Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Last Episode 25


Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Last Episode 25 Posted on Novel Bank.

راحم آفس میں تھا۔ اور اپنی میٹنگ سے ابھی فارغ ہوا تھا۔ سرشاری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی تھی۔ محبت کو پا لینے کا احساس کافی اچھوتا تھا۔ 
تبھی اس دشمن جاں کا خیال آیا تو فون نکال کر نمبر ڈائل کیا۔ مگر یہ کیا۔ فون تو سوئچ آف تھا۔ لینڈ لائن پر کال کی تو وہ بھی آف۔ 
یہ ہو کیا رہا ہے یہاں،، وہ پریشان ہوا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ساتھ دونوں فون سوئچ آف ہوں۔ کچھ تو گڑ بڑ ہے۔۔ 

راحم مجھے امان صاحب کا ویٹنگ کارڈ چاہیے شاید آپ کے پاس ہے،، 
مینجر اس کے کیبن تک آیا تھا۔ راحم نے اپنا والٹ نکالا اور ان کو وزٹنگ کارڈ دیا۔ 
شکریہ ،، وہ بول کر چلے گئے۔ مگر راحم کے زہن میں جھماکا سا ہوا۔ کچھ غیر معمولی احساس ہوا۔ جیسے وہ کچھ مس کر رہا ہے۔ 

دوبارا فورا سے پاکٹ ٹٹول کر دیکھی۔ حیرت انگیز  اس کے پاس جو چابیاں موجود تھیں اس میں اپارٹمنٹ کے درمیانی دروازے کی چابی غائب تھی۔ 

راحم نے فون اٹھا کر آفس سے بھاگ کر  باہر نکلتے اپارٹمنٹ کے چوکیدار کو کال ملائی جو دوسری بیل پر رسیو کر لی گئی۔ 
جی صاحب خیریت،،، اس نے پوچھا۔ 
ادھر دوسری جانب جا کر دیکھو منیہا بی بی کے اپارٹمنٹ کی جانب،،  سب خیر خیرت ہے ناں،، فون مت رکھنا،، 

راحم کے کہنے پر وہ اس جانب آیا تھا جہاں دھوئیں کے مرغولے گھر سے نکلتے دیکھ چوکیدار کے چہرے کی ہوائیاں اڑیں تھیں۔
صاحب،،ادھر آگ لگی ہوئی ہے،،، چوکیدار کے کہنے کی دیر تھی۔
فائر برگیڈ کو فون کرو،، جلدی،، یہ بول کر راحم نے فورا فون بند کر کے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی بھگائی تھی۔ ساتھ ہی پولیس کو کال بھی ملائی۔ 

بیس منٹ میں اپارٹمنٹ کے باہر جھٹکے سے گاڑی رکی تھی۔ وہ طوفان کی طرح گاڑی سے باہر نکلا اور اندر کی جانب لپکا۔ جہاں چوکیدار حیران پریشان دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ اور ساتھ ہی علشبہ جو اطمینان سے چوکیدار کی کاروائیاں دیکھ رہی تھی راحم کو یہاں دیکھ کر چہرے کی ہوائیاں اڑیں۔ 

اس نے تو فل پروف پلاننگ کی تھی۔ صبح جب راحم آفس گیا اور منیہا سو گئی تب اس نے جا کر وہاں پیٹرول چھڑکا۔ اس کا موبائل سوئچ آف کیا اور لینڈ لائن کی تار نکال دی۔ منیہا کا کمرا باہر سے بھی لاک کر دیا۔ پورے اپارٹمنٹ کو لاک کر کے پیٹرول کو آگ دکھا دی۔ مگر اب راحم کو ہاں پہنچتے دیکھ اس کے سینے پر سانپ لوٹ گئے۔ 

کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو اندر کیوں نہیں گئے اب تک،، 

سر یہ کسی کی سوچیں سمجھیں پلاننگ ہے،، اندر آگ لگا کر یہ دیکھیں باہر سے کتنے بڑے بڑے تالے لگائے ہوئے ہیں میں کب سے سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہوں،،
توڑو انھیں،،، راحم چلایا اور جانے کونسا جنون سوار تھا کہ اینٹ اٹھا کر ایک ہی وار میں تاکہ توڑ دیا۔ اتنی دیر میں وہاں پولیس اور فائر برگیڈ بھی پہنچ چکی تھی۔ 

پولیس نے راحم کی کمپلین پر اپارٹمنٹ چاروں جانب سے گھیر لیا تھا۔ تیزی سے دونوں گھروں کی تلاشی شروع کر دی۔ 
علشبہ کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ تبھی وہاں دم سادھ کر کھڑی تماشہ دیکھنے لگی۔ 
فائر فائٹرز تیزی سے آگ بجھانے لگے۔ راحم کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر فائر فائٹرز سے گیلی چادر لے کر اندر گھس گیا تھا۔ جلا ہوا دروازا پاؤں کی ایک ہی لات سے کھلتا چلا گیا۔ راحم کی جان لبوں پر آئی تھی۔ 

وہ اوندھے منہ فرش پر پڑی تھی۔ اور بازو اچھا خاصا جھلس چکا تھا۔ 
منیہا،،، راحم چلایا اور اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے گود میں بھرا اسے گیلی چادر میں لپیٹا اور گیلی چادر اس کے چہرے پر رکھی۔ جس سے اس کے اندر گئی زیریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ کا اثر زائل ہو سکتا تھا۔ 

وہ اسے بانہوں میں بھرے باہر آیا۔ فائر فائٹرز آگ بجھا چکے تھے۔ 
وہ اسے لیے لاؤنج کے فرش پر بیٹھا۔ 
منیہا،،، آنکھیں کھولو،، منیہا،،، وہ دیوانہ وار اسے پکار رہا تھا۔ 
فائر فائٹرز کے ساتھ آیا ڈاکٹر جو زخمیوں کا فرسٹ ایڈ ٹریٹمنٹ دیتا تھا۔ وہ بھی ساتھ اس نے جلدی سے منیہا کی پلز چیک ہیں جو بہت دھیمی چل رہی تھیں۔ اسے فوراً فرسٹ ایڈ دینے لگا۔ 

سر ،، یہ آگ پیٹرول ڈال کر جان بوجھ کر لگائی گئی ہے،، یہ گیلن ساتھ والے اپارٹمنٹ سے ملا،، پیٹرول ڈال کر گھر کو لاک کرنا،، فون سوئچ آف کرنا ایک سوچیں سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تھا،، فنگر پرنٹس اٹھا لیے ہیں ہم نے فونز اور گیلن سے،،، آپ کو کسی پر شک،،،، 

یہ ،،، لے جائیں اسے یہاں سے انسپیکٹر،،،،
راحم نے علشبہ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ وہ خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 
کیا سچ کہا تھا بزرگوں نے۔ 

تیجا وڑیا نئیں   ( تیسرا شامل نہیں ہوا )
چوگھا سڑیا نئیں۔    ( گھر جلا نہیں)

ان کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہے مسٹر راحم انھیں فورا ہوسپٹلائز کرنا پڑے گا،،
ڈاکٹر نے منیہا کے بازو کہ ںینڈیج کرتے کہا جس کی سانس اکھڑ سی رہی تھی۔ 

جبکہ لیڈی پولیس نے علشبہ کو دبوچ لیا۔ جو منیہا کی حالت دیکھ کر مکروہ قہقہے لگانے تھی۔ 
راحم۔اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور علشبہ کے سامنے آیا۔ 
یہ تم ہو راحم ابرک حیات تم،، اس کے زمے دار تم ہو،میں نے یہ سب تمھاری وجہ سے کیا،، یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا،، 
وہ چلا رہی تھی۔ 

شٹ یو بچ،، میں نے تم سے شادی سے انکار کر دیا تھا،، ہاں میں قصور وار ہوں کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود تمھیں آس لگائے رکھی،، مگر جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں نے تم سے بول دیا کہ میں تم شادی نہیں کروں گا،، مجھے فون مت کیا کرو،، یاد ہے ناں تمھیں میں نے انکار کر دیا تھا،، تم زبردستی میرے اپارٹمنٹ میں چلیں آئیں،، اور سوسائیڈ کی دھمکی دے کر تم نے مجھ سے نکاح کر لیا،،، شاید میرے دل میں تمھارے لیے جگہ بن ہی جاتی،، تم کوشش تو کرتی اپنی اچھائی تو دکھاتیں،،شاید کہیں کوئی گنجائش نکل آتی،، مگر تم نے ہمیشہ ہی گھٹیا ترین سازشیں کیں،،، سچ ہے کہ برائی کے رستے پر چلنے والا کا کبھی نا بھلا ہوا تھا نا ہوگا ، تو بتاؤ کس کی غلطی تھی،، یا کس کا گناہ تھا،،؟ 


Online Reading

Post a Comment

0 Comments