Jind Novel by Zaid Zulfiqar Last Episode 07


ناول جِند 
تحریر زید ذوالفقار 
قسط نمبر 07 ( آخری قسط )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال نے اسکے لئیے فرنٹ کا دروازہ کھولا۔ وہ بیٹھ گئی تو دروازہ بند کیا اور دوسری طرف بڑھا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کو تھا جب اس کی نظر سامنے پڑی۔ دور کھڑی گاڑی میں وہ دو آدمی تھے۔ 
وہ ٹھٹھک گیا تھا۔۔ وہ ناک تک نقاب سے چہرے کو چھپاۓ ہوۓ تھے لیکن وہ انکے انداز سے انہیں پہچان چکا تھا۔ وہ اسکے اپنے بھائی تھے۔ انکے ہاتھوں میں رائفلیں وہ اتنی دور سے بھی دیکھ سکتا تھا۔ وہ انہیں ہی دیکھ رہے تھے اور انکا نشانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کانپ کے رہ گیا تھا۔
فاطمہ کی عادت تھی وہ بیٹھتے ہی شیشہ کھول لیتی تھی۔ اب بھی اس نے یہی کیا تھا۔ 
ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ گاڑی کی دوسری طرف کو بھاگا تھا۔
" فاطمہ جھک جاؤ۔۔۔۔ "
اس نے چلا کر کہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی اور اسکی بات سمجھتی، گولی چل گئی تھی۔۔۔۔۔
وہ دونوں ہاتھ پھیلاۓ کھڑی پہ جھک چکا تھا۔ اسکے لئیے جیسے ڈھال بن چکا تھا۔
چلانے والے نے دھڑا دھڑا پورا برسٹ خالی کردیا۔
ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔ چار۔۔۔۔ سات۔۔۔۔
اسے لگا جیسے کسی نے جلتے ہوۓ انگارے اسکے وجود میں اتار دئیے ہوں۔ ہر گولی کے ساتھ اسکے حلق سے کراہ نکلتی اور دھڑ لرز کر رہ جاتا تھا۔
اور وہ۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے خود سی بیٹھی، کسی رعشے کے مریض کی طرح اسے دیکھتی جا رہی تھی۔ اسکا سارا اوور آل اور کپڑے خون سے لال ہوتے جارہے تھے۔ اسکے کانپتے ہاتھوں پہ دور تک خون کے چھینٹے تھے۔
وہ گاڑی کے ساتھ لگا، اسکا محافظ بنا کھڑا تھا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس سے اڑھائی سال بڑی تھی۔
قد کاٹھ میں تو وہ لمبا تڑنگا سا لڑکا اس سے بڑا محسوس ہوتا تھا۔ ویسے بھی کہاوت ہے کہ بہن جتنی بھی بڑی کیوں نا ہو، بھائیوں کے لئیے چھوٹی ہی ہوتی ہے۔۔۔۔ 
تو وہ اسے تہمینہ ہی کہتا تھا۔ باجی ، آپا کے بکھیڑے اس نے پالے ہی نہیں تھے۔ اماں نے لاکھ گھرکا، بار بار کہہ کر کہلوایا پر وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔۔۔۔ 
" تہمینہ۔۔۔ ثمینہ۔۔۔۔ "
وہ دونوں اسے بھائی جی ہی کہتی تھیں۔۔۔۔
تو جناب۔۔۔۔ 
وہ انکا بھائی تھا۔ اکلوتا نہیں تھا، پر سچا بھائی تھا۔ چاروں بھائیوں میں وہی تھا جو ان سے باتیں کرتا تھا، انکی سنتا تھا۔ انکی ہنسی پہ گھرکتا نہیں تھا۔ ماتھے پہ بل ڈالے حکم صادر نہیں کرتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی فوراً سر پہ ڈوپٹہ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ وہ روٹی سالن کے لئیے انکا محتاج نہیں تھا اور کبھی کسی شے میں دیر سویر ہو جاتی تھی تو گالیاں نہیں بکتا تھا۔ وہ چھوٹا تھا۔۔۔ سب سے چھوٹا۔۔۔ پر سب سے بڑا تھا۔ سب سے اونچا۔۔۔۔ ان باقی بڑوں کی طرح بڑا نہیں۔۔۔۔
بڑا ہوا تو کیا ہوا،
جیسے پیڑ کھجور
پنچھی کو سایہ نہیں
پھل لاگے اتی دور۔۔۔۔۔
تو وہ سایہ بھی دیتا تھا اور پھل بھی۔ ایسے کہ ہاتھ بڑھاؤ اور توڑ لو۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سفید کوریڈور میں سناٹا تھا۔
اس سناٹے کو ان بھاگتے قدموں کی آوازوں نے توڑا تھا۔ وہ سٹریچر کھینچتے ہوۓ دوڑے جا رہے تھے۔ 
وہ انکی رفتار کا مقابلہ کرتے کرتے تھکنے لگی تھی۔ اسکا جوتا جانے کہاں رہ گیا تھا۔ ننگے پیر وہ پیچھے پیچھے ہی تھی۔
خون آلود کپڑے۔۔۔۔ ویسے ہی ہاتھ۔۔۔۔ پسینے سے بھیگا چہرہ۔۔۔۔ دہشت سے فق۔۔۔۔ کانپتی ہوئی۔۔۔۔ لرزتی ہوئی۔۔۔۔۔
ابھی سے قیامت ؟؟؟؟؟ 
سٹریچر پہ پڑا وہ وجود بمشکل آنکھیں کھولے ہوۓ تھا۔ 
دھندلے سے منظر۔۔۔۔ وہ سمجھ میں نا آنیوالے جملے۔۔۔۔ ہلتا ہوا سا منظر۔۔۔۔ چھت۔۔۔۔ 
وہ بمشکل سانس لے پا رہا تھا۔ 
" فف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
اسکی آنکھوں کے سامنے جالا سا آگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ارسلان نواز "
وہ سر جھکا کر ہولے سے بولی تھی۔ بلال نے اسے سر تا پا دیکھا تھا۔
" تم بھی انٹرسٹڈ ہو ؟؟؟؟؟ "
وہ چپ رہی
" تم انٹرسٹڈ ہو ؟؟؟؟ "
اس نے اپنا سوال دہرایا تھا
" کیا وہ سمیع اللہ سے بہتر رشتہ نہیں ہے بھائی جی ؟؟؟؟؟ "
چچا اسکا رشتہ سمیع اللہ کے لئیے مانگ رہے تھے۔ وہ تب ہاؤس جاب سے فارغ ہو چکا تھا اور پارٹ ون کر رہا تھا۔ اتنا تو اسے علم تھا کہ ان کے خاندان میں موروثی بیماری ہے۔ وہ نسل در نسل بڑھتی جا رہی تھی۔ مقدار میں بھی اور شدت میں بھی۔ وہ تہمینہ اور سمیع اللہ کے رشتے کے حق میں نہیں تھا۔
" وہ کہتا ہے وہ مجھے پسند کرتا ہے۔ وہ اچھا لڑکا ہے بھائی جی۔ شریف ہے، اچھے گھرانے سے ہے۔ میں اسے کہوں گی تو وہ رشتہ بھی لے آۓ گا "
" تو اسے کہو رشتہ لیکر آۓ "
بلال نے دو ٹوک لہجے میں کہا تھا۔
اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ وہ بھی انٹرسٹڈ تھی۔ اور یہ بھی اچھی بات تھی کہ اس نے اس سے بات کی تھی۔ ان دونوں بہنوں کو کالج جانے کی اجازت اسکی ہی وکالت پہ ملی تھی۔ اب وہ اسکی ہی زمہ داری تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے آئی سی یو میں لے جا چکے تھے۔
فلوئیڈ ریپلیسمنٹ۔۔۔۔ بلڈ۔۔۔۔ سلائن۔۔۔۔ اینٹی بائیوٹک۔۔۔۔ یہ دوا، وہ انجکشن۔۔۔۔ پار اینٹرل۔۔۔۔۔ نیسوگیسٹرک ٹیوب۔۔۔۔۔ کیتھیٹرز۔۔۔۔۔ ڈرپ۔۔۔۔۔ وائٹلز۔۔۔۔۔ بلڈ پریشر۔۔۔۔ پلس۔۔۔۔۔ ہارٹ ریٹ۔۔۔۔۔۔
اسکا ذہن بالکل ماؤف ہوتا جارہا تھا۔
وہ کہاں کیوں اور کیسے کے درمیان ہی اٹکی ہوئی تھی۔ اسکا دماغ تو ابھی تک وہیں اٹکا ہوا تھا جب وہ اسے پوچھ رہا تھا کہ " وہ لنچ میں وہ کیا لے گی ؟ "۔۔۔۔۔۔ تو پھر درمیان میں " نیچے جھکو فاطمہ " کہاں سے آگیا تھا ؟؟؟؟
" بچے۔۔۔۔ کام ڈاؤن۔۔۔۔۔ میں ہوں یہاں۔۔۔۔ ریلیکس۔۔۔۔ "
انصاری صاحب کو اس پہ جی بھر کے ترس آیا تھا۔ انہوں نے سسٹر کو اشارہ کیا تھا۔ 
" وہ۔۔۔۔۔ بب۔۔۔۔۔۔ پپ۔۔۔۔۔ پتہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ مم۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ کک۔۔۔۔۔۔۔ وو۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ "
اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔
کیسے سوچنا ہے، کیا سوچنا ہے۔۔۔۔ جو سوچنا ہے اسے کیسے بولنا ہے۔۔۔۔ جو بولنا ہے، اسے کیسے سمجھنا ہے۔۔۔۔ جو سمجھنا ہے، اسے کیسے سمجھنا ہے۔۔۔۔۔ 
اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔
بس ایک بات۔۔۔۔۔۔
وہ نالیوں اور تاروں میں لپٹا وجود اسکی کل کائنات تھا۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔
وہ مر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں نے انکار کردیا تھا۔
اور صرف انکار نہیں کیا تھا، ان گھر آۓ مہمانوں کو جی بھر کے ذلیل بھی کیا تھا۔ وہ اس وقت بس سردار سرکار بن گئی تھیں جن کی اس حویلی میں کوئی پرندہ بھی انکی ایما کے بنا پر نہیں مار سکتا تھا۔ کجا یہ کہ وہ رشتہ لیکر ہی پہنچ گۓ تھے۔
" ٹٹ پونجئیے ۔۔۔۔ کمی کمین۔۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ لعنت ہے۔۔۔۔ اب ہم ایسوں سے رشتہ جوڑیں گے۔۔۔۔۔ "
وہ اندر کمرے میں چھپی ہولتی رہی تھی۔ ابھی تو شکر یہ تھا کہ یہ بات باہر نہیں نکلی تھی کہ وہ اسکی بھی پسند تھا اور اسکے کہنے پہ رشتہ لیکر آۓ تھے۔
اسی شام انہوں نے بھائیوں کی میٹنگ بلوائ تھی۔
" سمیع اللہ سے بات پکی کرنے لگی ہوں تہمینہ کی۔ اس جمعے نکاح کر دیتے ہیں۔ رخصتی بعد میں ہوتی رہے گی۔ "
" سردار سرکار رخصتی بھی کردیں۔ یہ کیا بلال کی باتوں میں آکر آپ نے کالج کے پنگوں میں ڈال دیا ہے اسے مجھے اسکا باہر جانا بالکل پسند نہیں ہے "
" مجھے بھی پسند نہیں ہے۔۔۔۔ پر اب بیچ سال میں کیا محنت ضائع کروں اس کی۔۔۔۔ "
انہوں نے حاتم طائی کی قبر پہ لات مار کے اس پہ اتنی مہربانی کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہیں دیوار سے لگی کھڑی تھی۔ انصاری صاحب کہہ کہہ کر تھک چکے تھے لیکن وہ وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔ سسٹر اور ڈاکٹر اسے کئی بار بہلا پھسلا کر باہر جانے کی کوشش کر چکے تھے لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں تھی۔۔ سختی سے ہاتھ جھٹک دئیے تھے۔ پانی اور کھانے کو نفی میں سر ہلادیا تھا۔ کوئی کچھ پوچھتا تھا تو خالی الذہنی سے اسے دیکھنے لگتی تھی۔
" پولیس تم سے بات کرنا چاہتی ہے فاطمہ بیٹا۔۔۔۔ تم بات کر سکو گی۔۔۔۔ "
اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
" کچھ راہگیروں نے گاڑی کا نمبر نوٹ کیا ہے۔۔۔۔ وہ بلال کے بھائی کی گاڑی تھی۔ ہم نے ناکہ لگا دیا ہے۔ وہ ابھی تک فرار ہیں "
ابو بھی آ چکے تھے۔ وہ بہت دیر تک انہیں پہچان ہی نہیں سکی تھی۔
" سب ٹھیک ہو جاۓ گا دھی۔۔۔۔ تو فکر نا کر۔۔۔ رب سوہنا چنگی کریسی۔۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہیں دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی۔
وہ بیڈ پہ لیٹا تھا۔ ابھی تک بے ہوش تھا۔ خون اور سلائن مسلسل قطرہ قطرہ اسکے وجود میں جا رہے تھے۔ وہ شاک سے ہی باہر نہیں آرہا تھا۔ کمرے میں مشینوں کی ٹک ٹک ٹوں ٹوں گونج رہی تھی۔ دواؤں کی بو تھی اور دعاؤں کی مہک تھی۔
وہ سر دیوار سے ٹکاۓ، آنکھیں موندے بیٹھی تھی جب دوڑتے قدموں کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ وہ بے چین سی آہٹ۔۔۔۔۔
وہ مہران تھا۔
بے یقین سا۔۔۔۔۔ 
بیڈ سے کچھ دور اسکے قدم زنجیر ہوچکے تھے۔ صدمے کی آخری حد پہ کھڑا وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
" بب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
اسکے لب کپکپا کر رہ گۓ تھے۔ گردن موڑ کر اس نے دیوار کے پاس، فرش پہ بیٹھی فاطمہ کو دیکھا تھا۔ آنسوؤں کی ایک باریک سی لکیر اسکے گال پہ دور تک بہہ نکلی تھی۔ وہ لرزتی ہوئی کمزور سی لڑکی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
" کس نے۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟ کک۔۔۔۔۔۔۔۔ کس نے کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ "
فاطمہ نے لمبی سانس بھری اور سر واپس دیوار سے ٹکا دیا تھا۔ 
وہ ششدر سا کھڑا رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال نے سر تا پا اس انسان کو دیکھا تھا جو اس سے اسکی بہن کی بابت ملنے آیا تھا۔
سلیقے سے بنے بال۔۔۔۔ سفید اور سیاہ ڈبوں والی شرٹ۔۔۔۔ سیاہ پینٹ۔۔۔۔ بند جوتوں میں مقید پیر۔۔۔۔ نکھری سی رنگت۔۔۔۔ روشن آنکھیں۔۔۔۔ سچی آنکھیں۔۔۔۔۔
" میں سچ میں اسے اپنانا چاہتا ہوں۔ میں حقیقت میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ خود کو سچا ثابت کرنے کے لئیے میں کیا کر سکتا ہوں، لیکن میں ہر شے کر سکتا ہوں۔۔۔۔ اس کے لئیے۔۔۔۔ "
بلال نے اسے بغور دیکھا تھا
" اسے خوش رکھو گے ؟؟؟؟؟ "
" یہ اس سے پوچھا آپ نے ؟؟؟؟ اسے کیا لگتا ہے کہ وہ میرے ساتھ خوش رہ سکے گی ؟؟؟؟ میں تو ظاہر ہے ایک ہی جواب دوں گا۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا تھا
" میری والدہ اس نکاح کے لئیے کبھی بھی نہیں مانیں گی ارسلان۔ اپنی ذات سے باہر تو درکنار، وہ تو خاندان سے باہر شادی کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ہیں۔ میں کیسے مناؤں انہیں ؟؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گیا
" اور یہ بھی سچ ہے کہ میں کیسے اپنی بہن کی زندگی کو اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیروں میں دھکیل دوں۔ میں اسے جہنم کی سزا کیسے سنا دوں۔۔۔۔۔ "
بہت سارے لمحے خاموشی سے سرکتے چلے گۓ تھے۔
" آپ اسکے ولی ہیں۔ آپ اسکا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ بہت دیر بعد بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے بے ہوش ہوۓ سات گھنٹے گزر چکے تھے۔ اس دوران اس نے ایک لمحے کے لئیے بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ وہ مسلسل اکسیجن اور پار اینٹرل پہ تھا۔ ڈاکٹرز کو اسکے کومے میں جانے کا خطرہ تھا۔ ابھی تک وہ شاک سے ہی باہر نہیں آیا تھا کہ اسکی سرجری کے بارے میں سوچا جاتا۔ 
وہ ہنوز وہیں تھیں۔
دیوار سے لگی فرش پہ بیٹھی۔۔۔۔
کبھی اسکے بیڈ کے ہاس زمین پہ۔۔۔۔۔
کبھی وہاں کھڑی اسے مسکسل تکتی ہوئی۔۔۔۔
" حوصلہ کریں فاطمہ۔۔۔۔ آپکی حالت۔۔۔۔ بے بی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔ کم از کم پانی تو پی لیں۔۔۔۔ "
اسکی کولیگ ڈاکٹر نے زبردستی وہ چند گھونٹ اور دو لقمے اسے کھلاۓ تھے۔
" وہ ٹھیک ہوجاۓ گا۔ شرط یہ ہے کہ تم بھی ٹھیک رہو "
انصاری صاحب گھر نہیں گۓ تھے۔ اس وارڈ میں سے کوئی بھی نہیں گیا تھا۔ ڈاکٹر بلال ظفر کے لئیے کم از کم اتنا تو کیا جا سکتا تھا۔
اس وقت وہ خاموش کھڑی، اسکا ہاتھ نرمی سے تھامے ہوۓ تھی جب مہران آہستگی سے اسکے برابر میں آ کھڑا ہوا تھا۔
" اسے کچھ نہیں ہو گا۔ تم اسے کچھ ہونے نہیں دو گی۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے۔۔۔۔ "
وہ خاموش کھڑی رہی تھی۔
" میں ہوں تو اسکے ساتھ تبھی تو یہ سب ہوا۔۔۔۔۔ میں ہی تو اسکے لئیے موت ہوں۔۔۔۔۔ میں ہی تو اسکی موت ہوں۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ارسلان کے ایک دوست کا مکان تھا۔ بہت عرصے سے بند پڑا تھا۔ اب اس نے وہیں انتظام کروایا تھا۔ اسکے والدین، دونوں بہنیں، کچھ دوست اور مولوی صاحب۔ انکی طرف سے وہ تھا، تہمینہ کے سرپرست کے طور پہ اور دو اسکے کولیگ تھے۔
سب ٹھیک تھا۔
کم از کم انہیں ایسا ہی لگ رہا تھا۔ 
نکاح ہوچکا تھا۔ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ وہ اندر کمرے میں اسکے پاس مبارکباد دینے آیا تھا۔ اسے ساتھ لگا کر اس نے ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔
" خدا تمہیں ہر آفت، ہر قیامت سے بچاۓ رکھے "
اور قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔
خدا جانے کس نے مخبری کی تھی۔
تڑ تڑ۔۔۔۔ تڑ تڑ گولیاں چلی تھیں۔ وہ چونک اٹھا۔ اسکے ساتھ لگی تہمینہ کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔
اسکا بڑا بھائی ان دونوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لایا تو وہاں لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ کوئی ایک انسان بھی زندہ نہیں تھا۔ وہ پورا کا پورا خاندان خون کے تالاب میں ڈوبا ہوا تھا۔
بلال ظفر نے زندگی میں پہلی بار اتنی شدت سے خون کی بو محسوس کی تھی۔ اسے زندگی میں پہلی بار لاشیں دیکھ کر متلی ہوئی تھی۔ اپنی زندگی میں پہلی بار اس نے موت کو دیکھ کر جھرجھری لی تھی۔
" حرام زادے۔۔۔۔ بہن کی دلالی کرتا ہے۔۔۔۔ بے غیرت۔۔۔۔ تجھے شرم حیا نہیں آئی۔۔۔۔۔ ذلیل۔۔۔۔۔ "
سب سے بڑے بھائی نے اسکے دو تھپڑ مارے اور وہ گر پڑا تھا۔ دوسرے بھائی نے تہمینہ کو چٹیا سے جکڑ رکھا تھا۔
" اور تو۔۔۔۔۔۔ تجھے عزت کا کوئی لحاظ نہیں ہے ؟؟؟؟ "
وہ چلایا تھا
" اسکا کوئی قصور نہیں ہے بھائی جی۔۔۔۔ اسے چھوڑ دیں۔۔۔ یہ سب میں نے کیا ہے۔۔۔۔ میں نے یہ نکاح کروایا ہے۔۔۔۔ اسکا کوئی قصور نہیں۔۔۔۔۔ "
وہ رو رہی تھی۔ تکلیف کی شدت سے۔۔۔۔
" قصور تو ہے چھوٹے۔۔۔۔۔ یہ آوارہ اس گھر میں پیدا ہوئ، یہ قصور ہے۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔۔۔۔ مجھ سے پوچھ تو یہ گناہ ہے۔۔۔۔۔ "
اس نے کہہ کر اسے زمین پہ پٹخ دیا تھا۔ وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر گٹھڑی سی بن گئی تھی۔ اس نے اس پہ پستول تان لی تھی۔ بلال کانپ کر رہ گیا۔ وہ فوراً اسکی طرف بڑھا اور ہاتھ پھیلا کر اس پہ ڈھال کے سے انداز میں ادھ کھڑا سا ہوا
" نہیں بھائی۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ اسکا کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔ اسے چھوڑ دیں۔۔۔۔ وہ بے گناہ ہے۔۔۔۔ اسے چھوڑ دیں۔۔۔۔ "
وہ خوامخواہ کہتا تھا کہ وہ قصور وار نہیں تھی۔ 
مجرم تو وہ تھی۔
سب سے پہلا اور سنگین جرم اسکا جنم لینا تھا۔ لڑکی ہوتے ہوۓ جنم لینا۔۔۔۔ اسکی خواہش نا ہونا، پھر بھی پیدا ہونا۔۔۔۔۔ پتہ تھا ناں کہ وہ نہیں چاہئیے۔۔۔۔ پھر کیوں پیدا ہوئی۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟
اسے سائیڈ پہ دھکا دیکر، بھائی نے بہن پہ گولی چلا دی تھی۔ خون کا فوارہ اسکے پیٹ سے بہہ نکلا تھا
دوسرا جرم اسکی خواہش تھی۔ اسکی ہمت کیسے ہوئی آزادی کی خواہش کرنے کی۔ اسکی اتنی مجال کہ قفس کو آنکھیں دکھاتی ہے۔۔۔۔ دونوں ہاتھ پھیلاۓ آسمان کو چھونا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟
ایک اور گولی۔۔۔۔ ایک اور چیخ۔۔۔۔
اور جرم اسکی محبت تھی۔ وہ تو مانو ناقابلِ برداشت جرم ہے۔ محبت۔۔۔۔ وہ بھی لڑکی کی محبت۔۔۔۔ بے حیا۔۔۔ بے غیرت۔۔۔۔۔ محبت ؟؟؟۔۔۔۔۔ آخ تھو۔۔۔۔۔
تڑ۔۔۔۔ تڑ۔۔۔۔ تڑ۔۔۔۔۔۔
وہ لرزتے کانپتے ہاتھوں سے بہن کے وجود سے بہتے خون کو روکنے میں لگا تھا۔ وہ ایک سوراخ پہ انگلی رکھتا، گولی ایک جگہ کو چیر جاتی تھی۔ اسکی انگلیاں ختم ہونے کو تھیں، پر گولیاں نہیں۔۔۔۔۔
" تہمینہ۔۔۔۔۔ بچے۔۔۔۔۔ ہوش کرو۔۔۔۔ تت۔۔۔۔۔ تم ایسے نہیں۔۔۔۔ ہوش کرو۔۔۔۔ تہمینہ۔۔۔۔۔ "
وہ پستول والا ہاتھ نیچے کرچکا تھا۔ بلال نے ہمت جمع کی اور اسے دونوں بازوؤں میں بھرا تھا۔ وہ اٹھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے باہر کی طرف بڑھنے کو تھا جب ایک بار پھر گولی چلی تھی۔
اب کی بار نشانہ اسکی ٹانگ تھی۔
ایک۔۔۔۔ دو۔۔۔۔۔ تین۔۔۔۔۔۔ 
وہ ڈگمگا گیا۔ لڑکھڑا گیا اور پورے قد سے فرش پہ گرا تھا۔ آنکھیں بند ہونے سے زرا پہلے جو منظر اس نے دیکھا، وہ اسکی بہن کی سوالیہ آنکھیں تھیں۔
" میں کیوں تخلیق کی گئی ؟؟؟؟؟؟؟ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غصے کی ایک شدید لہر اسکے وجود میں دوڑ گئی تھی جب وہ عورت باہر سے روتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی۔
" کہاں ہے۔۔۔۔ میرا پتر۔۔۔ میرا بلال۔۔۔۔ میری جند۔۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔۔ "
وہ تیزی سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی تھی۔
وہ بلال کی والدہ تھیں۔
انہوں نے سر اٹھا کر حیرانی سے اسے دیکھا جو انکا راستہ روک کر کھڑی تھی۔
" مجھے اندر جانا ہے۔۔۔۔ میرا بلال۔۔۔۔ مجھے اسے دیکھنا ہے۔۔۔۔ "
" ابھی نہیں۔۔۔ ابھی وہ زندہ ہے۔۔۔۔ ابھی کیوں دیکھنا چاہتی ہیں اسے ؟؟؟؟؟ "
" تیرے منہ میں خاک حرام زادی۔۔۔۔ وہ کیوں مرے گا "
" یہی میں پوچھ رہی ہوں کہ وہ کیوں مرے ؟؟؟؟ "
وہ حلق کے بل چلائی تھی۔
" وہ کیوں مرے ؟؟؟؟ اس نے اپنی پسند کی شادی کر لی تو وہ مر جاۓ ؟؟؟؟ یا مجھے بچاتا بچاتا مر جاۓ ؟؟؟؟ "
وہ چلاتے ہوۓ پوچھ رہی تھی
" میرا رستہ چھوڑ۔۔۔ مجھے میرے پتر سے۔۔۔ "
" نہیں۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔ "
وہ تندی سے بولی تھی
" ابھی اسی وقت یہاں سے چلی جائیں۔ جسکی آپ ماں ہیں ناں، وہ ابھی یہاں نہیں ہے۔ اور جو یہاں ہیں، وہ آپکا زرا سا بھی لحاظ نہیں کریں گے۔۔۔۔ "
" میں نہیں جاؤں گی۔ میں اپنے پتر کو دیکھوں گی۔ "
وہ مضبوطی سے دروازے میں جمی کھڑی رہی تھی۔ وہ منتیں کرتی رہیں، روتی رہیں، ایک بار بلال کو دیکھنا ہے، وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہلی تھی۔
" آپ میری ماں نہیں ہیں۔ جسکی تھیں، وہ جانے۔۔۔۔ میرے لئیے سردار سرکار بھی نہیں ہیں۔ جن کے لئیے ہوں گی، وہ جانیں۔۔۔۔ میرے لئیے آپ ایک جھوٹے ناٹک کرنے والے سائل سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کہ جنہیں میں اللّٰہ بھلا کرے کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہوں۔ "
وہ وہیں دروزے میں کھڑی رہی تھی۔
" نہیں دیکھنے دوں گی۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے زرا کی زرا پلکیں جھپکی تھیں۔ 
فاطمہ کے ہاتھ میں دبے اس کے ہاتھ میں بہت ہلکی سی جنبش ہوئی تھی۔ وہ جلدی سے اس کے پاس ہوگئی تھی۔ وہ اسکے واپس لوٹنا چاہتا تھا۔ وہ کہتا تھا ناں کہ اس سے دور نہیں رہ سکتا تو کیسے رہ لیتا۔۔۔۔۔
" بلال۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں یہی ہوں۔۔۔۔ آپ کے پاس۔۔۔۔۔ میں ہوں یہاں۔۔۔۔۔ "
بلال کی نظروں کے سامنے وہ دھندلا سا منظر تھا۔
وہ بہت دیر بعد ہوش میں آیا تھا۔ ماں اسکے سرہانے ہی بیٹھی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھا تو اس پہ جھکی تھی۔
" میرا پتر۔۔۔۔ میرا بلال۔۔۔۔ رب سائیں تیرا شکر ہے۔۔۔ میرا پتر زندہ ہے۔۔۔۔ میرا بلال۔۔۔۔ "
" تت۔۔۔۔۔ تہمینہ۔۔۔۔۔ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ تہم۔۔۔۔۔۔ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟ "
اگلی بار اسے ہوش آیا تو فاطمہ اسکے پاس بیٹھی، زیرِ لب دعائیں پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔
ویسے ہی جیسے تب ماں کو دیکھتا رہا تھا۔
" تہمینہ کہاں ہے ؟؟؟؟ والدہ۔۔۔۔ تہمینہ۔۔۔ "
" تیری حالت ٹھیک نہیں ہے پتر۔۔۔۔ سکون کر۔۔۔۔ آرام کر۔۔۔۔۔ "
" وہ کہاں ہے ؟؟؟؟؟ "
تیسری بار ہوش میں آیا تو وہ کمرے میں نہیں تھی۔
" فف۔۔۔۔۔۔۔۔ "
اس کے لب کپکپا کر رہ گۓ تھے۔
" مر گئی ہے بد نصیب۔۔۔۔ دفنا دیا تیرے بھائیوں نے۔۔۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔۔۔۔۔ "
وہ زندہ رہ کر بھی کیا کرتی ؟؟؟؟؟ زندگی کی جہنم سے تو قبر کے اندھیرے ہی اچھے تھے۔
وہ بہت دیر تک بے آواز روتا رہا تھا۔ ماں کو اسکے آنسوؤں سے تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ جو جیتی جاگتی زندگی ختم ہوگئی تھی، اسکا کوئی ملال نہیں تھا۔ دوبارہ چننا پڑتا تو شائد وہ دوبارہ بھی اس کے لئیے کفن ہی چنتیں۔۔۔۔
" فف۔۔۔۔۔۔ فاطمہ۔۔۔۔۔ "
وہ اسکا ہاتھ پکڑے بے آواز روتی رہی تھی۔ اسکی ہتھیلی کی پشت اسکے آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔
" مم۔۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے میری حالت۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔ میری حالت۔۔۔۔۔۔ فف۔۔۔۔۔۔ فاطمہ۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اسکی بیک بون بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مجھے نہیں لگتا اتنی شدید انجری کے بعد سروائیول کے کچھ چانسز ہیں "
وہ نیوروسرجن کہہ رہے تھے۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ انکے برابر میں بیٹھی وہ لڑکی اس کی بیوی تھی ورنہ شائد اتنی سخت بات نہیں کرتے۔ انصاری صاحب نے اسے دیکھا اور پہلو بدلا تھا۔
" ہمیں رسک تو لینا ہوگا ڈاکٹر۔ اسے یوں مرنے کے لئیے تو نہیں چھوڑ سکتے ناں۔ دیکھیں تو کہ کوئی امید ہے بھی۔۔۔۔۔ اور امید ہمیشہ ہوتی ہے "
" اسکی کمر میں پیٹھ کے پاس گولیاں لگی ہیں۔ سیکرم اور ہپ بون گرنے کی وجہ سے چورا چور ہو چکی ہیں۔ جوائنٹ ریپلیسمنٹ ہو سکتی ہے لیکن پہلے ہمیں سپائنل کارڈ کو سیو کرنا ہے "
انصاری صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
کانفرنس کے بعد وہ اسے دیکھنے آۓ تھے۔ وہ پچھلے آٹھ گھنٹوں سے ہوش میں تھا۔ بات بھی کر لیتا تھا۔ نچلے دھڑ کو چھوڑ کے بازوؤں میں بھی حرکت تھی۔ شدید سٹرانگ پین کلرز کی وجہ سے ابھی وہ اس تکلیف سے بچا ہوا تھا، جس میں وہ مبتلا تھا۔ اب تو وہ بات بھی کر رہا تھا۔
" تم ایک مضبوط انسان ہو بلال۔ جس ٹراما سے گزر چکے ہو، اسکے بعد بھی یہاں یوں باتیں کر رہے ہو تو یہ تمہارے مضبوط اعصاب ہی ہیں "
وہ دھیمے سے ہنسا
" سرجن ہوں ناں سر۔۔۔۔ "
" تبھی سمجھانے آیا ہوں کہ ہم سرجری کر رہے ہیں "
" اور مجھے۔۔۔۔ مجھے میری رپورٹس سمجھا چکی ہیں۔۔۔۔۔ سر۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گۓ
" جس حالت میں، میں ہوں، ان پیشینٹس کا سرجیکل پروگنوسس ( سرجری سے ٹھیک ہونے کی شرح ) میں اپنے ہاتھ سے ایک سے پانچ فیصد لکھتا رہا ہوں سر "
وہ اسے دیکھ کر رہ گۓ
" کوئی امید نہیں ہے ناں سر ؟؟؟؟ "
وہ امید بھرے لہجے میں پوچھ رہا تھا۔ مرنا کسے پسند ہے ؟؟؟؟؟ وہ نظریں چرا گۓ تھے۔ اسے جواب مل گیا تھا۔
" میں سرجری کے لئیے تیار ہوں "
اس نے لمبی سانس بھری تھی۔
" لیکن ایک شرط ہے۔۔۔۔۔ یہ سرجری ڈاکٹر فاطمہ کریں گی "
وہ دھک سے رہ گۓ تھے۔ وہ پاس خاموش کھڑی تھی۔ وہ اسے یہ پہلے ہی بتا چکا تھا۔
" تم پاگل ہوگۓ ہو ؟؟؟؟ اپنی حالت دیکھی ہے ؟؟؟؟ وہ ابھی تک پارٹ ٹو میں پھنسی ہوئی ہے، اس نے اپنے دم پہ ابھی تک اپینڈیکٹمی بھی نہیں کی ہے اور تم ؟؟؟؟ "
انہوں نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" یہ خود کشی ہے اور میں اسکی اجازت نہیں دوں گا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ "
وہ لیٹا انہیں ہی دیکھتا رہا تھا
" آپ سے اجازت مانگی کس نے ہے ؟؟؟؟ یہ پیشنٹ کی اپنی مرضی ہے۔ "
" نہیں۔ ٹراما کے پیشنٹ سے کنسینٹ ( مرضی پوچھنا ) ضروری نہیں ہوتا "
وہ دھیمے سے مسکرایا
" لیکن میری گارڈین سے تو پوچھنا ہوگا "
انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا اور فاطمہ کو۔ وہ کرب سے لب کاٹتی، سر جھکا گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی آپریشن تھیٹر تھا۔ 
فرق یہ تھا کہ مریض کی جگہ ٹیبل پہ وہ مسیحا تھا۔ وہ سرجن جس کے ہاتھوں میں خدا نے شفا بہا رکھی تھی، اب شفا کا سوالی تھا۔ 
" Are you sure dr, Local anesthesia ???? "
اس نے ہولے سے اثبات میں سر ہلادیا تھا۔ 
" یہ شدید تکلیف دہ۔۔۔۔۔۔ "
" مجھے سب پتہ ہے۔۔۔۔۔۔ "
اس نے بات کاٹ دی تھی۔ وہ باتیں ہی تو کاٹ رہا تھا۔ اس دن سے یہی تو کر رہا تھا۔ اسکی بات کاٹ دی، انصاری صاحب کو چپ کروا دیا اور پھر مہران کو۔۔۔۔۔
وہ اسکے ہاتھوں کو جکڑے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا تھا
" اللّٰہ کا واسطہ ہے تجھے بلال۔۔۔۔۔ تجھے تیرے پیاروں کی قسم ہے ایسے نا کر۔۔۔۔ میں ہوں ناں، مجھ پہ بھروسہ تو کر۔۔۔۔ مجھے آپریشن کرنے دے۔۔۔۔ پلیز یار۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ "
اسکی بس ایک ہی رٹ تھی۔
" ڈاکٹر فاطمہ۔۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ بھی رو پڑی تھی۔ سر جھکاۓ۔۔۔۔ پشیمانی سے۔۔۔۔
" مجھ سے نہیں ہوگا بلال۔۔۔۔ آپکو پتہ ہے میں نالائق ہوں۔۔۔۔ آپکو پتہ ہے میں یہ نہیں کر سکوں گی۔۔۔۔ "
" مجھے پتہ ہے یہ کوئی بھی نہیں کر سکے گا۔۔۔۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ کم از کم موت تو تمہارے ہاتھ سے ملے۔۔۔۔۔ تم وہ آخری انسان ہو جو مجھے شفا دینے کے لئیے آخری کوشش کر رہی ہو۔۔۔۔ "
اسکا دل کسی نے مٹھی میں لیکر بھینچ دیا تھا۔
تو سب بس اسی لئیے چپ تھے۔
وہ ایک مرتے ہوۓ انسان کی آخری خواہش کو خراج دے رہے تھے۔ اتنا تو وہ کر ہی سکتے تھے۔۔۔۔
وہ سکرب پہنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ نیوروسرجن اسسٹنٹ کے طور پہ ساتھ تھے۔ پاس ہی مہران کھڑا تھا۔ اسے ایک ایک اوزار تھمانے کو۔۔۔ ایک ایک بات بتاتا ہوا۔۔۔۔۔
اس نے لوکل اینستھیزیا کے لئیے انجکشن بھرا تو تبھی اسکی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ وہ خاموش لیٹا بس مسلسل اسے ہی دیکھتا جا رہا تھا۔
" کتنا اچھا ہوتا ناں کہ اس ساری دنیا میں بس میں اور تم ہی ہوتے۔ تیسرا کوئی ہوتا تو محبت ہوتی۔ چوتھا کوئی ہوتا تو ہمیشہ کا ساتھ ہوتا۔ بھلے ہمیشہ کی زندگی نا ہوتی لیکن جدائی بھی ایسے نا ہوتی۔۔۔۔۔۔ "
اس نے بلاک پہ سے کور ہٹایا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ شروع کہاں سے کرے اور کرے کیسے۔۔۔۔ لیکن آج اسے پزل نہیں ہونا تھا۔ آج کنفیوز نہیں ہونا تھا۔  مہران اسے بتاتا جا رہا تھا۔ نیوروسرجن بھی ہدایات دے رہے تھے۔
" پلس کم ہو رہی ہے "
وائٹل سکرین نے دہائی دی تھی۔ اس نے بہتے خون پہ سپونج رکھا اور اسے دیکھا تھا۔ وہ پژمردہ سا اسے دیکھ کر مسکرانا چاہتا تھا۔ اسکے گال پہ دور تک آنسوؤں کی لکیر سی بہہ نکلی تھی۔
" ہارٹ ریٹ نیچے جا رہا ہے "
سسٹر نے سلائن کی رفتار بڑھائی تھی۔ مہران سکّر سے وہ مواد نکال رہا تھا۔ بلال کا چہرہ تکلیف کی شدت سے لال پڑتا جا رہا تھا۔
" ہارٹ ریٹ چالیس۔۔۔۔۔۔ "
" ایسے مت کریں۔۔۔۔۔۔ بلال پلیز ایسے مت کریں "
وہ رو پڑی تھی۔ بلال نے مضبوطی سے اسکا ہاتھ جکڑ لیا تھا۔ مہران ہولے سے اسکی جگہ لے چکا تھا۔ وہ اس لمحے ہر خیال کو ترک کر کے بس اسے بچا لینا چاہتا تھا۔ بنا بولے، بنا روۓ، بنا ہنسے، بنا سوچے۔۔۔۔۔۔
" مم۔۔۔۔۔ میرے بچے۔۔۔۔۔ ہمارے بچے کا۔۔۔۔۔ بہت خیال۔۔۔۔۔ رکھنا۔۔۔۔۔ اسے ان سب سے۔۔۔۔ ان سب سے دور۔۔۔۔ دور۔۔۔۔۔۔ "
اسکی سانس اکھڑنے لگی تھی۔ وہ ہانپنے لگا تھا۔ فاطمہ کے جسم سے جیسے جان نکلتی جا رہی تھی۔ 
" بلال ابھی نہیں۔۔۔ آج نہیں۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز مت جائیں۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ "
آنسو اسکا سارا چہرہ بھگو چکے تھے۔ بلال کی اسکی کلائی پہ گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔
" ہارٹ ریٹ تھرٹی۔۔۔۔۔ "
" ایڈرینالین بھریں۔۔۔۔۔ "
وائٹل کی سکرین پہ لال لال نشان ابھر آۓ تھے۔ دروازے میں ایستادہ انصاری صاحب نے تھک کر چوکھٹ سے سر ٹکا دیا تھا۔
" ہارٹ ریٹ چوبیس۔۔۔۔۔ "
" بلال۔۔۔۔۔ اٹھیں۔۔۔۔ لڑیں۔۔۔۔۔ بلال۔۔۔۔۔۔ ورنہ وہ جیت جائیں گے۔۔۔۔۔ ذات پات۔۔۔ رنگ۔۔۔ زبان۔۔۔۔ وہ جیت جائیں گے۔۔۔۔ بلال اٹھیں۔۔۔۔ وہ ہنس رہے ہیں۔۔۔۔ دیکھیں تو۔۔۔۔۔ بلال۔۔۔۔ اٹھیں۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ آج نہیں۔۔۔۔ اٹھیں۔۔۔۔۔۔ "
وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ کسی چھوٹے سے بچے کی طرح۔۔۔۔ پھوٹ پھوٹ کر۔۔۔۔۔ وہ آخری بھر اسے جی بھر کے دیکھ رہا تھا۔ اسکے لب کپکپا رہے تھے۔
" اٹھیں۔۔۔۔۔ بلال۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ "
" ہارٹ ریٹ سات۔۔۔۔۔ "
آنکھیں اپنی چمک کھو چکی تھیں۔۔۔۔۔ سانس دھیمی رفتار سے بھی نیچے آ چکی تھی۔ دھڑکن خاموش تھی۔ 
" کم آن۔۔۔۔۔۔ "
مہران نے لرزتے ہاتھوں پہ قابو پایا اور الیکٹرک شاک اٹھایا۔ فاطمہ کا ہاتھ چھڑوا کے اس نے ڈائیوڈ فضا میں بلند کئیے تھے۔
" تھری۔۔۔۔ ٹو۔۔۔۔ ون۔۔۔۔۔ "
اسکا دھڑ پھڑ پھڑا کر رہ گیا تھا۔
" ہارٹ ریٹ زیرو۔۔۔۔۔ "
شاک پھر سے دیا گیا تھا۔ پھر سے۔۔۔۔۔۔
فاطمہ بے دم سی وہیں گرتی چلی گئی تھی۔
" بلال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
دل خاموش تھا۔ پکار کا جواب نہیں آیا تھا۔
" بلال۔۔۔۔۔۔۔۔ "
مہران حلق کے بل چلایا تھا۔ پوری قوت سے۔۔۔۔ ساری ہمت اور شدت سے۔۔۔۔ وہ سارا غصہ۔۔۔ دکھ۔۔۔۔ ملال۔۔۔۔ بے بسی۔۔۔۔۔ وہ ٹیبل پہ مکے مارتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
" بلال۔۔۔۔۔۔۔ "
اس نے اپنی انگلیوں پہ اسکا خون محسوس کیا تھا۔ اسکا احساس وہاں بھی نہیں رہا تھا۔
زندگی موت سے ہار چکی تھی۔
وہ یکدم اٹھی تھی اور باہر کو بھاگی تھی۔ وہ راہداری پار کر کے باہر آئ تھی۔ وہ اسے وہیں مل گئی تھیں۔ چوکھٹ سے لگی ہوئیں۔ سردار سرکار۔۔۔۔
" جیت گئیں آپ۔۔۔۔۔ جیت گئیں۔۔۔۔۔ وہ ہار گیا۔۔۔۔ خوش ہو جائیں۔۔۔۔ "
وہ روتے ہوۓ بے بس لہجے میں بولی تھی۔ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ کر رہ گئیں
" وہ ہار گیا۔۔۔۔۔ پہلے ماں ہار گیا۔۔۔۔ پھر بہن ہار گیا۔۔۔۔ محبت ہار گیا۔۔۔۔ اسکا علم ہار گیا۔۔۔۔ اسکی سوچ ہار گئی۔۔۔۔ پھر دل ہار گیا۔۔۔۔ ہر ہر جنگ ہار گیا۔۔۔۔ اسکی خیر ہار گئی۔۔۔۔ ذات برادری رنگ زبان کا شر جیت گیا۔۔۔۔۔ خوش ہو جائیں سردار سرکار آپکا غرور جیت گیا۔۔۔۔ آپکی حویلی جیت گئی۔۔۔۔ پگڑی جیت گئی۔۔۔۔ خاندان جیت گیا۔۔۔۔ آپکا مان جیت گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ روۓ جا رہی تھی، چلاتی جا رہی تھی۔
" آپکا بیٹا ہار گیا۔۔۔۔ میرے بچے کا باپ ہار گیا۔۔۔۔۔ اس سب سے ایک انسان ہار گیا۔۔۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ نے گریبان سے بھائی کو جکڑ لیا تھا اور چلاتی جا رہی تھی
" قاتل ہو۔۔۔۔ میرے بھائی کے قاتل۔۔۔۔۔ میرے بھائی کو مار دیا۔۔۔۔ جلاد۔۔۔۔۔ قاتل۔۔۔۔ "
اسے خود کو چھڑوانا مشکل ہوگیا تھا۔ ثمینہ نے اسکو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا تھا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ چھوٹی بہن جس نے آج تک اس کے سامنے نظر تک نہیں اٹھائ ٹھی، وہ یوں گلے تک پہنچ گئی تھی۔
" میں پولیس کے پاس جاؤں گی۔۔۔ میں گواہی دوں۔۔۔ اپنی بہن کو میں چپ کر گئی، بھائی کو رو کر چپ نہیں کروں گی۔ میں تم سب کو پھانسی تک لیکر جاؤں گی۔۔۔ تم سب۔۔۔۔ درندے ہو۔۔۔۔ "
وہ ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی۔ لمحے میں اسکا گریبان پھاڑ دیا تھا۔ اسکی گردن کو ناخنوں سے نوچ دیا تھا۔
تو بس یہ ہے عورت۔۔۔۔
اسے نا چھیڑو تو وہ کومل سی تتلی ہے۔ اپنی ذات میں گم اپنے کام میں مصروف۔ سر جھکاۓ۔ خاموش۔۔۔ اسے چھیڑ دو گے، اسے اکساؤ گے تو وہ تمہیں قبر تک لے جاۓ گی۔ وہ مرحم بنی رہے تو ٹھیک ہے۔ اسے سرطان بنا دیا تو وہ لاعلاج ہو جاۓ گی۔ 
ان سب نے مل کر اس چیونٹی کو زہر سے بھرے پروانے میں بدل دیا تھا۔
" میں برباد کردوں گی۔۔۔۔ تم سب کو۔۔۔۔ یہ عورت۔۔۔۔۔ یہ ماں ہے۔۔۔۔۔ یہ بھی ملی ہوئی ہے۔۔۔۔ اس نے کروایا ہے۔۔۔۔ اس نے سب چھین لیا ہے۔۔۔۔ تم سب نے۔۔۔۔ میں سب برباد کردوں گی۔۔۔۔ تم دیکھنا۔۔۔۔۔ "
اسے گھسیٹ کر کمرے میں بند کردیا گیا تھا۔ بھائی اپنی گردن سہلاتا رہا تھا۔
" سردار سرکار کیا ہو گیا۔۔۔۔ لڑائ میں ایسے تو ہوتا ہے۔۔۔۔ کبھی ہمارا بھی مرے گا۔۔۔۔۔ گولی کو کیا پتہ مجھے کسے لگنا ہے۔۔۔۔۔۔ "
اسی رات کی بات ہے۔ 
وہ تینوں بھائی ماں کے کمرے میں تھے۔ 
" اوپر بات ہوگئی ہے میری۔ معاملہ دب جاۓ گا۔ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پولیس کو اتنا پیسہ کھلاتے ہیں، ہم پہ کیسے ہاتھ ڈال سکتی ہے وہ "
" اور وہ کتیا۔۔۔۔۔ وہ لاش نہیں دے گی بلال کی۔۔۔۔ وہ منہ کھولے گی سب کے سامنے۔۔۔۔ اور وہ حرام کا بچہ ۔۔۔۔۔ "
" اسکا علاج بھی کردیں گے۔ ایک بار گولی سے بچ گئی۔ کب تک بچی گی "
ثمینہ دودھ کے گلاس کی ٹرے رکھ کر خاموشی سے نکل گئی تھی۔
" اور یہ۔۔۔۔۔ اس کلموہی کو تو وہ سمیع اللہ سیدھا کردے گا۔ یہ سمجھ کیا رہی ہے خود کو۔۔۔۔۔ "
باورچی خانے میں کھڑی ثمینہ نے وہ پڑیا مٹھی میں دبا لی تھی۔ ابھی شام ہی تو اس نے ملازمہ سے منگوائی تھی
" نیلا تھوتھا ؟؟؟؟ آپ نے کیا کرنا ہے جی ؟؟؟؟؟ "
اس نے دو نیلے نوٹ تھماۓ تو منہ بھی بند ہوگیا اور نیلا تھوتھا بھی آگیا تھا۔
رات گۓ ملازمہ کی چیخوں سے حویلی گونج اٹھی تھی۔ وہ دودھ کے گلاس لینے گئی تھی تو وہ تینوں بھائی بے سدھ پڑے تھے۔ منہ سے جھاگ بہہ رہی تھے اور دودھ یہاں وہاں بکھرا ہوا تھا۔
اس رات ثمینہ سکون کی نیند سوئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی سال بعد :

آپریشن تھیٹر ہے۔ 
ٹیبل پہ پیشنٹ ہے۔ سرجری جاری ہے۔ وائٹل دکھانے والی سکرین پہ مخصوص ٹوں ٹوں ٹک ٹک ہو رہی ہے۔ سارے میں وہ بو سی پھیلی ہوئی ہے۔ سکرب پہنے سرجن، اسسٹنٹ، سسٹرز، ہیلپرز موجود ہیں، پائیوڈین، سپونج، سلائن، خون۔ وہ مختلف اوزاروں سے لیس ٹرالی۔
وہ سیاہ سکرب پہنے، ہاتھ میں سیزر پکڑے پیشنٹ پہ جھکی ہوئی ہے۔ گلوز خون سے بھرے ہوۓ ہیں۔ وہ سپونج سے خون کو روکتی، سیزر سے ایڈھیژنز ( رکاوٹیں ) کاٹتی جا رہی ہے۔ وہ تندہی سے اپنے کام میں مصروف ہے۔
" اماں میں فیٹ ہی بہت ہے۔ کیا خیال ہے ڈاکٹر یاسر، اماں کی کچھ فیٹ نکال نا دیں ؟؟؟؟ "
وہ ہنس کر کہہ رہی تھی۔
" اماں ہوش میں آئیں گی تو خود کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گی کہ میں تو بالکل سینڈریلا بن گئی۔ دعائیں دیں گی۔۔۔۔ "
" چلیں پھر بسم اللّٰہ کریں "
وہ دونوں ہنسے تھے۔
" ارے اللّٰہ کے بندو کام کرلو، گھر بھی جانا ہے "
انستھیزیا والے نے دہائی دی تھی۔
" سر جی میں فٹ بال کھیل رہی ہوں ؟؟؟؟ ساری آنتیں گھچا مُچھا ہوئی پڑی ہیں۔ اندر ہی اندر جوڑ توڑ۔ بیماری کو بڑھاتے رہتے ہیں یہ لوگ بھی۔ ادھر ادھر سے دوا لے لی، نیم حکیم، عطائی، دم درود۔۔۔۔ جب اخیر ہو جاتی ہے، تب ڈاکٹر کا رخ کرتے ہیں۔ پھر جب کام خراب ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر قصائی۔۔۔۔۔ "
" اتنی دکھی کہانی ڈاکٹر تہمینہ ؟؟؟؟؟ میری تو آنکھیں بھر آئیں "
آدھے گھنٹے بعد جب وہ سارا مکمل کر کے سٹچز لگانے کی تیاروں میں تھی تو ڈاکٹر یاسر نے اچھنبے سے دیکھا تھا۔
" سٹچز بھی خود لگائیں گی ؟؟؟ ارے یہ تو کوئی پی جی یا ریزیڈینسی والا کر لے گا "
" ڈاکٹر یاسر یہ پیشنٹ میرے ذمہ لگایا گیا ہے۔ اسکی سکن سٹیریلائز کرنے سے لیکر آخری بینڈیج تک میں زمہ داری ہے۔ مجھے نہیں پسند کہ جب سارا کام ہو جاۓ تو میں بس فیتہ کاٹنے پہنچ جاؤں۔۔۔۔۔ "
دوسری ٹیبل پہ سرجری کرتے اس سینئیر سرجن نے چونک کر دیکھا اور ایک اداس سی مسکراہٹ مسکرا دیا۔ اسے کوئی بہت شدت سے یاد آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آفس کے باہر رک کر اس نے ایک لمبی سانس بھری تھی۔ سامنے دیوار پہ نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی۔
" ہیڈ آف سرجری ڈیپارٹمنٹ
ڈاکٹر مہران خواجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
اس نے ہولے سے دستک دی اور اندر جھانکا
" میں جاؤں سر ؟؟؟؟؟ "
مہران نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر دیوار پہ لٹکی گھڑی کو۔
" وقت سے پہلے ہی ؟؟؟؟؟ "
" سر تین سرجریاں کر چکی اپنے حصے کی، اب شام تک بیٹھنا ضروری ہے کیا ؟؟؟؟؟ "
" ٹائم ٹیبل اکھاڑ پھینکو پھر "
اس نے منہ بنایا تھا
" میرے بس میں ہو تو اکھاڑ بھی پھینکتی۔۔۔۔ "
" ایٹی ٹیوڈ دیکھو۔ اوہ بی بی ایچ او ڈی ہوں میں۔۔۔ کھڑے کھڑے نکال باہر کروں گا تمہیں ایسے کرنے پہ "
اس نے دانت نکالے تھے۔
" یہ کر ہی نا دیں آپ۔ ہسپتال بند ہوجانا آپکا۔۔۔۔۔ "
وہ ہولے سے مسکرادیا تھا۔
" اگلے مہینے ریٹائر ہونے کا سوچ رہا ہوں تہمینہ بچے۔ پھر دیکھنا باس کیسا ملے گا تمہیں "
اس نے سختی سے اسے دیکھا تھا
" سوچئیے گا بھی مت۔ میں ہونے دیتی ہوں آپکو ریٹائر بڑی اچھی طرح۔۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔۔ جا رہی ہوں میں۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر نکل گئی تھی۔ وہ بہت دیر تک زیر لب ہنستا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باہر نکلی تو وہ گاڑی گیٹ پہ ہی کھڑی تھی۔ اس نے دروازہ کھولا اور دھپ سے فرنٹ سیٹ پہ جا بیٹھی۔
" اف توبہ گرمی۔۔۔۔۔ ہاۓ "
" آدھے گھنٹے سے میں کھڑی ہوں یہاں تہمینہ۔۔۔۔ کونسے الوداعئیے دے رہی تھی تو اندر ؟؟؟؟؟ "
اس نے غصے سے کہا تھا۔
" اوہ پھپھو یار۔۔۔۔ دس منٹ نہیں ہوۓ ہوں گے۔ وہ بس ایک پیشنٹ آ گیا تھا، اسے دیکھنے لگ گئی تھی "
" اور یہاں گرمی میں انتظار کرتے کرتے میں پیشنٹ بن گئی "
ثمینہ نے منہ بنایا اور گاڑی سٹارٹ کی
" چڑ چڑی ہو رہی ہیں۔ تھکی ہوئی ہیں "
" میں نہیں تھکتی "
وہ فوراً بولی تھی
" ہر انسان تھکتا ہے۔ ہر شے تھک جاتی ہے جب اپنی ہمت سے زیادہ بوجھ اپنے اوپر لاد لیتی ہے "
وہ چپ رہ گئی۔
" آپ اپنا بوجھ تو دیکھیں۔ دو سکول، پھر این جی او، سلائی سینٹر۔۔۔ پتہ نہیں کیا کیا کرتی ہیں ان بے سہارا لڑکیوں کے لئیے۔۔۔۔۔ تھکیں گی ہی۔۔۔۔ "
" میں تھکنا نہیں چاہتی تہمینہ۔ میں تھک گئی تو ان سب کا کیا ہوگا جن کے لئیے میں ہی امید ہوں۔ جن کے لئیے رب نے مجھے سہارا بنایا ہے "
وہ بہت دیر تک اسے دیکھتی رہی تھی۔
" پراؤڈ آف یو پھپھو "
وہ مسکرادی
" اور مجھے تم پہ صرف فخر نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم تو میرے لئیے سب کچھ ہو۔ تم تو میری زندگی کا سکھ ہو تہمینہ۔۔۔۔۔ میری بہن کی ہم نام، میرے بھائی کی آخری نشانی۔۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں شام کی نارنجی روشنیاں جمع ہو رہی تھیں۔ لان کی طرف کھلنے والی ونڈو کے گلاس سے چھن چھن کر آتی روشنیاں بہت بھلی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ بیڈ کے پاس، وہیں وہیل چئیر پہ موجود، خاموش بیٹھی تھیں۔ 
اب تو زندگی میں کوئی شے بھی راحت نہیں دیتی تھی۔ خوش ہونا، سکون پانا، کچھ اچھا لگنا، وہ یہ سب حسیات کھو چکی تھیں۔ وہ جو کبھی سردار سرکار ہوا کرتی تھیں، اب ایک اپاہج بڑھیا سے زیادہ کچھ نہیں رہی تھیں۔ 
دروازے میں کھڑی، دہلیز سے ٹیک لگاۓ ثمینہ نے انہیں بہت دیر تک دیکھا تھا۔ کسی بھی احساس کے بغیر، بنا ترحم کھاۓ، بنا کوئی جذبہ محسوس کئیے، کسی بھی نفرت یا محبت کے بنا بس ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہی تھی۔ نظروں کا ارتکاز محسوس کر کے انہوں نے مڑ کر اسے دیکھا۔
وہی سوال پوچھنے آئی ہوں جو روز پوچھتی ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی آپکو تہمینہ کی لاش دیکھ کر رونا نہیں آیا تھا ؟؟؟؟؟؟ کیا واقعی تین بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر زیادہ دکھ ہوا تھا ؟؟؟؟؟؟ کیا اب بھی آپکو لگتا ہے کہ بلال کی جگہ فاطمہ مر گئی ہوتی تو آپ یہاں نا ہوتیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ "
وہ خاموش تھیں۔
وہ خاموش ہی رہتی تھیں۔ فالج نے صرف دونوں ٹانگیں اور داہنا ہاتھ نہیں چھینا تھا، زبان پہ بھی وار کیا تھا۔ چہرہ داہنی طرف کو ڈھلک گیا تھا اور بس ایک جامد خاموشی۔۔۔۔۔۔۔
اب بھی انہوں نے بوڑھی آنکھوں سے جواب دیا تھا۔
وہ چند آنسو۔۔۔۔۔۔
اسے اپنی ماں کے لئیے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ ازراہِ ہمدردی میں بھی وہ ان آنسوؤں کو پونچھنا نہیں چاہتی تھی۔ انسانیت کے ناطے بھی نہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہمینہ وہیں سلیب پہ چڑھ کر بیٹھی، روٹی ہاتھ میں پکڑے اور سالن کی پلیٹ اس رکھے کھانے میں مصروف تھی۔ فاطمہ نے افسوس سے اسے دیکھا تھا۔
" تمہیں دیکھ کر کون کہے گا کہ تم ایک سرجن ہو ؟؟؟ "
وہ ہنسی
" یہ تو کوئی آپکو دیکھ کر بھی نہیں کہے گا میری پیاری ماں۔۔۔۔۔ "
فاطمہ نے آخری روٹی اتاری تھی۔
" کیوں چھوڑ دی آپ نے جاب اور سرجری ؟؟؟؟؟ "
اس نے کندھے اچکا دئیے
" وہاں میرے لئیے کچھ رہا ہی نہیں تھا۔ جو سکھانے والا تھا، وہ چلا گیا تو سوچا اب کیا فائدہ۔ ویسے بھی مجھے خوف آنے لگا تھا او ٹی سے۔۔۔ وہاں ہونے سے۔۔۔۔ اس سب سے۔۔۔۔ "
وہ چپ رہ گئی تھی۔
" میری بہادر ماں کسی چیز سے ڈرتی بھی ہے ؟؟؟؟ "
" ہاں۔۔۔۔۔ انسانوں سے ڈرتی ہوں۔ یہ جنوں بھوتوں سے بھی زیادہ ڈراؤنی مخلوق ہے "
اس نے پلیٹ میں سالن نکالا اور ٹرے میں سیٹ کرنے لگی۔
" ٹھیک سے کھاؤ۔ اور اپنے برتن دھو کر رکھنا۔ میں دادی کو کھانا کھلانے جا رہی ہوں "
اسے کہہ کر وہ باہر نکل آئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ نے شوربے میں بھیگا ہوا وہ نوالہ چمچ میں بھرا اور آہستگی سے انکے منہ میں ڈالا تھا۔ تھوک انکے ہونٹوں کے کھلے کنارے سے بہہ نکلا تھا۔ اس نے دوسرے ہاتھ میں دبے رومال سے انکا چہرہ نرمی سے صاف کیا تھا۔ 
شام کی نارنجی روشنیاں اب سرخیوں میں بدل رہی تھیں۔ لان میں اترتی وہ اداس سی شام شیشے کے اِس پار کمرہ بھی بھگو چکی تھی۔
اس نے آخری لقمہ انہیں کھلایا، منہ صاف کیا اور برتن سمیٹنے لگی۔ ٹرے لئیے وہ اٹھنے کو تھی۔
" میں نماز پڑھ کہ آتی ہوں تو پھر آپکو واک کے لئیے لے چلوں گی۔ "
" فف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر نکلنے کو تھی جب وہ جلدی سے غوں غاں کرنے لگی تھیں۔
" فف۔۔۔۔۔۔۔۔ فا۔۔۔۔۔ "
اس نے مڑ کر دیکھا۔
انہوں نے اپنا لرزتا کانپتا ہاتھ فالج زدہ ہاتھ سے جوڑ رکھا تھا۔ اسکے سامنے۔۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہوۓ۔۔۔۔ پشیمانی سے۔۔۔ دکھ سے۔۔۔۔۔
" آپ یہ روز مت کیا کریں۔۔۔۔۔ آپکو یہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ وہ جس کے لئیے میں آپ سے خفا ہوتی، وہ جس کے لئیے آپ مجھ سے نفرت کرتیں، وہ تو چلا گیا۔۔۔۔ اب کیا فائدہ ناراض ہونے کا یا معافی مانگنے کا۔۔۔۔۔ آپ یہ روز مت کیا کریں۔۔۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر کمرے سے نکلنے کو تھی۔ کچھ خیال آنے پہ اس نے دہلیز میں رک کر، پلٹ کر دیکھا تھا۔
وہ ڈبڈباتی نظروں سے، بھیگی انکھوں سے، سامنے دیوار پہ لگی اس تصویر کو دیکھ رہی تھیں۔
فاطمہ اور بلال۔۔۔۔ ساتھ ساتھ۔۔۔۔ پاس پاس۔۔۔۔ مسکراتے ہوۓ۔۔۔۔۔
اس نے لمبی سانس بھری تھی۔ انہیں اب ہمیشہ تک، ہر روز، ہر وقت وہ تصویر دیکھنا تھی۔ کہنے کو کتنی آسان سی سزا تھی۔ سوچتے تو اسکے برابر کی سزا دنیا میں کوئی نہیں تھی۔ 
وہ کمرے سے نکل آئ تھی۔ دور کہیں مغرب کی اذان کی صدا بلند ہوئی تھی۔
" اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر "
مسجد کے اونچے میناروں سے خدا کے خلیفہ نے گواہی دی تھی۔ وہ ایک اقرار تھا کہ ہاں میں مانتا ہوں کہ سب سے اکبر تو بس میرا رب ہی ہے۔ وہ ایک اعلان تھا ان سب کے لئیے جو اپنی اپنی ذات میں اکبر بنے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔
نہیں تم نہیں۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔ تم تو جھوٹ کو مفروضہ مانے ہوۓ ہو۔۔۔۔۔ میں بتاؤں سچ کیا ہے ؟؟؟؟
" اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد


Post a Comment

0 Comments