Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 21

 

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 21.

ساحر حویلی کے داخلی دروازے سے اندر آیا تھا اس کا دھیان اندر بیٹھے کسی بھی نفوس پر نہیں تھا۔ اندر داخل ہوتے اس کی سماعتوں سے ٹکراتی عنادل کی آواز پر اس نے نظریں اٹھائے حور کو دیکھا تھا..! عنادل جس نے۔ حور کو ساحر کو دیکھتے پاکر اسے پکارا تھا حور اور ساحر کی نظروں کا ملاؤ ہوا تھا۔ لیکن کچھ پل میں ہی ساحر نے حور سے نظریں ہٹا لی تھی۔ اب وہ حلیمہ بیگم کو دیکھ بولا تھا۔ امی بھائی ٹھیک ہیں اب...؟ ہاں اب بہتر ہے .. بس ایک دو دن بعد وہ ہم سب کے ساتھ ہی گھل مل کر بیٹھے گا۔ ابھی وہ کمرے میں ہے۔ حلیمہ بیگم نے پر سکون لہجے میں بتایا تھا۔ ٹھیک ہے..! وہ وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا جبکہ حور کی نظریں جو اس کو دیکھنے کے لئے کب سے یہاں وہاں بھٹک رہی تھی ان میں سکون سا اترا تھا حور اب عنادل کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ ساحر جو اپنے کمرے میں جارہا تھا۔ اوپر جاتے اس کی نظر نیچے بیٹھی حور پر پڑھیں تھی۔ جو مسکرا رہی تھی لیکن اسکی مسکراہٹ میں عجیب سی بیچینی تھی۔ جو ساحر کو کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی ... وہ مسکراتے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ 

تھوڑی دیر بعد باسل کے ساتھ ہی حور بھی حویلی کے لئے نکل گئی تھی جبکہ ایمان ابھی شاہنواز چودھری کے کمرے میں موجود تھی کاشان جو اُن کی حویلی میں ہی موجود تھا وہ اب ایمان کے انتظار میں تھا جس نے کہا تھا وہ بس پانچ منٹ میں آرہی ہے لیکن اس کے پانچ منٹ جانے ایک گھنٹہ بن گئے تھے۔ ایمان شاہنواز چودھری کے عین سامنے کھڑی تھی ..! جبکہ وہ آرام سے اپنے کرسی پر بیٹھے تھے۔ ایک بات بتائیں گے..! ..؟ آپ کے کہنے پر اور سمجھانے پر میں نے کاشان کے ساتھ اپنا سلوک تو ٹھیک کر لیا ہے ...! لیکن ان سب کی وجہ میں جاننا چاہتی ہوں آپ کو اچانک یہ خیال کیسے آیا ۔ ایمان نے جاننا چاہا تھا... جس رات ایمان نے کاشان کو اس لڑکی کے ساتھ ہوٹل میں ہنستے دیکھا تھا ایمان کو دکھ ہوا تھا کاشان نے اس سے یوں مسکرا کر بات نہیں کی کبھی..! یا شاید کبھی اُس نے خود کاشان کو یہ حق نہیں دیا تھا۔

 لیکن جب اس رات شاہنواز چودھری کی کال آئی تو وہ سمجھنے سے قاصر تھی ان کو یہ سب کیسے پتا کہ وہ کاشان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی یہاں تک وہ یہ بھی جانتے تھے ایمان نے اسے کبھی شوہر ہونے کا حق بھی نہیں دیا۔ اس رات شاہنواز چودھری نے کال پر اسے سمجھایا تھا کہ وہ اسکا شوہر ہے اس کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کریں ان کی بات سے کافی حد تک ایمان بھی متفق تھی۔ ان کے درمیان ہونے والی بات پر ایمان نے بھی کاشان کے ساتھ ٹھیک سلوک رکھنے کا سوچا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی فقط ان کہ اچھا سلوک رکھنے کا کہنے پر وہ واقعے میں ان پندرہ دن میں کاشان کے اتنے قریب ہو جائے گی۔ اور اب اس سے دور ہونے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ 

ہر بات اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے..! شاہنواز چودھری نے طمانیت بھرے لہجے میں جواب دیا تھا۔  

لیکن میں آج جاننا چاہتی ہوں آپ کے دماغ میں چل کیا رہا ہے..! آپ نے عنادل کو براق بھائی سے دور کرنے کے لئے اپنی آدمی کو بھیج کر عنادل کو مارنے کا کام دیا تھا لیکن اس آدمی کا نشانہ آپ کا اپنا پوتا بن گیا ایمان کو یہ سب عنادل نے بتایا تھا ورنہ اب تک وہ بھی اس بات سے انجان رہتی لیکن جیسے ہی اس کو عنادل نے یہ سب بتایا وہ فوراً شاہنواز چودھری کے کمرے میں آئی تھی آخر وہ کرنا کیا چاہ رہے ہیں پہلے اسکو کال کرکے سمجھانا پھر یوں اپنے آدمیوں کو براق اور عنادل کے پیچھے لگانا ..! اب وہ ہم سب کو پہچان رہے ہیں لیکن عنادل اور ان کے گھر والوں میں سے کسی کو نہیں پہچان رہے اور تو اور اس رات آپ کا کال کرنے کا مقصد کیا تھا۔..؟ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں مجھے بتائیں..! باہر کھڑا نفوس ان دونوں کے درمیان ہونے والی بات بڑے غور سے سن رہا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کونسی کال ..؟اور کونسی رات.....!

آخر اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے شاہنواز چودھری بولے تھے۔ اس رات تمہیں میں نے کہا تھا کاشان کے ساتھ اچھا سلوک رکھو تم نے ویسا ہی کیا ... اور یہ بات کہنے کا مقصد صرف میرا یہ تھا کہ تم اس کو ایسا محسوس کرواؤں کہ۔تم بھی اسکو چاہتی ہو اور ایسا تم نے کیا بھی ...! باہر کھڑا نفوس اور کوئی نہیں کاشان تھا۔ جس پر آج کئی پہاڑ گرے تھے یعنی ایمان کے اچانک یوں بدلنے کی وجہ یہ تھی۔ ..! تو کیا وہ اس کھیل کا حصہ بن کر رہ گیا تھا ..؟ کیا اس کے جزبات ایمان کی نظر میں کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ ..! تم بیوقوف ہوں جو شروع سے اسکو اپنے سے یوں دور رکھ رہی تھی۔ میرا مقصد اس خاندان کو اجاڑ کر رکھنا ہے۔ ..! ایمان کچھ بولتی کہ دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھولتے کاشان اندر آیا تھا۔ اور ایمان کو زخمی نگاہوں سے دیکھنے لگا جو ڈر کر پیچھے ہوئی تھی۔

 اور کتنا گرنا ہے آپ نے...! یعنی اتنا بڑا حادثہ کروانے والا اور کوئی نہیں آپ ہیں میری بہن یہ جانتی ہے... ..!! کاشان پریشان سا ہوا تھا۔ کاشان کے اتنے زور سے چیخنے پر سب ان کے کمرے میں آئے تھے۔ اور تم...! ماننا پڑے گا ان کے کہنے پر تم نے اچھے ہونے کا ناٹک کر بھی لیا اررے تمہاری تو ایکٹنگ کا کوئی جواب ہی نہیں.. !! کاشان نے حقارت بھرے لہجے میں کہتے اسکے بازوں کو پکڑا تھا اتنی گرفت تھی اسکی پکڑ میں کہ ایمان کے منہ سے سسکی نکلی تھی۔اس سے اچھا تو تمہارا نفرت بھرا لہجہ ہی ٹھیک تھا۔ ایمان کی آنکھوں سے آبشار کی طرح بہتے آنسوں نظر انداز کئے کاشان اس پر آج ٹوٹ پڑا تھا۔ حلیمہ بیگم تو سب کچھ سمجھنے سے قاصر تھی عنادل تم اب ایک پل یہاں نہیں روکوں گی میرے ساتھ چلو کاشان گرجدار آواز میں بولا تھا۔ 

 عنادل اتنے وقت میں پہلی بار بولی تھی۔ میں یہی رہوں گی..! تین مہینے کا وقت دیا ہے تو اتنا ہی وقت ٹھیک ہے لیکن یہاں سے جاکر میں ہار نہیں سکتی میری محبت اتنی کمزور نہیں ہے کہ مشکل وقت میں .. میں اپنے براق کا ساتھ چھوڑ دوں آج نہیں تو کل وہ مجھے پہچان جائے گے۔ عنادل کا اتنا پختہ یقین دیکھ کاشان حیران تھا۔ تم یہاں کیسے رہوں گی جبکہ یہاں تمہین کوئی رہنے نہیں دیں گا سکون سے..! کاشان نے اچنٹی نگاہوں سے گھورا تھا یہاں سب میرے ساتھ ہے سوائے ان کے اس کی انگلی کا اشارہ شاہنواز چودھری کی طرف تھا۔ آنٹی میرے ساتھ ہے انکل میرے ساتھ ہیں دانیہ بھی میرے ساتھ ہے ساحر میرے چھوٹا بھائی ہے وہ میرے ساتھ ہے ایمان ابھی وہ کچھ بولتی کی کاشان بول اٹھا تھا۔ یہ کبھی کسی کا ساتھ نہیں دے سکتی بلکہ یہ تو رشتے نبھانا جانتی ہی نہیں ..! کاشان کے اتنے روڈ لہجے میں بولنے پر ایمان کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے اُس نے آدھی ادھوری بات سن کر اس کو اپنے سے بلکل انجان کر دیا تھا۔ 

اس نے یہ کیوں نہیں جاننا چاہا کیا ایمان کے دل میں بھی اسکے لئے جزبات ہیں جبکہ وہ اس دن مری میں اپنے ہر ایک ایک الفاظ سے اس کو بتا گئی تھی کاشان اس کے لئے کتنا اہم ہے۔ میں یہاں سے جارہا ہوں اور اب میں اسکو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا جب تک آپ یہاں ہے تب تک میرا اس کے ساتھ نام جڑا ہے جس دن آپ کا قدم اس حویلی میں پڑا اس دن اس کا نام میرے نام سے الگ ہو جائے گا کاشان یہ کہتے لمبے لمبے ڈگ بھرتے حویلی سے نکلتے چلا گیا تھا۔ ایمان وہی زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔  

عنادل اس کے پاس ہی قریب بیٹھی تھی۔ میں جانتی ہوں تم نے کچھ نہیں کیا ...! میں تو پہلے ہی جانتی تھی تمہارے دادا سائیں میرے ساتھ تمہاری زندگی بھی برباد کرنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی گئے۔ ایمان عنادل کو دیکھ اس کے گلے لگی تھی۔ میں نے کچھ نہیں کیا اس نے میری بات بھی نہیں سنی وہ کیسے کر سکتا ہے یہ میرے ساتھ ..! ایمان ہچکیوں کے درمیان بولی تھی۔ 

کچھ دیر بعد حلیمہ بیگم کو بھی سب پتا لگ گیا تھا وہ حیران تھی اتنا کچھ ہو گیا اور انھیں ان سب چیزوں سے انجان رکھا گیا۔  

ایمان اپنے کمرے میں چلی گئی تھی آج وہ کاشان کے ساتھ نہیں تھی آج وہ اکیلی تھی شاہنواز چودھری سب کی نظروں میں اپنے لئے نفرت دیکھ ٹھٹھکے تھے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ اپنے بیٹے یہاں تک اپنے حویلی کے ہر فرد کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھیں گے۔ ساحر بھی شکوہ کن نظر ان پر ڈالے اپنے کمرے میں چل دیا تھا۔

کاشان غصے میں حویلی میں داخل ہوا تھا اور باقی سب اس کو یوں غصے میں دیکھ رہے تھے جو آتے ہی صوفے پر ڈھے سا گیا تھا۔  

جمشید علی بولے تھے کیا ہوا ہے برخوردار...! کاشان نے اپنے سر پر رکھے اپنے بازوں کو ہٹائے ان کو دیکھا تھا۔ 

جمشید علی کاشان کی آنکھوں میں خون سوار دیکھ پریشان ہوئے تھے کچھ ہوا ہے۔ ...؟ وہ اچانک سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔ سب لاونج میں ہی موجود تھے حور باسل ایک ساتھ کسی بات پر ہنس رہے تھے کاشان کے بولنے پر اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ آپ سب میں کون جانتا ہے کہ یہ حادثہ براق کے ساتھ کیسے ہوا؟ اور کیا کیا ہوا عنادل کے ساتھ اس حویلی میں ...!؟؟ کاشان جس کا غصہ کم ہوکر نہیں دے رہا تھا۔ جمشید علی اور نزاکت صاحب کاشان کے اچانک اس طرح سوال کرنے پر ہڑبڑائے تھے۔ سب کو چپ لگی تھی جبکہ باسل کی نظریں بھی ان سب پر ہی تھی کلثوم بیگم کو نزاکت صاحب نے سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ کافی پریشان ہوئی تھی لیکن ان کو اپنی بیٹی پر پورا یقین تھا۔  

سب خاموش کیوں ہیں مجھے جواب چاہئیے کون کون جانتا ہے یہ حادثہ کیسے ہوا ہے براق کے ساتھ ...؟؟؟ کاشان کی گرجدار آواز پر حور ڈر گئی تھی۔

باسل اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا اور کاشان کے قریب آتے بولا تھا۔ اتنا ہائپر کیوں ہورہے ہوں ...؟؟ کیسے نا ہو ہائپر جس کی بہن پر گولی چلانے کی کوشش کی گئی تھی جس کی بہن کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہا تھا لیکن وہ بچ گئی کاشان خونخوار نظروں سے دیکھ ازیت بھرے لہجے میں بولا تھا۔ کیا مطلب تمہاری بات کا ...؟ باسل کنفیوز ہوا تھا۔ میرا گناہ کتنا بڑا تھا۔ ...؟ کیا کیا تھا میں نے..؟ صرف غلطی سے میری گن سے نکلی گولی صائم کو ہی لگی تھی نا.. جس کی معافی بھی میں نے مانگی ہے عباس صاحب نے کاشان کے کندھے پر اپنے ہاتھ رکھے اس کو ریلکس رہنے کا بولا تھا۔ میں آج خاموش نہیں ہو سکتا میری خود کی زندگی کھیل بن کر رہ گئی ہے جس کو اپنی زندگی میں ہمسفر بنا کر لایا تھا وہ خود میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی یہاں تک کے میرے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے جھوٹے پیار کا کھیل ..! کاشان کی آنکھوں سے شدت ضبط کے مارے آنسوں نکلے تھے سب تو کاشان کو یوں اتنے غصے میں دیکھ حیران تھے۔

 اُس آدمی نے عنادل کو تین مہینے کا وقت دیا ہے جانتے ہیں کیوں ...؟؟ باسل نے اپنی نظریں کاشان پر ہی ٹکائے رکھی تھی۔ آپ کو کیسے پتا میں بتاتا ہوں ..! اس آدمی کا کہنا ہے براق اگر ان تین مہینوں میں عنادل کو نہیں پہچان سکا تو عنادل کا اُس حویلی میں رہنے کا کوئی جواز نہیں اور کتنی بد گُمانی اس آدمی نے براق اور عنادل کے درمیان بڑھانی چاہی ہیں میں نہیں جانتا لیکن میں اس کی بہن کو بھی اب وہی چھوڑ آیا ہوں آخر اس کا بھی مجبوری کا رشتہ تھا آج اس مجبوری کے رشتے کو ٹھکانے لگا آیا ہوں کاشان یہ کہتے لمبے لمبے ڈگ بھرتے اپنے کمرے میں چل دیا تھا۔ جبکہ سب حیران کھڑے تھے۔ مجبوری کا رشتہ ان کے ذہن میں بس یہی بات گونج رہی تھی کیونکہ ایمان اور کاشان کے رویے نے انھیں یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ قریب ہوکر بھی ایک دوسرے سے دور ہیں۔

کاشان کمرے میں آتے ہی دروازے کو زور ے بند کئے ڈریسنگ ٹیبل کے قریب کھڑے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں ازیت تھی کرب تھا وہ تو سمجھا تھا اب سب ٹھیک ہوگیا ہے لیکن ایمان کی اور شاہنواز چودھری کے بیچ ہونے والی بات سنتے اس کی خوش فہمی غلط فہمی میں بدلی تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل سے دور ہوئے اس نے اس پر پڑی ساری چیزوں کو اپنے ہاتھ سے زمین بوس کیا تھا۔ اب کمرے میں جگہ جگہ کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پڑھے تھے جبکہ کچھ دیر میں ہی کمرے کا نقشہ پورا بدل گیا تھا۔ 

دانیہ اپنے کمرے میں تھی وہ پریشان تھی اچانک یہ سب ہوا کیا ہے اور یہ سب کرنے والا اور کوئی نہیں اس کے اپنے دادا سائیں ہیں یہ بات سب کو زیادہ شاک دے گئی تھی جبکہ عباس صاحب تو شاہنواز چودھری کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا گوارہ نہیں کر رہے تھے حلیمہ بیگم بھی خاموش سی ہوگئی تھی عنادل اور براق کے بیچ میں کیا کیا ہوا ہے سب وہ جان گئی تھی کیسے انھوں نے براق کو عنادل سے دور رہنے کو بولا سب کچھ ...! ساحر بھی کمرے میں ہی تھا پوری حویلی میں خاموشی کا راج تھا اندھیرے میں چھائی حویلی کی روشنی جیسے کہی غائب سی ہوگئی تھی صرف ایک شخص کی وجہ سے۔ ..! 

حور بھی سب جان گئی تھی سب کے سامنے ایک ایک بات کا راز کھول دیا گیا تھا۔ کاشان نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی اس نے سب کو بتا دیا تھا کہ اس کا رشتہ کوئی عام رشتہ نہیں ہے یہ ایک مجبوری کا رشتہ تھا۔ جو بہت جلدی ٹوٹ جائے گا ۔۔۔ باسل بھی حیران ہوا تھا۔ 

دانیہ کے ہاتھ میں موبائل تھا۔ اس نے باسل سے جو اس کا نمبر لیا تھا آخر ہمت کرتے ملایا تھا۔ وہ ڈر رہی تھی۔ باسل یہ سب جاننے کے بعد اس سے بات کرے گا..! کیا وہ اس کو چھوڑ دے گا۔ ..؟ بیل جارہی تھی دو تین بیل کے بعد کال اٹھا لی گئی تھی۔ کون..؟ باسل کے پاس اس سے پہلے دانیہ کا نمبر سیو نہیں تھا اس لئے نمبر دیکھ پوچھا تھا۔ دانیہ کافی دیر خاموش رہی تھی۔ دانیہ تم ہو ...؟ باسل آخر پہچان گیا تھا دانیہ شاک ہوئی تھی ابھی تو اس نے کچھ کہا بھی نہیں تھا تو کیا وہ شخص اس کی چلتی سانسوں کی آواز بھی پہچان سکتا ہے ہمم..! میں دانیہ بات کر رہی ہوں دانیہ نے بھی وہی بات دہرائی تھی۔ کال کرنے کی وجہ..؟؟ باسل نرم لہجے میں بولا تھا۔ آپ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے...! دانیہ نے اس کے لہجے سے جنچنا چاہا تھا ایسا کس نے کہا میں تو آپ محترمہ۔کی کال کی انتظار میں تھا۔ باسل نے انتہائی ادب سے جواب دیا تھا۔ 

مذاق اڑا رہے ہیں..؟ دانیہ نے آنکھیں چھوٹی کئے موبائل کو گھورا تھا کجا وہ موبائل نہیں باسل ہی ہو جیسے وہ اپنے سامنے دیکھ منہ نوچنا چاہتی ہو ..! آپ مجھ سے بات کیوں کر رہے ہیں ..؟ دانیہ کا اچانک انداز ہی بدلا تھا۔ کیا مطلب کال تم نے کی تھی مجھے اب بول رہی ہو میں تم سے بات کیوں کر رہا ہوں پاگل تو نہیں ہوگئی.. نیند تو دماغ پر نہیں چڑھ گئی..! باسل نے زچ کرنے والے انداز میں پوچھا تھا۔ اچھا میری بات سنیں دانیہ نے اس کو ٹوکا تھا۔ ہاں بولو..؟ میں تو تمہیں سننا چاہتا ہوں تمہیں اپنے قریب اپنی بانہوں میں دیکھنا چاہتا ہوں باسل کے گھمیبر آواز پر دانیہ کے گال لال ٹماٹر جیسے ہوئے تھے۔ جیسے باسل اسکے عین سامنے ہو اچھا شرماؤ نہیں بولو کیا کہنا ہے ...! باسل مدعے کی جانب آیا تھا۔ دانیہ نے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھنے بعد موبائل کو واپس کان سے لگائے بولی تھی آپ نے میرے کمرے میں کوئی کیمرہ لگا کر رکھا ہے دانیہ کی بچکانہ باتوں پر باسل کا دل کیا اس کے قریب جاتے اس کے دونوں رخسار چوم لے ... نہیں میں نے کوئی کیمرہ نہیں لگایا وہ کیا ہے نا دل سے دل کو راہ ہوتی ہے یہ تو سنا ہوگا نا باسل نے بہت معلومات والی بتا بتائی تھی جیسے ... اچھا روکے اب میری سن بھی لیں دانیہ نے اسکے بات بیچ میں کاٹی تھی کہو..؟؟ 

آپ مجھے چھوڑ دیں گے ..؟؟ کسی ڈر کے تحت سوال پوچھا تھا۔ باسل خان تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ محبت نہیں ہو تم میری..! دانیہ حیران ہوئی تھی۔ عشق ہو تم جو میری نسوں میں خون کی مانند سرایت کرتا ہے باسل کا لہجہ جنون بھرا تھا۔ سب کو کیا کہیں گے.. آج جو ہوا ہے اسکے بعد ابھی وہ کچھ بولتی کے باسل بول اٹھا تھا۔ دنیا گئی بھاڑ میں بس تم اور میں ہوں گے اپنی نئی دنیا میں ہم ہوں گے ہم...! میں تمہارے بھائی براق کی طرح کمزور پڑھنے والوں میں سے نہیں ہوں میں سب کے سامنے تمہارے لئے لڑنے کی ہمت رکھتا ہوں.. کاشان کی طرح نہیں ہو جو ایک طرفہ محبت میں مبتلا کچھ بھی کرنے لئے تیار تھا میں باسل خان ہوں..! میں یک طرفہ محبت نہیں کروں گا تمہیں بھی اپنے آپ سے محبت کرنے پر مجبور کروں گا تاکہ تمہارے پاس مجھ سے محبت کرنے کے علاؤہ کوئی اور اختیار بچے ہی نا تاکہ دانیہ باسل خان اپنے آپ کو باسل خان کے بغیر ادھورا سمجھے..! دانیہ کے چہرے پر حیا سے چھائی لالی اگر باسل دیکھ لیتا تو اس کو خود میں قید کر لیتا ..! دانیہ نے جلدی سے کال کاٹی تھی اب وہ اور باسل کی ایسی باتیں سن نہیں سکتی تھی۔

دوسری طرف باسل اس کے کال کاٹنے پر قہقہ لگائے بنا نا رہ سکا تھا۔ حور اپنے کمرے میں بیٹھے بس یہی سوچے جارہی تھی۔ ساحر اپنے جزبات کو لے کر سنجیدہ ہے ...! حور نے موبائل اٹھائے دانیہ کا نمبر ملایا تھا۔ دانیہ نے حور کا نام اپنے موبائل میں جگمگاتے دیکھ کال اٹھائی تھی۔ کیسی ہو ..؟؟ حور نے بات کی شروعات کی تھی۔ میں تو بلکل ٹھیک۔۔ خیریت اس وقت کال کی..! دانیہ کی نظر گھڑی پر گئی تھی جو رات کے دس بجا رہی تھی۔ ہاں وہ مجھے ساحر کا نمبر مل سکتا ہے تمہیں ڈھونڈنے کے چکر میں میری پائل ان کی گاڑی میں ہی رہ گئی تھی۔ حور نے جلدی سے بات بنائی تھی اب اس کو کیسے بھی کر کے ساحر سے بات تو کرنی تھی نا۔ 

اچھا تو کل میں پوچھ لوں گی حور کا دماغ گھوم گیا تھا دانیہ جو کباب میں ہڈی بننے کی مکمل تیاری کئے ہوئی تھی۔ دانیہ اگر تمہیں مئسلہ ہے تو اپنے موبائل میں ہی بات کروا دوں حور روڈ لہجے میں بولی تھی اچھا اچھا میں دے رہی ہوں نمبر..! دانیہ نے اس کو ریلکس کرتے نمبر سینڈ کیا تھا حور نے بھی کچھ دیر اس سے بات کرنے کے بعد کال کاٹی تھی۔ اب اس کا ارادہ ساحر کو کال کرنے کا تھا۔ لیکن ہمت تھی جو ہو نہیں رہی تھی اسکے نمبر پر کال کرنے کی اور اگر کال کر بھی دے تو بات کیا کرے گی یہ بات اس کو کھائے جا رہی تھی۔ آخر ہمت جمع کرتے اس نے اللّٰہ کا نام لیتے نمبر پر کال کی تھی۔ اور دل ہی دل میں اسکو ڈر بھی تھا۔ ہیلو...!! ساحر کی سنجیدگی بھری آواز سنتے اسکے منہ کو جیسے تالا سا لگا تھا۔ ہیلو...! کون ہے بات نہیں کرنی تھی تو کال کی کیوں کی..!! ساحر یہ کہتے کال کاٹنے ہی والا تھا تبھی حور بولی تھی۔

 میں حور ... اس نے معصومیت سے جواب دیا تھا۔ جیسے غلطی سے کال کردی ہو جیسے اسکو پتا ہی نا ہوں یہ ساحر کا نمبر ہے ...! ساحر حیرت بھری نظروں سے پہلے اپنے موبائل کو دیکھنے لگا پھر اس نمبر کو جو حور کا تھا اس کو یقین نا آیا تھا حور نے اسکو کال کی ہے۔ ...! مجھے آپ سے بات کرنی ہے آپ اپنا تھوڑا وقت مجھے دے سکتے ہیں حور کا لہجہ التجا کرنے والا تھا۔

میں تو اپنا سارا وقت تمہیں دے دوں بلکہ میں تو خود پورا کا پورا تمہارا ہوں لیکن تم وہ ٹھندی آہ بھر کر رہ گیا تھا یہ سب اس نے دل میں سوچا تھا۔ کہو ..؟؟ آپ نے جو اس دن مجھ سے بارش میں اس سے آگے وہ بول ہی نہیں پارہی تھی وہ جھجھک رہی تھی اپنی بات کہنے میں ...! ہاں اس دن بارش میں..! ساحر اس کے بیچ میں روکنے پر پھر بات کو جاری رکھتے بولا تھا۔ آپ نے جو کہا تھا وہ سچ ہے آپ واقعے میں ابھی بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی اس دن جو میں نے سب کچھ کہا وہ میرے دل کے جزبات ہیں اور میرے جزبات آپ کے لئے سچے ہیں میں سریس ہوں آپ کو لے کر..! ساحر نے اپنی بات کہہ کر اس کے سارے خدشے ختم کئے تھے اور کوئی چیز آپ کو تنگ کر رہی ہے ساحر نے جاننا چاہا تھا۔ 

مجھے ایک بات کہنی ہے حور نے تہمید باندھے کہا تھا۔ جی کہیں ...! جو اس دن آپ نے مجھے سب کہا تھا وہ سب میری طرف سے بھی رکھ لے.. !! حور نے یہ کہتے ہی کال کاٹی تھیں ساحر کچھ دیر سمجھنے سے قاصر تھا لیکن جب تک بات سمجھ آئی اتنی دیر میں حور کال کاٹ چکی تھی مطلب آگ دونوں طرف برابر لگی ہے ساحر کے چہرے پر ایک الوہی چمک تھی۔ عنادل کمرے میں آتے ہی براق کو دیکھنے لگی جو سب کچھ بھولے آرام سے سو رہا تھا۔ وہ اس کے قریب آتے ہی اسکے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھے ایک الگ ہی جہاں میں تھی۔ مجھے کیوں لگتا ہے آپ ٹھیک ہیں آپ کو کچھ نہیں ہوا..؟ عنادل کا دل بار بار کہہ رہا تھا اس سے کہ براق بلکل ٹھیک ہے اسے کچھ نہیں ہوا لیکن براق کا اپنے ساتھ ایسا رویہ دیکھ وہ اپنی ہی بات کو غلط قرار دے دیتی کیونکہ اس کا براق تو اپنی عنادل سے کبھی بھی روڈ لہجے میں بات کر ہی نہیں سکتا تھا۔

وہ اس کے سامنے کھڑے اس سے ایسے بات کر رہی تھی جیسے وہ اس کی ساری باتیں غور سے سن رہا ہو کچھ دیر یونہی اسکے پاس کھڑے رہے وہ اسکے چہرے کے قریب جھکتے اسکے سر پر اپنے لب رکھے چھوٹے چھوٹے قدم لئے کمرے سے باہر نکلی تھی۔ براق نے اپنی آنکھیں کھولے کمرے کو دیکھا تھا جس میں اب کوئی موجود نا تھا۔ اپنے قریب کسی کو محسوس کرتے اس کی آنکھ کھول گئی تھی لیکن آنکھوں کو بند کئے وہ خود کو سوتا ہوا ظاہر کر رہا تھا اب کمرے میں کسی کو نا دیکھ وہ واپس اپنی آنکھ بند کر گیا تھا۔  

کاشان جو کل ہی شہر کے لئے نکلنے والا تھا۔ اس کا اب صرف ایک ہی مقصد تھا ان تین لڑکوں کو ڈھونڈنا وہ کیسے بھی کرکے ان تینوں کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ 

ایمان کمرے میں بند زمین پر بیٹھی ہوئی تھی۔ کل وہ اپنے آپ کاشان کی قربت میں محفوظ محسوس کر رہی تھی آج وہی کاشان اس کو اکیلا کر گیا رو رو کر ایمان کے آنسوں خشک ہو گئے تھے آنکھیں سکھ چکی تھی جیسے ان میں اب آنسوں بچا ہی نا ہوں آنسوؤں کے نشان چہرے پر تھے بال بکھر چکے تھے حلیمہ بیگم نے کئی دفعہ اس کے دروازے کو بجایا تھا لیکن اندر سے جواب نا پاکر وہ بھی تھک ہار کر نیچے چل دی تھی ایمان اکیلے رہنا چاہتی تھی ... بس یہی سوچ سوچ کر اسکا دم گھٹ رہا تھا اگر کاشان نے اسکو چھوڑ دیا تو وہ کیسے رہے گی اسکے بغیر کاشان کے بغیر اس کو اپنا وجود نا مکمل سا لگنے لگا تھا۔ 

اس کی تو کوئی غلطی بھی نہیں تھی بس اتنی غلطی تھی اس رات کال اٹھا کر اس نے شاہنواز چودھری سے بات کی تھی بات بھی فقط اتنی کی تھی کہ وہ کاشان کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کر لیں لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ شاہنواز چودھری کوئی گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں ان کے ساتھ ...! اچانک اس کا وجود ڈھیلا پڑھ گیا تھا۔ وہ زمین بوس ہوئی تھی ..!۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments