Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 17


Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Episode 17 Posted on Novel Bank.

دو دن سے وہ اس کمرے میں گوشہِ نشین تھا۔ علشبہ لاکھ جھٹپٹائی، کافی ڈرامے بھی رچائے مگر اسے متعلق پرواہ ہی نہیں تھی جیسے۔ راحم نے اس کی جانب مڑ کر دیکھا بھی نہیں۔ 

دن میں اس کا علشبہ کے ساتھ نارمل رویہ رہتا۔ وہ اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا۔ بریک فاسٹ بھی اسی کے ساتھ کرتا۔ اور آفس سے واپس آ کر ڈنر بھی اسی کے ساتھ۔ 

مگر رات ہوتے ہی وہ خود کو منیہا والے کمرے میں بند کر لیتا۔ اور عشوو تلملا کر رہ جاتی۔ اب بھی راحم آفس سے تھکا ہارا واپس آیا تھا۔ فریش ہو کر باہر آیا۔ سامنے ہی وہ ٹیبل پر آرڈر کیا گیا کھانا لگا رہی تھی۔ 

علشبہ نے بغور اسے دیکھا۔ بلیک ٹراؤزر اور وائٹ ٹی شرٹ میں کمبخت بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا۔ مگر وہ ابھی تک تشنہ تھی۔ صحرا میں بھٹکتے اس مسافر کی مانند جس کے بلکل سامنے پانی کا میٹھا چشمہ ہو وہ اسے دیکھے مگر وہ اس میں سے ایک بوند پانی تک نا ہی سکے۔ اس کی سوچوں کے تسلسل کو راحم کی بھاری سنجیدہ آواز نے توڑا۔ 

علشبہ جب تمھیں معلوم ہے کہ مجھے باہر کا کھانا نہیں پسند،، تو آرڈر کیوں کروایا،، گھر میں کیوں نہیں بنایا کچھ،، 
آج کل وہ بات بات پر جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔ 

کل اتنی محنت سے بنایا تھا،، کیا ہوا؟ آپ کو وہ بھی روکھا پھیکا لگا،،،، اس میں بھی آپ نے منٹ میں کیڑے نکال دئیے اسی لئے آرڈر کیا،،، 
وہ سکون سے بولی۔ 
جانے کیا گھول گھول کر پلاتی رہی ہے کہ کچھ اچھا ہی نہیں لگتا صاحب بہادر کو،،،
وہ بڑبڑائی۔

مگر راحم کی تیز سماعتوں نے یہ بات اچھی طرح آبزرو کی۔ اسی لیے اسے گھور کر رہ گیا۔ وہ گڑبڑائی۔ اور جلدی جلدی کھانا سرو کرنے لگی۔ چپ چاپ کھانا کھایا گیا۔ 

پھر عشوو نے اسے بھانپ اڑاتی کافی کا مگ تھمایا جسے لئے وہ باہر لان میں چلا گیا۔ عشوو بھی اپنا مگ اٹھا کر اس کے پیچھے ہی چلی گئی۔ 

عشوو پہلے کچن تو سمیٹ لیتیں ،،، کتنا برا لگتا ہے کچن کا پھیلاوا،،،،،
راحم نے ناگواری سے کہا۔ کہ اس کی نفاست پسند طبیعت کو کہاں گوارا تھا گند پھیلانا اور بکھرا ہوا کچن۔ 

کر دوں گی رااحم،، اچھا سنیں ناں،، لونگ ڈرائیو پہ چلیں،،،؟؟؟ عشوو نے لاڈ سے کہا۔ 

میں تھکا ہوا ہوں عشوو،، پلیزز،، 
راحم نے دامن بچایا۔ 

اچھا اندر روم میں جا کر کوئی رومینٹک سی مووی دیکھتے ہیں،، کیا خیال ہے،،؟
اس نے ایکسائٹڈ سا ہو کر ایک اور پیشکش کی۔ 

بلکل نہیں،، میں جتنا تھک چکا ہوں تو اب سوؤں گا،، ویسے بھی صبح آفس کے کام سے مجھے شاید لاہور جانا پڑ جائے،،، 
راحم نے اس کی اطلاع میں اضافہ کیا۔ جبکہ لاہور کا نام سن کر علشبہ بری طرح بدمزہ ہوئی تھی۔ 

لیکن راحم صبح تو سنڈے ہے ناں،، 
وہ بھی کہاں کم تھی اس کا گڑھا ہوا بہانا اس کے منہ پر مارنے کی کوشش کی۔ 

اور کوئی ضروری کام نہیں ہو سکتا علشبہ مجھے،، وہ تیز لہجے میں بولا تھا۔ 

راحم ہم ہنی مون پر کب جائیں گے،، وہ جھنجھلا کر بولی۔ راحم نے حیرت سے اسے دیکھا۔ 

نئی نئی جاب ہے میری عشوو ابھی اتنی چھٹیاں افورڈ نہیں کر سکتا نا ان چونچلوں کے لیے وقت ہے میرے پاس،،،
وہ اکتا کر بولا تھا اور اسے ہری جھنڈی دکھائی۔ کافی پی چکا تو اندر کی جانب قدم بڑھائے وہ بھی اس کی تقلید میں اندر آئی۔

آج پھر اسے اس منحوس کمرے کی جانب جاتے دیکھ علشبہ بھنا کر اس کے سامنے آئی تھی۔ راحم نے آئیبرو اچکا کر اسے دیکھا۔ جیسے پوچھنا چاہتا ہو کیا تکلیف ہے۔ 

راحم مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ،،؟ کیوں کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ ایسا،،، آپ جانتے ہیں آپ روز انسلٹ کرتے ہیں میری،، مجھے اگنور کر کے،، میری ذات کی نفی کر کے،، مجھے میرے حق سے محروم رکھ کے،،، کیوں آخر کیوں،،، میں پوچھتی ہوں تکلیف کیا ہے آپ کو،،، 
وہ آج پھٹ پڑی تھی۔ 

یہی تو میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں علشبہ کے تمھیں کیا تکلیف ہے،،، سات ماہ عشوو سات ماہ،، میں اس کی انسلٹ کرتا رہا،، اسے اگنور کیا،،،، اس کی ذات کی نفی بھی کی،، اسے اس کے ہر حق سے محروم رکھا،،، اففف تک نا کی اس نے،،، اس نے تو کبھی پلٹ کر مجھ سے نہیں پوچھا کہ میں اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہا ہوں،، اور حیرت کی بات ہے عشوو کے جب میں نے تمھارے سامنے یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی شرط رکھی تب بھی تمھیں یہ حقوق وفرائض یاد نہیں آئے،،،،  ناں ہی تم نے مجھے یاد کروائے تو اب کیوں تمھیں یہ حقوق وفرائض یاد آ رہے ہیں عشوو،،

راحم کا سرد لہجہ لاونج میں گونجا تھا۔ 

نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔


Online Reading 



Post a Comment

0 Comments