Paband e Salasal by Uzma Ahmad Novel

 Paband e Salasal by Uzma Ahmad Novel

Paband e Salasal by Uzma Ahmad Novel

Second Marriage and Family Based New Urdu Novel.

رشنہ اگر برا نہ مانو تو ایک کپ چائے ہی بنا دو، شاہنور کو جب تک میں پکڑ لیتا ہوں۔ رمیز منت کے لہجے میں بولا۔

وہ مکار عورت کہاں ہے کہ اسوقت میری یاد آگئی، حیرت ہے۔ رشنہ پھر سوچ میں تھی۔

ارے کیا سوچنے لگیں۔ رمیز نے رشنہ کے چہرے کے سامنے ہاتھ لہرایا۔

جی بنا رہی اور شاہنور کو رمیز کی گود میں دیتے رمیز کے ہاتھ پہ رشنہ کا ہاتھ چھوگیا۔ کوئی احساس نہیں جاگا، وہ چپ چاپ کچن کی طرف چلی آئی اور اگلے دس منٹ میں چائے کا مگ رمیز کے ہاتھ میں دیا اور سوئی ہوئی شاہنور کو گود سے لے کر اسے بیڈ پہ لٹا دیا۔ مگر بیڈ پہ لگتے ہی شاہنور صاحبہ پھرسے جاگ گئیں۔

مطلب بابا کی گود میں ہی رہنا تھا گڑیا رانی کو۔ رمیز مسکراتے ہوئے چائے کا مگ لئے چل دیا، ایک نگاہ رشنہ پہ ڈالی۔

کس قدر سوگوار سا چہرہ تھا۔ اس کی آنکھیں کئی رت جگوں کا پیغام دیتی تھیں۔ اس کی ناک سردی سے سرخ ہوئی جاتی تھی۔ گوری رنگت پیلی دکھتی تھی۔

دل پہ بوجھ لئے رمیز اپنے روم کی طرف چل دیا تھا۔ لاکھ چاہا تھا کہ وہ رات شاہنور کو گود میں لئے گزار دے مگر خود کے کئے گئے کچھ غلط فیصلے ہم کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔

آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ آپ سمجھے میں سو گئی، مجھے پتہ ہی نہیں چلے گا۔ جائیں۔۔ واپس کیوں آئے۔۔ رہیں اس کے کمرے میں۔۔ سچ کیوں نہیں کہتے مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔اولاد کی خوشی نہیں دے سکی نہ میں، اسی لئے اب چھبنے لگی ہوں۔ اگر وہ اتنی ہی عزیز تھی تو مجھے کیوں لائے بیاہ کر۔ ایمن برابر چیخ رہی تھی۔

ایمن کچھ تو خیال کرو، رات کا وقت ہے آواز دور تک جاتی ہے کیوں اتنی سی بات کا بتنگڑ بناتی ہو، رشنہ میری بیوی ہے اس کے کمرے میں جانا کوئی گناہ کا کام نہیں۔ آئی سمجھ اور اس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ بھی وقت گزاروں۔

جانے کس مٹی کی بنی ہو، منفی سوچتی ہو اور فضول میں فساد کرتی ہو۔ بس کرو، سونو پہ برا اثر پڑتا ہے تمہارے یوں چلانے سے۔ رمیز سمجھانے کے انداز میں بولا۔

رمیز مجھے برداشت نہیں کہ آپ اس کے کمرے میں جاؤ، مجھے نہیں پتہ حق وق کا، میں آپ کو شئیر نہیں کر سکتی۔ بس کہہ دیا میں نے۔ ایمن بولی۔

اچھا۔۔ بہتر ہے، سو جاؤ رات بہت ہو گئی۔ رمیز نے بات ختم کرنا چاہی۔

نہیں، پہلے وعدہ کریں رشنہ سے بات نہیں کریں گے۔ ایمن اب تک لڑنے کے موڈ میں تھی۔

ایمن مجھے معاف کیوں نہیں کر دیتیں، صبح آفس جانا ہے اور رات تمہارے طعنے تشنے سنوں۔ رمیز دانت دباتے بولا۔

دعا کریں میں مر ہی جاؤ تاکہ آپ آزاد ہو جاؤ۔ ایمن نے تکیہ لیا اور صوفے پہ لیٹ گئی۔ 

Post a Comment

1 Comments

Thanks for feedback