Khuwabon Ka Shehar by Zehra Sheikh Complete Pdf Novel

Khuwabon Ka Shehar by Zehra Sheikh Novel

Khuwabon Ka Shehar by Zehra Sheikh Complete Pdf Novel.

Forced Nikah Based Romantic Novel in Pdf. Download Urdu Novel Pdf and Online Reading.

تمہارا کام ہوگیا سب کو پتا چل گیا ہے تم شادی کر لی ہے اب مجھے طلاق دو اور جانے دو۔ یہ سن کر عثمان کے ہاتھ رک گئے وہ اسے دیکھنے لگا۔

کسی کو مت بتانا ہماری طلاق ہوگئی ہے۔ وہ جیسے کسی چھوٹے بچے کو صلاح دے رہی ہو۔

ٹھیک ہے دے دیں گے۔ تم اپنا مہر والا نیکلیس پہن لو تم پر اچھا لگتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہہ کر چلا گیا۔

مطلب وہ مجھے طلاق دے دے گا پھر میں حسن سے شادی کر لوں گی۔ کیا مجھے اسے بتانا چاہے میرے ساتھ کیا ہوا؟ سوچ کر حسن کو فون لگانے لگی لیکِن فون ریسیو نہیں ہوا۔

شام کو وہ لان میں بیٹھی تھی اس نے مہر والا نیکلیس پہن لیا تھا۔ اجنبی نمبر سے اس کا فون بجنے لگا وہ جلدی سے فون ریسیو کی۔

ہیلو 

ہیلو! جی آپ سارہ رئیس بات کر رہی ہیں؟ ایک لمحے کے لیے وہ خاموش رہی پھر "جی!" کہا۔


میں لکھنؤ سے راکیش چودھری بات کر رہا ہوں۔ آپ کے شوہر نے مجھے آپ کا گھر بیچا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق سامان پہنچا دیا ہے اور سارے ڈاکومینٹ بھی کلیر ہوگئے ہیں۔ اور آپ کے شوہر کے اکاؤنٹ میں پیسہ بھی ٹرانسفر کردیا ہے آپ ان کو اطلاع کر دیجئے گا ان کا فون نہیں لگ رہا ہے۔ وہ ساکت بیٹھی سن رہی تھی۔

مو۔۔ مجھے نہیں پتہ اس بارے میں۔۔ نہیں بیچنا مجھے گھر، آپ سارا سامان واپس کریے اور اپنا پیسہ بھی لے لیجیے۔ وہ رک رک کر کہے رہی تھی۔

سوری میم! اب گھر میرے نام ہوچکا ہے پیسے بھی دے دیے ہے آپ اپنے شوہر سے بات کر لئے گا۔ اوکے کہہ کر فون کٹ کر دیا۔

ہا۔ ہیلو۔۔ جواب نہ ملنے پر فون رکھ دی۔

وہ غصے سے سرخ ہوگئی تھی وہی بیٹھے عثمان کا انتظار کر رہی تھی۔ کچھ دیر میں عثمان سیاہ مرسڈیز لیے گیٹ میں داخل ہوا کار پارک کرکے وہ سارہ کی طرف مسکراتا ہوا آیا اس کے ہاتھ میں کچھ پیپرز بھی تھے۔

کیم چھو؟ (کیسی ہو؟) کہہ کر پیپرز میز پر رکھ دئے اور صوفے پر عادتاً ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا۔ سارہ کو سمجھ نہیں آیا اور نہ ہی وہ سمجھنا چاہتی تھی کہ اس نے کیا کہا۔ اسے بہت غصہ آرہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا پاس میں رکھے گملے سے اس کا سر پھوڑ دے۔ وہ کھڑی ہوگئی۔

تم نے کیوں کیا ایسا؟ کیوں بیچا میرا گھر؟ وہ غرّاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس کی غرّاہٹی آنکھیں خوفناک لگ رہی تھی کوئی اور ہوتا تو شاید وہ ڈر جاتا لیکن وہ تو داڑھی پر انگلیوں سے ٹیک لگائے اسی طرح صوفے پر اطمینان سے بیٹھا تھا۔

کیونکہ تمہیں اس گھر کی ضرورت نہیں تھی۔ خالی تھا تو میں نے بیچ دیا۔ یہ ہے نہ تمہارا گھر۔۔ ہاتھ کے اشاروں سے کہا۔ اس جملے نے اس کا خون اور کھولا دیا۔

تم ہوتے کون ہو بیچنے والے؟ تمہیں نہیں لگا مجھ سے پوچھ لینا چاہیے؟

نہیں! میں تمہارا شوہر ہوں مجھے نہیں لگا تم سے پوچھنا چاہیے۔ بھوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔

Post a Comment

0 Comments