Intiqam e Atish by Suneha Rauf Complete Novel

Intiqam e Atish by Suneha Rauf

Intiqam e Atish by Suneha Rauf Novel

A love and hate story based on revenge and rape, new Urdu novel.

تم سب کا دماغ ٹھکانے پر ہے یا میں لگاؤ وہ اس وقت دھاڑ رہا تھا اور کسی میں اس وقت ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے آگے ایک لفظ بھی بول پاتے اس کے سامنے آتے ایسے ہی سب کی ذبانوں کو قفل لگ جاتا تھا۔

وہ ایس پی اذلان شاہ اکیلا کافی تھا سب کے لیے اس کے دشمن بھی اس کے عتاب سے پناہ مانگتے تھے۔

اس نے ابھی اپنا سی ایس ایس کمپلیٹ کیا ہی تھا کہ اس کے بابا اور ماما کی ڈیتھ ہو گئی ایکسیڈنٹ میں اور وہ اکیلا چھوڑ گئے اسے اور اسکی بہنوں کو، ساری زمہ داری اس پر تھی اب ویسے تو فاروق شاہ اتنی جائیداد چھوڑ گئے تھے کہ ان کی اولاد بیٹھ کر کھا سکتی ان کا اپنا کارخانہ تھا جو اب ازلان نے ان کے دوست کے حوالے کیا تھا کبھی کبھار خود بھی چکر لگا لیتا۔

اسے اس دنیا میں سب سے زیادہ اگر کوئی عزیز تھا تو وہ تھی اس کی بہنیں امل اور وفا دونوں میں اس کی جان بستی تھی وہ اوور پروٹیکٹوو تھا ان کے لیے ڈرائیور کے علاوہ وہ باہر نہیں نکلتی تھی یہ ازلان کا حکم تھا ایسا نہیں تھا وہ کنزرویٹوو تھا وہ حد سے زیادہ حساس تھا انہیں لے کر باپ بن کر پالا تھا انہیں بات منہ سے نکلنے سے پہلے ہی وہ پوری کر دیتا تھا وفا اس سے دو سال بڑی تھی وفا سے اس کا پیار زیادہ تھا جب کے امل پانچ سال چھوٹی اور لاڈلی تھی اس کی بیٹیوں جیسی۔

اس کی محنت اور ایمانداری کی وجہ سے اس وقت وہ اے ایس پی کے عہدے پر فائز تھا۔

چوبیس سالہ اذلان شاہ وجیہہ شخصیت کا مالک تھا لمبا چوڑا قد، کالے گھنے بال، سفید رنگت اوپر براؤن آنکھیں دونوں گال پر پڑتے ڈمپل جو بہت کم نظر آتے کیونکہ وہ ہنستا بہت کم تھا جب سے اس کے ماما بابا کی ڈیتھ ہوئی تھی وہ ذیادہ خاموش رہنے لگا تھا کم گو اور سیریس وہ پہلے ہی تھا لیکن اب اس فیلڈ میں آ کر وہ زیادہ ہی سخت ہو گیا تھا اس دنیا میں لوگوں کے جرموں نے اسے سخت بنا دیا تھا۔
*****

سلیمان صاحب کے دو بچے تھے۔ وہ دونوں ہی تو ان کی کل کائنات تھے انہوں نے فائزہ بیگم سے لو میرج کی تھی جسکی سب نے مخالفت کی تھی اور دونوں کی فیملیز نے ان سے تعلقات ختم کر لئیے تھے اور خود فائزہ بیگم منال کی پیدائش پر ہی انہیں اکیلا چھوڑ گئیں تھی۔

حمزہ تب چھ سال کا تھا سلیمان صاحب کو بیٹی کی بہت خواہش تھی اور پھر ایک دن فائزہ بیگم نے انہیں منال کے آنے کی خوشخبری سنائی تھی، وہ بہت خوش تھے اور پھر وہ منال کو اس دنیا میں لا کر خود ابدی نیند سو گئی تھی۔

منال کو سلیماں صاحب نے بہت ناذوں سے پالا تھا اور حمزہ کی تو اپنی اکلوتی بہن میں جان بستی تھی۔

منال اب اٹھارہ سال کی ہو گئی تھی لیکن اس کا خیال دس سال کی بچی کی طرح رکھتے تھے اس کے بابا اور بھائی، یہی وجہ تھی کہ وہ بہت حساس تھی اور چھوٹی چھوٹی بات پر پریشان اور رونے لگتی تھی۔ اسے نازوں میں پالا گیا تھا دنیا کی سختیوں کا اسے ابھی پتا نہیں تھا۔ لیکن بہت جلد قسمت اسے کسی کے قدموں میں روندنے والی تھی۔

اٹھارہ سال کی منال دیکھنے میں بالکل بچی تھی متناسب قد، بھورے بال جو آبشار کی طرح ذیادہ تر اسکی کمر پر بکھرے رہتے، گلابی گال روئی جیسے، باریک ہونٹ وہ دیکھنے والوں کو پہلی نظر میں ہی اپنا اسیر بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی اس وقت وہ اپنے انٹر کے رزلٹ کے انتظار میں تھی۔

Post a Comment

0 Comments