Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 22



Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 22.

ایک مہینہ جیسے پر لگا کر گزرا تھا۔ 

براق کی آنکھ کھلی وہ سب سے پہلے فریش ہونے کا ارادہ رکھتا تھا فریش ہوکر کچھ دیر بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑے خود کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بے شک پُر کشش مرد تھا .. اپنے آستینوں کو کہنیوں تک چڑھائے ہاتھ میں گھڑی پہنتے بال کو جیل سے سیٹ کئے گھنی مونچھوں کے ساتھ بیرڈ اس کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھی وہ پچھلے ایک مہینے سے کمرے میں بند بیٹھ کر تھک چکا تھا کوئی بھی اسکو بیڈ سے اٹھنے نہیں دے رہا تھا جبکہ عنادل اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھ رہی تھی اب جب وہ ٹھیک ہوگیا تھا اس نے سب کو کہہ دیا تھا اب وہ کمرے میں بند نہیں رہے گا ایمان بھی پچھلے ایک مہینے سے یہاں ہی موجود تھی۔ 

کاشان اس دن کے بعد اس حویلی میں نہیں آیا تھا نا ہی اس نے ایمان کو کوئی کال کی تھی کاشان اس رات ہی ان تینوں لڑکوں کو ڈھونڈنے نکل گیا تھا اس کے لئے ان تینوں کو ڈھونڈنا بہت مشکل تھا لیکن دو دن بعد اسکو ان تینوں لڑکوں کے بارے میں ایک ایک چیز معلوم ہوگئی تھی اور اب وہ کاشان کے آدمیوں کی قید میں تھے۔ ایمان اس رات کمرے میں ہی بیہوش ہوگئی تھی۔ صبح جب حلیمہ بیگم اسکو بلانے گئی تب کافی دیر دروازہ بجانے کے بعد بھی اسنے دروازہ نا کھولا تو وہ ساحر کے ساتھ اس کے دروازے کو ڈپلیکیٹ چابی سے کھولے اندر داخل ہوئی تھی ۔۔ اسکو یوں زمین پر پڑے دیکھ ساحر نے اس کو بیڈ پر لٹایا تھا اور ڈاکٹر کو کال کی تھی تب ڈاکٹر کے کہنے پر سب اسکا خیال رکھنے لگے تھے کیونکہ ایمان کے بیہوش ہونے کی وجہ جب سے ڈاکٹر نے ان لوگوں کو بتائی تھی وہ سمجھ نہیں پارہے تھے وہ خوشی منائے یا پھر ایمان کے لئے پریشان ہوں جبکہ ایمان کا کہنا تھا کوئی بھی کاشان کو یہ بات نہیں بتائے گا کہ ایک ننھی سے جان اس کے وجود کے ساتھ جڑی ہے ورنہ وہ یہ حویلی چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی۔ ایمان جب بھی اکیلی ہوتی کاشان کو سوچتے یا تو اسکے قربت میں گزارے ہوئے لمحوں کو سوچتے اس کا دن نکلتا تھا۔ دانیہ کی بھی ہر روز باسل سے بات ہونے لگ گئی تھی وہ ہر بار باسل سے یہی پوچھتی تھی سب کو کب بتائیں گے کہ آپ نے مجھ سے نکاح کیا ہے..! اور باسل کا ہر دفعہ یہی کہنا ہوتا بہت جلد..! حور نے اس رات کے بعد ساحر کو کوئی کال نہیں کی تھی اور نا ہی ساحر نے کال کی تھی۔

کلثوم بیگم اب کاشان کو لے کر پریشان رہتی تھی جو صبح کا گھر سے نکلتا تو رات کو دیر سے گھر لوٹتا تھا۔ اس ایک مہینے میں کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ پہلے سب کتنے خوش رہتے تھے۔ اب خوشیاں اس حویلی سے جیسے روٹھ سی گئی تھی۔ 

اب بھی کاشان کافی دیر بعد حویلی آیا تھا داخلی دروازے سے آتے لاونج کو عبور کئے اوپر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ کہا تھے تم ...؟؟ کلثوم بیگم نے سوال کیا تھا کاشان جو آتے ہی اوپر جانے لگا تھا۔ اپنے کان میں پڑتی کلثوم بیگم کے آواز پر روکا تھا۔ اور پلٹ کر ان کو دیکھا تھا جن کا انداز خفگی بھرا تھا۔ ایک ضروری کام سے گیا تھا۔ .. دو لفظی جواب دیا تھا ضروری کام تو تمہارا پچھلے ایک مہینے سے چل رہا ہے ایسا کونسا کام ہے جو ختم ہوکر نہیں دے رہا...؟؟ کلثوم بیگم غصے سے بولی تھی۔ بس ان لوگوں کو ٹھکانے لگانے گیا تھا جن کی وجہ سے آج میری بہن یہ سب بھگت رہی ہے ..! کاشان کا لہجہ برف کی مانند سرد تھا وہ اس طریقے سے بولا تھا جیسے سب کچھ برباد کرنا چاہتا ہو ۔۔ ایمان بھی کسی کی بہن ہے اور تمہاری بیوی ہے اس کو کب لا رہے ہو واپس حویلی ...؟؟ وہ جانتی تھی کاشان کا جواب انکار کی صورت میں ہی ملے گا لیکن وہ جاننا چاہتی تھی آخر کتنے دن وہ ایمان کو خود سے دور رکھے گا اب وہ نہیں آئے گی ..! آپ سب کے لئے بہتر ہے اب اسکا ذکر اس حویلی میں نا کیا جائے۔ ۔۔ وہ یہ کہتے ان کی کوئی بھی بات سنے بغیر کمرے میں چل دیا تھا۔ باسل بھی آخر ان سب چیزوں سے پریشان آگیا تھا دانیہ کے لئے بھی کافی رشتے آئے تھے لیکن دانیہ کوئی نا کوئی بہانا بنا کر انکار کر دیتی لیکن اب تو حلیمہ بیگم نے خاص طور پر اسکو سمجھایا تھا یا یہ کہا جائے دھمکی دی تھی کہ اگر اس بار اسنے کسی لڑکے میں کوئی خرابی نکالی تو وہ اس سے پوچھے بغیر اسکی شادی کروا دیں گی دانیہ کبھی کسی لڑکے کی ناک کو چھوٹا کر دیتی کبھی لڑکے کو زیادہ موٹا کر دیتی کبھی اسکے بال دانیہ کو پسند نا آتے جس پر دانیہ نے باسل کو کل رات ہی اچھی خاصی باتیں سنائی تھی۔

اب باسل آج شام میں ہی ان کی حویلی جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ براق جو اپنے کمرے سے نکلتے ڈائننگ ٹیبل کے پاس آتے کرسی کھینچ بیٹھا تھا۔ عنادل جو اس کو دیکھ کچھ پل کھو سی گئی تھیں آج کتنے دنوں بعد اسنے براق کو پہلے جیسا پایا تھا وہی سنجیدگی چہرے پر وہی ہر وقت چہرے پر رہنے والی مسکراہٹ عنادل اس کے پاس آتے ہی اسکو ناشتہ دینے لگی سب اس کے سامنے رکھتے وہ بھی براق کے ساتھ ہی کرسی پر بیٹھی تھی شاہنواز چودھری جو اب زیادہ تر کمرے میں ہی پائے جاتے تھے کوئی بھی ان سے ضرورت سے زیادہ اب بات نہیں کرتا تھا براق چور نگاہوں سے عنادل کو دیکھنے لگا۔ جو کھانے کے ساتھ انصاف کر رہی تھی عنادل جو اپنے اوپر براق کی نظریں محسوس کر سکتی تھی خود کو کھانے کے ساتھ انصاف کرتے ظاہر کر رہی تھی۔ ایک بات بتاؤ ..؟؟ براق نے اپنا مکمل رخ عنادل کی جانب کیا تھا۔ کہیں ..! عنادل بھی اسکی جانب فوراً رخ کئے بیٹھی تھی۔ کب سے اس حویلی میں ہو تم..!! جب سے میری شادی ہوئی ہے ..! عنادل نے بھی پر سکون لہجے میں جواب دیا تھا۔

اچھا تو تمہارا شوہر کہا ہے..! براق نے جانچتے لہجے میں نیا سوال کیا تھا۔ میرے سامنے ہی ہے عنادل بھی ترکی با ترکی جواب دے رہی تھی۔ کیا مطلب کدھر ہے میں نے کبھی تمہیں اسکے ساتھ تو نہیں دیکھا ..!! آپ نے میرے شوہر کو دیکھنا ہے..؟؟ عنادل نے آنکھیں چھوٹی کئے پوچھا تھا۔ ہاں میں دیکھنے چاہتا ہوں کون ہے تمہارا شوہر اور اس سے پوچھنا چاہتا ہوں تم سے کیا تمہاری بیوی سنبھلتی نہیں ہے جو اس کو میرے پیچھے چھوڑا ہوا ہے جب دیکھو میرے آگے پیچھے ہوتی ہے براق منہ بسور کر بولا تھا۔ تو پھر چلیں آج آپ کو اپنے شوہر سے ملواتی ہوں... عنادل اپنے جگہ سے کھڑی ہوئی تھی براق اس کو یوں اچانک اپنی جگہ سے اٹھتے دیکھ خود بھی کھڑا ہوا تھا۔ اب آپ میرے پیچھے پیچھے آئے ..! حکم صادر کیا تھا تم اوپر کہاں جارہی ہو ..!! براق نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا تھا۔ آپ بس میرے پیچھے چلیں آپ کو آپ کے ہر سوال کا جواب مل جائے گا ..! براق بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چلنے لگا اب وہ کمرے میں موجود تھے براق اس کو ہونز گھورے جارہا تھا۔ ادھر آئیں..! عنادل نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس کو آئینے کے سامنے کھڑے ہونے کو بولا تھا یہ سب کیا ہے ..؟؟ 

آپ کی ملاقات کروا رہی ہوں اپنے شوہر سے ..! عنادل نے چہرے پر معصومیت سجائے کہا تھا۔ نظریں آئینے پر مرکوز کریں ..! اور اس میں جو آپ کو عکس دیکھے وہ ہے میرے شوہر..!! براق نے نظریں اٹھائے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا پھر کچھ پل بعد عنادل کو دیکھنے لگا جو مسکرا کر اس کو ہی دیکھ رہی تھی۔ یہ کیسا مذاق ہے..؟؟ براق کے چہرے پر سخت تاثرات تھے۔ مذاق نہیں ہے ... آپ ہی ہیں میرے شوہر مجھے ہر بار شک ہوتا ہے کہ آپ بلکل ٹھیک ہے لیکن اس ایک مہینے میں آپ کے حرکتوں کو میں نوٹ کر رہی ہوں اگر آپ کو میں یاد نہیں تو آپ کو کیسے پتا مجھے آپ کے بغیر نیند نہیں آتی اگر میں آپ کو یاد نہیں تو روز رات کو اپنے کمرے سے نکل کر اُس کمرے میں کیوں آتے ہیں جہاں میں سوتی ہوں اور آپ کی کوئی شرٹ غائب ہو جاتی ہے تو آپ مجھے ہی کیوں آواز دیتے ہیں جبکہ آپ تو مجھے پہچانتے ہی نہیں ہیں آپ کو کیسے پتہ کہ آپ کی ساری چیزوں کو میں ہی ہاتھ لگاتی ہوں عنادل نے بھی اپنی ایک آبرو اچکائے اسکو دیکھا تھا۔ براق کچھ پل حیران سا ہوا تھا لیکن اپنے آپ کو نارمل کئے بولا تھا۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا میں اگر اپنے کمرے سے نکلتا بھی ہوں رات کو تو تمہارے کمرے میں کیوں آؤں گا ..؟ اور تو اور جب سے تم یہاں ہوں میں نے تمہیں ہی اپنے سارے کام کرتے دیکھا ہے تبھی تمہیں آواز دیتا ہوں اپنی خوش فہمی کو دور کرلو لہجہ انتہائی سنجیدہ تھا رات کو میرے کمرے میں کیوں آتے ہیں یہ تو آپ کو ہی پتا ہوگا۔ 

ٹھیک ہیں آپ مجھے نہیں پہچانتے تو میں بھی یہ حویلی چھوڑ کر جارہی ہوں مجھے نہیں جانتے تو ڈیورس پیپرز آپ کو مل جائیں گے آپ بس اس پر اپنے دستخط کر دیجئے گا۔ تاکہ آپ سے میں دور ہو جاؤ براق کے پاس کچھ کہنے کے لئے بچا ہی نا تھا۔ عنادل غصے میں کمرے سے نکلنے لگی تھی۔ براق نے اس کے ہاتھ کو پکڑے روکا تھا۔ چھوڑیں ..!! عنادل اپنے ہاتھ کو براق کی مضبوط گرفت سے نکالنے کی مزاحمت کر رہی تھی۔ براق نے اسکو اپنی جانب کھینچا تھا براق کے سینے سے لگی عنادل کی پشت تھی جبکہ براق کی تھوڑی عنادل کے کندھے پر تھی۔ کیسے جان لیتی ہوں میرے ہر انداز کو...! کیسے جان لیتی ہو کہ میں کب جھوٹ بول رہا ہوں کیسے جان لیتی ہو تم سے دور نہیں رہ سکتا براق کو پہلی والی ٹون میں بات کرتے دیکھ عنادل کی آنکھ سے آنسوں لڑیوں کی طرح نکلے تھے پچھلے ایک مہینے سے وہ اس سے بلکل انجان بن کر رہ رہی تھی۔ آج وہ خوش تھی کہ براق ٹھیک ہے لیکن اسکو یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ براق کو کیا ضرورت پڑی تھی۔ کہ اس کو یہ سب کرنا پڑا ..! محترمہ اپنے ہونہار شوہر کے ساتھ رہ کر سمجھدار ہوگئی ہیں اس لئے پہچان گئی کہ میں ناٹک کر رہا ہوں اور ہاں آج کے بعد مجھ سے الگ ہونے کا سوچنا بھی مت کیونکہ الگ تو تم مجھ سے چاہ کر بھی نہیں ہو پاؤں گی براق نے اس کو گول گھمایا تھا جس سے وہ گھوم کر رہ گئی تھی اب براق نے اس کے ایک ہاتھ کو پکڑے ایک دم اپنے قریب کیا تھا عنادل اسکے سینے سے آ لگی تھی براق اس کو دیکھ رہا تھا جو خونخوار نظروں سے اسکو کچا چبا جانے کا ارادہ کئے ہوئے تھی۔ ایسے نا گھوروں عشق ہو جائے گا پیار تو پہلے ہی ہوگیا ہے۔ 

براق اس کے چہرے پر آتی آوارہ لٹوں کو اپنی انگلیوں میں گول گھماتے شریر لہجے میں بولا تھا۔ ہٹیں مجھ سے دور..! عنادل نے اسکو پیچھے ہٹانا چاہا تھا نہیں کافی دن سے دور ہی تھا اب نہیں ہوسکتا براق نے نفی میں سر ہلاتے اپنی ضد پر برقرار رہتے جواب دیا تھا۔ اب بھی تھوڑے دن اور اپنی فضول ایکٹنگ جاری رکھتے نا ..! کیوں آگئی میرے کمرے میں نکلو ادھر سے سرونٹ کوارٹرز میں جاکر رہوں میرے کمرے میں کیوں آگئی مجھ پر مسلط کیوں ہوگئی ہوں عنادل پوری براق کی نقل کرتے براق کو اسکے بولے ہوئے ایک ایک الفاظ یاد کروا رہی تھی۔ سوپ نہیں پینا مجھے.. ایمان کون بھابھی۔۔۔؟؟

عنادل نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر براق کو خاموش کر دیا تھا۔ براق بلکل لا جواب ہوگیا تھا۔ وہ کچھ کہ نہیں پا رہا تھا جبکہ عنادل آج اپنی ساری بھڑاس براق پر نکال رہی تھی۔ ہائے اللّٰہ میرے نازک سے ہاتھوں نے آپ کی کتنی خدمت کی ہیں اور تو اور آپ کا کتنا خیال رکھا نہیں ہم نے تو ایکٹنگ کرنی تھی۔ بھاڑ میں گئی بیوی اور بھاڑ میں گئی اس کی محنت میں نے نہیں کرنی بات میرا دل کر رہا ہے آپکا منہ نوچ لو.. عنادل براق کی گرفت سے نکلنے کے لئے ہلکان ہورہی تھی۔ یہ رہا میرا منہ نوچ لو براق قریب ہوتے بولا تھا۔ ہاں ہاں اب تو یہی کہیں گے نا... آپ کو جو پتا ہے میں یہ نہیں کر سکتی عنادل نے سارا الزام براق کے سر کیا تھا۔ آخر وہ اپنے آپ کو براق کی گرفت سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ یار روک بھی جاؤ یہ دیکھو مجھے معاف کر دو براق اپنے کان پکڑے معصومیت سے بولا تھا۔ ہاں ہاں زیادہ معصوم نا بنیں پتا ہے کتنے معصوم ہیں بلکہ معصومیت تو آپ سے شروع آپ پر ہی ختم ہے بلکہ نہیں آپ تو انتہائی کوئی براق نے اس کے لبوں کو اپنی قید میں لئے اس کا منہ بند کیا تھا۔ براق کو ایک آخری یہی راستہ اسکو خاموش کرانے کا ملا تھا۔ 

ایمان اپنے کمرے سے نکلتی کیچن میں چل دی تھی وہ اب پوری حویلی میں گھوم گھوم کر اُکتا گئی تھی اور الگ سے اس کو ہر تھوڑی دیر بعد بھوک لگنے لگتی ہائے ایمان اور اسکی بھوک جو ختم ہی نہیں ہورہی تھی۔ اب وہ کیچن میں جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔ حلیمہ بیگم اسکو کیچن میں دیکھ بولی تھی۔ جو فریج سے لگے جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی ایمان کچھ چاہئیے ...؟ ایمان حلیمہ بیگم کے پکار سن کر اپنا رخ ان کی جانب کئے بولی تھی امی میرا دل کر رہا ہے آئسکریم کھانے کا ایمان نے رونی صورت بنائے حلیمہ بیگم کو اپنی پریشانی بتائی تھی۔ اچھا تو اس میں رونے کی کیا بات ہے تم باہر لاونج میں بیٹھو میں ساحر سے کہتی ہوں وہ تمہیں آئسکریم لا کر دے گا ایمان ایک دم خوش ہوتی باہر لاونج میں جانے لگی تھی آرام سے جاؤں یوں اچھل کود نہیں کرو ایمان جس کا موڈ ہر تھوڑی دیر بعد بدل جاتا وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی اسکے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے کبھی وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگتی کبھی وہ اتنی خوش ہوتی کہ اس کا بس نہیں چلتا وہ سب کو پکڑ پکڑ کر اپنے گلے سے لگائے۔

کاشان جو اب ایک اندھیرے کمرے میں موجود تھا وہاں کرسیوں پر بندھے تین وجود جو اسکو ہی دیکھ رہے تھے۔ ہمیں یہاں سے جانے دو ..!!سلیم پھنکارتے بولا تھا۔ کیسے جانے دوں سہی سلامت یا پھر ہاتھوں کو کاٹ کر جانے دوں یا پھر تمہارے ٹکرے ٹکرے کر دوں کاشان پر سکون لہجے میں بولتے پاؤں پر پاؤں چڑھائے بیٹھا تھا۔ باقی کے دونوں آدمی ڈر کے مارے کاشان کو دیکھنے لگے جو شاطرانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ان کو ہی دیکھ رہا تھا۔ کیا چاہتے ہو ہم سے ..!! سلیم پھر بولا تھا۔ تمہاری موت .. کاشان انتہائی پر سکون لہجے میں بولتے ان تینوں کے ہوش اڑا گیا تھا۔ ہمیں چھوڑ دو..! اررے پھر سے وہی بات دہرائی تم نے جب تک تم اپنا گناہ قبول نہیں کر لیتے اور اس کیمرے کے قریب کھڑے اپنے گناہ کا ثبوت نہیں دے دیتے تب تک یہاں سے ہلنا تو دور ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتے کاشان سلیم کے چہرے کے قریب جھکتے سفاکیت بھرے لہجے میں بولا تھا اور ان تینوں کو وہی چھوڑے باہر نکلتا چلا گیا تھا جبکہ کاشان کے آدمیوں نے پھر ان کے کمرے کو لاک کیا تھا وہ ایک ایسا کمرہ تھا جہاں باہر کی روشنی بھی پڑنا نا ممکن تھا کاشان یہاں سے حویلی جانے والا تھا۔ ساحر نے ایمان کو آئسکریم لا کر دی تھی ایمان کے کہنے پر وہ تین الگ الگ فلیور کی آئسکریم لایا تھا جس سے ایمان ابھی بیٹھ کر انصاف کر رہی تھی اور ساحر دوسرے صوفے پر بیٹھا تھا وہ اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا جو بلکل بچوں کی طرح آئسکریم کھا رہی تھی۔

تمہیں کھانی ہے تو اپنے لئے دوسری لے کر آجاؤ ایمان نے ساحر کو یوں اپنی جانب دیکھتے دیکھ کہا تھا۔ نہیں نہیں تم کھاؤ مجھے نہیں کھانی ساحر نے فوراً اپنی نظریں ہاتھ میں پکڑے موبائل پر مرکوز کی تھی۔ براق عنادل سے دور ہٹا تھا۔ عنادل جو ناراضگی کے باعث اپنا چہرہ دوسری جانب کر گئی تھی جبکہ اسکے چہرے پر چھائی لالی براق کو سب کچھ سمجھا گئی تھی کہ وہ کیوں یوں اپنا رخ موڑ گئی ہے۔ معاف نہیں کرو گی..! براق کی گھمیبر آواز پر عنادل کا دل پسلیاں ٹوڑ کر حلق میں آیا تھا۔ نہیں... ! اب عنادل اپنے لاڈ اٹھوا رہی تھی براق سے ... پکا قائم رہوں گی اپنی بات پر ..براق کی معنی خیزی باتوں پر عنادل کا دل کیا وہ کہی چھپ سی جائے .. اچھا جائیں معاف کیا عنادل براق کو پھر سے اپنے قریب آتے دیکھ فوراً بولی تھی۔ پوچھنا نہیں چاہوں گی میں نے یہ سب کیوں کیا ...؟؟ براق عنادل کو اپنے سینے سے لگائے بولا تھا۔ نہیں..! عنادل نے یک لفظی جواب دیا تھا۔ لیکن میں بتانا چاہوں گا براق نے اس کے بات کو نظر انداز کئے اپنے بات اس کے سامنے رکھی تھی۔ کاشان جن تین آدمیوں کو ڈھونڈ رہا ہے ان کو میں نے اور کاشان نے ڈھونڈ لیا ہے لیکن وہ اپنے منہ سے کچھ کہہ نہیں رہے اور ان تینوں کا بیان بہت ضروری ہے تاکہ دادا سائیں کے سامنے سچ آسکے اس لئے میں نے ایک مہینے سے تم سے مکمل لا تعلقی رکھی کیونکہ جس دن میں ہسپتال میں تھا اس دن گولی مجھے چھو کر نکلی تھی لیکن زخم کافی گہرا تھا ہوش تو مجھے پہلے ہی آگیا تھا میں نے ہی ڈاکٹر کو کہا تھا سب کو کہا جائے کہ میں شاید کسی کو پہچان نا سکو اگر میں بلکل ٹھیک ہوکر حویلی آ جاتا تو دادا سائیں پھر کچھ نا کچھ کرتے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے میں جانتا ہوں مجھے پر جو گولی لگی ہے وہ تمہارے لئے تھی کاشان اور ایمان کے بیچ جو ہوا ہے کاشان نے پوری بات نہیں سنی ایمان کی ایمان نے بس اس مری والی ٹرپ پر دادا سائیں کی کال اٹھائی تھی اور اس کال پر دادا سائیں نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ کاشان کے ساتھ اچھا سلوک رکھے اگر وہ نا بھی کہتے تو ایمان کی آنکھوں میں کاشان کے لئے جزبات میں نے اس دن ہی دیکھ لئے تھے جب وہ کاشان کے ساتھ یہاں آئی تھی کاشان اور وہ دونوں بہت خوش تھے۔

 لیکن ان کے بیچ بھی بہت سی بدگمانیاں دادا سائیں کی وجہ سے ہوئی ہیں میں چاہتا ہوں تم ایک بار کاشان سے بات کرنے کی کوشش کرو میں نے بہت کوشش کی ہے۔ کاشان سے میری ملاقات اس ایک مہینے میں ہوگئی تھی اسکو پتا ہے میں بلکل ٹھیک ہوں لیکن وہ ایمان کے متعلق کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتا۔ اس کو بتاؤ ایمان کے وجود میں ایک ننھا سا وجود سانسیں لے رہا ہے اس کو اپنے جانب سے تسلی دو کہ تمہارے ساتھ میں کچھ برا نہیں ہونے دوں گا براق نے عنادل کو خود سے لگائے سب کچھ اس کو بتایا تھا اب وہ کوئی دوری اپنے اور عنادل کے بیچ نہیں چاہتا تھا تو آپ نے مجھ سے کیوں چھپایا مجھے کیوں نہیں بتایا آپ ٹھیک ہیں آپ کو پتا ہے میں کتنی پریشان ہوگئی تھی۔ کہ آپ مجھے کیوں نہیں پہچان رہے ...؟؟ عنادل نے گلہ کیا تھا اگر بتا دیتا تو تمہارا ایسے رویہ تھوڑی ہونا تھا۔ تم سے ناٹک بھی کہا ہونا تھا۔ تم نے تو سب ستیاناس ہی کر دینا تھا۔ کم از کم تمہارے رویہ دیکھ ہی دادا سائیں تھوڑے پر سکون ہو کر بیٹھے ہیں ورنہ اب تک وہ تمہیں اس حویلی سے نو دو گیارہ کر چکے ہوتے سوچو پھر میرا کیا ہوتا براق تھوڑی پر انگلی ٹکائے پر سوچ انداز میں بولا تھا۔ ہاں زیادہ سے زیادہ دادا سائیں۔ میری دوسری شادی کروا دیتے ابھی آگے وہ کچھ اور بولتا کہ عنادل بولی تھی دوسری شادی کے بجائے قتل نا کر دوں آپکا..! بڑی دوسری شادی کی خواہش ہے آپ کو یہ حسرت مرتے دم تک حسرت ہی رہ جائے گی جب تک میں ہو۔ آپ کی زندگی میں تب تک یہ نا ممکن ہے۔ عنادل اسکے گریباں کو پکڑے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی تھی۔ باسل جو حویلی میں قدم رکھتے ہی لمبی سانس ہوا کے سپرد کئے اندر داخل ہوا ساحر باسل کو یہاں آتے دیکھ کھڑا ہوا تھا جبکہ ایمان ہونز بیٹھے باسل کو دیکھنے لگی ایمان کی نظریں داخلی دروازے کی جانب تھی وہ شاید کسی اور کے ہی انتظار میں تھی لیکن وہ دشمن جان نہیں آیا تھا وہ مایوس سی ہوئی تھی۔ حلیمہ بیگم کیچن سے کام کرتے باہر آئی تھی عباس صاحب کے آنے کا وقت ہوا تھا وہ بھی حویلی میں داخل ہوئے تھے جبکہ عنادل اور براق بھی سیڑھیوں سے اترتے نیچے لاونج میں آئے تھے لیکن اب بھی براق پہلے نیچے آیا تھا اس کے بعد عنادل تاکہ کسی کو زرا سا بھی شک نا ہو ..! باسل سب کو یوں لاونج میں موجود دیکھ بولا تھا۔ ساحر نے باسل کو بیٹھنے کا بولا تھا باسل صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بولا تھا۔ آنٹی سنا ہے دانیہ کے کافی جگہ سے رشتے آئے ہیں...! باسل نے تہمید باندھی تھی۔ دانیہ جو اپنے کمرے سے نکلتے باہر پانی پینے آئی تھی سب کو دیکھ ٹھٹھکی تھی حیرت تو تب ہوئی جب اسنے باسل کو یہاں موجود دیکھا تھا۔ جو آرام سے بیٹھا ہوا تھا وہ جلدی سے کیچن کے اندر ہوئی تھی اور باہر جھانک کر دیکھنے لگی تھی۔

اور جاننے کی کوشش کرنے لگی تھی آخر ماجرا کیا ہے۔ ہاں بیٹا لیکن دانیہ ہے جس کے نکھرے ہی ختم نہیں ہو رہے..! آنٹی جب اسکی شادی ہوگئی ہے تو کیا ضرورت ہے آپ کو لڑکا ڈھونڈنے کی۔..! باسل نے بم پھوڑا تھا وہ بھی خطرناک والا جس پر سب حیران ہوئے تھے شاہنواز چودھری کمرے سے باہر آئے تھے اور ان لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے براق اور عنادل تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے لیکن براق نے شاہنواز چودھری کی جانب اشارہ کرتے عنادل کو خود سے دور ہونے کو کہا تھا کیا مطلب ..؟؟ عباس صاحب نے پوچھا تھا۔ انکل میری بیوی ہے دانیہ اب نکاح پر نکاح جائز تھوڑی ہے عباس صاحب کو چپ لگی تھی براق نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی تھی۔ اس کے طرف سے عنادل بولی تھی لیکن یہ سب کب ہوا اور کیسے ..؟؟ سب کی نظریں باسل پر ٹکی ہوئی تھی۔ وہ کیا ہے نا دانیہ مجھے پہلی ہی نظر میں پسند آگئی تھی بس پھر کیا آپ سب بڑوں کی لڑائی میں مجھے اپنی کشتی ڈوبتی ہوئی لگ رہی تھی تو کیا ہے نا جو پورا دن وہ غائب رہی تھی اس کو اٹھوایا گیا تھا اور کیڈنیپر آپ سب کے سامنے موجود ہے باسل نے اپنی جانب اشارہ کیا تھا۔

اور نکاح بھی کیا میں نے اب میں اس حویلی کا دوسرا داماد ہوں..! حلیمہ۔بیگم تو گرنے ہی لگی تھی۔ عنادل جو دانیہ کو لے کر آئی تھی جو کیچن میں چھپی ہوئی تھی دانیہ سب کی بیچ آئی تھی نظروں کو جھکائے وہ کسی مجرم کی طرح سب کے سامنے تھی .. تم کیوں یوں سر جھکا کر کھڑی ہو.. باسل نے روڈ لہجے میں پوچھا تھا۔ باسل خان کی بیوی ہو ڈرو نہیں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں دیکھتا ہوں کوئی ہاتھ تو لگائے تمہیں باسل کی اتنی دیوانگی بھرے لہجے پر عباس صاحب باسل کو دیکھنے لگے تھے دیکھیں یہ بات تو کلئیر ہوگئی دانیہ آج سے میری ہے اگر آپ سب کی اجازت ہو تو میں اس سے مل سکتا ہوں یوں روز روز پچھلی جانب سے حویلی میں داخل ہونا شریفوں والا کام نہیں لگتا مجھے دانیہ باسل کو گھورنے لگی جو آج اس کو مارنے کے در پر تھا اب مجھے بتائیں کس کو اعتراض ہے باسل نے سب کے جانب اپنے چور نگاہوں سے دیکھ پوچھا تھا۔ شاہنواز چودھری گرجدار آواز میں بولے تھے لڑکے تم نے کیسے دانیہ سے یوں نکاح کرلیا ہم نہیں مانتے ...! قبول ہے قبول ہے قبول ہے کہہ کر اور کچھ کاغذات پر سائن کئے تھے بس ..! باسل دل جلانے والی مسکراہٹ پاس کرتے بولا تھا۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

1 Comments

Thanks for feedback