Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 24.
اب میں ان سب چیزوں سے تھک گیا ہوں ... سب جان لیں میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا آگر اب آپ کو کوئی مئسلہ ہے عنادل سے تو یقین مانیں میں آپ سے کچھ نہیں کہوں گا..! یہ حویلی چھوڑ کر اور عنادل کو لے کر یہاں سے بہت دور چلا جاؤں گا۔ میں اور اب آپ کے کہے پر نہیں چل سکتا میری خود کی بھی کوئی زندگی ہے ...!! عنادل خاموشی سے سہتی رہی میرا رویہ کہ میں کیوں اس سے اچانک روڈ رویہ اختیار کرکے بات کرتا ہوں لیکن افف تک اس نے کبھی مجھ سے نہیں کہا بلکہ مجھ پر اتنا یقین کیا کہ شاید ہی آپ سب لوگوں نے مجھ پر کیا ہوگا ہر قدم پر میرے ساتھ کھڑی رہی اور کہتی رہی میں آپ کے ساتھ ہوں اور میں اس کے بھروسے کو ہر بار اس کے مان کو توڑ دیتا براق کرب اور ازیت سے دوچار لہجے میں گویا ہوا تھا۔
زندگی کیسے جیتے ہیں میں نے اس سے سیکھا مجھ جیسے سنگدل انسان کو مسکرانا اسنے سکھایا مجھے محبت کرنا عنادل نے سکھایا میں وہ شخص جو آج سے کچھ عرصہ پہلے کہتا تھا محبت انسان کو کمزور کر دیتی ہے آج خود عنادل سے اپنے محبت کا اعتراف سب کے سامنے کرتا ہوں اب کوئی طاقت مجھے عنادل سے دور نہیں کر سکتی براق عنادل کے پاس جاتے اس کو اپنے حصار میں لئے بولا تھا۔ شاہنواز چودھری کو تو جیسے چپ سی لگی تھی۔ اب آپ پر ہے آپ اس حویلی میں مجھے دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر مجھے اپنی نظروں سے بہت دور کرنا چاہتے ہیں براق نے بات ہی ختم کی تھی۔
کاشان تم جاؤ ابھی ایمان کے پاس اور جاکر اپنے بیچ غلط فہمیوں کو دور کرو نہیں تو میں خود تم دونوں کے راستے الگ کروا دیتا ہوں میرا دوست کل تک تم دونوں کے ڈائورس پیپرز بنوا دیگا براق نے دھمکی دی تھی کاشان نے وہاں سے ایمان کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے تھے وہ ایمان سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا غلطی بھی اسکی تھی اب منانا بھی اسنے تھا۔ نہیں تو براق صاحب تو ان دونوں کو الگ کرنے کا پورا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے
ایمان جو آنکھوں پر اپنے بازوؤں کو رکھے بیٹھی تھی کاشان اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہلکے سے دروازے کو لاک کرتے بند کر گیا تھا ایمان جو آنکھوں پر ہونز بازوں رکھے بیٹھی تھی وہ سمجھی تھی شاید دانیہ اسکے کمرے میں آئی ہے لیکن ایسا نا تھا۔ کب تک یوں روتی رہوں گی..؟؟ کاشان کی گھمیبر آواز سنتے اس نے اپنی آنکھوں سے بازوں ہٹائے کاشان کو اپنے قریب بیٹھے دیکھا تھا۔ جب تک آپ آزاد نہیں کر دیتے مجھے اس نام کے رشتے سے..! ایمان نے کرب سے جواب دیا تھا کیوں ہونا چاہتی ہوں اس رشتے سے آزاد ...! کاشان اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسوں صاف کرتے بولا تھا
ایمان نے اس کے ہاتھ کو جھٹکتے دور کیا تھا جس رشتے میں بھروسہ اعتماد نہیں وہ ٹوٹ ہی جائے تو بہتر ہے... ایمان سفاکیت بھرے لہجے میں بولی تھی بھروسہ نا ہوتا تو آج یہاں تمہارے پاس نہیں ہوتا اس امید کے ساتھ کہ تم مجھے معاف کر دوں گی بھروسہ اعتماد نا ہوتا تو تم یوں راتوں کو بیٹھ کر میرے بارے میں سوچتے رو نہیں رہی ہوتی مجھے بھول چکی ہوتی...! میں نہیں روتی ... ایمان نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا لیکن مجھے تو براق بھائی کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ کیا بتا رہے تھے..؟؟ ایمان تجسس کے مارے بولی تھی۔ چھوڑو جانے دو..!! ویسے تم کافی موٹی ہوگئی ہو تھوڑا کھانا کم کرو.. !! کاشان مزاحیہ لہجے میں بولا تھا۔ ایمان صدمے سی کیفیت میں اسکو دیکھ رہی تھی جو اسکو موٹی بول رہا تھا حالانکہ وہ کمزور ہوگئی تھیں کاشان اس کو اپنی باتوں میں الجھا چکا تھا مجھے معاف نہیں کرو گی..! کاشان نے معصومیت سے سوال کیا تھا
ایمان جو اس کے موٹی بولنے پر منہ پھولا کر بیٹھی تھی لیکن اچانک کاشان کی بات سنتے اسکو یاد آیا کہ اس نے کاشان سے بات نہیں کرنی تھی میں کون ہوتی ہوں آپ کو معاف کرنے والی ..! دوبارہ سنجیدگی کا کھول اپنے اوپر چڑھایا تھا۔ تم میری بیوی ہو ..!! کاشان نے ایمان کو بازوں سے پکڑے اپنے سینے سے لگایا تھا۔ ایمان مزاحمت کرتے اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن کاشان کی گرفت اور مضبوط ہوئی تھی۔ کاشان کے انگلیاں ایمان کو اپنی کمر میں دھستی ہوئی محسوس ہوئی تھی دور ہٹیں میرا دم گھٹ رہا ہے ایمان رونے والی ہوئی تھی نہیں ...!! پہلے بتاؤ مجھے معاف کیا تم نے...!! کاشان نے اپنے لب اس کے سراہی دار گردن پر رکھے تھے ایمان کی جان حلق میں آئی تھی۔
نہیں مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی..!! ایمان اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔ لیکن میں معافی بھی لے کر جاؤں گا اور تمہیں بھی لے کر جاؤں گا ... کاشان نے اب کی بار اپنے لب اس کی گردن سے نیچے کی جانب رکھے تھے ایمان نے ایک دم کاشان کو خود سے دور کیا تھا لیکن کاشان نے دوبارہ سے اسے اپنے آہنی گرفت میں لیا تھا۔ جانتا ہوں تمہاری بات نہیں سنی تھی لیکن مجھے تھوڑی نا پتا تھا کہ میری بیگم مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں کاشان کے لبوں نے گردن سے اس کے کندھے تک کا سفر طے کیا تھا۔
میں نے آپ کو بتایا تھا اس دن.. !! ایمان نروٹھے پن سے بولی تھی۔۔ کیا بتایا تھا ..؟؟ کاشان انجان بنتے بولا تھا۔ کچھ نہیں...! ایمان نے بات گول کی تھی۔ لیکن یہ تو نہیں بتایا تھا نا کہ تمہیں اس دن تمہارے دادا سائیں کی کال آئی تھیں اب مجھے تو یہی لگے گا نا کہ ان کی وجہ سے تم نے مجھ سے اچھا رویہ رکھا کاشان نے گلہ کیا تھا ہاں تو آپ نے بھی تو اس دن میری بات نہیں سنی تھی..! ایمان بھی معصومیت سے بولی تھی کاشان اس کی بالوں سے آتی خوشبو کو اپنے اندر اتار رہا تھا۔ ہاں یہ تو میری غلطی ہے تبھی تو معافی مانگ رہا ہوں..! دے دوں معافی کاشان نے اس کے رخسار پر لب رکھے تھے ایمان کی دھڑکن اتنی تیز تھی جیسے ابھی دل بند ہو جائے گا ایمان نے کاشان کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
اچھا میں آپ کو سوری نہیں بولوں گی جانتی ہو میں نے بتایا نہیں آپ کو ایمان اس کو انگلی دیکھاتے بولی تھی... ٹھیک ہے ..!! مجھے بس تمہارا ساتھ چاہئیے.... کاشان اس کی بات سنتے پر سکون ہوا تھا۔ آپ جانتے ہیں آپ ہینڈسم ہیں ایمان اپنی تھوڑی پر انگلی ٹکائے بولی تھی شکریہ ..!کاشان ایمان کو اس طرح تعریف کرتے دیکھ ہکا بکا رہ گیا تھا۔ لیکن...! ایمان خاموش ہوئی تھی لیکن ..! کاشان تجسس کے مارے اسکو دیکھنے لگا تھا۔ لیکن آپکی آنکھیں ٹھیک نہیں ہیں ایمان نے برا منہ بنایا تھا کیوں کیا ہوا میری آنکھوں کو ..؟؟؟خطرناک ہیں اور ، پیاری بھی ہیں اور ایک منٹ میں کنفیوز بھی کر دیتی ہیں مجھے نہیں دیکھنا ان میں ایمان اس کے سینے سے لگے ہی بولی تھی اوو..!! اب سمجھا میری بیگم کو میری آنکھیں بہت پیاری لگتی ہیں کاشان اتراتے ہوئے بولا تھا اچھا اب تو معاف کر دو کاشان معصوم بچوں کی طرح بولا تھا۔
ایک شرط پر ایمان نے شرط رکھی تھی کہو تمہاری ساری شرطیں قبول مجھے ...! کاشان سیدھے ہوکر بیٹھا تھا جبکہ ایمان بیڈ کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی آج کے بعد جو بھی بات ہو پہلے مجھے بتائیں گے مجھ سے کچھ نہیں چھپائے گے میرا بھروسہ کبھی نہیں توڑے گے اور مجھے روز آئسکریم لا کر دیں گے الگ الگ فلیور کی اور میرا جب دل کرے باہر لے کر جائے گے ایمان نے ساری فرمائشی پروگرام اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا سب منظور اور کچھ۔۔ کاشان نے فوراً اس کی بات مانی تھی باقی میں سوچ کر بتاؤ گی لیکن میں اب بھی آپ سے ناراض ہوں.. ایمان اپنے ہاتھ کو دیکھتے بولی تھی لیکن کیوں..!! اب تو میں سب بات مان رہا ہوں کاشان منہ کھولے اس کو دیکھنے لگا جس کا موڈ ایک سیکنڈ میں بدلا تھا۔
آپ نے مجھے ایک بھی کال نہیں کی اس ایک مہینے میں..! جس بات کے بارے میں کاشان نے سوچا بھی نہیں تھا ایمان میڈم اس بات کو لے کر بیٹھی تھی اب تو پورا تمہارے سامنے موجود ہوں کرو جتنی بھی باتیں تم نے مجھ سے کرنی ہے ..!! بلکہ میں تو سوچ رہا ہوں آج رات یہی روک جاتا ہوں کل تمہارے ساتھ حویلی چلوں گا آج پوری رات اپنی بیوی کو منانے کا کام سر انجام دیتا ہوں کاشان کی بے باک باتیں ایمان کو سمٹنے پر مجبور کر گئی تھی نہیں آپ جائیں ..! میں کل آؤں گی ایمان نے اس کے ارادے جانتے فوراً انکار کیا تھا۔ نہیں میں آج یہی موجود ہوں.!! سب کیا سوچیں گے.؟؟ ایمان نے ادھر اُدھر دیکھتے پوچھا تھا۔ کوئی کچھ نہیں پوچھے گا سب جانتے ہیں اپنی بیوی کو منانے آیا ہوں باقی تم خود سمجھدار ہو..! کاشان اس کے قریب بڑھتے ایک ہی جست میں اسکو اپنے سینے سے لگا گیا تھا۔
ایمان اس افتاد پر بوکھلائی سی اس کے سینے سے لگی تھی کاشان نے اسکے کھلے بال آگے کرتے کندھے پر ڈالے تھے ایمان اس کا لمس اپنی کمر پر محسوس کرتے لمبی لمبی سانسیں لینے لگی تھی کاشان کی انگلیاں اس کی شرٹ کی ڈوری میں الجھی تھی ایمان اس کی حرکت پر سانس روک گئی تھی تبھی ایک ہی باری میں کاشان اس کے شرٹ کی ڈوری کو کھول گیا تھا۔ ایمان اسکے چوڑے سینے میں خود کو چھپانے لگی تھی لیکن ہائے رے کاشان بلکل بھی رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ایمان کو بیڈ پر لیٹائے اس پر جھکتا چلا گیا تھا اپنے لبوں سے اسکو پور پور اپنے پیار سے مہکا رہا تھا۔ کندھے سے شرٹ سرکائے وہاں اپنے سلگتے ہوئے لب رکھ گیا تھا ایمان نے آنکھیں زور سے میچی تھی۔ کندھوں سے ہوتے اس کے کان کی لو کو بائٹ کرتے سرگوشی نما آواز میں بولا تھا۔
ہم تو شروع سے دیوانے تھے آپکے بس آپ نے ہی اپنے پیارے شوہر کے پیار کو نہیں دیکھا تو سوچا آج اپنے پیار سے روشناس کروا ہی دیا جائے... مدہوش کن لہجہ عنادل کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑی تھی۔ ایمان نے اپنا چہرہ دوسری جانب کیا تھا کاشان ایمان کے اس انداز کو دیکھ اسکی بیوٹی بون پر اپنے لب رکھ گیا تھا ایمان کی انگلیوں کو اپنے انگلیوں میں پھسائے آج وہ شاید اس کی روح تک سما جانا چاہتا تھا اپنے ایک ہاتھ سے اسکے چہرے کو تھوڑی سے پکڑے اپنی جانب کرتے اسکو بولنے کا کوئی بھی موقع دیے بغیر وہ اس کے لبوں کو اپنی دسترس میں لے گیا تھا۔ ایمان کی سانسیں اکھڑنے لگی تھی کاشان جس کے عمل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی کچھ دیر بعد اسکے لبوں کو آزاد کئے وہ تھوڑا نیچے کی جانب ہوتے اس کے پیٹ پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ ایمان سرشار سی ہوئی تھی کاشان اسکے اوپر سے اٹھتے لائٹ آف کرتے اپنے اور ایمان کے اوپر کمفرٹر لے گیا تھا۔ اب کمرے میں دونوں کی چلتی سانسوں کا شور تھا
شاہنواز چودھری جو کھڑے تھے براق کو ہی دیکھ رہے تھے مجھے ابھی جواب چاہئیے آپ کیا چاہتے ہیں ...؟؟ براق کی کڑک آواز پر وہاں کھڑے ہر نفوس کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔کب چل رہے ہو ہماری حویلی کی دوسری پوتی کی شادی کی بات کرنے..؟؟ شاہنواز 'چودھری کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ سب ٹھٹھکے تھے آپ سچ کہ رہے ہیں۔۔؟؟ براق حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولا تھا۔ ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں مجھے معاف کر دو میں نے بہت غلط کیا تمہارے اور عنادل کے ساتھ براق ان کے آگے آتے ہی ان کے ہاتھ کو پکڑے بولا تھا آپ بڑے ہیں ہمارے بڑے معافیاں مانگتے ہوئے اچھے نہیں لگتے لیکن بس تکلیف ہوئی تھی جب آپ نے عنادل کو مروانے کی کوشش کی تھی۔ براق نے شکوہ کیا تھا۔ میں جانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا ہے عنادل مجھے معاف کر دو شاہنواز چودھری نے عنادل کی جانب رخ کرتے کہا تھا آپ کو غلطی کا احساس ہے یہی بہت ہے آپ معافی نا مانگے عنادل مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی عباس گلے نہیں لگو گے شاہنواز چودھری بانہیں کھولے بولے تھے۔
عباس صاحب دنگ رہ گئے شاہنواز چودھری کو یوں اچانک بدلتے دیکھ ان کے قریب آتے آج کئی سالوں بعد دونوں باپ بیٹے گلے لگے تھے ایک دوسرے کے..!!! حلیمہ بیگم تو سب کے پیار کو دیکھ رہی تھی تبھی ساحر بھی بولا تھا یار میری بھی کوئی سن لو ...!! شاہنواز چودھری عباس صاحب سے الگ ہوتے بولے تھے۔ کہو .. !! یار میری بھی شادی کروا دوں کب تک یونہی سب کی شادیاں دیکھوں گا ساحر منہ لٹکائے بولا تھا۔ جبکہ وہاں سب کا فلک شگاف قہقہ بلند ہو اتھا دانیہ تو اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی شرمانا تو اس کو آتا نہیں تھا لیکن ایکٹنگ کرنے کے تھوڑی پیسے جارہے تھے میڈم کے..!۔ آج سارے غموں کے بادل ہٹ گئے تھے آج خوشی ہی خوشی کا راج تھا چودھریوں کی حویلی میں کل سب جمشید علی کی حویلی جانے والے تھے۔ سب اپنے اپنے کمرے میں چل دئے تھے عنادل جو کیچن میں سب کچھ سمیٹ رہی تھی براق دیوار سے لگے اسکو دیکھ رہا تھا جو کام میں اتنی مگن تھی کہ اسکو یہ بھی یاد نہیں اسکا ایک عدد شوہر بھی اس کا انتظار کر رہا ہوگا لیکن بیچارہ براق کب سے دیوار سے لگے اسکو دیکھ رہا تھا۔
اور عنادل کو پتا ہی نہیں کوئی یہاں موجود بھی ہے تبھی براق پیچھے کی جانب سے اس کو اپنے حصار میں لئے بولا تھا۔ تمہارا میں کچھ لگتا ہوں..؟ روٹھا ہوا لہجہ تھا ہاں نا آپ میرے شوہر ہیں نا عنادل جو سمجھی نہیں تھی کہ وہ ناراض ہے تبھی کام میں مگن رہے بولی تھی۔ براق اس سے دور ہٹتے سیدھے ہوئے اس کے ہاتھ سے سامان کو شیلف پر دور رکھے اسکو اپنی بانہوں میں اٹھائے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔ براق کوئی دیکھ لے گا ...!! ہاں تمہیں سب کی پرواہ ہے سوائے اپنے معصوم شوہر کے اور اس وقت کوئی نہیں آئے گا سب کو اپنی نیند بہت عزیز ہے اور تم ہو جیسے اپنا یہ کیچن بہت عزیز ہے ..!!جب دیکھو یہی گھسی رہتی ہو براق کمرے میں داخل ہوتے دروازے کو اپنے ٹانگ کی مدد سے بند کئے عنادل کو بیڈ پر بیٹھائے دوبارہ دروازے کے جانب بڑھا تھا اسکو لاک کئے عنادل کی جناب بڑھا تھا عنادل کو براق کے ارادے دیکھ اپنے آپ کو براق سے بچانا مشکل لگ رہا تھا۔ ہاں تو اب آتے ہیں اصلی مقصد کی طرف.. !! عنادل بیڈ پر دور ہوکر بیٹھی تھی براق اس کو خود سے یوں دور ہوتے دیکھ اسکو ٹانگ سے پکڑے اپنے قریب کر گیا تھا۔ عنادل نیچے تھی جبکہ براق اس کے اوپر گھنے بادل کی طرح چھایا ہوا تھا۔
آج میں تمہاری روح تک قابض ہو جانا چاہتا ہوں عنادل براق کی جنونیت کو دیکھ خوف میں مبتلا ہوئی تھی۔ براق یہ کہتے ہی اس کے لبوں کو اپنی قید میں لے گیا تھا۔ عنادل آنکھیں پھیلائے اسکو دیکھنے لگی تھی جو اپنے کام میں مصروف تھا۔ اس سے دور ہٹتے دیکھنے لگا تھا تمہیں خود سے دور رکھے میں بہت تڑپا ہوں براق کی گھمیبر آواز عنادل کو اپنے کان کے قریب سنائی دی تھی۔ میرا سانس روک رہا ہے آپ دور ہو جائے عنادل منت کرتے بولی تھی۔ دور ہونے کے لئے قریب نہیں آیا اور سانس ابھی سے روکنے لگا ابھی تو کچھ کیا بھی نہیں میں نے...! براق کی بے باک باتیں عنادل لال ٹماٹر ہوئی تھی۔ براق نے اسکے رخسار پر شدت سے لب رکھے تھے۔ براق آج جیسے اسکی جان لینے کے در پر تھا عنادل کو کمر سے پکڑے وہ خود کے اور قریب کر گیا تھا۔ اور جا بجا لمس سے اس پور پور وجود کو مہکا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد لائٹ آف کرتے وہ عنادل کا سر اپنے سینے پر رکھ گیا تھا۔
دانیہ جو کمرے میں آتے ہی شرمانے کی پریکٹس کر رہی تھی یار یہ شرمایا کیسے جاتا ہے یہ ایمان کیسے شرما لیتی ہے اتنا... اور عنادل بھابھی تو بھائی کو دیکھ خاموش ہو جاتی ہے میں تو باسل کو کہہ دوں گی یہ شرمانے والا کام مجھ سے نہیں ہوتا کوئی اور کام ہو تو بولیں دانیہ نے ٹھان لی تھی وہ باسل کو اچھا خاصا تنگ کر کہ ہی دم لے گی۔ تبھی اسکے موبائل کی رِنگ ٹون بجی تھی۔ اس وقت کس کو دورے پڑھے ہیں جو سونے کے وقت مجھے کال کر رہا ہے باسل کے نمبر کو جگمگاتے دیکھ وہ حیران ہوئی تھی۔ اور کال اٹھاتے موبائل کو کان سے لگایا تھا۔ کیسی ہو ...؟؟ تمہاری خواہش پوری کردی اب تو سب کو پتا ہے تم میری بیوی ہو باسل شریر لہجے میں بولا تھا۔ دانیہ کچھ نہیں بولی تھی۔ یعنی وہ شرمانے کی کوشش کر رہی تھی اور ماشاء اللّٰہ سے اگر باسل سامنے ہوتا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا کیونکہ وہ خود اپنے منہ کو بند کئے اپنی ہنسی کو روکے شرمانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ ایک بات کہو..!! باسل نے کچھ پوچھنا چاہا تھا۔ ہمم کہیں..! دانیہ نے بڑے ادبی انداز میں جواب دیا تھا۔ جب تم شرما نہیں سکتی تو کوشش بھی مت کرو۔۔ باسل کی بات پر دانیہ منہ کھولے موبائل کو دیکھنے لگی تھی مجھے سچ سچ بتائیں کتنے کیمرے آپ نے میرے کمرے میں لگائے ہیں..! اور کدھر لگائیں ہیں؟؟
دانیہ ادھر اُدھر دیکھتی غصے میں بولی تھی۔ یعنی میرا اندازہ بلکل ٹھیک تھا تم شرمانے کی کوشش کر رہی تھی اور کوئی کیمرہ تمہارے کمرے نہیں ہے بس تمہاری حرکتوں سے واقف ہوگیا ہوں تم کب کیا کرتی ہوں کب کیا سوچتی ہوں اندازہ ہے مجھے باسل نے اتراتے ہوئے جواب دیا تھا۔ آپ کوئی جن تو نہیں ہیں..!! دانیہ کی بچکانہ باتیں سنتے وہ کھل کر مسکرایا تھا تمہیں پتا ہے تمہاری یہی بچکانہ باتیں تمہاری یہی معصومیت تمہارا یہی جھلا پن مجھے پسند ہے مجھے تمہاری معصومیت سے عشق ہے باسل کے ہر الفاظ اس کے دل کا ساتھ دے رہے تھے۔ اچھا کال کیوں کی ہے آپ نے..!! مجھے نیند بھی آرہی ہے دانیہ چہرے کے زوائیے بگاڑے بولی تھی یہ تمہاری نیندیں کتنے سالوں سے پوری نہیں ہوئی اتنا کیسے سو لیتی ہو...!!! باسل نے آخر معلوم کرنا چاہا تھا۔
دیکھیں مجھے نیند بہت آتی ہے دوسرا مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تیسری بات ہاں کھانے کی بات کرو تو میں سب کھا لیتی ہوں میری بہت سی فرمائشیں ہیں اگر آپ پوری کریں گے تو بتائیں..!! دانیہ کا انداز وارن کرنے والا تھا کھانا تو دیکھا تھا اس دن جو تم برگر کوک آئسکریم کھا گئی تھی باسل بڑبڑاتے بولا تھا کچھ کہا آپ نے ...! نہیں نہیں میں کون ہوتا ہوں کچھ کہنے والا آپ کہے میں سن رہا ہوں..!! باسل جس سے آج تک سب ڈرتے تھے آج وہ اپنی بیوی سے ڈر رہا ہے ہائے کیا دن آگئے بیچارے باسل کے ...!! حور کو تو پتا بھی نہیں تھا کل کو اسکے ساتھ ہونے کیا والا ہے جبکہ ساحر پاگل ہو رہا تھا آخر اسنے سوچ لیا تھا کل وہ بھی سب کو کہے گا اس کو بھی حور پسند ہے کچھ سوچیں اسکے بارے میں بھی۔ ..!!!
.....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کی سورج کے ساتھ پڑھتی روشنی سیدھا کھڑکی سے کمرے میں آرہی تھی ایمان جو کاشان کے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی جبکہ کاشان کی آنکھ کھل گئی تھی وہ ایمان کو ہونز لیٹے دیکھ رہا تھا جو بہت ہی گہری نیند سو رہی تھی۔ اٹھ جاؤ ..!! کاشان ایمان کے کان کے قریب جاتے بولا تھا۔ ہمم... اٹھ رہی ہو .. عجیب سا چہرہ بنائے بولی تھی۔ لگتا ہے آج یہی میری بانہوں میں رہنے کا ارادہ ہے کاشان نے اس کو مضبوط گرفت میں لئے تنگ کیا تھا۔ نہیں میں بس جا رہی ہوں... ایمان نے جھٹ سے آنکھیں کھولے کاشان کو دیکھا تھا جو واپس رات والے موڈ میں آنے لگا تھا۔ اچھا چلو جاؤ کاشان ایمان کو آزاد کئے بیڈ سے لگے آرام سے بیٹھا تھا ایمان جو واشروم فریش ہونے کے ارادے سے جانے لگی تھی اپنا حلیہ دیکھ شرم و حیا سے اسکا چہرہ سرخ ہوا تھا۔
اس وقت وہ کاشان کی شرٹ میں موجود تھی اب اس کو سمجھ آیا تھا کاشان نے اتنی آسانی سے اس کو چھوڑ کیسے دیا وہ رونی صورت بنائے کاشان کو دیکھنے لگی تھی۔ کاشان جس کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لی تھی وہ کھڑے ہوتے اسکے جانب آیا تھا۔ کاشان اس وقت شرٹ لیس ایمان کے سر پر کھڑا تھا۔ ایمان نظریں اٹھائے اسکو سوالیہ نظروں سے گھورنے لگی تھی۔ کاشان نے دیر کئے بغیر ایمان کو اپنے باہوں میں اٹھایا تھا یہ کیا کر رہے ہیں ..؟؟ ایمان کی لڑکھڑاتی آواز سنتے کاشان اس کے لبوں کو اپنے لبوں سے جوڑ گیا تھا۔
ایمان آنکھوں کو بند کر گئی تھی۔ ہونز باہوں میں لئے ہی وہ اسکے لبوں کو آزاد کئے بولا تھا۔ میں تمہیں واشروم تک چھوڑ رہا ہوں تاکہ تم فریش ہو جاؤ ہاں وہ الگ بات ہے تم نہیں چاہتی تو آج کا دن بھی یہی بیڈ پر تمہاری باہوں میں رہنے کے لئے تیار ہوں میں۔..!! کاشان کے زو معنی لہجے میں بولنے پر ایمان کا منہ کھلا کا کھلا رہی گیا تھا۔ ایمان کو واشروم تک چھوڑے وہ خود بیڈ پر آکر بیٹھا تھا اب اسکے فریش ہوکر آنے کے انتظار میں تھا تاکہ اس کو اپنی شرٹ ملے اور فریش ہوکر وہ بھی ایمان کو لئے حویلی کے لئے روانہ ہو ....
عنادل جو آئینے کے سامنے کھڑے اپنے بال سنوار رہی تھی تبھی براق فریش ہوکر نکلا تھا۔ عنادل کو یوں سجتے سنورتے دیکھ اسکو اپنے حصار میں لئے بولا تھا آج کہی مارنے کا ارادہ تو نہیں ہے ..؟؟ عنادل آئینے سے پیچھے کھڑے براق کو ایک نظر دیکھ نظریں جھکا گئی تھی۔ براق اس کا رخ اپنی طرف کرتے اسکو ڈریسنگ ٹیبل سے لگائے اس کے قریب جاتے اس کے چہرے پر پھونک مارے بولا تھا تمہاری بولتی میرے سامنے آتے کیسے بند ہو جاتی..!! ہے براق نے تجسس کے مارے پوچھا تھا عنادل براق کو دیکھنے لگی جو کنفیوز سے نظریں اس پر گاڑھے کھڑا تھا۔ آپ ڈراتے ہیں ..!! عنادل نے دھیمی آواز میں جواب دیا تھا۔ میں نے تو کبھی نہیں ڈرایا تمہیں بلکہ میں تو تم سے بہت پیار کرتا ہوں تمہیں کبھی کچھ کہتا بھی نہیں..!! براق پریشان ہوا تھا آخر اس نے عنادل کو کب ڈرا دیا تھا۔
آپ ابھی بھی مجھے مارنا چاہتے ہیں عنادل معصومیت سے بولی تھی۔ اور میں کیسے تمہیں مارنا چاہتا ہوں ...! میرے قریب آتے ہیں تو مجھے ڈر لگتا ہے عنادل نے آخر دماغ میں چلتی بات بیان کی تھی۔ میرے قریب آنے سے تمہیں ڈر لگتا ہے براق صدمے سی کیفیت میں بولا تھا عنادل نے جلدی میں ہاں میں سر ہلاتے بتایا تھا۔ کیوں میں کوئی انسان کھانے والا آدم خور ہوں ..؟؟ براق چیڑ کر بولا تھا۔ نہیں..! پر آپ کا بس نہیں چلتا مجھے کچا چبا جائے عنادل بچوں سا منہ بنائے بولی تھی۔ اچھا تو یہ بات ہے اب سے میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا براق نے ایکٹنگ کرتے کہا تھا جسے اب وہ اسکے قریب نہیں جائے گا بلکہ میں تو بہت زیادہ قریب آؤں گا تمہارے براق اس کی تھوڑی کو پکڑے بولا تھا اور اسکے لبوں پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ عنادل آنکھیں پھیلائے اسکو دیکھنے لگی تھی۔ براق خود کو سیراب کئے اسکے لبوں سے اپنے لب کو جدا کئے اس کو دیکھنے لگا جو بھپری شیرنی بنے اسکو گھورنے میں محو تھی۔
دیکھوں خود سے دور تو تم مجھے چاہ کر بھی نہیں کر سکتی..! اگر دور کرو گی مجھے خود سے ..! تو مجھے اپنی سانسوں کے قریب پاؤ گی براق کی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ عنادل آنکھیں جھکانے پر مجبور ہوئی تھی۔ براق اس کے چہرے پر جھلتی آوارہ لٹوں کو اس کے کان کے پیچھے کرتے اس کے رخسار پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ براق عنادل وک اپنے سینے سے لگائے اس کے سر پر لب رکھ گیا تھا جبکہ عنادل خود کو اس وقت دنیا کی خوش قسمت لڑکی سمجھ رہی تھی جیسے اتنا چاہنے والا عزت کرنے والا ہمسفر ملا تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback