Socha Na Tha by Bint e Khursheed Complete Novel

 Socha Na Tha by Bint e Khursheed Novel.

Socha Na Tha by Bint e Khursheed Novel.

A horror story. Family Based, Rude Hero and Innocent Heroine based New Urdu Novels.

یہاں آکر بہت عجیب فیل ہورہا ہے مجھے۔۔!!! ویسے تو میں ڈرتی ورتی کسی سے نہیں مگر میں سوچتی ہوں اگر کبھی گھر میں سے کسی کو اکیلا یہاں رہنا پڑے تو وہ رہ لے گا۔اتنے بڑے گھر میں اکیلے۔۔ اس نے پر سوچ انداز میں اوپر چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

رہنا تو مشکل ہے۔۔۔!!! لیکن رہنا پڑتا ہے ہمیں۔۔ اس کے پاس بیٹھی اسکی بھابھی نے اس کی نظروں کے تعاقب ایک نظر دیکھ کر کہا۔

کیا مطلب آپ رہی ہیں یہاں اکیلی۔۔۔!! اس نے اپنی بھابھی کی بات سن کر حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔

بہت بار۔!!! اب تم جا کر سو جاؤ کافی وقت ہوگیا صبح جلدی اٹھنا ہے۔ تم نے اس ایک مہینے میں اتنا تو جان لیا ہوگا یہاں سب کو صبح جلدی ناشتہ کرنے کی عادت ہے۔ اس کی بھابھی بغیر کسی تاثر کے جواب دے کر کرسی سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ لیکن اسے محسوس ہوا کے کوئی اور بھی انہیں سن رہا ہے۔ چارو اطراف نظریں گھمانے پر بھی جب اسے کوئی نظر نا آیا تو سر جھٹک کر وہ بھی سونے کا سوچتی اندر کی کی جانب بڑھ گئی۔

ہیلو کیسی ہو کب سے کالز کر رہی ہوں تم کال پک کیوں نہیں کر رہی۔!!! وہ جب کمرے میں آئی تو اپنے فون کو رنگ کرتا دیکھ کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔ اپنی کزن پلس بیسٹ فرینڈ رانیہ کی کال دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی اور اس نے کال ایکسپٹ کر کے موبائل کان سے لگایا ہی تھا کہ اسپیکر سے رانیہ کی غصے بھری آواز نمایا ہوئی۔ 

ارے آرام سے ۔!!! میں بھابھی کے ساتھ تھی باہر اور موبائل کمرے میں تھا۔ اس لیے کال پک نہیں کی اور میں ٹھیک ہوں۔ تم لوگ کیسی ہو۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔

ہم بھی ٹھیک ہیں ۔!! کیسے گزر رہے ہیں وہاں تمہارے دن اور رات۔ رانیہ نے اپنے پاس کھڑی اپنی بہن کنزا کو دیکھ کر پوچھا۔

اچھے۔!!!! مگر تم لوگ بہت یاد آتی ہو۔!!! اس نے اداسی سے کہا۔

ہمیں بھی تم بہت یاد آتی ہو۔!!! تمہارے گھر جانے کو دل نہیں کرتا کیوں کہ اب وہاں تم نہیں ہو نا۔ رانیہ نے بھی اس کے انداز میں کہا۔

ہیلو تم لوگو کی آواز نہیں آرہی۔!!! ہیلو ہیلو۔۔ کدھر مر گئی ہو یار۔۔ ایک دم سے جب ان کے آواز آنا بند ہوئی تو اس نے ہیلو ہیلو کرتے جھنجھلا کر فون کان سے ہٹایا۔ 

ایک تو یہاں سگنل ہی نہیں ۔!! اب کہاں جا کر بات کروں میں۔ اس نے چڑ کر کہا جب سے آئی تھی اس سگنل والے مسئلے سے بہت پریشان تھی۔

چھت پر جاتی ہوں۔!!! لیکن اس وقت جانا ٹھیک ہوگا۔ اس نے چھت پر جانے کا سوچا۔ جب کہ گھڑی پر نظر ڈال کر اسے چھت پر جانا مناسب نا لگا کیوں کہ گھڑی رات کا 1 بجا رہی تھی۔ پھر کچھ سوچ کر اپنی شال لے کر پاؤں میں جوتے پہنتی وہ کمرے سے نکل گئی۔ سب اس وقت سو چکے تھے دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں گاؤں کے لوگ شام کو ہی اپنے اپنے گھروں میں بند ہوجاتے شدید سردی کی وجہ سے جلدی کھا پی کر سونے کے لیے بستروں میں گھس جاتے۔

ایک تو اتنی ٹھنڈ اوپر سے اتنا اندھیرا۔ اس نے اپنی شال کو اچھے سے لپیٹے ہوئے تھرتھراتے لبوں سے کہا۔ 

ہیلو ۔!!! اب بات کرو۔ کمرے میں سگنل کا مسئلہ تھا تو اس لیے چھت پر آگئی میں۔ اس نے پھر سے کال کی رانیہ کے کال پک کرتے اس نے کہا۔

اکیلی آگئی تم چھت پر ۔۔!!! رانیہ نے حیرت سے کہا۔ 

ہاں۔!! اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات تھی۔ اس نے کہا۔ پھر باتوں میں مصروف ہوگئی۔

اچھا چلو ٹھیک ہے اللہ حافظ۔۔!! صبح بات ہوگی۔ اسے کچھ محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے پیچھے آرہا ہے اس نے رانیہ سے کہہ کر کال کاٹ دی۔ جب اس نے فون کان سے ہٹایا تو قدموں کی آواز اور تیز آنے لگی۔ ایک پل کے لیے وہ کانپ کر رہ گئی اسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ اسے اکیلے نہیں آنا چاہیے تھا چھت پر۔۔ جب وہ آواز اس کے پاس آکر کر رک گئی اور کسی کے گہرے گہرے سانس لینے کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تو اس نے ہمت کر کے پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہا۔ آہستہ آہستہ پیچھے مڑی۔

اپنے سامنے کا منظر دیکھ کر اسے اپنے ہاتھ پاؤں سن ہوتے محسوس ہوئے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ ہونٹ کانپنے لگے شدید ٹھنڈ میں بھی اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں۔ ڈر و خوف سے اپنے دل پر ہاتھ رکھتی وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی۔

Post a Comment

0 Comments