Mujh Mast Ko Bha Gai Wo Sanwali by S Merwa Mirza Complete Novel


 Online Urdu Novel Mujh Must Ko Bha Gai Wo Sanwali by S Merwa Mirza Vani Based, Rape Based and Village Based Romantic Urdu Novel Downloadable in Free Pdf Format and Online Reading Urdu Novel Complete Posted on Novel Bank.

اک سانولی اور اک مست شہزادے، بادشاہ وقت کی کہانی۔ ونی اور ریپ کے غیر انسانی اور جانور رویوں جیسے ناسوروں کو ختم کرنے کئ تگ و دو کرتا سادان حق، جس نے اپنی ہمت اور حوصلے سے اپنے گاوں کی تقدیر بدل دی۔ اک ایسے طبیب کی کہانی جو شفا ہی شفا تھی۔ اک ایسا سائبان جس نے خود سے جڑے ہر فرد کو سایہ دیا۔


جانتی ہو فلذہ محبت طویل قربت کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ الہام کی طرح خاموشی سے ہمارے دلوں میں اتُر جانے کا فن جانتی ہے، مجھے تم سے ایسی ہی پاک اور حقدار محبت ہوئی ہے۔ میری یہ محبت کسی پاک حصار کی طرح تمہارے گرد ہے تو تمہیں زمانے کا کوئی شر کیسے چھو سکتا ہے۔ رہی بات میری، میں اپنی حفاظت اللہ کے سپرد کر چکا ہوں اور یہ زندگی اسکی امانت ہے لہذا مجھے مرنے کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہر کوئی مر جائے گا، اس لیے میری معصوم ، پاکیزہ سی سانولی سلونی شہزادی، ڈرو مت ۔ بس اپنے سائیں کو خود سے دوری کا غم مت دو۔

مجھے تمہاری ضرورت ہے فلذہ، آج یوں لگتا ہے مجھے نیند آرہئ ہے۔ صرف تمہارے میرے ہونے کے باعث ورنہ کئی دن سے میں سو نہیں پاتا" ایک ایک لفظ گویا فلذہ کے دل کو تھپکی دے کر ہر خوف سے آزاد کر گیا اور وہ اب فلذہ کی گود میں ہی سونے کی خواہش کر رہا تھا جس پر فلذہ نے نثار ہوتی نگاہوں کے سنگ سادان کے ماتھے پر اپنے نازک اور نرم ہونٹوں کی عنایت دھری اور یہ تاثیر سادان کی شاید مزید زندگی بڑھا گئئ تھی۔

مجھے ایسئ عنایات چاہیں جو میرا درد کم کریں، اپنے ہونٹوں کو میری پیشانی سے جدا مت کرو یہ مجھے سکون دے رہا ہے" پہلی بار تو اسکے سائیں نے اس سے کچھ مانگا تھا اور وہ بالکل بھی منع نہ کر پائی اور پھر سے اپنے ہونٹوں کی چھاپ تادیر سادان کے ماتھے پر لگائے اسکے چہرے کے ہر نقش کو دیکھ کر مسکرا دی۔

پھر سے جان" اب تو وہ باقاعدہ ہنسی تھی پر وہ واقعی اس وقت کوئی چھوٹا سا لاڈلہ بچہ بنے اپنے ناز اٹھوا رہا تھا، اب تو وہ ہر حق رکھتا تھا۔

میں آپکے ماتھے پر ہی نا بستر لگا لوں" یک دم ہی وہ پھر سے سادان کے کہنے پر بوسہ دیے ساتھ شرارت سے مشورہ دیے بولئ اور وہ بھی اپنی آنکھیں کھولے فلذہ کے ڈر کا زائل ہونا محسوس کیے پرسکون ہو چکا تھا۔

تمہارے لیے پورے کا پورا سادان حاضر ہے، صرف ماتھا ہی کیوں۔ جہاں دل چاپے بسیرا کرو" وہ ہلکی سی نیند کی خماری میں مبتلا فلذہ کا ہاتھ پکڑے اسکئ ہتھیلی چومتا نگاہیں چار کیے بولا تو وہ اس گدگدی دیتے لمس پر کھکھلا اٹھی ، نگاہ فلذہ کی کلائی پر بنے اس ہلکے سے جلے کے نشان پر گیا تو اب کی بار سادان اسکی بازو پر ہونٹ رکھے ساتھ فلذہ کے چار سو پھیلے بالوں کو ہاتھوں میں لیے ہنوز اسے دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر رہا تھا۔

آپ میرے ہی رہیں گے ناں سائیں، کچھ ہوگا تو نہیں" فلذہ اس شخص سے خواب میں بھی جدائی برداشت نہیں کر سکتی تھی اور وہ اسکے اس سوال پر سادان نے رخ بدل کر اپنا چہرہ فلذہ کی گود میں چھپا لیا اور وہ ابھی بھی فلذہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔

میں تمہارا ہی رہوں گا فلذہ، معلوم نہیں ابھی تمہارے سائیں نے کیا کیا سہنا ہے۔پر میری ہر تکلیف، ہردرد تمہارے قریب آتے ہی اپنی شدت کھونے لگی ہے، بس اس طبیب کی بھی طبیب ہو تم" وہ اس کی سمت پھر سے وارفتگی سے دیکھ کر بولا اور وہ اس طبیب والی بات پر خود بھی ہر پریشانی سے نکل آئی تھی۔

سو جائیں آپ، تھک گئے ہیں" وہ بار بار نیند کے باعث اپنی آنکھیں موندھ رہا تھا مگر پھر بھی وہ یہ لمحے گنوانا بھی نہیں چاہتا تھا۔

تمہارے بنا نہیں جی سکتا، دور مت جانا فلذہ وہ اب واقعئ ایک پرسکون نیند میں جاگزیں ہو رہا تھا اور فلذہ اس اہمیت پر چاہتی تھی کہ سادان کے ہر نقش کو فتح کر لے پر وہ بس ایسا سوچ ہی سکتی تھی۔ وہ اسے دیکھتا دیکھتا کب نیند میں چلا گیا اسے خبر نہ ہوئی اور فلذہ بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے سادان کا چہرہ اور بال سہلاتی ہوئی بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا گئی۔ سادان اس پرسکون نیند کا واقعی مستحق تھا اور فلذہ بس ساری رات اپنے سائیں کو یونہی محبت سے دیکھتے رہنا چاہتی تھی۔

Post a Comment

0 Comments