیں اُڑانا چاہتی۔ اسی لئے آپ مجھے اپنے اس عمل کی کیا وضاحت دینگے، یہ آپ نے طے کرنا ہے۔۔

اسکی دھیمی سی آواز بہت سرد تھی۔ ایسے جیسے رنگ برنگی سی کہانی میں کوئی بے حد چھبتا تھا پہلو ہو۔ لیکن اب کہ ارسل نے بھی لمحے بھر کو اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ 

وضاحت چاہیے آپکو۔۔؟ کیا برداشت کرپائنگی میری وضاحت کو آپ..؟

اسکی ٹھنڈی سی سرگوشی پر رُخ لمحے بھر کو لاجواب ہوئی تھی۔ 

مجھے آپ پسند نہیں ہیں لالہ رُخ۔ کسی اور کو پسند کرتا ہوں میں۔ زندگی گزارنے کے خواب تک اسکے ساتھ سجاۓ تھے میں نے۔ اب جسم آپکے ساتھ اور روح سے وابستہ رشتہ کسی اور کے ساتھ رکھ کر میں آپکو اور خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں آپکو اور خود کو کسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچا رہا ہوں۔ کیا آپ اس شرمندگی سے بچنا نہیں چاہتیں۔۔؟ اگر نہیں بچنا چاہتیں تو مجھے آگاہ کردیجیے گا۔ آپکے سارے شکوے دور کردونگا میں۔۔

اسکی بات کا مطلب سمجھ کر رُخ کی نگاہیں پتھرا گئی تھیں۔ ایک ہی لمحے میں اس نے اسے لفظوں سے کھوکھلا کردیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی اس قدر واضح بات پر ناسمجھی کا تاثر نہیں دے سکتی تھی۔ اسے زندگی میں پہلی بار، بات کرتے ہوۓ دشواری ہوئی تھی۔ 

کس قدر گھٹیا ہیں آپ ارسل۔۔

بے بسی سے یہی نکلا تھا اس کے منہ سے۔ ارسل مسکرایا۔ پھر اسکے سامنے ہلکا سا جھکا۔ بھوری آنکھیں اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ جگمگا رہی تھیں۔ 

یہ گھٹیا پن نہیں ہے لالہ رُخ۔ یہ میرے عمل کی وضاحت ہے۔ جسے سننے کی آپکی دیرینہ خواہش میں پوری کرچکا ہوں۔ اب آپکا کوئی اور سوال ہے یا میں جاؤں۔۔؟

سفید کرتا شلوار میں اس اونچے سے بندے نے بڑے ٹھنڈے انداز میں استفسار کیا تھا۔ وہ اس کے اس قدر اعصابی تغیرات پر دنگ رہ گئی تھی۔ بابا نے بجا فرمایا تھا۔ دنیا فرقان لالہ اور اسفند لالہ کے گرد نہیں گھومتی تھی۔ 

نفرت کرتا ہوں میں آپ سے۔۔

اور اسکی اس آخری سرگوشی نے تو رُخ کا دل ہی توڑ دیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments