Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 18

 

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 18.

ایمان اور کاشان دونوں اس وقت ایک مال میں تھے۔ ایمان جب کوئی چیز لیتی کاشان اس کو ریجکٹ کر دیتا اور دوسرا کچھ پسند کرنے کو کہنے لگتا ..! ایمان کب سے ایک ایک ڈریس اس کو اپنے آگے کر کر کے دیکھا رہی تھی اور کاشان کو ایک بھی ڈریس پسند نا آیا جب کہی جاکر ایمان تنگ آتی بولی تھی .. آپ بتا دیں یہاں لائے کیوں ہیں مجھے..؟ ابھی تک مجھے تو شاپنگ کرنے نہیں دی باقی سب کے لئے کیا خاک کچھ لینے دیں گے ..! ایمان غصے سے پھٹ پڑی تھی۔ میں نے کب روکا سب لو پر کچھ اچھا تو لو یہ دیکھو اس کے بازؤں نا ہونے کے برابر ہیں اس نے ایک ڈریس اٹھاتے عجیب چہرہ بنائے کہا تھا۔ اس کو دیکھو یہ تو تم پہنوں گی بھی تو ڈریس دیکھا گا لیکن میں تمہیں کہاں ڈھونڈو گا اس ڈریس میں..! اب کی اس نے نقصانات گنوانے شروع کردئیے تھے۔ حد کرتے ہیں آپ...! ایک کام کرتے مجھے یہاں لے کر کیوں آئے خود ہی کچھ پسند کرکے ہوٹل لے کر آجاتے میں وہاں ہی دیکھ لیتی ایمان نے منہ بسور کر کہا تھا ہاں تاکہ تم مجھے بولتی میں کیا اٹھا کر لے آیا ہوں کاشان نے اچنٹی نگاہوں سے گھور کہا تھا۔ یہاں کونسا کچھ پسند کرنے دیا ہے آپ نے مجھے...! ایمان کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا جبکہ دکاندار ان دونوں کو یوں لڑتے دیکھ رہا تھا۔

سر آپ میم کی پسند کا کچھ لے لیں..! دکاندار ان دونوں کے بیچ کود کر بولا تھا۔ کاشان نے دکاندار کو دیکھ ایمان کو دیکھا جو ہونز ناراض چہرہ موڑے کھڑی تھی.. میم کچھ پسند ہی نہیں کرتی..! کب سے یہاں خوار ہو رہا ہوں یو نو لڑکیوں کو کچھ پسند ہی نہیں آتا کاشان نے سارا کیا دھرا ایمان کے متھے تھوپ دیا تھا۔ میم آپ کچھ پسند کرلیں اب کی بار دکاندار نے ایمان کو بولا تھا۔ منہ بند کروں اپنا اور آپ میرے پیچھے اگر آئے تو میں بال نوچ نوچ کر گنجا کردوں گی ایمان غصے میں بولتی دکان سے نکلتی جانے کس جانب چلنے لگی کاشان بھی فوراً سے پہلے اس کے پیچھے ہوا تھا۔ اب ایمان آگے آگے تھی جبکہ کاشان اس کے پیچھے پیچھے تھا تمہیں بغیر بالوں کے اپنا شوہر منظور ہے..؟ سب کیا کہیں گے اتنی پیاری لڑکی نے شادی بھی کی تو کس سے جس کے بال ہی نہیں ہیں..! کاشان نے اس کا موڈ ٹھیک کرنا چاہا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی گیا تھا ایمان جو منہ بنائے چل رہی تھی سب سوچتے کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔ کاشان اور ایمان اب تک براق کی حالت سے انجان تھے۔ جبکہ دوسری طرف دانیہ کو بھی کچھ نہیں پتا تھا جبکہ باسل کو سب معلوم ہوگیا تھا۔

حور اور ساحر نے بھی دانیہ کی ہر دوست کے گھر جا جاکر معلوم کیا تھا لیکن وہ کہی بھی نہیں تھی اب کے وہ واپس حویلی آرہے تھے۔ اب تک ان دونوں کے بیچ کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ جہاں حور باہر دیکھ رہی تھی وہاں ساحر بھی پوری توجہ سے گاڑی چلانے میں محو تھا۔ مجھے لگتا ہے بارش ہونے والی ہے حور باہر موسم کو دیکھ کر فکرمند لہجے میں بولی تھی ساحر نے بھی موسم دیکھا تھا جیسے بادل آج ٹوٹ کر برسنے والے تھے۔ اور اُدھر بادل کی گرجنے کی آواز پر حور خود میں سیمٹ کر بیٹھی تھی۔ انجانے خوف نے اس گہرا تھا۔ ساحر نے حور کو دیکھا جس کے چہرے پر پیسنے کی ننھی بوندیں چمک رہی تھی۔ وہ ڈر رہی تھی۔..! گھبراؤ نہیں تمہیں حویلی سہی سلامت چھوڑوں گا ..! ساحر نے اسکو تسلی دی تھی۔ نہیں وہ ... حور نے کچھ کہنا چاہا تھا اس کی زبان لڑکھڑائی تھی۔

ہمم..! کہو میں سن رہا ہوں ساحر کا ہدف ابھی صرف حور کو ٹھیک سہی سلامت حویلی پہنچانا تھا۔ مجھے بادل کے گرجنے سے ڈر لگتا ہے اس نے اپنی کمزوری ساحر کو بتادی تھی۔ جانے کیسے آج تک اس نے یہ عنادل کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ بادل کے گرجنے کی آواز سے ڈرتی ہے بلکہ وہ تو بارش کے آثار دیکھ ہی بلینکٹ میں منہ دے کر سو جاتی تھی تاکہ اس کو ڈر نا لگے ... ساحر نے اس کے طرف رخ کیا وہ واقعے ڈر سے کپکپارہی تھی۔ ساحر گاڑی کو روکے اور اس کو کھولے باہر نکلا تھا۔ حور ساحر کو باہر جاتے دیکھ ڈر گئی تھی۔ اب ساحر اس کے دروازے کی جانب کھڑا تھا۔ اس کو کھولتے ہی اس نے حور کو اشارے سے باہر آنے کا کہا تھا جیسے حور سمجھنے سے قاصر تھی۔ باہر آؤ ..! ساحر سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔ حور نے نفی میں سر ہلایا تھا اور اندر ہوکر بیٹھی تھی۔ میں کہہ رہا ہوں نا باہر آؤ اب کی بار تھوڑی سختی تھی اس کے لہجے میں ..! حور باہر آئی تھی۔ ساحر اس کو روڈ کے بلکل بیچ میں لے آیا تھا رات کے اس پہر اس سنسان علاقے میں کوئی نہیں تھا۔ حور جو اب بلکل بھیگ چکی تھی لیکن خوف سے وہ اب بھی کپکپارہی تھی۔ آنکھیں بند کروں اور محسوس کروں اس بارش کو جس کو محسوس کرنے سے آج تک تم محروم رہی ہو محبت کی پہلی بارش ایک ایسی محبت..! جس کو آج تک تم نے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا محبت تو تم کرتی ہوں اقرار کرتے ہوئے ڈر خوف کو اپنے سامنے کھڑا پاتی ہو ساحر اس کے کان میں سرگوشی کرتے بولا تھا ساحر بھی پورا بھیگ چکا تھا۔ حور آنکھیں بند کئے آج واقع میں بارش کو محسوس کر رہی تھی آج اگر ساحر اس کو گاڑی سے نا نکلنے کا بولتا تو زندگی بھر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ڈر میں وہ ہمیشہ رہتی۔ 

دانیہ اب آرام اس سے ان دونوں کو اپنے سامنے بیٹھے دیکھ مسکرا رہی تھی۔ 

بھائی زرا سنیں میری بات ..!آپ اپنے باس کو بولا دیں مجھے ابھی گھر بھی جانا ہے اور آپ کا باس ہے جو آکے ہی نہیں دے رہا ہے۔ دونوں آدمی اسکو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے جو انتہائی سکون سے یہاں ایک کرسی سے دوسری کرسی پر پاؤں رکھے بیٹھی تھی بس یہاں وائے فائے اور موبائل کی کمی تھی باقی دانیہ کو یہ جگہ بہت پسند آئی تھی۔ تم دونوں باہر آجاؤں سر باہر آگئے ہیں ..! ایک آدمی نے ان کو آکر بتایا تھا وہ دونوں وہاں سے اٹھتے باہر جانے لگے تبھی دانیہ نے فقرہ اچھالا تھا میں بھی چلو..؟ میں بھی تو دیکھوں کون ہے تمہارا باس دانیہ کے بچکانہ باتوں پر دونوں اپنا سر نفی میں ہلاتے باہر نکل گئے تھے جبکہ دانیہ وہاں ہی منہ بنا کر بیٹھ گئی تھی۔ 

براق اب تک آئی سی یو میں تھا کلثوم بیگم سمیت حلیمہ بیگم اور عباس صاحب اور نزاکت صاحب وہاں ہسپتال میں موجود تھے جمشید علی بھی وہاں ہی بیٹھے ہوئے تھے ہسپتال میں اتنے سارے لوگوں کو دیکھ ان سب کو یہاں روکنے سے منع کیا گیا تھا لیکن عباس صاحب نے ان کو خوب پیسے ہاتھ میں تھمائے تھے جب جاکر وہ سب وہاں موجود تھے۔ عباس صاحب ایک بیٹے کو کھو چکے تھے دوسرے کو نہیں کھونا چاہتے تھے۔ جبکہ شاہنواز چودھری نے کال ملاتے ہی ہسپتال سے باہر کا رخ کیا تھا۔ عنادل بھی ساتھ ہی روم میں نماز ادا کر رہی تھی۔ جبکہ حلیمہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا براق کو خون دے دیا گیا تھا اب تک ڈاکٹر کی طرف سے کچھ معلوم نہیں ہوا تھا۔ عنادل نماز ادا کرنے کے بعد ہسپتال سے باہر ٹھندی ہواؤں میں ٹہل رہی تھی.. اس کی اندر اتنی سکت نہیں تھی وہ اندر سب کو سنبھال سکے وہ خود کو نہیں سنبھال پارہی تھی۔ رہ رہ کر وہ رونے لگتی ... 

تمہیں میں نے کہاں تھا اس لڑکی کو مارنے کا تم جانتے ہوں تم نے کس کو گولی ماری ہے کل کے کل مجھے میری نظروں کے سامنے نظر آؤ گرجدار آواز پر اس آدمی کا سانس حلق اٹکا تھا۔ جبکہ پیچھے کھڑی عنادل بے یقینی سے ان کو دیکھی جارہی تھی۔ شاہنواز چودھری جیسے ہی کال کاٹے موڑے تھے اپنے سامنے عنادل کو دیکھ ان کے چہرے پر کئ شکنیں ابھری تھی۔ ہونز وہ عنادل کے سامنے کھڑے تھے۔ جبکہ عنادل کا چہرہ آنسوں سے تر تھا۔ کیوں کیا یہ سب ..؟ آواز روندھی ہوئی تھی۔ عنادل نے اپنے سامنے کھڑے شاہنواز چودھری کو زخمی نگاہوں سے گھورا تھا۔ میں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں ہٹو میرے سامنے سے لڑکی ..! شاہنواز چودھری یہ بولے آگے بڑھنے ہی لگے تھے لیکن عنادل پھر ان کے سامنے حائل ہوئی تھی۔ براق کا کیا قصور تھا ..؟ آپ کا نشانہ میں تھی لیکن قدرت کا نظام دیکھیں آپ کے پوتے کو وہ گولی لگی آپ کو زرا ڈر نہیں اگر براق کو کچھ ہو گیا تو ..؟ عنادل کے لہجے میں دکھ تھا۔

شاہنواز چودھری کی رگیں ابھری تھی کیا آپ خود کو معاف کر سکیں گے میں جانتی ہوں آپ کو میں شروع سے ہی قبول نہیں تھی براق کی بیوی کے طور پر اور اس حویلی کی بہو کی حیثیت سے..! جانتی ہوں میں آپ میرے ساتھ اپنی ایمان کا گھر بھی خراب کریں گے۔ عنادل نے جیسے آج سب حساب برابر کرنا چاہا تھا۔ آج وہ کچھ بھی وقت پر نہیں چھوڑ سکتی تھی وقت پر چھوڑنے کا وہ پہلے ہی اتنا بڑا نقصان اٹھا رہی ہے۔ شاہنواز چودھری حیرت سے عنادل کو دیکھنے لگے جو سب کچھ جان کر بھی خاموش تھی لیکن عنادل کو یہ سب کچھ بتانے والا براق ہے شاہنواز چودھری یہ نہیں جانتے تھے۔ چلیں ایک کام کریں ایمان اور کاشان بھائی کو ابھی ایسی وقت ادھر بلائیں آج ان کو بھی اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا ہی دیں عنادل نے سفاکیت بھرے لہجے میں خونخوار نظروں سے گھور کر کہا تھا آج وہ سب بھول گئی تھی یہ تک بھول گئی تھی۔ اس کے پیچھے کھڑے عباس صاحب نزاکت صاحب سمیت جمشید علی بھی یہ سب سن چکے ہیں جبکہ کلثوم بیگم اندر حلیمہ بیگم کے ساتھ تھی جمشید علی جو شاہنواز چودھری کو باہر جاتے دیکھ نزاکت صاحب سے بولے تھے مجھے باہر شاہنواز کے پاس جانا ہے اس وقت میں اسکو کمزور نہیں ہونے دے سکتا لیکن باہر آتے ہی جمشید علی نے کیا سنا تھا ان کے خود کے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ جبکہ عباس صاحب جو پانی کی بوتل لئے ہسپتال کے اندر جارہے تھے ان دونوں کو وہاں کھڑے دیکھ خود بھی روکے تھے۔

لڑکی تم حد سے بڑھ رہی ہو شاہنواز چودھری کا عنادل کو لڑکی پکار کر بلانا جمشید علی نے سنا تھا اب وہ خود ان دونوں کے پاس جانے کا ارادہ رکھتے آگے بڑھے تھے جبکہ نزاکت صاحب اور عباس صاحب بھی ان کے پیچھے تھے۔ کیا ہوا شاہنواز..؟ جمشید علی نے پوچھا تھا۔ آپ ان سے کیوں پوچھ رہے ہیں یہ تو آج بہت خوش ہیں بلکہ آج تو ان کے لئے جشن کا سما ہے آج یہ اپنے بدلے کی آگ میں ہی اپنے پوتے کو اس آگ میں جھونک جو چکے ہیں .. نزاکت صاحب کا ہاتھ اٹھا تھا جو عنادل کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا تھا یہ کیا بدتمیزی ہے..؟ آج تک نزاکت صاحب نے عنادل پر اس طریقے سے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا لیکن آج ان کا یوں اس پر ہاتھ اٹھانا عنادل کا مان توڑ گیا تھا۔ مجھے آپ سب ایک بات بتا دیں کیا غلطی ہے ہماری..؟ صائم بھائی کو کاشان بھائی نے مارا ہے اس بات کا اس ایک چیز کے علاؤہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ گولی ان کی گن سے نکلی تھی۔ عنادل نے غصے اور ضبط سے لال ہوتے چہرہ لئے پوچھا تھا جبکہ آنکھوں میں سرخی اتر آئی تھی۔ سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا جبکہ اب نظارہ کچھ یوں تھا عنادل ان چاروں کے بیچ گہری ہوئی تھی اپنی براق کی عنادل جو سمجھ رہی تھی سب ٹھیک ہو جائے گا جو سمجھ رہی تھی براق کی محبت کے آگے شاہنواز چودھری اپنے بدلے سے پیچھے ہٹ جائیں گے لیکن آج اس کی خوش فہمی کو وہ غلط فہمی کا ٹیگ لگا چکے تھے۔ اس بات کا کیا لینا دینا ان سب چیزوں سے ..؟ جمشید علی نے کنفیوز ہوتے پوچھا تھا آج براق کی جو حالت ہیں وہ ان کی وجہ سے ہے..! جو بس اپنے پوتے کے خون کا بدلہ مجھے اپنے حویلی کی بہو بنا کر لینا چاہتے تھے۔

جمشید علی شاہنواز چودھری کو زخمی نگاہوں سے دیکھنے لگے جبکہ شاہنواز چودھری ان کو اگنور کر رہے تھے۔ اور تو اور ایمان کو بھی کاشان بھائی سے الگ کرنے کا بھی منصوبہ یہ بنائے بیٹھے ہیں عنادل کے رہ رہ کر اتنے سارے انکشاف پر جمشید علی سمیت عباس صاحب اور نزاکت صاحب حیران تھے۔ مجھے اس حویلی میں گئے دو دن ہوئے تھے تب انہوں نے ہی براق کو میرے ساتھ برا رویہ اختیار کرنے کا کہا تھا۔ آپ جانتے ہیں میں ڈر گئی تھی براق کو کیا ہوا ہے وہ مجھ سے اچانک یوں منہ پھیرنے کیوں لگے لیکن جب براق نے مجھ ان سب کی وجہ بتائی تو میں خاموش ہوگئی تب میں نے ان سے کافی سوال کئے تھے لیکن میں خوش تھی کیونکہ میرے ساتھ براق تھے اور ہیں..! جب تک میرے ساتھ براق کھڑے ہیں مجھے کوئی ہاتھ تک نہیں لگا سکتا لیکن مجھے یہ نہیں پتا تھا آج مجھ پر حملہ کروانے والا اور کوئی نہیں آپ ہوں گے۔ ..! عنادل کی آنکھیں اب سوکھ چکی تھی۔ اپنی پتھریلی نظریں ان پر گاڑھے وہ اب بھی ویسے ہی کھڑی تھی۔ جمشید علی تو گرنے لگے تھے تب ان کو نزاکت صاحب نے سنبھالا تھا۔ میں یہ بات کبھی نہیں بتاتی لیکن میں نہیں خاموش رہ سکی جانتی ہوں ۔۔ عنادل نے نزاکت صاحب کو دیکھ دکھ کا اظہار کیا تھا۔ لیکن اب میں صرف اپنے لئے جینا چاہتی ہوں اپنے براق ان کے لئے جینا چاہتی ہوں پہلے آپ سب نے مجھے اچانک بتایا کہ میرا نکاح بچپن سے ہی براق کے ساتھ ہوا ہے میں نے خاموشی سے ہامی بھرلی پھر میں بہت خوش تھی لیکن مجھ پر محبت نچھاور کرتے براق کا رویہ بدل گیا پھر وہ ٹھیک ہوگئے میں سب سمجھنے سے قاصر ہوں آخر میں کیا چیز ہوں ..! کوئی کٹھ پتلی ہوں پہلے میرے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ پھر مجھے اپنی ہی نفرت کی بھینٹ چڑھا دوں پھر انتقام کی آگ میں جلا کر راخ کردو میں بتا رہی ہوں اگر براق کو کچھ بھی ہوا تو میں آپ کو معاف نہیں کروں گی عنادل کاٹ دار لہجے میں بولے اندر کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ نزاکت صاحب بھی جمشید علی کو لئے حویلی کے لئے چل دئے جمشید علی کی طبیعت کو دیکھ ان کو زیادہ دیر یہاں روکنا ٹھیک نہیں لگا تھا۔ 

حور ہونز آنکھیں بند کئے کھڑی تھی لیکن ساحر کی سرگوشی نما آواز سنتے آنکھیں کھولے دور ہوئی تھی۔ بارش کے پانی کی وجہ سے ابھی وہ پھسلتی کہ ساحر نے اس کو اپنے مضبوط حصار میں لیا تھا۔ کیوں نہیں کہتی تمہیں مجھ سے محبت ہے ..؟ ساحر نے گھمیبر آواز میں پوچھا تھا۔ یا پھر محبت کا اظہار سننا چاہا تھا۔ حور نے ساحر کو دیکھا جس کی آنکھوں میں محبت تھی ... تم نے آج تک اس شخص کو ڈھونڈا جس نے تمہیں فقط بس اس رات بچایا تھا۔ تم نے کبھی اس شخص کو کیوں نہیں ڈھونڈا جو تمہارے پیچھے ہمیشہ کیسی سائے کی طرح تھا۔ ..؟ آنکھوں سے محبت کرنے والی لڑکی نے کبھی اس آدمی کو دیکھا نہیں تھا اب دیکھا ہے تو بتاتی نہیں ہے کیوں راتوں کو بیچین رہتی تھی یہ پری.. !! ۔؟؟ حور کی زبان کو جیسے تالا لگا شاید حور کو حور سے زیادہ ساحر جانتا تھا۔ ساحر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ یہ ٹھیک وقت تو نہیں میری بہن غائب ہے جبکہ میرا بھائی ہسپتال میں زندگی موت سے لڑ رہا ہے لیکن اس سے اچھا موقع مجھے نہیں لگتا پھر کبھی مجھے ملے گا۔ ساحر نے وضاحت دی تھی۔

حور تم وہ لڑکی ہو جو خاموشی میں کتاب پڑھتی تھی اور اس لڑکی کو پیچھے بیٹھ کر دیکھنے والا دیوانہ اس لڑکی سے دیوانگی کی حد تک محبت کر بیٹھا تھا تم وہ لڑکی ہو جس کے پاکیزہ چہرے کو پہلی بار دیکھتے ہی میں عشق کر بیٹھا تھا محبت تو پہلے ہی تمہارا پیچھا کرتے کرتے ہوگئی تھی لیکن اس واقعے کے بعد خود کو تم سے محبت کرنے سے روک نہیں سکا تھا۔ عشق کر بیٹھا تھا۔ اور آج میں اقرار کرتا ہوں حور نزاکت علی خان ساحر عباس علی چودھری تم سے عشق کرتا ہے تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ تمہیں اپنی شریک حیات بنانا چاہتا ہے۔ تمہارے ہر دکھ کو اپنے اندر سمو لینا چاہتا ہے۔ بادلوں کے گرجنے کی آواز اور تیز ہوئی تھی بارش نے اور تیزی پکڑی تھی۔ حور کے آنکھوں سے آنسوں ایسے نکلے دیکھے تھے جیسے وہ روکنے سے قاصر تھی۔ ساحر اتنی تیز بارش میں بھی اسکے چہرے پر آنسوں محسوس کر سکتا تھا اب تک وہ اسی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا۔  

باسل کے پہنچتے ہی وہ دونوں آدمی بھی چل دئے تھے اب آرام سے دانیہ کمرے میں بیٹھے اپنے پاؤں کو ہلا رہی تھی۔ ایک دم دروازے کے کھلنے کی آواز پر وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تھی۔ کمرہ کھلتے ہی باسل اندر آیا تھا دانیہ اس کو آتے دیکھ فوراً سے بھی پہلے اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہوئی تھی۔  

آپ..؟؟ دانیہ کو شاک لگا تھا۔  

ہاں میں..! کیوں تمہیں کسی اور کا انتظار تھا.؟؟۔ باسل نے خونخوار نظروں سے گھور پوچھا تھا۔ 

یعنی آپکے آدمی مجھے یہاں لے کر آئے ہیں۔ دانیہ نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔  

بلکل ٹھیک پہچانا .... باسل نے اس کے بات کو ٹھیک قرار دیا تھا۔  

پر مجھے یہاں لائے کیوں ہیں ..! دانیہ اب مکمل طور پر الجھ چکی تھی۔ 

کیونکہ تمہارا مجھ سے ابھی نکاح ہوگا۔ باسل نے اپنی طرف سے اس کے اوپر کئی پہاڑ گرائے تھے۔ 

جبکہ دانیہ کا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ ہائے اللّٰہ یعنی ڈراموں کی طرح مجھ سے آپ شادی کریں گے۔ چلیں پھر جائے نکاح کی تیاریاں کریں ادھر کیوں کھڑے ہیں دانیہ نے حکم صادر کیا تھا۔ 

کیا مطلب تمہیں ڈر نہیں لگ رہا تمہارے گھر والے کیا سوچیں گے؟؟ باسل ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔ کیا مطلب کیا سوچیں گے...!! آپ کہیں گے نا ہیرو کی طرح میں نے اس سے نکاح کیا ہے کسی کی ہمت ہے تو روک کے دکھائے مجھے میری بیوی کے پاس جانے سے۔ ..! دانیہ نے مکمل اپنی خوابوں کی دنیا کو تصور میں لاتے ایک ایک الفاظ کو بیان کیا تھا۔ باسل تو گش کھا کر گرنے ہی لگا تھا۔ تم پاگل تو نہیں ہو ...؟ باسل نے اب کی بار کڑک آواز میں زور سے کہا تھا جس سے دانیہ تھوڑی ڈر کر پیچھے کی جانب ہوئی تھی۔ آنسوں اس کی آنکھوں میں ایسے چمکے تھے جیسے تیاری کئے ہی بیٹھیں ہو باسل ابھی کچھ بولے اور وہ اپنا راستہ ڈھونڈتے نکلے۔ 

باسل ایک دم اس کو روتا دیکھ اس کی جانب بڑھا تھا۔  

رو کیوں رہی ہو..؟ اچھا اب کچھ نہیں بولتا خاموش ہو جاؤ۔ باسل ابھی دانیہ کو خاموش کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دانیہ ایک دم زور سے ہنسی تھی۔ دیکھا میں نے تو پہلے بھی کہا تھا مجھے کوئی نہیں ڈرا سکتا ڈر گئے نا وہ اپنے آنسوں صاف کرتے بولی تھی۔   

واقعے میں تمہیں کوئی نہیں ڈرا سکتا ..! باسل نے دانیہ کو کھنچ کر اپنے حصار میں لئے گہری نظروں سے دیکھ کہا تھا۔

دانیہ ہڑبڑاہ کر اپنی ہنسی روکے اسکو چھوٹی چھوٹی آنکھیں کئے گھورنے لگی تھی۔ 

اب مجھے حویلی چھوڑ کر آئے..!! دانیہ باسل کو پیچھے دھکیلتے اپنے اصلی مقصد کو مد نظر رکھتے بولی تھی۔  

میں سچ میں تمام سے نکاح کرنے والا ہوں۔ باسل نے دانیہ کو یقین دلانا چاہا تھا جو یہ سمجھ رہی تھی وہ اس کو ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اچھا ٹھیک ہے تو کب آرہا ہے مولوی..؟ دانیہ اب کی بار آرام سے واپس اسی کرسی پر بیٹھے بولی تھی۔ تھوڑی دیر میں اس کے بعد تمہارا نام میرے نام کے ساتھ جوڑ جائے گا باسل نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے بتایا تھا۔ ہاں ہاں .. مجھے پتا ہے اب یوں ایک ایک لفظ کو کھینچنے کی ضرورت نہیں ہے دانیہ اب تھوڑی پر انگلی ٹکائے کچھ سوچتے پھر بولی تھی۔ اچھا یہ بتائیں میرے گھر والے پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گی۔ ...؟ دانیہ کو پریشانی لاحق ہوئی تھی۔ ابھی تو کوئی کہہ رہا تھا گھر میں سب کو کہنا کہ اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں دیکھتا ہوں کون روکتا ہے ..! باسل دانیہ کی جانب جھکتے معنی خیزی نظروں سے دیکھ بولا تھا۔ ہاں تو میں نے تو مذاق کیا تھا۔ میں تو سمجھیں..! ابھی دانیہ بولتی کہ باسل نے اس کے لب پر اپنی انگلی رکھی تھی دانیہ کی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔

تم سمجھیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں لیکن تمہارے معاملے میں میرا مذاق سے کوئی لینا دینا نہیں..! میں تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھنا تو دور تمہاری زبان سے کسی غیر کا نام بھی نہیں سننا چاہتا۔ باسل کا لہجہ اب کی بار تھوڑا سخت ہوا تھا۔ اچھا پھر آپ مجھے اپنا نمبر دے دیجیئے گا۔ دانیہ انتہائی ادب سے بولی تھی۔ اور نمبر کیوں چاہئیے؟؟ باسل نے اچنٹی نگاہوں سے دیکھا تھا اس کو جس کے دماغ میں جانی کونسے خرافاتی عمل چل رہے تھے۔ وہ میں بعد میں بتاؤں گی .. دانیہ نے معاملہ رفع دفع کیا تھا۔ پاگل ہو تم..! باسل نے اپنی دو انگلیوں سے اس کے سر کو پیچھے کیا تھا۔ اور خود دور ہٹے باہر نکلا تھا۔ ہیں بھلا میں کہا سے پاگل ہوئی مجھے اٹھوایا انہوں نے اور تو اور اب مجھے اپنا روعب اور غصہ دیکھا کر گئے ہیں..! دانیہ نے چہرے کے زوائیے بگاڑے تھے۔ 

 جمشید علی نزاکت صاحب کے ساتھ حویلی پہنچ گئے تھے اب وہ اپنے کمرے میں تھے جبکہ نزاکت صاحب واپس ہسپتال چلے گئے تھے... کچھ دیر بعد ڈاکٹر روم سے باہر آیا تبھی عنادل فوراً ڈاکٹر کے پاس دوڑتے ہوئے پہنچی تھی۔ ڈاکٹر کیسے ہیں براق..؟ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن ان کی چوٹ گہری ہونے کی وجہ سے ان کے دماغ پر زیادہ اثر ہوا ہے شاید ان کو ہوش آئے تو وہ آپ سب کو پہچان نا سکیں..! ڈاکٹر نے تہمید باندھے آدھی ادھوری بات بتائی تھی۔ کیا مطلب پہچان نا سکیں..؟ آپ ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں ..! عنادل اس وقت کس ازیت سے گزر رہی تھی یہ صرف وہی جانتی تھی۔ اور ڈاکٹر اس کو ٹھیک سے کچھ بتا نہیں رہا تھا اس بات سے اس کا دماغ جیسے پھٹنے کو تھا .. آپ بس دعا کریں ان کی یاداشت ٹھیک ہو ورنہ شاید وہ آپ میں سے کسی کو پہچان نا سکیں عنادل پر جیسے کئی پہاڑ گرائے گئے تھے عنادل وہی کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھی تھی جبکہ حلیمہ بیگم جو کچھ دیر پہلے ہی خاموش ہوئی تھی ان کی آنکھوں۔ میں پھر پانی جمع ہونا شروع ہوگیا تھا۔ دوسری طرف شاہنواز چودھری بھی سر جھکائے بیٹھے تھے لیکن ان کے چہرے سے کہی بھی عیاں نہیں ہورہا تھا کہ وہ اپنے کئے پر تھوڑا سا بھی شرمندہ ہوں۔ عنادل نے ایک زخمی نگاہ ان پر ڈالی تھی۔ اور اپنا رخ موڑ گئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد براق کو ہوش آیا تھا سب سے پہلے حلیمہ بیگم اور عباس صاحب سمیت شاہنواز چودھری براق سے ملے تھے ایسے ہی کلثوم بیگم اور نزاکت صاحب بھی اس کو دیکھنے لگے جو پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا لیکن وہ اپنے سامنے کھڑے ان دونوں کو دیکھ پہچاننے کی کوشش میں تھا۔ جیسے وہ انجان لوگ ہوں کیسے ہو بیٹا ..؟ کلثوم بیگم نے پوچھا تھا حالانکہ وہ براق کی سوالیہ نظروں سے کنفیوز تھی۔ میں ٹھیک ہوں لیکن آپ دونوں کون ہیں ..؟؟ اور وہ ہوا جس چیز کا ڈر ان سب کو تھا۔ کلثوم بیگم نے حیرت بھری نظروں سے نزاکت صاحب کو دیکھا تھا جبکہ شاہنواز چودھری کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی۔ اتنے میں عنادل روم میں داخل ہوئی تھی۔ اب کی بار براق کی نظریں عنادل پر تھی جو اس کے عین سامنے کھڑی تھی۔ عباس صاحب اور حلیمہ بیگم بھی حیران تھے براق شاہنواز چودھری سمیت ُان دونوں کو پہچان گیا تھا لیکن اِن دونوں کو پہچاننے سے انکاری تھا۔ انھیں عنادل کے روم میں آنے سے کچھ حوصلہ ہوا تھا شاید وہ عنادل کو پہچان لے۔ 

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments