Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 19.
ساحر اب تک اس کا جواب جاننے کے لئے ویسے ہی گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا ابھی وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرتا اس سے پہلے ہی حور نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ ساحر نے نظریں اٹھائے حور کو دیکھا تھا جو رو رہی تھی یا مسکرا رہی تھی ساحر کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اب کھڑا ہوا تھا اور حور کے جانب اپنے قدم بڑھائے تھے حور نظریں جھکائے کھڑی تھی ساحر نے اپنے ہاتھوں سے اُس کی تھوڑی کو پکڑے اس کے چہرے کو اوپر کیا تھا۔ جبکہ حور کے نظریں ہونز جھکی ہوئی تھی۔ میری طرف دیکھو...! ساحر کے بھاری آواز پر اس نے اپنی نظریں اٹھائے ساحر کو ایک نظر دیکھ کر دوبارہ نظریں جھکائی تھی۔ ساحر اس کے چہرے پر حیا سے چھائی لالی دیکھ مسکرایا تھا۔ تمہاری خاموشی کو کیا سمجھوں میں؟ ساحر نے خفگی بھرے لہجے میں پوچھا تھا۔
حور کی خاموشی تھی جو ختم ہو کر نہیں دے رہی تھی آخر ساحر بولا تھا۔ آجاؤ واپس جانا ہے۔۔ ساحر نے گاڑی کے جانب قدم بڑھائے تھے حور نے ساحر کے ہاتھ کو پکڑے روکا تھا۔ ساحر نے ترچھی نگاہیں کئے حور کو دیکھا تھا جس نے اچانک اُس کے یوں دیکھنے پر اُس کے ہاتھ کو آزاد کیا تھا۔ تم اپنا پورا وقت لو میں اپنی محبت تم پر مسلط نہیں کرنا چاہتا ..! میری محبت کا اظہار میں نے تم سے آج ان کھلی فضاؤں میں کیا ہے ...! میری محبت کا ثبوت آج یہ بارش کا ایک ایک قطرہ بنا ہے۔ یہ ہوائیں جو تمہیں چھو کر گزر رہی ہیں یہ ہے میری محبت کا ثبوت ہے۔ میری محبت کا گواہ میرا خدا ہے۔ ساحر کے ہر الفاظ میں سچائی جھلک رہی تھی۔ بارش میں کھڑی حور اب سردی کی وجہ سے کپکپانے لگی تھی ساحر کی نظریں اس پر ٹھہر سی گئی تھی۔ بارش کی تیز رفتار جو اُس کے چہرے کے ساتھ اُس کے پورے وجود کو گیلا کر چکی تھی۔ کچھ پل کے لئے تو ساحر کو بھی حور سے نظر ہٹانا مشکل لگا تھا۔ لیکن خود پر قابو رکھے وہ بولا تھا۔ چلوں بہت دیر ہوچکی ہے۔..! حور جو ساحر کی باتوں کے سحر میں جکڑی ہوئی تھی۔ ساحر کے آواز پر اسکا سحر ٹوٹا تو وہ بھی ساحر کے ساتھ ہی پیچھے چلتی گاڑی میں بیٹھی تھی۔
دونوں کے بیچ ہونز خاموشی چھائی تھی ساحر نے اس وقت کچھ نا بولا تھا وہ چاہتا تھا حور اپنا پورا وقت لے نا کہ اپنے اوپر کسی قسم کی کوئی زبردستی محسوس کرے۔
اچانک گاڑی میں سے آواز آنے لگی حور نے ڈر کر ساحر کو دیکھا تھا۔ ساحر بھی اچانک گاڑی کو یوں جھٹکے سے روکتے دیکھ پریشان ہوا تھا۔ تم یہی بیٹھو میں دیکھتا ہوں کیا ہوا ہے۔۔! ساحر نے اس کو گاڑی کے اندر بیٹھنے کی ہی تاکید کی تھی۔ حور اپنے انگلیوں کو مڑوڑتے خوف اوپر سے سردی اس کو الگ لگ رہی تھی وہ کپکپارہی تھی۔
عنادل کے آتے ہی سب تھوڑے ریلکس ہوئے تھے شاید براق عنادل کو پہچان لے جبکہ شاہنواز چودھری کے چہرے پر چھائی بیچینی وہاں سب محسوس کر سکتے تھے۔ عنادل براق کے قریب ہی بیٹھی تھی۔ اور اس کو دیکھ رہی تھی آنکھوں سے آنسوں آبشار کی طرح نکل رہے تھے۔ براق کو سہی سلامت دیکھ کر اس نے اپنی آنکھوں کو بند کیا تھا۔ براق اپنے سامنے عنادل کو دیکھ حیران تھا۔ انجانی حیرت تھی براق کو ...! کچھ دیر بعد سب باہر نکلے تھے۔ اب صرف براق اور عنادل وہاں موجود تھے۔ عنادل نے اپنا ہاتھ اس کے چہرے پر رکھا تھا۔ براق بڑی محویت سے اس کو دیکھے جارہا تھا۔ آپ کو پتا ہے میں بہت پریشان ہوگئی تھی۔ عنادل نے فکرمندی سے بتایا تھا۔ آپ کون ہیں؟ براق نے آخر پوچھ ہی لیا تھا براق جو کافی دیر سے اس کو یوں خود کے لئے پریشان ہوتے دیکھ رہا تھا۔ عنادل نے حیرت بھری نظروں سے براق کو دیکھا تھا پھر کچھ دیر پہلے ڈاکٹر کی بولی ہوئی بات اس کے دماغ میں گردش کرنے لگی۔ اس کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ براق اس کو بھی بھول جائے گا۔ میں عنادل آپ کی عنادل ..! عنادل نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ اور اس کو یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔ دیکھیں میں آپ کو نہیں جانتا اور آپ میرے پاس کیوں بیٹھی ہیں باہر جائیں..! براق نے سپاٹ انداز اپنایا تھا۔ عنادل وہاں سے اٹھی تھی وہ اب وہاں زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتی تھی۔ وہ مرے مرے قدموں سے باہر نکلی تھی باہر سب اسکو دیکھ ٹھٹھکے تھے جس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
وہ مجھے بھی بھول گئے وہ اپنی عنادل کو بھول گئے۔ ..! یہ سب صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہوا ہے عنادل اتنی زور سے چیخی تھی۔ جبکہ وہاں کھڑی حلیمہ بیگم اور کلثوم بیگم عنادل کو یوں شاہنواز چودھری کے قریب کھڑے چیختے دیکھ حیران تھیں .. ڈاکٹر کدھر ہے ..؟ عنادل اس وقت سب کچھ بھولے ڈاکٹر کو ادھر اُدھر دیکھنے لگی ڈاکٹر جو دور سے اس کو آتا دکھائی دیا تھا۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے ..! عنادل کا لہجہ خطرناک حد تک سنجیدہ ہوا تھا۔ ڈاکٹر اس کو اپنے سامنے یوں آتے دیکھ روکا تھا۔ براق کو ہم کب تک یہاں سے لے جا سکتے ہیں؟ آپ ان کو کل صبح تک لے جانا چاہے تو لے جائے..! لیکن ان کے زخم ابھی گہرے ہیں تو اس کا خیال آپ نے رکھنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے..! عنادل کو جیسے ہی ڈاکٹر نے سب کچھ بتایا وہ فوراً شاہنواز چودھری کے عین سامنے کھڑی ہوئے حقارت بھری نظریں ان پر گاڑھے بولی تھی۔ آپ خوش تو بہت ہیں ..! لیکن میں بھی عنادل براق چودھری ہوں ان کو اگر میں نے پہلے جیسا نا کیا تو میں آپ کی حویلی اور براق کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلی جاؤں گی پھر کبھی اس حویلی کی طرف اپنے قدم تو دور اپنا سایہ بھی پڑھنے نہیں دوں گی۔ کلثوم بیگم تو عنادل کو اتنا سنجیدہ پہلی بار دیکھ کر نزاکت صاحب کی طرف آئی تھی۔ نزاکت صاحب نے ان کو اشارے سے روکا تھا۔ وہ خاموشی سے کھڑی عنادل کو دیکھ رہی تھی۔
دانیہ جو اب بھی ویسے ہی بیٹھی ہوئی تھی لیکن اب اس نے اپنے اوپر دوپٹے کو اچھے سے پھیلایا ہوا تھا اور یہ حکم سنانے والا باسل تھا کچھ دیر بعد دانیہ کا نام باسل کے ساتھ جوڑ گیا تھا لیکن اب آگے کیا کیا ہونے والا ان سب سے انجان دانیہ ابھی بہت خوش تھی۔ کیونکہ دانیہ کے مطابق جیسے کسی ہیرو نے ہیروئن کو یوں اٹھوا کر نکاح کیا تھا جبکہ اس کے بر عکس یہ بات کسی طوفان کے طرح سب کے سامنے آنے والی تھی۔ باسل اب اس کمرے میں آیا تھا۔ دانیہ اس کو کمرے میں آتے دیکھ بولی تھی اب مجھے گھر جانا ہے اب تو آپ نے مجھ سے نکاح بھی کر لیا اب تو گھر چھوڑ دیں..! دانیہ نے معصومیت سموئے بولا تھا۔ پہلے تمہیں ایک بات بتانی ہے.. یہاں بیٹھو ..! باسل نے اس کو کرسی پر بٹھایا تھا اور خود اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔
دانیہ باسل کو اپنے اتنا قریب دیکھ آنکھیں چھوٹی چھوٹی کئے اس کو گھورنے لگی تھی۔ میں یہ بات تم سے چھپانا نہیں چاہتا تھا لیکن میں اپنی زندگی کو کسی دوسرے کی زندگی بنتے نہیں دیکھ سکتا تھا دوسری طرف یہ بات بھی میں نہیں چھپانا چاہتا تھا لیکن میں نے تم سے یہ بات چھپائی دانیہ اب بلکل کنفیوز ہوگئی تھی۔ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ سیدھے سے بولیں..!! براق بھائی کو گولی لگی ہے ابھی اس نے اتنا ہی بتایا تھا تبھی دانیہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی۔ آپ نے مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائی دانیہ کی آنکھوں میں آنسوں چمکے تھے لیکن اب وہ بلکل ٹھیک ہے پر وہ کسی کو بھی نہیں پہچان رہے میری ابھی بات ہوئی ہے کال پر..! باسل نے دانیہ کو تسلی دی تھی۔ کیا مطلب ..؟پہچان نہیں رہے ..! مجھے ابھی لیکر چلیں ابھی وہ کدھر ہیں حویلی یا پھر ہسپتال ..؟ ابھی تو وہ ہسپتال میں ہیں لیکن صبح ان کو ڈسچارج کردیا جائے گا
اب مجھے لیکر چلیں دانیہ روتے روتے بولی تھی۔ ایسے نہیں لیکر جاؤں گا۔ باسل بھی اٹل لہجہ اپنائے بولا تھا۔ کیا مطلب آپ مجھے بھائی کے پاس نہیں لے کر جائے گے میں اکیلی جا رہی ہوں دانیہ دروازے کے جانب قدم بڑھا گئی تھی۔ باسل جلدی سے اس کے سامنے حائل ہوا تھا کہی وہ چلی ہی نا جائے میں ایک شرط پر تمہیں حویلی چھوڑوں گا دانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا جیسے پوچھ رہی ہو شرط کیا ہے بتاؤں ... پہلے اپنے آنسوں صاف کروں ورنہ میرا ڈرائیونگ سے زیادہ دھیان تم پر ہوگا اور ایسے میں گاڑی نہیں چلا سکتا ..! باسل نے صاف گوئی سے کہا تھا۔ اور یہ بتاؤ حویلی جاکر کیا کہوں گی کہ تم کہا تھی..؟ باسل کو ایک اور پریشانی لاحق ہوئی تھی وہ دانیہ کو کسی بھی مصیبت میں نہیں ڈال سکتا تھا۔ دانیہ نے اپنے ایک ہاتھ سے آنسوں صاف کئے تھے جبکہ اس کی دوسری بات پر وہ بھی پریشان ہوئی تھی۔ آپ بولیں گے نا آپ نے مجھ سے نکاح کیا ہے اور مجھے تو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی آپ کو کیا ضرورت پڑی تھی مجھ سے یوں اچانک نکاح کرنے کی..! دانیہ نے کھا جانے والی نگاہوں سے باسل کو دیکھا تھا۔ باسل کا دماغ شارٹ ہو اتھا یہ تمہیں تب پوچھنا تھا جب تمہارا دماغ ڈرامے کی ہیروئن کی طرح چل رہا تھا۔ اور دوسری بات تمہیں بتایا تو ہے حویلی میں براق بھائی کو گولی لگنے کی وجہ سے سب خاموش سے ہوگئے ہیں تو یہ بات بتا کر میں ابھی سب کو پریشان نہیں کرنا چاہتا لیکن تم میری امانت ہو اور اسکے بارے میں سب کو بہت جلد بتاؤں گا تم سے نکاح کرنا میری کوئی مجبوری یا پھر تمہارا ایسا فالتو خواب پورا کرنا نہیں تھا جو خود مجھے ابھی پتا لگا کہ دانیہ میڈم کو یوں واقع میں کیڈنیپ ہوکر نکاح کرنے کا شوق تھا میں نے تم سے اس لئے نکاح کیا کیونکہ میں تمہیں اس بیوقوف کیا نام تھا اس لڑکے کا..! ہاں۔۔۔ یرسل کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا اور تمہارا اور اس کا کوئی میچ نہیں تھا۔ باسل نے چہرے کے زوائیے بگاڑے بتایا تھا۔ آپ کا اور میرا کوئی میچ ہے کیا ..؟؟ دانیہ اس کو اوپر سے نیچے دیکھ بولی تھی۔ جبکہ لہجے میں شرارت تھی جو باسل نے محسوس بھی کی تھی..! تمہارا اور میرا ملنا قسمت میں لکھا تھا آج اگر ایسے تمہارا نام میرے ساتھ نا جوڑتا .. تو کل کوئی اور ذریعہ ہم دونوں کے ملنے کا بنتا..! باسل اپنے قدم دانیہ کی جانب بڑھائے گھمیبر لہجے میں بولا تھا۔ تمہارا نام اب میرے نام کے ساتھ جوڑ گیا ہے۔ دانیہ کا نام ادھورا ہے اب سے باسل خان کے بنا .. !!! آج سے دانیہ عباس علی چودھری نہیں رہی...! آج سے دانیہ اپنے باسل کی دانیہ باسل خان ہے۔ خان کی خانی ..! دانیہ کی پلکیں باسل کی نظریں خود پر محسوس کئے جھکی تھی۔ شرم و حیا کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔
ایمان اور کاشان واپس ہوٹل آگئے تھے۔ کچھ دیر بعد کاشان نے حویلی کال کی تھی۔ لیکن کسی نے کال نہیں اٹھائی تھی کل ان لوگوں نے واپس جانا تھا۔ ان پندرہ دنوں میں ایمان اور کاشان نے ایک دوسرے کی سنگت کافی اچھا وقت گزارا تھا ایمان نے اپنا سارا سامان پیک کر لیا تھا جبکہ ان کی فلائیٹ کل صبح کی تھی دوپہر تک ان لوگوں نے حویلی پہنچ جانا تھا۔
حور ساحر کو دیکھ رہی تھی جس کو کم از کم دس منٹ گاڑی کو دیکھتے ہوگئے تھے آخر وہ خود گاڑی سے نکلتے اس کے پاس آئی تھی کیا ہوا ہے ..؟؟ گاڑی خراب ہوگئی ہے ابھی کافی رات ہوگئی ہے کوئی مکینک بھی نہیں ہوگا جو اس گاڑی کو ٹھیک کرے ...! اب کیا ہوگا ..؟ حور فکرمند لہجے میں بولی تھی۔ روکو میں کچھ کرتا ہوں وہ اپنا موبائل نکالے کال ملانے لگا کال ریسیو کرلی گئی تھی۔ ہیلو ...ہیلو آواز شاید سامنے والے تک پہنچ نہیں رہی تھی اچانک سے موبائل آف ہوگیا تھا۔ آؤ شٹ بیٹری ڈیڈ ہوگئی ہے تمہارا موبائل کہاں ہے..؟ ساحر نے حور کو دیکھتے فوراً سے پوچھا تھا شاید اسکے پاس موبائل ہو... میں تو جلدی میں لانا ہی بھول گئی حور نے ڈرتے ڈرتے بتایا تھا۔ حور تو خود دانیہ کو ڈھونڈنے کے چکر میں جلدی سے حویلی سے باہر نکلی تھی۔ ایک منٹ وہاں کوئی گھر ہے..! چلوں میرے ساتھ ساحر نے حور کو اپنے ساتھ آنے کا کہا تھا۔ حور اس کی ہمراہ پیچھے پیچھے اپنے چھوٹے چھوٹے قدم لئے چل رہی تھی۔ جب وہ اس گھر کے عین سامنے کھڑے ہوئے تھے۔ ساحر نے ہاتھ سے دروازہ بجایا تھا۔ اندر سے کافی دیر تک کوئی جواب نا آیا تو ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ساحر اس کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دے رہا تھا جبکہ حور کہ آنکھوں سے صاف خوف ظاہر ہو رہا تھا۔
تبھی ایک ادھیڑ عمر عورت اندر سے نکلی تھی .. جو ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ بولیں تھیں۔ کون ہو تم لوگ چور ہو تو یہاں سے چلیں جاؤں تمہیں یہاں میرے علاؤہ کوئی اور چیز نہیں ملے گی یہ کہتے ہی وہ عورت دروازہ بند کرنے لگی شاید وہ ڈسٹرب ہوگئی تھی یہ ساحر کا اندازہ تھا۔ جو اس نے لگایا تھا۔ آنٹی ہم چور نہیں ہیں ہمارے گاڑی خراب ہوگئی ہے ساحر ابھی بتاتا کہ وہ بول اٹھی کیا تمہاری بیوی خراب ہوگئی ہے ..! ایک کام کروں ایک دن میرے پاس بھیج دوں میں اس کو کھانا بنانا سب کچھ سیکھا دوں گی شاید ان کو سننے میں مشکل ہوتی تھی۔ آنٹی بیوی نہیں گاڑی..! ساحر زور سے بولا تھا۔ ہاں ہاں ..! سمجھ گئی بہری نہیں ہوں میں ..! وہ عورت منہ بسور کر بولی تھی۔ ہماری گاڑی خراب ہوگئی ہے اور موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہوگئی ہے ... ساحر نے بتایا تھا۔ ابھی وہ پھر کچھ بولتا کہ وہ بول اٹھیں تھی کس کی بکری بھاگ گئی ہے..؟ ساحر تو اپنا سر پکڑے رہ گیا تھا جبکہ حور کنفیوز نظروں سے کبھی ساحر کو دیکھتی تو کبھی اس عورت کو...! کچھ نہیں ہم چلتے ہیں ساحر واپسی کو موڑ گیا تھا جبکہ وہ عورت بولی تھی۔ تم دونوں کہاں جاؤں گے اتنی بارش میں آج یہاں ہی روک جاؤں ساحر نے پہلے حور کو دیکھا پھر کچھ سوچ کر ہاں کی تھی اور اندر چل دئے تھے حور بھی اس کے پیچھے ہی اندر چل دی یہ ایک چھوٹا سا دو کمرے کا گھر تھا جہاں چھوٹا سا کیچن تھا۔ گھر میں پرانے دور کی قیمتی چیزیں پڑھیں تھی۔ وہ دونوں پاس پڑی لکڑی کی دو کرسی پر بیٹھے تھے حور تو کپکپا رہی تھی۔
وہ عورت ان کے سامنے سربراہی کرسی پر بیٹھے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی لڑکی تمہارا نام کیا ہے..؟ انہوں نے حور سے پوچھا تھا ..! حور نے اتنی ہلکی آواز میں جواب دیا تھا کہ ساحر نے با مشکل سننا تھا جبکہ ان کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا یہ لڑکی گونگی ہے ..؟ اس عورت کی ایسی بات پر حور نے حیرت بھری نظروں سے ساحر کو دیکھا تھا جو با مشکل اپنی ہنسی روکے سامنے دیکھ رہا تھا۔ نہیں میں گونگی نہیں ہوں میرا نام حور ہے اب کی بار وہ زور سے بولی تھی۔ اچھا اچھا سمجھ گئی اب اتنی زور سے بھی نا بولو... تمہارا نام کیا ہے لڑکے ساحر نے اپنا نام بتایا تھا۔ اچھا بہن بھائی ہو دونوں ..؟ ساحر کے آگے جو پانی کا گلاس پڑا تھا ابھی اس نے گھونٹ لیا ہی تھا اس کو اچھو لگا تھا نہیں ہم بہن بھائی نہیں ہیں ساحر جلدی سے بول اٹھا تھا ..! اچھا تو پھر شادی شدہ ہو ..! ایک اور اندازہ لگایا تھا جبکہ ساحر کے چہرے پر الوہی چمک آئی تھی ان کی بات سنتے۔
میرا نام نازیہ ہے میری ایک بیٹی تمہاری جیسی ہی تھی۔ وہ بہت معصوم سی تھی پر وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے چھوٹی عمر میں ہی وہ کینسر کے مریض میں مبتلا ہوگئی تھی۔ نازیہ بیگم منہ میں پان ڈالتے ان دونوں کو اپنے بارے میں بتانے لگی تھی۔ حور بہت غور سے ان کی ساری بات سن رہی تھی۔ جبکہ ساحر بھی ان کی باتوں کو سن رہا تھا۔اچھا تو تم دونوں کا مئسلہ یہ ہے کہ تمہاری گاڑی خراب ہوگئی ہے ..! اُس کمرے میں تو میں رہوں گی ایک کمرہ وہاں سٹور روم بنا ہوا ہے اگر آج رات وہاں رہ سکتے ہو تو رہ لو مجھے کوئی مئسلہ نہیں ہے۔ اور لڑکی تم میرے کمرے میں آؤ میری بیٹی کے کپڑے آج رات تمہارے کام آجائے گے نازیہ بیگم اسکو اپنے پیچھے آنے کا بولتی کمرے میں چل دی جبکہ ساحر اس سٹور روم کو دیکھنے چل دیا۔
باسل اور دانیہ اس وقت حویلی کے راستے پر تھے دانیہ عجیب عجیب چہرے بنائے پتا نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی۔ باسل وقتا فوقتاً ایک نظر اس پر ڈال رہا تھا۔ کوئی مئسلہ ہے ..؟ باسل نے آخر پوچھ ہی لیا تھا۔ نہیں تو مجھے کوئی مئسلہ نہیں ہے۔ ..! دانیہ نے ہڑبڑاہ کر جواب دیا تھا۔ تو پھر اتنے گندے چہرے کیوں بنا رہی ہو.. باسل نے اس کے یوں منہ بنانے پر چوٹ کی تھی۔ وہ میں سوچ رہی ہوں کہ اچانک بولتے بولتے وہ خاموش ہوگئی تھی۔ ہاں کیا سوچ رہی ہوں میں بھی تو جانوں میری زوجہ آخر سوچ کیا رہی ہے اور میرے علاؤہ ان کے دماغ میں اور کیا چیز چل رہی ہے اصولاً تو تمہاری سوچ کا مرکز اب مجھ تک ہی محدود ہونا چاہئیے .. باسل زو معنی لہجے میں بولا تھا۔ دانیہ نے خونخوار نظروں سے اس کو دیکھا تھا۔ میں جو سوچ رہی ہوں اگر میں نے بتایا تو آپ کو واقعے میں پتا لگ جائے گا کہ میں آپ کے بارے میں ابھی کیا کیا سوچ رہی ہوں دانیہ شریر انداز اپنائے بولی تھی۔ مطلب میری معصوم سی بیوی ابھی میرے بارے میں ہی سوچ رہی ہے اررے میں تمہارے پاس ہی بیٹھا ہوں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں جو کہنا ہے کہہ دو میں برا نہیں لگاتا باسل گھمیبر لہجے میں بولا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کتنے بدتمیز ہیں آپ ..! میں تو سوچ رہی ہوں جب مجھ سے سب پوچھے گے تو میں کیا جواب دوں گی۔ دانیہ نے کھا جانے والی نظروں سے باسل کو دیکھا تھا جو بڑے اطمینان سے گاڑی چلا رہا تھا۔ میں تو یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ میں ان کو یہ کہہ دوں آپ باسل سے پوچھئے گا پھر آپ جانے اور وہ...! میں تو سکھ کا سانس لوں گی دانیہ نے اپنا پتہ صاف کرنا چاہا تھا اور باسل کا سکون غارت کیا تھا .. استغفر اللّٰہ کتنی تیز ہوں تم مطلب اپنے کچھ دیر پہلے ہونے والے شوہر کو دھمکیاں دے رہی ہو باسل نے افسوس سے سر ہلایا تھا۔ اللّٰہ اللّٰہ ..! میں تو معصوم ہوں لا حول کہاں سے معصوم ہو تم مجھے تو نہیں لگتی معصوم ..! باسل نے منہ کھلے پہلے اسکو دیکھا پھر تیر چلایا تھا جو سیدھا دانیہ کے دل پر لگا تھا۔ یعنی اب شیرنی اپنے شکار کا برا حال کرنے والی تھی۔میں آپ کو معصوم نہیں لگتی..! دانیہ نے رونے والی شکل بنائے پوچھا تھا باسل نے گاڑی کو ایک طرف روکا تھا اور اسکو دیکھا تھا جو رونے کو تیار بیٹھی تھی۔ نہیں نہیں.. تم تو اس دنیا کی سب سی معصوم لڑکی ہو باسل نے پیار سے اس کے رخسار کو سہلایا تھا جیسے وہ کوئی چھوٹی بچی ہو.. ہاں وہ تو میں ہوں..! ایک دم کہا رونا تو کہا آنسوں سب بھلائے وہ واپس اپنی ٹون میں آئی تھی۔ یا اللّٰہ کیا پسند ہے میری ....! مطلب مجھے محبت بھی ہوئی تو کس سے جو خود بچوں جیسی حرکتیں کرتی ہے۔ اس کا بچپنا ختم کرتے تو میں بوڈھا ہو جاؤں گا۔ اور جب اس کا بچپنا ختم ہوگا تب میں چھڑی پکڑے چل رہا ہوں گا باسل نے فوراً سے بھی پہلے اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کو جھٹکا تھا اور گاڑی کو منزل کے جانب کیا تھا۔
عنادل اب باہر ہی بیٹھی تھی جبکہ باقی سب حویلی چلے گئے تھے نزاکت صاحب نے اس کو بھی حویلی جانے کا بولا لیکن اسنے منع کردیا اور کہا تھا وہ یہی رہے گی اس لئے کسی نے بھی اسکو زیادہ مجبور نہیں کیا تھا۔ براق کو سکون کا انجیکشن دیا تھا اس سے وہ تھوڑی ہی دیر میں نیند کی وادیوں میں گم سا گیا تھا عنادل روم کا دروازہ کھولے اندر گئی تھی براق کو دیکھ اس کی آنکھوں میں آنسوں چمکے تھے اب وہ اس کے قریب ہی بیٹھی تھی۔ جبکہ وہ سو رہا تھا۔ آنکھوں کے نیچے اس کے سیاہ ہلکے پڑھ گئے تھے۔ بڑھی بڑھی بیرڈ جیسے سدیوں سے وہ بیمار ہوں ایک دن میں اسکا حال کیا سے کیا ہوگیا تھا عنادل اس کے قریب ہوئی اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے دور ہٹی تھی۔ مجھے بھی بھول گئے یہ تو غلط بات ہے نا مجھ سے آپ نے کتنے وعدے لئے تھے کہ میں کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں لیکن آپ تو مجھے ہی بھول گئے۔ عنادل نے شکوہ کیا تھا جیسے وہ نیند میں اس کی آواز با خوبی سن رہا ہو.. آپ کیا سمجھتے ہیں زیادہ دن آپ مجھے بھولے سکون سے رہیں گے تو ایسا نہیں ہے..! آپ بہت جلد مجھے پہچاننے لگے گے پھر میں آپ کو تنگ کروں گی آپ سے بہت ساری فرمائشیں کروں گی۔ وہ ہنستے ہنستے رودی تھی۔ اور اپنا سر اس کے سینے پر رکھ گئی تھی۔
حور اس وقت ہلکے پھلکے کپڑوں میں خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی جبکہ ساحر اس سٹور روم کا جائزہ لے رہا تھا حور جیسے ہی دروازہ کھولے اس کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھتی ہی رہ گئی دیواروں پر مکڑیوں کے جالے جبکہ اس کمرے میں بہت مٹی تھی۔ اب کے وہ کھانسنے لگی تھی ساحر جو چیزوں کو سائڈ پر رکھے جگہ بنا رہا تھا۔ اس کے کھانسنے پر موڑ کر دیکھا جو دوپٹے کو سر پر پھیلائے ہونز اس کے سامنے کھڑی اسکو دیکھ رہی تھی.. تم یہاں بیٹھ جاؤں آج رات یہاں گزارنی ہی پڑے گی رات کے اس پہر کوئی مکینک نہیں ملے گا اس سنسان علاقے میں.. ساحر نے اس کو مطمئن کیا تھا۔ وہ تھوڑی سی جگہ پر بیٹھی تھی جہاں ساحر نے ایک کپڑا بچھایا ہوا تھا کیونکہ نیچے اتنی مٹی تھی کہ زمین بیٹھنے کے قابل نہیں تھی اس لئے حور وہاں سمٹ کر بیٹھ گئی تھی ساحر بھی اپنی جگہ بنائے وہاں ہی چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ گیا تھا۔ حور کنفیوز سی اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی ساحر کبھی اسکو تو کبھی اس کی انگلیوں کو دیکھتا جو آپس میں ہی الجھ رہی تھی۔ کافی دیر بعد حور کی چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی۔ آہہہ....! بچاؤ بچاؤ وہ اتنی زور سے چیخی تھی کے ساحر بھی اپنی جگہ سے اچھلتا اس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا وہ چھپکلی اُدھر دیکھیں حور کے اشارہ کرنے پر ساحر نے اس طرف دیکھا جدھر حور نے اپنا اشارہ کیا تھا۔ ایک منٹ روکو حور آگے بڑھا تھا ابھی وہ اس چھپکلی کو پاس پڑے لکڑی سے مارتا کے وہ بھاگتی ہوئی حور کی جانب آئی تھی حور اچھل کر ساحر کے سینے سے جا لگی تھی۔ اس کو مارنے کا کہا ہے نا کہ میرے اوپر چھوڑنے کا ... حور اب بھی اس چھپکلی کو اپنی نظروں میں لئے خوف سے بولی تھی۔ ساحر تو اپنی جگہ جیسے جم سا گیا تھا۔ یا پھر وہ خود اپنی جگہ سے ہلنا نہیں چاہتا تھا۔ حور نے کافی دیر بعد اسکو دیکھا جو بڑی محویت سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اب جائے اسے مارے ورنہ وہ مجھے یونہی گھورتی رہے گی۔ حور نے غصے میں اسے کہا تھا جو ایک جگہ پتھر بن کر کھڑا تھا۔ پہلے تم تو ہٹو مجھے اگر یونہی پکڑی رہوں گی تو میں کسے آگے جاؤں گا۔ ساحر نے حور کو اس کی پوزیشن کا اندازہ کروایا تھا جب حور کو اندازہ ہوا کہ وہ اسکے اتنے قریب کھڑی ہے تبھی وہ فوراً دور ہٹی تھی۔ اور شرمندہ سی ہوئی تھی جبکہ ساحر بولا تھا۔ ویسے اور کن کن چیزوں سے تم ڈرتی ہو..؟ ساحر کا لہجہ شرارت بھرا تھا۔ حور اس کی بات سنتے منہ بسور کر رہ گئی تھی اتنی دیر میں ساحر اس چھپکلی کو مار چکا تھا۔ لو مر گئ بیچاری ایسے ہی تم اس کی دشمن بنی ہوئی تھی۔ ساحر نے افسوس سے کہا تھا۔ ہاں وہ جو بیچاری تھی آپ کو مبارک.. مجھے ان سب سے دور ہی رکھے اررے مارا ہی کیوں آپ نے اسے اپنے ساتھ ہاتھ میں لے کر بیٹھتے اور اس کو دیکھتے رہتے جب دل بھر جاتا تب اس کو اس کے بل میں سہی سلامت گھر چھوڑ کر آتے حور جل بھن کر بولی تھی۔ ساحر کا فلک شگاف قہقا گونجا تھا۔
پوری رات ان دونوں کی یوں بیٹھتے ہی گزرنے والی تھی ۔۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback