Jiya by Sania Ali Complete Novel


Jiya by Sania Ali.

Cousin Based and Innocent Heroine based funny love story new urdu novel.

آج وہ پورے تین سال بعد آسٹریلیا سے گھر آ رہا تھا، جس نے اس کے رشتے سے انکار کرتے وقت کہا تھا کہ علیزے جیسی بے وقوف لڑکی اس کی آئڈیل نہیں اور اس ٹھکرائے جانے کی اذیت علیزے آج بھی محسوس کرتی تھی۔ ابتسام احمد کے آنے سے گھر میں رونق تھی، تایا ابا تائی اماں بیٹے کی آمد پر بہت خوش تھے۔

علیزے نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس کے سامنے نہیں جانا۔ وہ اس مغرور شخص کو احساس دلانا چاہتی تھی۔
 
ایک دن وہ کالج سے واپس آئی تو فریج سے پانی نکال کر پینے لگی، اسے احساس ہوا کسی کی نظریں اسے دیکھ رہی ہیں۔ اسی لمحے میں دل کی دھڑکن ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی کہ وہ بولا۔

کیسی ہو جیا؟

علیزے کے حوصلے جیا سن کر جواب دینے لگے مگر اس نے ہمت کی اور کہا جی الحمداللہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ پھر خاموشی۔۔۔

اس نے یوں ظاہر کیا کہ وہ یہاں اکیلی ہے اور لاپرواہی سے باہر آکر صوفے پر بیٹھ گئی۔ ابتسام نے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر اس کو جانچتی نظروں سے دیکھنے کا کام جاری رکھا۔ علیزے نے موبائل دیکھنا شروع کیا، اسے لگ رہا تھا وہ گھبرا جائے گی۔ دل ہی دل میں اسے گالیاں دینے لگی کہ یہاں سے جاتا کیوں نہیں، اس نے ایک نظر ابتسام کو دیکھا جو فواد خان کی طرح ایک ابرو اٹھا کر اسے بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا۔

علیزے نے بڑی ہمت سے فیصلہ کیا کہ اسے سامنے بیٹھ کر اگنور کرنا ہے آج۔۔ بیگ سے پیپر اور پین نکال کر اس نے لکھنا شروع کیا۔

ابتسام دیکھتا رہا۔ آخر پوچھا کیا لکھ رہی ہو؟ وہ بولی ایک سٹوری لکھنی ہے اور پھر مصروف ہو گئی۔ 

وہ لکھتی جا رہی تھی، ابتسام یوں ہی دیکھتا جا رہا تھا۔ کبھی وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی کبھی لکھنے لگ جاتی۔ بیس منٹ گزر گئے اچانک امی کی آواز آئی تو ابتسام ادھر چلا گیا۔

علیزے بیگ اٹھا کر کمرے میں آگئی۔ اس نے خود کو شاباش دی کہ آج اسے اگنور کر کے آئی اور پزل ہوئے بغیر اتنی دیر اعتماد سے بیٹھی رہی۔ اب سے وہ اسے کم سےکم بے وقوف نہیں سمجھے گا۔

ابتسام لاؤنج کے ٹیبل سے سیگریٹ اور لائٹر اٹھانے آیا تو اسے وہ صفحہ نظر آیا جس پر علیزے کچھ لکھ رہی تھی۔ اس نے متجسس ہو کر پڑھنا شروع کیا جس پر لکھا تھا۔

یار کیا مصیبت ہے اس شخص کی آنکھیں، یہ کیوں آیا، کیوں آیا۔ دفع کیوں نہیں ہو جاتا، بدتمیز انسان اکڑو سڑو دیکھ کیسے رہا ہے۔ کیسی آر پار ہوتی ہوئی نظریں ہیں اس کی۔۔ جیا ہمت کر پزل نہیں ہونا، جیا بی بریو جیا تم اکیلی بیٹھی ہو کوئی نہیں ہے یہاں، جیا دھڑکن نارمل رکھو خدا کیلئے جیا دیکھو باہر کتنا اچھا موسم ہے درخت ہیں،  پرندے چہچہا رہے ہیں ان کو دیکھو۔ بس ہمت کرو اس کو اگنور کرو۔۔۔۔ افف یہ آنکھیں، نہیں نہیں آنکھوں کا نہیں سوچنا دیکھو ٹیبل پر گلاس پڑا ہے کپ پڑا ہے سامنے والے گھر کی چھت پر کوا بیٹھا ہے ہاں میں نہیں گھبراؤں گی میں پر اعتماد لڑکی ہوں۔ یا اللہ اس شخص کو اٹھا لے کیوں دیکھ رہا ہے ایسے، یا اللہ یہ کیوں آیا واپسس اللہ جی مدد کریں۔

ابتسام نے بے ساختہ ہنستے ہوئے پیپر کو فولڈ کر کے جیب میں رکھا اور اب یہ پیپر جیا کو منہ دکھائی کے گفٹ کے ساتھ دینے کا فیصلہ کر کے آگیا۔

Post a Comment

0 Comments