Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 23.
سب باسل کے اتنے پر سکون لہجے میں بولنے پر حیران تھے۔ جبکہ وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے دانیہ کے قریب آیا تھا۔ اور سب کو دیکھتے بولا تھا۔ یہ میری امانت ہے بہت جلد ایسے یہاں سے آکر لے کر جاؤں گا اور جس کو مئسلہ ہے وہ مئسلہ اپنے تک ہی محدود رکھے باسل یہ کہتے جانے ہی لگا تھا لیکن دانیہ کو دیکھ روکا تھا۔ اس کے قریب جاتے اپنے لب اسکے سر پر رکھے دور ہٹا تھا۔ اور سب کو اگنور کئے باہر کے جانب قدم بڑھا گیا تھا۔ جبکہ دانیہ تو شرم کے مارے کسی سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی سب ہی وہاں حیران تھے باسل کے اس عمل پر ...! ساحر کا بس نہیں چل رہا تھا وہ زور زور سے ہنسے اور وہاں کھڑے سب لوگ ایسے کھڑے تھے جیسے کوئی جن یا بھوت دیکھ لیا ہوں باسل بھائی چلے گئی ہیں..! عنادل نے سب کو واپس اپنی پرانی حالت میں آنے کو بولا تھا براق تو عش عش کر اٹھا تھا باسل کی بہادری پر ایمان تو بیٹھے رونے ہی لگی تھی۔
عنادل ایمان کو روتے دیکھ بولی تھی۔ کیا ہو ایمان ٹھیک ہو طبیعت ٹھیک نہیں ہے ...؟ عنادل کی آواز پر براق سمیت سب ایمان کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔ کتنا پیار کرتا ہے نا باسل دانیہ سے ...! وہ سوں سوں کرتے بولی تھی۔ عنادل ایمان کی بات سمجھنے کی کوشش میں تھی آخر وہ کہنا کیا چاہ رہی ہے۔ میں کبھی بات نہیں کروں گی کاشان سے بلکہ میں بہت دور چلی جاؤں گی جہاں وہ مجھے میرے وجود کو کہی ڈھونڈ ہی نا پائے میں اسکی زندگی سے بہت دور چلی جاؤں گی آپ اس کو بس یہ بول دیں مجھے اس رشتے سے آزاد کردے مجھے اب یہ رشتہ اور قائم نہیں رکھنا ایمان روتے ہوئے بولتی صوفے سے کھڑے ہوتے اپنے کمرے کی جانب رخ کر گئی تھی جبکہ عنادل اور براق ایک دوسرے کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ عنادل نے آنکھوں ہی آنکھوں میں براق کو تسلی دی تھی۔ ساحر بھی حیران تھا۔ یہ سب ہو کیا رہا جبکہ حلیمہ بیگم اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ ٹوٹ رہی تھی۔ دانیہ اپنے کمرے میں جاتے ہی بند ہوگئی تھی۔
شاہنواز چودھری جو اس خاندان کو اجاڑنے کا سوچ رہے تھے لیکن یہاں تو باسل نے یہ کام ممکن سے نا ممکن بنا دیا تھا۔ وہ الجھ چکے تھے اب ان کے پاس اور کوئی راستہ بچا ہی نا تھا بس ان کی انا تھی جو ختم نہیں ہورہی تھی وہ اپنی انا کے چکر میں سب کچھ برباد کرنا چاہتے تھے۔ لیکن شاید اب باسل اور ساحر کے ہوتے ہوئے یہ نا ممکن ہوگا براق نے عنادل سے معافی مانگ لی تھی وہ جانتا تھا اس نے غلط کیا لیکن اس کے ایسا کرنے سے وہ تین لڑکے پکڑے گئے تھے بس اب ان سے اعتراف کروانا تھا ان کے جرم کا ...!
باسل حویلی میں داخل ہوتے ہی سب کو لاونج میں موجود دیکھ بولا تھا۔ خیر تو ہیں آج سب یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ...؟؟ اور آج تو بڑے بڑے لوگ یہاں پر موجود ہیں باسل کاشان کو دیکھتے ایک ایک لفظ چبا کر بولا تھا۔ نزاکت صاحب بولے تھے کیوں نہیں بیٹھنا چاہئیے آج کتنے دنوں بعد سب ساتھ بیٹھے ہیں ...! نہیں بیٹھ سکتے ہیں میں منع تو نہیں کیا باسل ہڑبڑاہ کر بولا تھا۔ اچھا آپ سب کو ایک بات بتانی ہے ..!! باسل نے بات کی شروعات کی تھی وہ چاہتا تھا آج سب کو پتا لگ ہی جائے دانیہ سے وہ نکاح کر چکا ہے اور زیادہ دن ان سب سے چھپانا اس کو ٹھیک بھی نہیں لگ رہا تھا۔
کہو..!! جمشید علی کی روعبدار آواز پر باسل کچھ پل روک کر بولا تھا۔ میں نے دانیہ سے نکاح کر لیا ہے۔ کلثوم بیگم تو اتنے بڑے انکشاف پر باسل کو دیکھے گئی تھی۔ کیا مطلب ...!!! کاشان ایک دم سیدھے ہوکر اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھ بولا تھا۔ مطلب جس دن دانیہ غائب ہوئی تھی اس دن وہ میرے پاس تھی اور اس دن میں نے اس سے نکاح کیا تھا وہ میری پسند ہے کسی کو کوئی مئسلہ ہے باسل نے سب پر نظریں ٹکائے پوچھا تھا۔ جمشید علی بولے تھے لیکن وہ لوگ مان گئے کیا..؟؟ باسل سمجھا تھا یہاں بھی کوئی روکاوٹ ہوگی لیکن جمشید علی کی بات اس کی سوچ کے بر عکس تھی۔ ان سب کو میں بتا چکا ہوں ابھی وہی سے آرہا ہوں اب اپنی محبت کو خطرے میں پڑتے تو نہیں دیکھ سکتا تھا نا ...! وہاں دانیہ میڈم کے رشتے ڈھونڈے جارہے تھے میں نے جاکر وہاں سب کو کہہ دیا۔ نکاح کے اوپر نکاح جائز تھوڑی ہے اور دانیہ میرے نکاح میں ہے اور تو اور یہ بھی کہہ کر آیا ہوں اُس حویلی کا دوسرا داماد ہوں میں..! کسی کو کوئی مئسلہ ہے سب ایک دم خاموشی سے مجھے دیکھ رہے تھے باسل نے ایک ایک بات ان کو بتائی تھی۔ جمشید علی ستائشگی بھری نظروں دیکھ باسل کے قریب آئے تھے اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے اس کو شاباشی دے رہے تھے ہوں نا آخر تم خان حویلی کا خون ...!! جمشید علی کی طرف داری پر نزاکت صاحب اور کلثوم بیگم کیا خاک کچھ بولتے وہ بھی خوش تھے۔
باسل کی پسند کو وہ مان گئے تھے حور بھی بہت خوش تھی یعنی دانیہ میڈم اسکی بھابھی ہیں اب سے..! لیکن دوسری طرف وہ ایمان کے لئے پریشان بھی تھی۔ کچھ دیر بعد ایسا ماحول تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو ..!!حور حویلی سے نکلتے آج اسی باغ میں گئی تھی جہاں وہ پہلے بیٹھا کرتی تھی۔ ساحر جو وہی سے گزر رہا تھا حور کو اکیلے بیٹھے دیکھ اس کے قدم خود ہی اس جانب بڑھے تھے ساحر باغ میں آتے ہی اسکے پیچھے کھڑا ہوا تھا جو بیٹھے آسمان پر جانے کیا دیکھ رہی تھی۔ کیا دیکھنے کی کوشش کر رہی ہو..؟ حور ساحر کی آواز اپنے پیچھے سے آتے دیکھ کھڑی ہوئی تھی اور اسکو دیکھنے لگی جو مسکرا کر اسی کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ نہیں ..! حور نے دھیمی آواز میں جواب دیا تھا۔ ساحر آگے آتے بینچ پر بیٹھا تھا بیٹھ جاؤ..! ساحر نے اس کو بیٹھنے کو کہا تھا۔ نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں .. پاؤں درد ہو جائے گے کتنی دیر ایسے ہی کھڑی رہوں گی...! ساحر نے فکرمندی سے سوال کیا تھا میں بس جانے ہی لگی ہوں آپ بیٹھ جائے اِدھر ... حور وہاں سے جانے کے لئے موڑی تھی ساحر نے اس کے ہاتھ کو پکڑے اس کو روکا تھا اور خود اس کے عین سامنے آئے کھڑا ہوا تھا۔
حور اپنے نظریں ادھر اُدھر گھما رہی تھی وہ ساحر کی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔ ساحر نے اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے تھے حور ساحر کو خود کے قریب آتے دیکھ پیچھے کی جانب اپنے قدم لینے لگی تھی۔ ساحر کے چہرے پر حور کی اس حرکت کو دیکھ مسکراہٹ آئی تھی جو وہ بڑی مہارت سے چھپا گیا تھا۔ کتنے اور دن مجھ سے دور رہنے کا ارادہ ہے کتنے اور دن یوں ہی چھپنے کا کھیل جاری رکھنا ہے۔ میں تو سوچ رہا ہوں باسل کی طرح میں بھی تم سے نکاح کرلو کاشان نے ایک حل نکالا تھا۔ حور ساحر کی بچکانہ باتوں پر اس کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگی تھی ... چلو شکر ہے تم نے اپنی نظروں کو اٹھائے مجھ غریب کو دیکھا تو سہی ویسے اتنا برا نہیں دیکھتا جو تم مجھے دیکھتی بھی نہیں ہو ... ساحر نے شکوہ کیا تھا۔ نہی...نہیں وہ حور نے کچھ کہنا چاہا تھا۔ ہمم...!! وہ آگے ..! ساحر اب اس کے بلکل قریب موجود تھا جبکہ حور اب پیچھے نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ اب وہ ایک درخت کے ساتھ لگی تھی۔
اس دن مجھ سے اظہار کرکے تم نے مجھے اجازت دے دی ہے خود سے پیار کرنے کی اب میں اور روک نہیں سکتا... حور آنکھوں کو پٹپٹائے اسی کو دیکھ رہی تھی۔ ساحر نے دونوں ہاتھ اطراف میں رکھے اسکے راہ فرار کا ہر راستہ بند کیا تھا۔ آپ ... مجھے جانے دیں مجھے حویلی بھی جانا ہے حور پریشان ہوتی بولی تھی۔ یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے حویلی ... ہاں تقریباً پانچ منٹ کی دوری پر..! ساحر نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا تھا۔ اور تمہیں یہاں میرے ساتھ کھڑے پانچ منٹ ہوئے ہیں مشکل سے ..! اور اندھیرا ہونے میں تقریباً ایک گھنٹہ ہے تو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ساحر نے اس کے سارے منصوبے ناکام کئے تھے جو اب حور بنانے والی تھی حور ساحر کو بھپری شیرنی بنے گھور رہی تھی۔
اچھا آپ دور تو ہٹیں حور نے ساحر کو خود سے دور ہونے کو بولا تھا کیونکہ ساحر کے اتنے قریب ہونے سے وہ سانس روکے کھڑی تھی۔ یہ دور رہنے والا کام اب مجھ سے نہیں ہوگا پچھلے کئی سالوں سے تم سے دور ہی ہوں اب تو قریب آنے کا سوچ رہا ہوں ساحر شریر لہجے میں بولتے حور کے ہوش اڑا گیا تھا۔ پر ابھی نہیں حور نے اس کو روکا تھا۔ اچھا تو پھر کب ..؟؟ ساحر نے اس کو اپنی باتوں میں مکمل الجھایا تھا۔ شادی کے بعد ... حور نے شرم سے نظریں جھکائے جواب دیا تھا یعنی لڑکی راضی ہے ساحر نے اپنے انگھوٹھے سے اس کے رخسار کو سہلائے پوچھا تھا حور ساحر کے انگلیوں کے لمس کو اپنے چہرے پر محسوس کئے کپکپائی تھی۔ ساحر اس کے چہرے کے قریب جھکتے اس کے چہرے پر چھائی لالی کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
ساحر تھوڑا اور قریب ہوئے اس کے گال پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ ایک بات بتاؤ میں تمہیں ...؟؟ حور ساحر کو تجسس کے مارے دیکھنے لگی تھی جو بولتے ہوئے ایک دم خاموش ہوا تھا۔ تم پھوپھو بننے والی ہو ساحر نے بڑے تحمل سے اس پر دھماکا کیا تھا کییییا..!!! کیا مطلب میں پھوپھو بننے والی ہوں حور ایک دم چیخی تھی ساحر تو اسکو دیکھتے ہی رہ گیا جو اتنی خوش تھی جیسے کوئی جنگ جیت کر آئی ہو یار ہلکے میرے کان پھٹ گئے ہائے اللّٰہ اگر تم تھوڑا اور زور سے چیختی تو میرے کان سے خون آنا شروع ہو جانا تھا۔ ساحر نے اپنے کان پر ہاتھ رکھے ان کے سلامت ہونے کی تصدیق چاہی تھی۔
یہ کب ہوا اور کاشان بھائی کو پتا ہے ...؟؟ حور نے ساحر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔ نہیں کاشان کو نہیں پتا اور ایمان نے منع کیا ہے کاشان کو کوئی نہیں بتائیں لیکن میں چاہتا ہوں تم کاشان کو بتاؤ ساحر حور سے دور ہٹتے بینچ پر آکر بیٹھا تھا۔ حور اسی پوزیشن میں کھڑی تھی ادھر آجاؤ میں کھا نہیں جاؤں گا ہاں نکاح کے بعد سوچا جاسکتا ہے ساحر زو معنی لہجے میں بولا تھا۔ تو کیا میں بتا دوں کاشان بھائی کو ..؟؟ حور ساحر کے ساتھ بیٹھتے بولی تھی ہمم..!! بتا دو کاشان سے یہ بات چھپانی نہیں چاہئیے ساحر کو یہی ٹھیک لگ رہا تھا۔ ٹھیک ہے میں بات کروں گی حور نے تسلی دی تھی اچھا ٹھیک ہے اب حویلی جاؤ یا میں چھوڑنے آؤ ...!! نہیں میں چلی جاؤں گی حور نے حویلی کی جانب قدم بڑھائے تھے ساحر بھی وہی سے اپنی حویلی کی جانب چل دیا تھا۔ کاشان اپنے کمرے میں موجود بالکونی میں کھڑا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔
تبھی اس کے کمرے کا دروازہ بجا تھا حور اندر آئی تھی کمرے میں آتے ہی کاشان کے ہاتھ میں سگریٹ دیکھ بولی تھی۔ بھائی آپ کب سے سگریٹ پینے لگ گئے..؟؟ کاشان جس کو خبر بھی نہیں ہوئی تھی کہ حور اسکے کمرے میں آئی ہے حور کی آواز سنتے جلدی سے سگریٹ کو ایش ٹرے میں ڈالے اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ بھائی آپ تو ایسے نہیں تھے ... حور نے شکوہ کن نظر اس پر ڈالی تھی۔ پہلے حالات بھی ایسے نہیں تھے کاشان نے جزبات سے عاری لہجے میں جواب دیا تھا۔ حالات کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے کوشش تو کریں.. حور اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھے بولی تھی۔ وہ پہلے بھی اس رشتے کو قائم نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اب میں خود اس کو چھوڑ رہا ہوں میں نے ڈائورس پیپر بنانے کے لئے دے دئیے ہیں جیسے ہی پیپرز آئیں گے میں اس حویلی میں پہنچا دوں گا حور ہونک بنے کاشان کی بات سن رہی تھی کچھ دیر ٹھہر کر بولی تھی۔ آپ بابا بننے والے ہیں یہ بات جاننے کے بعد بھی آپ ایمان کو چھوڑ دیں گے حور نے جانچتی نظروں سے دیکھ سوال کیا تھا کاشان نے نظریں اٹھائے حور کو دیکھا تھا۔ کاشان کی نیلی آنکھوں میں حیرت تھی جو حور نے دیکھی تھی میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے بھی آج ہی پتا لگا ہے ...! لیکن مجھے کسی نے کچھ کیوں نہیں بتایا کاشان خفگی بھرے لہجے میں بولا تھا۔ ایمان نے منع کیا تھا سب کو.. آپ کو کچھ نا بتایا جائے ورنہ وہ حویلی چھوڑ کر چلی جائے گی۔ آپ نے بھی تو ان کی بات نہیں سنی یعنی مجھ سے میری ہی بچے کے بارے میں چھپایا جا رہا ہے کاشان کو غصہ آیا تھا۔ میری ایک بات مانیں گے حور نے لاڈ سے پوچھا تھا۔
ہمم کہو ..!! کاشان نرم لہجے میں بولا تھا۔ ایک دفعہ ایمان سے بات کریں آپ.. !! کیا پتا جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ نا ہو آپ نے بھی تو آدھی ادھوری بات سنی تھی۔ کاشان خاموش ہوا تھا۔ آپ اِس بات کے بارے میں سوچئے کا ضرور حور اسکو گہری سوچ میں چھوڑ کمرے سے نکلتی چلی گئی تھی کاشان لمبی سانس ہوا کے سپرد کرتے اپنے دماغ کو پر سکون کرنے کی کوشش میں تھا اگر حور اسکو نہیں بتاتی تو وہ کتنی بڑی غلطی کرنے لگا تھا۔ ایمان کمرے میں بند تھی اب وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑے اوپر آسمان میں جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔ موبائل کے بجنے پر اس کا سحر ٹوٹا تھا۔ اس نے اپنا رخ موڑے بیڈ پر موبائل کو بجتے دیکھ اگنور کیا تھا۔ لیکن مقابل انسان کافی ڈھیٹ تھا جو موبائل پر ہاتھ رکھے ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے قدم بیڈ کے جانب بڑھائے تھے۔ موبائل پر جگمگاتے کاشان کے نام کو دیکھ اس کے آنکھوں میں پانی بھرنے لگا تھا۔ لیکن اسنے کال نہیں اٹھائی تھی وہ جو اپنے آپ کو مضبوط بنائے رکھ رہی تھی کاشان کی کال دیکھتے ہی ٹوٹ گئی تھی۔ اس میں ہمت ہی نہیں تھی اس سے بات کرنے کی یا پھر شاید وہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کاشان نے کچھ میسجز بھیجے تھے ایمان جو ہاتھ میں موبائل لئے بیٹھی ہوئی تھی اس میں آتے کاشان کے میسجز اس نے دیکھے تھے۔ کال اٹھاؤ ...!!! مجھے تم سے بات کرنی ہے..! اس نے میسج بھی ایسے لکھا تھا جیسے حکم دے رہا ہو .. اب کی بار پھر کال آئی تھی۔ ایمان نے اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے کال اٹھاتے موبائل کان سے لگایا تھا۔ دونوں طرف مکمل خاموشی تھی۔ ایمان اپنی ہچکیوں کا گلا گھونٹے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ طویل خاموشی کے بعد کاشان بولا تھا۔
مجھ سے میرے بچے کے بارے میں چھپانے کا سوچا بھی کیسے تم نے .....؟؟ کاشان کے لہجہ برف کی مانند سرد تھا۔ ایمان حیران تھی جب اسنے سب کو منع کیا تھا کاشان کو کچھ نا بتایا جائے تو کس نے بتایا کاشان کو ...!! آپ کو اس سے کیا میں جو بھی کروں میں اس بچے کو رکھو یا پھر مار دوں آپ ہوتے کون ہیں مجھ سے سوال کرنے والے ایمان غصے سے پھٹ پڑی تھی یا پھر شاید چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی۔ تم سے سارے سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں میں کاشان نے یاد دلایا تھا۔ کونسا حق جس دن مجھے آپ اس حویلی میں چھوڑ کر گئے تھے اس دن آپ اپنے سارے حق مجھ پر کھو چکے ہیں ایمان نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بتایا تھا یہ بات ہے تو ٹھیک ہے میں کل آؤں گا تمہیں لینے شاید تب مجھے میرے سارے حق تم پر مل جائے کاشان کا لہجہ سنجیدہ تھا۔ آپ نے خود کو سمجھا کیا ہے میں آپ کے ساتھ نہیں آؤں گی ...! آپ کا یہاں آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے میں ویسے بھی ایکٹنگ کرنے میں ماہر ہوں کہی پھر کوئی کھیل نا کھیلوں یا پھر شاید یہ بچا آپ کا ہو ہی بس خاموش..!! بہت بول لیا تمہارے کردار کا گواہ ہوں میں اپنے خود کے کردار پر تم خود بھی انگلی نہیں اٹھا سکتی آئی بات سمجھ کاشان کے گرجدار آواز سنتے اسکے منہ پر تالا لگا تھا۔ آج کے بعد تمہارے منہ سے میں نے ایسی گھٹیا بات سنی تو اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گا اور دفن کر دوں گا.... آپ کو اتنا برا کیوں لگ رہا ہے .. میں نے اپنے آپ کو ہی کہا ہے... اچھا ویسے کب چھوڑ رہے ہیں مجھے ..؟؟ایمان جیسے کاشان کا ضبط آزما رہی تھی۔
اب تو مر کر بھی نہیں چھوڑوں گا آرہا ہوں کل تمہیں لینے تیار رہنا پھر بتاؤں گا یہ بچا اور تمہاری جان کس کی امانت ہے تمہاری چلتی سانسیں تمہاری چلتی دھڑکن تمہارا وجود سب کچھ کاشان خان کا ہے اس نے یہ کہتے ہی کال کاٹ دی تھی ایمان تو موبائل کو گھور رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوتی کمرے سے باہر نکلی تھی۔ وہ غصے سے زور سے چیخی تھی۔ کس نے بتایا کاشان کو..؟؟ ساحر سمجھ گیا تھا وہ کس بارے میں بات کر رہی ہے۔ سب اسکو یوں غصے میں دیکھ کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے بتایا ہے ساحر آگے آتے بولا تھا۔ لیکن کیوں..؟؟ ایمان ہارے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔ اچھا تو کیا کرتا تمہیں یوں ہی روتے اس کے لئے تڑپتے ہوئے دیکھتا ساحر نے خونخوار نظریں اس پر گاڑھی تھی۔ لیکن مجھے نہیں رہنا ان کے ساتھ ایمان سوں سوں کرتے بولی تھی براق ایمان کے قریب آتے اس کو اپنے حصار میں لئے ساحر کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتے خود بولا تھا۔ ایک بات کا جواب دو گی براق نے نرم لہجے میں پوچھا تھا۔ ہمم...! ایمان نے نظریں اٹھائے روئی روئی آنکھوں سے براق کو دیکھا تھا اسکے بغیر رہ لو گی ...!! اس کے بغیر اپنی پوری زندگی کیسے گزاروں گی چلو اپنا چھوڑوں اس بچے کو کیا بتاؤ گی جب یہ پوچھے گا کہ میرا باپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آتا تو کیا جواب دوں گی کہ تم نے خود اس کو چھوڑ دیا۔
براق کے باتیں سنتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی میں اسکے ساتھ چلی جاؤ گی لیکن میں اس سے کبھی بات نہیں کروں گی ایمان ضدی لہجے میں بولی تھی۔ براق نے اسے اپنے سینے سے لگائے اس کو ریلکس کیا تھا وہ جانتا تھا ایمان ابھی ایسا کہہ رہی ہے لیکن کاشان اس کو منا لے گا.. شاہنواز چودھری حیران تھے براق کو تو کچھ بھی یاد نا تھا تو اسکو کیسے پتا کاشان نے اس کو چھوڑنے کی دھمکی دی ہے وہ عجیب کشمکش میں تھے عنادل ایمان کو اس کے کمرے تک چھوڑ کر آئی تھی۔ ایمان اپنے بیڈ پر آنکھیں موندے بیٹھی ہوئی تھی جبکہ آنکھوں سے آنسوں جاری تھے براق تمہیں سب یاد ہے..؟؟ شاہنواز چودھری نے براق کے قریب آتے روعبدار آواز میں سوال کیا تھا اتنے میں کاشان ان تین لڑکوں کو لئے اپنے آدمیوں کے ساتھ حویلی میں داخل ہوا تھا۔ براق کی نظر کاشان کے ساتھ ان تینوں لڑکوں پر پڑی تھی جن کے حالت بہت خراب تھی اتنے دنوں سے ان کو بھوکا پیاسا رکھا گیا تھا۔
براق نے کاشان کو کال کردی تھی کاشان جس کی کال پر ایمان سے بات ہوئی تھی اس سے پہلے وہ براق سے بات کر چکا تھا۔ شاہنواز چودھری کاشان کو حویلی میں موجود دیکھ حیران ہوئے تھے اور اس کے پیچھے تین لڑکوں کو دیکھ پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے آپ ان کو نہیں پہچانتے کیونکہ یہ وہی لوگ ہے جنہوں نے صائم پر گولی چلانے کی کوشش کی تھی اور کاشان نے صائم کو بچانا چاہا تھا پر بد قسمتی سے کاشان کی گن سے نکلی گولی صائم کو لگ گئی اور یہ تینوں اپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں بس آپ کے سامنے ان کو لانا تھا آپ کو بتانا تھا کہ اب اور کسی کی زندگی برباد نا کریں سب کو سکون سے رہنے دیں براق نے ملامتی نظروں دیکھ ان تینوں لڑکوں کو شاہنواز چودھری کے آگے کھڑا کیا تھا۔
اب بتاؤ کیوں مارنا چاہتے تھے تم صائم کو ...؟؟؟ کاشان کا پہلا سوال تھا۔ وہ ہمیشہ پوری یونیورسٹی میں سب سے زیادہ قابل اسٹوڈنٹ رہا ہے کاشان کا تھپڑ زور سے لگا تھا جو سلیم کے گال پر نشان چھوڑ گیا تھا۔ اس وجہ سے تم نے صائم کو مارنا چاہا تھا صرف اتنی چھوٹی سی بات پر مار کر تمہیں کیا ملا..؟؟ کاشان کی آنکھوں میں خون اتار تھا جبکہ شاہنواز چودھری ہونک بنے سب کچھ دیکھ رہے تھے حلیمہ بیگم کی آنکھوں میں پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا عباس صاحب بھی وہی کھڑے تھے۔ عنادل براق سے تھوڑی دور کھڑی تھی۔ وہ ہمیشہ ہم سے آگے رہتا تھا ہمیں ایسا محسوس کرواتا تھا جیسے ہم اسکے سامنے کچھ نہیں ہے کوئی حیثیت ہی نہیں ہماری..!! سلیم نے تڑپتا ہوا لہجہ اپنایا تھا۔ اس کو ایسا کرنے سے کیا ملتا جبکہ وہ تو خود تمہیں یہ گاؤں دیکھانے کے لئے لایا تھا۔ کاشان کا ایک اور تھپڑ سلیم کو ہلا کر رکھ گیا تھا۔ ہم سے غلطی ہوگئی بلکہ مجھ سے غلطی ہوگئی کہ میں نفرت میں اس کو مارنے چلا تھا پر مجھے اسکی سزا مل چکی ہے میری بہن کو کینسر ہے وہ ابھی ہسپتال میں ہے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا میں تمہاری قید میں ہوں لیکن میری بہن کے پاس میرے علاؤہ اور کوئی نہیں ہے سلیم روتے بلکتے ہوئے بولا لیکر آجاؤ اسے کاشان نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے آدمیوں کو حکم دیا تھا چھوٹے چھوٹے قدم لئے اس کی بہن وہاں آئی تھی۔ سلیم اپنی بہن کو دیکھ حیران تھا اس ایک مہینے میں تمہاری بہن کا علاج اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے کروایا ہے جو اس حویلی بلکہ جس کے بھائی کو تم نے مارنا چاہا تھا اس کے بھائی نے ہی کیا ہے ساحر عباس علی چودھری صائم تو ڈاکٹر نہیں بن پایا لیکن اس کے بھائی ڈاکٹر ساحر عباس علی چودھری نے تمہاری بہن کی جان بچائی ہے۔
کاشان نے زخمی نگاہوں سے گھور سلیم کو اس کی ہی نظروں میں گرا دیا تھا میں کون ہوتا ہوں تمہیں کوئی سزا دینے والا میرا کام ہوگیا ہے جاؤ میں نے تمہیں آزاد کیا میں چاہتا تو تمہیں ابھی سب کے سامنے مار ڈالتا لیکن میں اتنا بے حسی نہیں ہوں جو دوسروں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیں جاؤ ابھی ادھر سے اب مجھے میرے سامنے نظر نا آنا میں نہیں چاہتا تمہیں دیکھ کر میں اپنی بات سے مقر جاؤں تینوں حویلی سے باہر نکلے تھے براق شاہنواز چودھری کے جھکے سر کو دیکھے بولے تھے۔ آپ کو میں شروع سے کہتا تھا آپ چار زندگیوں کو خراب کر رہے ہیں ایسا نا کریں لیکن آپ نہیں مانیں کاشان جو حویلی سے جانے ہی لگا تھا براق کی اگلی بات پر اس کے قدم روکے تھے۔ ایمان کی کیا غلطی تھی مجھے بتاؤ..؟؟ براق خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔ کاشان اس لئے روکا تھا وہ جان گیا تھا یہ سوال اسکے لئے ہی ہے ...! اس نے مجھ سے جھوٹے پیار کا ناٹک کیا صرف ان کے کہنے پر..!! کاشان نے صاف گوئی سے جواب دیا تھا۔ اچھا پر تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ ان کے کہنے پر ہی ایمان نے تم سے اچھا رویہ رکھا ہو براق کو کاشان سے ایسی امید نہیں تھی کہ وہ پوری بات جانے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کرے گا۔ لیکن اس دن میں نے خود ان دونوں کے درمیاں ہونے والی بات سنی تھی...! اچھا پر آگے کیوں نہیں سنا کہ اگر وہ نا بولتے تو بھی ایمان تمہارے لئے جزبات رکھنے لگی تھی براق نے جناچتی نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔ تو کیا وہ مجھ سے محبت کرتی ہے؟؟
کاشان نے لہجے میں بے یقینی لئے پوچھا تھا میں تمہیں سمجھدار سمجھتا تھا لیکن تم تو خود یہ سمجھ نا پائے کہ میری بہن کتنی تکلیف میں ہوگی وہ روتی ہے راتوں کو صرف یہ سوچ سوچ کر کہ تم نے اس کا بھروسہ نہیں کیا اس کی کوئی بھی بات سنیں بغیر اسکو اکیلا کر گئے براق نے شکوہ کن نظر اس پر ڈالی تھی کاشان اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback