Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 20.
دانیہ اب اپنی حویلی کے باہر کھڑی تھی۔ جبکہ باسل بھی اسکے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ اب چلو اندر کیا یہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے..؟ دانیہ ابھی آگے بڑھتی کے باسل کو واپس جاتے دیکھ اس کے ہاتھ کو پکڑے اس کو اپنی جانب کھینچا تھا .. کدھر میاں جی..؟ دانیہ نے بتیسی نکالے اسکو دیکھا تھا۔ میں گاڑی پارک کرنے جارہا ہوں بے فکر رہوں تمہارے ساتھ ہی ہوں مجھے پتا ہے نام کی بہادر ہو تم ویسے تمہاری چلتی اپنے گھر میں بھی نہیں بس میں ہی برداشت کروں گا اب تمہاری پٹر پٹر..! باسل نے جیسے اس پر کتنا بڑا احسان کیا تھا۔ ایک بات جان لے..! میری پٹر پٹر سننا اب آپ اپنا فرض سمجھ لیں اور بیوی ہوں آپکی تو میرے محافظ بن کر بھی دیکھائے..! بعد میں گاڑی پارک ہو جائے گی ابھی اندر چلیں دانیہ اسکو پکڑے اندر کی طرف چلنے لگی جبکہ باسل اس کے ساتھ ساتھ قدم سے قدم ملا کر اندر داخل ہوا تھا۔
سب لاونج میں ہی موجود تھے دانیہ حویلی میں داخل ہوئی تھی اب اسنے اپنا ہاتھ باسل کے ہاتھ سے نکال لیا تھا باسل اسکے کان کے قریب جھکتے سرگوشی نما آواز میں بولا تھا جس طرح تم نے میرا ہاتھ سب کو دیکھ کر چھوڑا ہے ایسے سب کے سامنے کبھی تم نے پکڑنا بھی ہے..! باسل کی معنی خیزی باتوں پر دانیہ کا دل کیا اس کا منہ نوچ لے۔ دانیہ سب کو لاونج میں بیٹھے دیکھ حیران ہوئی تھی جبکہ سب اسکو یہاں دیکھ کھڑے ہوئے تھے حلیمہ بیگم دانیہ کے پاس آئی تھی اور اس کو اپنے گلے سے لگا گئی تھی دانیہ نے بھی اپنا حصار ان کے گرد حائل کیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دانیہ سے دور ہٹی تھی.. کہاں تھی تم ..؟ پہلا سوال جو حلیمہ بیگم نے کیا تھا اور عباس صاحب سمیت شاہنواز چودھری بھی جواب کے انتظار میں تھے۔
میں..! ابھی وہ کچھ بولتی کے باسل بول اٹھا تھا۔ یہ میرے ساتھ تھی۔ باسل کی بات پر سب کی حیرت زدہ نظر اب باسل کی جانب اٹھی تھی۔ یہ اپنی دوست کے گھر جارہی تھی۔ میں نے دیکھا یہ اکیلی ہے تبھی اسکو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا بولا تھا لیکن راستے میں میرا دوست مل گیا اس نے مجھے اپنے گھر آنے کا بولا تو میں منع نہیں کرسکا اس لئے دانیہ کو لئے میں وہاں ہی چلا گیا وہاں میں میرے دوست کے ساتھ تھا جبکہ دانیہ میری دوست کی بیوی کے ساتھ تھی موبائل گاڑی میں ہی رہ گیا تھا اس لئے دانیہ آپ سب کی کالز دیکھ نہیں سکی تھی باسل نے سارا معاملہ سنبھالا تھا اور دانیہ تو عش عش کر اٹھیں تھی باسل کے اتنی صفائی سے جھوٹ بولنے پر۔۔
باسل نے سب کی نظروں سے بچتے اپنی آنکھ ونک کی تھی جس کو دیکھ دانیہ کا منہ کھلا رہ گیا تھا اچھا اب میں چلتا ہوں ویسے ساحر نظر نہیں آرہا ..؟ باسل کو ساحر نظر نہیں آیا تبھی پوچھا تھا ساحر اور حور ایک ساتھ دانیہ کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے تھے لیکن ابھی تک نہیں آئے عباس صاحب نے باسل کو فکرمند لہجے میں بتایا تھا اچھا آپ پریشان نا ہوں وہ آجائے گے..! یہ کہتے باسل حویلی کو نکل گیا تھا۔
اگر باسل یہ جانتا کہ براق کی حالت کا زمہ دار اور کوئی نہیں جس کی حویلی وہ کھڑا ہے وہ ہیں تو یقیناً وہ سب کچھ جاننے کے لئے کچھ بھی کر گزرتا کیونکہ اس وقت براق کی حالت دیکھ اس کی اپنی بہن کا برا حال تھا.. تھوڑی دیر بعد سب اپنے کمروں میں چلے گئے حلیمہ بیگم کو عباس صاحب نے کافی پر سکون کیا تھا کیونکہ وہ براق کی حالت سے کافی پریشان سی ہوگئی تھی اس لئے حلیمہ بیگم بھی کمرے میں چل دی اور عباس صاحب نے ان کو کچھ میڈیسن دی تھی تاکہ وہ پر سکون نیند سو سکیں..! جبکہ دانیہ بھی اپنے کمرے میں آئی تھی۔
باسل جو جانے ہی لگا تھا حویلی کی پچھلی جانب سے داخل ہوتے دانیہ کے کمرے میں گیا تھا۔ دانیہ جو اب اپنے دوپٹے سے بے نیاز بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔ باسل اُس کے کمرے میں قدم رکھتے ہلکے ہلکے کمرے کے دروازے کو بند کرگیا تھا دانیہ بیڈ سے کھڑی ہوتی پہلے فریش ہونے کا ارادہ رکھتی تھی اس لئے وہ واشروم چل دی جبکہ باسل اس کی ایک ایک کاروائی بڑی غور سے دیکھ رہا تھا دانیہ جس کو احساس تک نہیں ہوا تھا کوئی اسکے پیچھے کھڑا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ باہر نکلی تھی تب بھی اسکی نظر دروازے پر کھڑے باسل پر نہیں پڑی تھی تبھی باسل اس کو پیچھے سے اپنے حصار میں لئے بولا تھا۔ بندہ روک ہی لیتا ہے..! باسل نے شکوہ کیا تھا جبکہ اسکے لب دانیہ کی کندھے پر حرکت کر رہے تھے۔ دانیہ جس کو احساس تک نہیں تھا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے..! وہ باسل کو یہاں دیکھ حیران ہوئی تھی اور حیرت اسکو تب ہوئی جب باسل کے ہونٹ اپنی کندھے پر محسوس کئے تھے .. آپ۔۔یہہ..یہاں کیا کر رہے ہیں..؟ دانیہ کی زبان لڑکھڑائی تھی۔
باسل اسکی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا مجھے تو کسی نے کہا تھا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتی ... باسل نے اب کی بار اپنے ہونٹ اس کی گردن کے جانب رکھے تھے۔ دانیہ ابھی پھر کچھ کہنے ہی لگتی کہ باسل نے اس کو گول گھما کر اب کی بار اپنے سامنے کئے اسکو دیکھا تھا جس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ دانیہ میڈم شرماتی بھی ہیں ..؟ باسل نے اب کی بار اپنے لب اسکے رخسار پر رکھے تھے دانیہ نے جھٹ سے اپنی آنکھیں زور سے میچی تھی۔
اب کرو ڈرامے کی ہیروئن کی طرح اپنے شوہر سے رومینس..! باسل کی بے باک باتیں دانیہ کا دل کیا زمین کھولے اور وہ اس میں سما جائے ابھی اسکو باسل سے زیادہ غصہ اپنے اوپر آرہا تھا اور خود کو کوس رہی تھی کہ کیا ضرورت تھی انڈین ڈراموں کی ہیروئن بننے کی۔..! اب خود ہی پھس گئی تھی۔ باسل نے بڑے غور سے دانیہ کے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھے تھے۔ اس نے دانیہ کو کھینچ کر اپنے بے حد قریب کیا تھا۔ رات بہت ہوگئی ہے آپ نے جانا نہیں ہے ..؟ دانیہ نے اپنے بچاؤ کے لئے بات بنائی تھی۔ نہیں میں تو سوچ رہا ہوں آج یہی روک جاؤ باسل نے اس کے ہونٹ کو اپنے فوکس میں رکھے جواب دیا تھا۔ آپ کی حویلی میں سب کیا سوچیں گے کہ آپ کہا ہے ..؟ دانیہ نے معصوم سی شکل بنائے نیا سوال کیا تھا۔ کوئی کچھ نہیں پوچھے گا .. اور اگر پوچھے گا بھی کوئی تو میں جواب دوں گا تم کیوں پریشان ہورہی ہو..؟ ابھی مجھ پر دھیان دو..! باسل نے اسکے جوڑے میں بند بال کھولے تھے اور اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپائے اس کے بالوں سے آتی خوشبو اپنے اندر تک اتاری تھی۔
دانیہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑی تھی۔ کوئی آجائے گا .. دانیہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے بولی تھی۔ کوئی نہیں آتا باسل اس کے قربت میں جیسے مدہوش سا ہوگیا تھا۔ آخر ابھی پھر دانیہ کچھ بولتی باسل اس کے لبوں کو اپنی قید میں لے چکا تھا دانیہ نے اُسکی شرٹ کو مظبوطی سے تھاما تھا۔ باسل جس کے عمل میں جنون تھا۔ دانیہ جس کا سانس بند ہو رہا تھا تبھی باسل نے اپنے لبوں کے ذریعے اس کے اندر اپنی سانسیں منتقل کرنا شروع کی تھی۔ دانیہ کی بڑی بڑی آنکھیں باسل کے اس عمل پر کھل سی گئی تھی۔ دانیہ اپنے ہاتھ چلاتے باسل کو خود سے دور کرنے کی مزاحمت کرنے لگی تھی۔ لیکن اس کی مزاحمتیں باسل کے آگے بے کار گئی تھی۔ کچھ دیر بعد خود کو سیراب کئے باسل نے اس کو آزاد کیا تھا۔ یہ تو چھوٹی سی جسارت کی ہے میں نے...! تو تمہارا یہ حال ہے جب میری دسترس میں آؤ گی تب کیا ہوگا تمہارا..! باسل لا لہجہ اس قدر مدہوش سا تھا کہ دانیہ کے رخسار تپ سے گئے تھے خود کو تیار رکھنا میرے شدتوں کو برداشت کرنے کے لئے باسل اس کے گال کو سہلاتے جہاں سے آیا تھا وہاں سے چل دیا تھا۔
صبح کے سورج کے ساتھ ہی حور اور ساحر حویلی کے لئے نکلے تھے ساحر نے صبح ہوتے ہی مکینک کو ڈھونڈ کر پہلے گاڑی کو سہی کروایا تھا۔ حور نے واپس اپنے وہی کپڑے پہن لئے تھے۔ ان دونوں کی پوری رات یونہی بیٹھے گزری تھی۔
کچھ دیر بعد حور حویلی۔کے باہر گاڑی روکتے دیکھ گاڑی سے اترتے اندر کی جانب جانے لگی تھی تبھی ساحر بولا تھا۔ میری بات کے بارے میں سوچنا ضرور..! ساحر یہ کہتے گاڑی زن سے بھاگا لے گیا تھا جبکہ حور کو ایک گہری کشمکش میں چھوڑ گیا تھا۔
حور نے حویلی کے اندر قدم بڑھائے تھے سب ہی رات سے بہت پریشان تھے کلثوم بیگم تو ساری رات حور کے لئے پریشان رہی تھی ساحر کو کال کرتے تو اسکا موبائل آف آتا اب وہ جب حویلی کے دہلیز پر قدم رکھے اندر کی طرف بڑھی تھی تبھی سب سے پہلے کلثوم بیگم اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی اور حور کے پاس آئی تھی۔ کہاں تھی تم..؟ کال ہی کر دیتی۔۔! پتا ہے ہم کتنے پریشان تھے کلثوم بیگم نے اتنے سارے سوال ایک ہی باری میں پوچھ ڈالے تھے۔
امی امی..!!! سنیں تو سہی راستے میں گاڑی خراب ہوگئی تھی اوپر سے میں اپنا موبائل لے کر جانا بھول گئی تھی۔ اور ساحر کے موبائل کی بیٹری ختم ہوگئی تھی۔ حور نے ایک ایک کرکے ان کے سارے سوالات کا جواب دے کر انہیں مطمئن کیا تھا۔ اچھا چلو اندر کلثوم بیگم کے ساتھ وہ اندر کی جانب بڑھی تھی کچھ دیر وہ سب کے ساتھ بیٹھنے کے بعد فریش ہونے کے غرض سے کمرے میں چل دی۔
براق کو آج ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا اب وہ اپنی حویلی میں اپنے کمرے میں موجود تھا عنادل بھی حویلی آگئی تھی ابھی وہ لاونج سے براق کے کمرے میں جاتی شاہنواز چودھری نے اسے بلایا تھا۔ ادھر آؤ..! ان کی گرجدار آواز سنتے عنادل ان کے آپس گئی تھی۔
تم یہاں آ تو گئی ہو۔ لیکن میں تمہیں تین مہینے کا وقت دیتا ہوں اگر براق پہلے جیسے ہوگیا تو میں اپنے انتقام سے پیچھے ہٹ جاؤ گا۔ اگر براق تب بھی تمہیں پہچان نا سکا تو تمہیں براق کی زندگی اور اس حویلی سے ہمیشہ کے لئے جانا ہوگا ۔۔ شاہنواز چودھری کی بات پر عنادل نے اپنی نظریں اٹھائے ان کو زخمی نگاہوں سے دیکھا تھا۔ آخر خود پر کنٹرول نا پاتے بول اٹھی تھی۔
وقت آنے پر پچھتانا نا پڑے بس اس بات کا خیال رکھئے گا باقی براق کو میں انشاء اللّٰہ پہلے جیسا کر دوں گی وہ مجھے پہچانے گے بھی اور سب جان بھی جائے گے کہ ان کے ساتھ یہ حادثہ کیسے ہوا عنادل کا اتنا یقین دیکھ کچھ پل وہ بھی اپنے فیصلے سے ڈگمگائے تھے۔ لیکن خود کو مضبوط کرتے وہاں سے اپنے کمرے کا رخ کر گئے جبکہ عنادل بھی اوپر کمرے کی جانب چل دی۔
کمرہ کھولتے ہی وہ اندر گئی تھی براق جو بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کو آتے دیکھ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔ تم یہاں بھی آگئی میں نے منع کیا تھا میرے پاس نہیں آنا تم..؟ براق زور سے دھاڑا تھا کہ عنادل اپنی جگہ سے اچھل کر پیچھے ہوئی تھی۔ وہ .. وہ میں یہ سوپ لائی ہوں آپ کے لئے...! اپنے ہاتھ میں پکڑا سوپ اس نے ٹیبل پر رکھے خود کو مضبوط ظاہر کرتے بتایا تھا۔ مجھے نہیں پینا یہ سوپ تم ابھی کہ ابھی اس کمرے سے چلی جاؤ براق اپنا چہرہ موڑے بولا تھا۔ لیکن میں نہیں جاؤ گی..!۔ عنادل ضدی لہجے میں گویا ہوئی تھی تو ٹھیک ہے میں ہی اس کمرے سے جارہا ہوں پتا نہیں کون ہو تم.. مجھ پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہی ہو تم اس کمرے میں آئی کس کی اجازت سے ہو.. اگر کوئی ملازم ہو تو سرونٹ کوارٹرز میں رہوں یہاں کیوں آئی ہو..؟ عنادل کی آنکھوں میں آنسوں کی ننھی ننھی بوندیں چمکنے لگی تھی لیکن اپنے آنسوں کو اندر دھکیلتے وہ پھر سے بولی تھی۔ میں ملازم نہیں ہوں۔۔ وہ چیخی تھی۔ براق نے عنادل کی اتنی زور سے بولنے پر اس کی جانب اپنے قدم بڑھائے تھے لیکن اچانک اس کے سر میں درد کی لہر دوڑی تھی وہ وہی بیڈ پر بیٹھ گیا تھا عنادل نے اسکو اچانک یوں بیٹھتے دیکھ اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے تھے۔ عنادل نے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھا تھا تبھی براق نے اسکے ہاتھ کو جھٹکے دور کیا تھا۔
خاموشی سے یہی بیٹھے رہیں آپ کو مجھ سے مئسلہ ہے میں نہیں آؤں گی اب اس کمرے میں لیکن خود کو تکلیف نہیں پہنچائے آپ نے جلدی ٹھیک ہونا ہے نا کہ اپنی طبیعت اور خراب کرنی ہے۔ عنادل غصے میں اس کو ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی تھی۔ براق اب بلکل خاموشی سے اس کی ساری کارروائی دیکھ رہا تھا جو ایک میڈیسن اپنے ہاتھ میں نکالے پانی کو گلاس میں ڈال رہی تھی۔ یہ لیں.. ؟! عنادل نے براق کی جانب گلاس اور میڈیسن کی تھی۔ براق نےاس کے ہاتھ سے پہلے تو میڈیسن نہیں لی تبھی عنادل پھر سے بولی تھی۔ آپ لے رہے ہیں یا پھر میں پوری رات یہاں ہی آپ کے پاس بیٹھے آپ کو تنگ کروں براق نے فوراً سے اس کی دھمکی سنتے میڈیسن پکڑی تھی اور منہ میں ڈالی تھی۔ عنادل براق کو دیکھ رہی تھی کہا وہ اس کو اپنے سے دور نہیں ہونے دے رہا تھا اور کہا اب اس سے دور ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ .. وہ اپنی جگہ سے اٹھتے پھر سے اس کو یاد کروانے لگی تھی۔ یہ سوپ پورا پینا ہے آپ نے میں تھوڑی دیر بعد آؤں گی اگر آپ نے اسکو ختم نہیں کیا ہوگا تو میں ہر تھوڑی دیر میں آپ کا دروازہ بجا کر آپ کے پاس موجود ہوں گی۔ براق اس کو حیران کن نظروں سے دیکھ اس کی بات سنتے گڑبڑایا تھا نہیں میں پی لوں گا اس نے دلیل دی تھی۔ .. گڈ وہ براق کے قریب آتے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے باہر نکلی تھی کہی براق اس سے اس چیز کا بھی حق نا چھین لے۔ . ۔۔
ایمان اور کاشان حویلی آچکے تھے۔ ایمان کو اور کاشان کو جیسے ہی پتا لگا کہ براق کو گولی لگی تھی اور وہ ابھی عنادل اور ان لوگوں کو نہیں پہچان رہا تو وہ شام میں ہی براق کے پاس موجود تھے
بھائی آپ ٹھیک ہیں ..؟؟ ایمان نے فکر منہ لہجے میں پوچھا تھا۔ عنادل اب ایمان کے ساتھ اس کے کمرے میں آئی تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ براق کے کمرے میں نہیں گئی تھی کیونکہ اسکی دھمکی پر ایک ہی باری میں براق نے سوپ پی لیا تھا۔ اب وہ شام کو ایمان کے ساتھ براق کے کمرے موجود تھی۔
میں تو بلکل ٹھیک ہوں تم سب لوگوں نے یہ پوچھ پوچھ کر میرا دماغ گھوما دیا ہے اب کوئی نہیں پوچھنا کہ میں کیسا ہوں..! براق نے چیڑ کر جواب دیا تھا۔ بھائی بھابھی بہت پریشان ہوگئی ہے آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائے عنادل نے اپنی جھکی آنکھیں اٹھائے براق کو دیکھا جس کے آنکھوں میں صاف اجنبیت محسوس ہوئی تھی۔ عنادل نے ایمان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کو کہا تھا اور ایمان اس کو دیکھ خاموش ہو بھی گئی تھی کیونکہ ڈاکٹر نے براق کو ہر پریشانی سے دور رکھنے کو بولا تھا اس کو ہلکے ہلکے سب بتانے کو بولا تھا ۔اگر ایک ساتھ اس پر بہت سی چیزیں آشکار ہوگی تو اس کے دماغ پر زور پر سکتا ہے کیا مطلب۔۔؟ براق نے ایمان کی بات پر کنفیوز نظروں سے دیکھ اس سے پوچھ ہی لیا تھا کچھ نہیں ..! ایمان بات گھوما گئی تھی۔
اور عنادل کا یوں مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ اس کو بہت دکھ ہوا تھا اب وہ عنادل کے پاس آتے بولی تھی بھابھی آپ نے مایوس نہیں ہونا انشاء اللّٰہ بھائی ٹھیک ہو جائے گے ایمان نے تسلی دی تھی عنادل بس ہاں میں سر ہلا کر رہ گئی تھی بولنے کو کچھ تھا ہی نہیں اس کے پاس۔
کاشان بھی عنادل کے ساتھ ہی تھا جبکہ باسل حور بھی آج یہی موجود تھے۔ نزاکت صاحب اور جمشید علی نے صاف منع کردیا تھا کہ وہ لوگ وہاں نہیں جائے گے۔ جبکہ کلثوم بیگم بھی نہیں آئی تھی۔
شاہنواز چودھری اپنے کمرے میں تھے۔ عباس صاحب حویلی میں موجود تھے لیکن بچوں کے بیچ ان کا کوئی کام نہیں تھا اس لئے وہ بھی اپنے کمرے میں تھے۔ دانیہ تو کمرے سے نکلی ہی نہیں جب سے اس کو پتا لگا تھا کہ باسل بھی باہر موجود ہے وہ تو جیسے اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
ساحر جو حویلی سے باہر کچھ کام کے لئے گیا تھا اس لئے اسکو آنے میں دیر ہو جانی تھی تبھی حور بھی سکون سے یہاں سب کے درمیان موجود تھی لیکن اس کی آنکھیں بار بار کسی کی تلاش میں ادھر اُدھر ہورہی تھیں۔
باسل جو کب سے یہاں موجود تھا لیکن اس متاع جان کو یہاں موجود نا دیکھ آگ بگولہ ہوا تھا۔ براق اب کمرے میں اکیلے موجود تھا کیونکہ وہ سب کے ساتھ نیچے بیٹھ نہیں سکتا تھا کمزوری کی وجہ سے سر میں درد ہونے سے اس کا سر چکرا جاتا تھا۔ اس لئے وہ اپنے کمرے میں ہی موجود تھا۔ کاشان ایمان سمیت عنادل اور حلیمہ بیگم لاونج میں موجود تھے حور بھی ان کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھی تھی جبکہ باسل کام کا بہانہ کرکے جا چکا تھا باسل جو باہر نکلا تھا۔ لیکن کسی کام کے لئے نہیں پچھلی سائیڈ سے حویلی داخل ہونے کے لئے تاکہ سب کی نظروں سے بچ کر وہ دانیہ میڈم کا دیدار کر سکیں جو خود کو کمرے میں بند کئے جانے کونسے چلے کاٹ رہی تھیں باسل جب حویلی کے پچھلی سائیڈ گیا تب وہاں کافی گارڈز کھڑے تھے باسل کو حیرت ہوئی تھی کل رات تک تو یہاں کوئی موجود نا تھا۔ وہ آگے بڑھتے ان گارڈز کے آگے کھڑا ہوا تھا۔ وہ لوگ باسل کے یوں گھورنے پر اسکو دیکھنے لگے جبکہ باسل بولا تھا۔ کل جب میں یہاں آیا تھا تب تم سب کہاں تھے۔ ...؟؟ باسل کی تیکھی نظروں سے دیکھنے پر وہ سب گڑبڑائے تھے۔ آپ کون ..؟ ایک گارڈ نے آتے اس سے پوچھا تھا کیونکہ ان لوگوں نے باسل کو یہاں پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ اس پہلے ایسی نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ وہ چوری چھپے پیچھے کی جانب سے کسی کی حویلی میں گھس رہا ہوں۔ میں جو بھی ہوں اگر اپنی خیریت چاہتے ہوں اور اپنی نوکری بچانا چاہتے ہوں تو ابھی یہاں سے ہٹ جاؤ اور مجھے اندر جانے دو صاف اور سیدھی بات کرتے باسل نے دھمکی دی تھی۔
وہ سب ایک ساتھ سائیڈ ہوئے تھے۔ باسل یہ سوچتے آگے بڑھا تھا۔ ایک بار دانیہ اسکی دسترس میں آجائے اسکے بعد یہ لُکا چھپی کا کھیل ختم ہوگا۔ دانیہ جانے کونسی سوچوں میں گم کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی۔ باسل جب پچھلی جانب سے حویلی کے اندر داخل ہوا اس کے بعد سب سے پہلے اس کا رخ دانیہ کے کمرے کے جانب تھا۔ کمرے کے دروازے کو دیکھا جو کھلا ہوا تھا۔ دبے دبے قدموں سے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔ دانیہ کو یوں جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر اُدھر ہوتے دیکھ دروازے کو بند کئے اس کے ساتھ لگے دانیہ سے بولا تھا۔ باسل خان اتنی جلدی نہیں جانے والا ...! دانیہ جانی پہچانی آواز سنیں نظریں اٹھائے باسل کو اپنے کمرے میں موجود دیکھ سکتے سی حالت میں اس کو دیکھے ہی گئی۔ سوچوں سے باہر آؤ اور دیکھو میں سچ میں یہاں موجود ہوں۔
باسل کے قدم اب کی بار دانیہ کی جانب بڑھے تھے۔ دانیہ اس کے قدم اپنے طرف بڑھتے دیکھ پیچھے کی جانب اپنے قدم لینے لگی تھی باسل اس کی چالاکی پر کھل کر مسکرایا تھا۔ اور اب بھی اپنے قدم بڑھا رہا تھا جبکہ دانیہ پیچھے ہوئے جارہی تھی۔ آخر آگے پیچھے کا کھیل ختم ہوا تھا دانیہ نے ایک اور قدم پیچھے کی جانب لیا تھا اس کے آگے کوئی جگہ نہیں تھی اب وہ مکمل دیوار کے ساتھ لگ چکی تھی۔ باسل نے اس کے دونوں جانب اپنے ہاتھ رکھے راہ فرار کا ہر راستہ بند کیا تھا۔ دانیہ نے اپنی جھکی پلکیں اٹھائے اسکو دیکھا تھا جس کی آنکھوں میں جزبات سے ٹھاٹھیں مارتا سمندر صاف دیکھائی دے رہا تھا۔ دانیہ زیادہ دیر اس کی لو دیتی نظریں خود پر محسوس کرتی آخر پھر پلکوں کے جھالر جھکا گئی تھی۔ باسل نے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے تھے۔ اور اپنا سر اس کے سر سے ٹکائے آنکھوں کو بند کئے بولا تھا۔ رحم نہیں آتا ..؟؟ باسل جانے یہ کیوں بولا تھا۔ کیا مطلب ..؟ دانیہ نے آنکھیں کھولے اسکو دیکھنا چاہا لیکن اس کی بند آنکھوں کو دیکھ اپنی آنکھیں بھی بند کر گئی تھی۔ جانتی ہوں تمہارے ایک دیدار کے لئے میں حویلی کے پیچھلی طرف سے آیا ہوں اگر میں نہیں آتا تو تم نے باہر بھی نہیں آنا تھا۔ اپنے شوہر کو یوں ہی مایوس بھیج دیتی۔ باسل نے شکوہ کیا تھا۔
وہ .. تو میں...! دانیہ کیا بولتی اس سے پہلے ہی باسل نے اسکے لب پر اپنی انگلی رکھتے اس کا منہ بند کروایا تھا۔ جانتا ہوں تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی..! تمہارے سر میں درد تھا اس لئے تم باہر نہیں آئی تمہیں تو پتا ہی نہیں تھا باہر کوئی تمہارے انتظار میں ہے یہی سب بولنے والی تھی کوئی نیا بہانا بنانا کیوں کہ اسے بہانے تمہارے فالتو ڈراموں میں ہی اچھے لگتے ہیں دانیہ اسکی بات سنتے منہ بسور کر رہ گئی تھی۔ یہ آپ کیا میرے ڈراموں کے پیچھے لگے رہتے ہیں پیسے تھوڑی لگتے یا آپ کے پیسے لے کر یہ ڈرامے والے بھاگ گئے ہیں۔ دانیہ نے چبھتی نظروں سے گھور کہا تھا۔ میرے سارے پیسے تو تم پر قربان ..! لیکن یہ ڈرامے جو میری بیوی کو بگاڑ رہے ہیں ان کا کیا کروں میں..! باسل نے اپنے انگلیوں کی پوروں سے اس کے چہرے پر آئی لٹیں کان کی پیچھے کی تھی۔ باسل کی انگلیوں کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کئے تھوڑی جھجھک ہوئی تھی۔ باسل نے اس کے چہرے پر حیا سے چھائی لالی دیکھی تھی۔ آج تو تم میرے آنے پر اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی لیکن آج کے بعد میں جب بھی آؤں سب سے پہلے باہر تم مجھے نظر آؤ اور تم نے جو کل مجھ سے میرا نمبر لیا تھا کبھی کال کرنے کی زحمت بھی کر لیا کریں۔ ..؛ باسل نے یاد دہانی کروائی تھی۔ او ہاں ...! دانیہ نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا
چلو اگر تمہیں یاد آہی گیا ہے تو میں انتظار کروں گا تمہاری کال کا..! باسل نے اپنے لب اس کے رخسار پر رکھے تھے دانیہ اپنی آنکھیں پھیلائے رہ گئی تھی باسل اس سے دور ہٹا تھا منہ بند کر لو پھر مت کہنا میں نے اپنے اوپر قابو کیوں نہیں رکھا۔ باسل کی معنی خیزی باتوں پر دانیہ نے فوراً اپنے منہ کو زور سے بند کیا تھا۔
باسل اس کے گال سہلائے اپنے بنائے ہوئے راستے سے نکل گیا تھا۔ یعنی کمرے سے نکلتے جہاں سے وہ حویلی میں آیا تھا وہی سے واپس نکلنا تھا اور ان گارڈز کو اہم بات سمجھانی بھی تو تھی۔ باہر نکلتے وہ ان گارڈ کو اپنے پاس بلاتے بولا تھا۔ میرے علاؤہ اس راستے سے کوئی بھی آئے تو کسی کو اندر نہیں جانے دینا سوائے اس حویلی کے لوگوں کے اور زیادہ فکرمند یا حیران ہونے کی ضرورت نہیں مجھے بھی اس حویلی کا ہی فرد سمجھ لو اور اپنا منہ بند رکھنا ورنہ تم لوگ آدھی رات کو اس حویلی سے کہاں جاتے ہوں یہ اگر حویلی کے لوگوں کو پتا لگ گیا تو تمہارے نوکری کو خدشہ ہوسکتا ہے وہ یہ کہتے آرام سے جیسے آیا تھا ویسے ہی آرام سے نکل گیا تھا۔ حور جو آرام سے لاونج میں عنادل کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی تھوڑی دیر بعد باسل نے کہا تھا وہ اسکو آکر لے جائے گا۔ تبھی ساحر حویلی کے داخلی دروازے سے آتا ہوا دکھائی دیا تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback