Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 17


Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 17.

حور کی دماغ میں کئی سوچ کا راج تھا۔ پہلے اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اب جب سب پتا لگا تو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کو تھینکس کیسے بولے ..! قسمت تو کچھ اور ہی سوچ رہی تھی اور یہ میڈم اس کو تھینکس بولنے کے لئے نئے نئے ترقیب سوچ رہی تھی ہائے یہ پاگل کہاں سمجھ پائی گی ساحر کے جزبات جس کے اوپر اپنے خود کے جزبات نہیں کھلے جبکہ وہ تو آج خوش تھا اتنا خوش آج اس نے حور کو سب بتایا تھا وہ اور کوئی نہیں وہ خود ہے۔ حور منزل تک پہنچنا چاہتی تھی اس کی منزل ساحر تھا۔ راستہ تھوڑا دور تھا لیکن اس راستے کی آغاز اور اختتام ساحر تھا۔ 

کاشان اور ایمان سمیت عنادل اور براق کو یہاں آئے دس دن ہوچکے تھے۔ دن پر لگاتے گزر گئے تھے۔ ایمان کاشان کی سنگت بہت خوش تھی پر جانے اس کو کونسا ڈر رہتا تھا جیسے کاشان اس کو چھوڑ دے گا کونسی چیز نے ایمان کو اچانک بدل دیا کاشان خود نہیں سمجھ پارہا تھا لیکن باتیں کب تک چھپ سکتی ہیں کبھی نا کبھی تو ان کا راز باہر آنا ہی ہوتا ہے اور یہی بات ایمان کو اندر ہی اندر کھائی جارہی تھی۔ وہ کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی یا کہہ نہیں پارہی تھی چاہے اس نے کاشان کو تنگ کیا اس کو اپنے قریب نہیں آنے دیا اس کو شوہر ہونے کا درجہِ نہیں دیا لیکن کبھی اس سے الگ ہونے کا سوچا بھی نا تھا۔ اب ایک انجانے خوف کے تحت وہ ڈری رہتی تھی جب بھی کاشان اس کو ہوٹل چھوڑے کہی باہر جاتا تو وہ خود اس کے ساتھ جاتی تھی۔ کہی کاشان کو کچھ ہو نا جائے اور ان سب کے پیچھے صرف ایک ہی وجہ تھی جو وہ کاشان سے چھپا رہی تھی۔  

عنادل اور براق بھی بہت خوش تھے ..! وہ پرانی دنیا چھوڑے اپنا ایک نیا جہان ہی بسائے ہوئے تھے نا دنیا کا ڈر ہر ڈر کو پھینکے وہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔  

حور اور دانیہ دونوں نے ان چاروں کی تصویریں مل کر دیکھی تھی آج دانیہ کی منگنی کو پورا ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔ اور باسل جانے کیا خیالی پلاؤ بنا رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔ ہر ایک دن بعد وہ دانیہ کو کال کرتا تھا جبکہ دانیہ اس کی کال کو اگنور کرتی تھی۔ اب بھی حور اکیلے کمرے میں بیٹھی تھی جب اس کے دل و دماغ میں آج پھر ساحر کا بسیرا تھا۔ وہ خود سے ہی اس کے بارے میں سوچ سوچ کر مسکراتی تھی وہ خود حیران تھی اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے لیکن وہ اپنے جزبات کو بھاڑ میں جھونکے سب کچھ بھلائے اپنے کام میں لگ جاتی لیکن کب تک جزبات چھپا پائے گی وہ ..! کب تک دور بھاگے کی ساحر کی محبت سے۔ 

دانیہ آج باغ دیکھنے کے لئے گاؤں نکلی تھی آج حویلی میں کوئی نہیں تھا اس لئے مجبوراََ اس کو اکیلے ہی باہر آنا پڑا تھا وہ حویلی میں اکیلے بیٹھے بیٹھے تھک چکی تھی ایمان تو تھی نہیں وہ تو خود کاشان کے ساتھ گھومنے گئی تھی جبکہ حور کا بھی کچھ یہی حال تھا لیکن وہ اپنے کمرے میں بند ہوکر خاموشی میں کتاب پڑھنے کو زیادہ معنی دیتی تھی۔ شاہنواز چودھری کی خاموشی پر وہاں براق بھی حیران تھا اب تک ان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں ہوا 

شاہنواز چودھری نے موبائل اٹھائے ہی ایک نمبر ملاتے کال پر بات کی کچھ دیر بعد کال کاٹتے ہی وہ پر سکون ہوتے کرسی کے پچھلی طرف اپنے سر کو رکھ گئے تھے۔ 

دانیہ ابھی باغ میں ہی تھی جب کچھ لوگوں کی بھری گاڑی اس تک آئی تھی دانیہ اپنے سامنے بڑی سے گاڑی کو روکے دیکھ حیرت سے پھیلی آنکھوں سمیت اس کو دیکھنے میں مگن تھی جبکہ اس گاڑی کے اندر سے دو موٹے موٹے پہلوان نکلے تھے۔ جو گاؤں کے ہی لگ رہے تھے۔ ابھی وہ دو آدمی اسکی طرف بڑھتے دانیہ کے ہاتھ سے کرنے والے اشارے پر روکے تھے۔ کیا کام ہے یہی سے بولو قریب آنے کی ضرورت نہیں ہے دانیہ کسی سے نا ڈرنے والی نڈر لڑکی اپنے ٹون میں بولی تھی۔ ہمارے ساتھ چلوں نہیں تو یہی گولی مار دے گے ہم تمہیں پھر تمہاری لاش حویلی جائے گی۔ ایک آدمی نے قریب آتے غراتے ہوئے کہا تھا۔ 

گندے دور ہٹو ..!! برش نہیں کرتے ہو تم..؟ دانیہ نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھے برا سا منہ بنائے کہا تھا۔ جبکہ اس آدمی نے صدمے سے منہ کھولے اس چھوئی موئی سی لڑکی کو گھورا تھا اور دور ہی کوئی اس کی آواز بڑے غور سے سنتے انجوائے کر رہا تھا۔ تمہیں پتا ہے کتنی بیماریاں ہوسکتی ہیں بھری جوانی میں مرنے کا ارادہ ہے کیا تمہارا ..؟ ویسے تم لوگوں کے وزن سے تم جوان لگتے تو نہیں لیکن خیر ہے پھر بھی..! دانیہ نے ان کے باہر نکلتے پیٹ پر چوٹ کی وہاں دور ہی مقابل کا قہقہ چھٹا تھا۔ اے لڑکی چلو ہمارے ساتھ نہیں تو وہ اپنی گن کو دانیہ کی کنپٹی پر رکھتے دھاڑا تھا اور ان کو حکم دینے والا بھی اگلے جھٹکے کے انتظار میں تھا۔ اچھا چل رہی ہو لیکن پہلے تم دونوں یہاں سے ہٹو اور مجھے بھوک بھی لگی ہے راستے سے ایک کوک اور ایک برگر لے کر دو گے تو پھر چلوں گی۔ جبکہ ایک آدمی دور جاتے ہی بولا تھا سر یہ لڑکی تو فرمائشیں کرنے لگی ہے...!! پوری کروں اسکی فرمائشیں باسل خان کی ہونے والی بیوی ہے اس کے ہر انداز سے محبت سامنے مقابل نے محسوس کی تھی۔ اوکے سر ..! وہ فوراً دانیہ کی جانب آیا تھا جو دوسرے آدمی کے سامنے اپنی فرمائشی پروگرام کھولے بیٹھی جبکہ وہ آدمی اپنے سر کو پکڑے اس کی بے تکی باتیں سن رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا یا تو وہ دانیہ کا سر گاڑی کے شیشے پر مار دے یا پھر اپنا...! اس کو اگر کوئی نقصان پہنچانے کا سوچا بھی تو وہ خود اوپر ہوگا۔۔۔ اس لئے خاموشی اختیار کرنے میں ہی اس نے اپنی عافیت جانی تھی۔ چلو تم تمہیں سب کچھ مل جائے گا پیچھے کھڑا آدمی آگے آتے بولا تھا۔ اس کی بات سنتے دانیہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے ان کو سائیڈ ہونے کا کہتی گاڑی میں بیٹھی تھی جبکہ وہ دونوں اس کے بیٹھتے ہی آگے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے اور گاڑی کو لاک کر گئے تھے۔ دانیہ اب ان دونوں پہلوانوں کو دیکھ جانے کن سوچوں میں گم تھی۔  

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اپنا منہ کھولا تھا۔ ایک بات بتاؤ مجھے لے کر کہاں جارہے ہوں..؟ کہی مجھے اغوا کیا ہے تم لوگوں نے ..؟ دانیہ نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔ وہ دونوں حیران تھے لڑکی اتنی آرام سے ان کی گاڑی میں آکر بیٹھی ہے اور اس کو پتا ہی نہیں ہم اس کو اٹھانے آئے تھے وہ دونوں کو دانیہ کی عقلمندی پر عش عش کر اٹھے تھے۔ 

ہاں تمہیں کڈینپ ہی کیا ہے ڈرائیو کرتے آدمی کے سائیڈ والی سیٹ پر بیٹھے آدمی نے بیزاریت سے بتایا تھا۔  

حد ہے تم لوگوں کو کیڈنیپ کرنا بھی نہیں آتا تم لوگ ڈرامے نہیں دیکھتے کیا دانیہ کو صدمہ سا لگا تھا۔ 

جبکہ موبائل کا سپیکر کھلا چھوڑے وہ آدمی اس کی طرف مکمل متوجہ ہوا تھا۔ اور موبائل کے اس پار وہ بھی دانیہ کی باتوں سے تنگ آچکا تھا جس کا منہ دو منٹ کے لئے بند نہیں ہورہا تھا۔ تم لوگ آتے اور میرے چہرے پر کلوروفارم والا کپڑا رکھتے اور مجھے بیہوش کرتے نا ...!!! دانیہ نے اداسی بھرے انداز میں کہا تھا جبکہ منہ کے زوائیے بھی بگاڑے تھے۔ وہ آدمی آخر بول اٹھا تھا۔ بہن اب پکا ہم اگلی بار کسی کو کیڈنیپ کریں گے تو یہی کریں گے بلکہ آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔ ٹھیک ہے آدمی نے دو ٹوک لہجے میں کہا تھا۔ ہمم یہ سہی ہے اس آدمی کے بات سنتے دانیہ کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ 

عنادل اور براق ایک نہر کے قریب ہی بیٹھے تھے جس کا پانی آبشار کی طرح اونچی پہاڑی سے نیچے کو آرہا تھا ٹھندی ہواؤں میں عنادل نے شال کو اپنے اور براق کے اوپر اچھے سے پھیلائی ہوئی تھی اور اپنا سر براق کے کندھے پر رکھا ہوا تھا آنکھیں موندے وہ یہ سب محسوس کر رہی تھی۔ جبکہ براق کی نظریں عنادل پر مرکوز تھی۔ چہرے پر آتی لٹیں جو ہواؤں سے بار بار عنادل کے چہرے سے اڑتی تو کبھی ان پر آکر ٹھہر جاتی ایک بات پوچھوں ..؟ براق کے لہجے میں چاہت محبت تھی.ہمم ..! آنکھیں موندے عنادل نے بس اتنا ہی کہا تھا۔ چھوڑ کر تو نہیں جاؤں گی نا براق کی آنکھوں میں اب ڈر تھا اور لہجے میں خوف تھا اس کو کھو دینے کا خوف ..! عنادل نے اپنی آنکھیں کھولیں تھی اور براق کو دیکھا تھا جو ہونز اس کو دیکھ رہا تھا۔ آپ کو کیا لگتا ہے..؟ عنادل سنجیدہ لہجے میں بولی تھی۔ نہیں چھوڑوں گی تم مجھے بلکہ مجھے تم سے زیادہ محبت اور کوئی لڑکی کر ہی نہیں سکتی براق ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولا تھا۔ عنادل تھوڑی اونچی ہوئی اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے۔ ہلکے سے اپنے لب اس کے سر سے ہٹائے بولی تھی۔ جب پتا ہے میں آپ کو کبھی چھوڑ نہیں سکتی تو کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں..؟ خود کو اور مجھے اس امتحان میں کیوں ڈالتے ہیں..؟ جب جانتے ہیں آپ میرے بغیر میں آپ کے بغیر ادھورے ہیں تو اپنے دل پر ہر وقت کیوں بوجھ سوار رکھتے ہیں..؟ عنادل نے کمر اکڑا کر ایک لفظ چبا چبا کر پوچھا تھا۔ وہ کیا ہے نا اپنی بیوی کے منہ سے ہر وقت اظہار محبت سننے کا عادی ہوتا جارہا ہوں براق کی بے باک نظریں خود پر محسوس کرتے اس نے اپنے نازک ہاتھوں سے براق کے چہرے کو تھوڑی سے پکڑے دوسری جانب کیا تھا براق سدا کا ڈھیٹ واپس اپنے چہرے کو اسی پوزیشن میں لائے آنکھوں میں معصومیت لائے اسے گھورے جارہا تھا۔ 

کاشان آپ نے میری چیزیں گم کردی ہیں جب سے یہاں آئے ہیں آپ سے ایک چیز سنبھل کر نہیں رہتی ..! یہ گھر نہیں ہے ایمان اپنی ایک جھمکا ڈھونڈتے اس کو کوس رہی تھی جس نے آج پھر اس کے جھمکے غائب کردیے تھے اس سے پہلے ایمان کا دوپٹہ غائب تھا۔ کاشان اس کی باتیں سن رہا تھا ایمان نے جب اس کو پیچھے موڑ کر دیکھا جو دیوار سے ٹیک لگائے اس کو ہی دیکھ رہا تھا آپ بتائیں آپ نے کل میرا دوپٹہ غائب کردیا آج مجھے میرا جھمکا نہیں مل رہا آپ سے اپنا سامان سنبھالا کیوں نہیں جاتا ایمان نے دانت پیستے کہا تھا۔ جھوٹی تمہیں سنبھال کر تو رکھا ہے میں نے..! کاشان نے مصنوعی افسوس سے سر ہلایا تھا۔ میں بہت پریشان ہو مجھے کچھ بھی نہیں مل رہا اب میں کیا کروں ایمان رو دینے کو تھی کاشان اس کے ساتھ ہی بیڈ پر آتے اس کو اپنے حصار میں لئے بولا تھا دیکھوں رونا نہیں ہے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا کاشان نے وارن کیا تھا ..! لیکن میں اب کیا کروں آپ بہت برے ہیں ایمان نے شکوہ کیا تھا ۔۔ اچھا نا تو ہم شاپنگ پر چلتے ہیں نا جو تمہیں چاہئیے ہوں اِدھر سے لے لینا اور ایک کام کرنا تین دن بعد ہم ویسے بھی جارہے ہیں تو کچھ شاپنگ کرلینا سب کے لئے ورنہ دانیہ اور حور دونوں تمہاری کلاس لے گی ۔۔۔ کاشان کی بات سے ایمان نے بھی اتفاق کیا تھا۔ وہ بھی جلدی سے کھڑی ہوئی تھی اب کی بار کاشان نے ایمان کو اپنے اوپر پھر گرایا تھا۔ اب کی بار کاشان بیڈ پر تھا جبکہ ایمان کاشان کے سینے پر کنفیوز سی ہوتی ادھر اُدھر نظریں گھمائے دیکھ رہی تھی یہ بہت ٹھیک حرکت کی تم نے...!! مطلب ختم ہم آپ کے ہیں کون ..! کاشان نروٹھے پن سے بولا تھا جبکہ اس کی بات پر ایمان کھلکھلا کر ہنسی تھی۔ ہائے تمہاری یہ ہنسی مجھے پگھلا دیتی ہے ورنہ میں بہت غصے والا ہوں کاشان نے روعب دیکھانا چاہا تھا ہاں مجھے پتا ہیں آپ کتنے غصے والے ہیں ایمان مذاق اڑانے والے انداز میں بولی تھی۔ 

ویسے ایک بات بتاؤں پہلے تو تم مجھے آپ نہیں کہتی تھی یہ کونسی کایا پلٹی جو تم مجھے آپ جناب کرکے پکارنے لگی ..؟ کاشان نے ایمان کے آپ جناب والی گفتگو اب محسوس کی تھی وہ کیا ہے شوہر کی عزت کرنی چاہئیے نا ایمان نے خالص بیویوں والے انداز میں شرماتے ہوئے بتایا تھا۔ ہائے اللّٰہ گیا میں کاشان اپنے دل پر ہاتھ رکھتے شریر مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔ اس کی فلمی ہیرو کی طرح ایکٹنگ کرنے پر ایمان زور زور سے ہنسی تھی اب وہ اس سے دور ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھی جبکہ کاشان اس کو دیکھ رہا تھا اور منہ بنائے بولا تھا اب ایسا بھی کچھ نہیں کہا میں نے..!! ایمان خاموش ہوئے اس کو دیکھنے لگی آنکھوں میں شرارت اب بھی ناچ رہی تھی اگر تم اب پانچ منٹ میں تیار نہیں ہوئی تو میں تمہیں باہر شاپنگ پر نہیں لے کر جاؤں گا ایمان اس کے قریب آتے تھوڑی اونچی ہوئی تھی اور اس کے رخسار پر اپنے لب رکھے فریش ہونے چل دی اور کاشان کی چہرے پر گہری مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔ 

دانیہ اب ایک انجان سنسان جگہ پر آرام سے کرسی پر بیٹھے کھانے کے ساتھ انصاف کر رہی تھی۔ جبکہ وہ دونوں اس کو کھاتے ہوئے دیکھ رہے تھے جو کھاتے ہوئے ان تک کو فراموش کر چکی تھی دانیہ جو کب سے ان دونوں کی خود پر نظریں محسوس کئے آخر بول اٹھی تھی اگر تم لوگوں کو کھانا ہے تو جاکر لے لو مجھے یوں ندیدوں کی طرح نا دیکھو میری مانوں تو ڈائیٹ کروں میں ڈائیٹ پلین بنا کر دیتی ہوں تم دونوں کو دانیہ ایک اور بائیٹ برگر کا لئے بولی تھی کچھ دیر بعد وہ برگر کھا کر کوک پئے آرام سے بیٹھی تھی اب پھر وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ دونوں ایک ساتھ بولے بہن یہ دیکھوں ہمارے جوڑے ہاتھ خاموش کر جاؤں وہ دونوں مسلسل دانیہ کہ پٹر پٹر سن کر تھک چکے تھے اب ان کی کانوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اور اس کو سن سکے تبھی ہاتھ جوڑے بولے تھے۔ دانیہ خاموش ہوگئی تھی تب جاکر ان دونوں نے سکون کا سانس لیا تھا۔ 

اچھا ایک آخری بات مجھے یہاں لائے کیوں ہوں تم لوگوں کو پیسے چاہئیے تو میرے اکاؤنٹ میں بہت سارے ہیں پیسے بتاؤں کتنے چاہئیے دانیہ اس وقت دانیہ کم پیرنی زیادہ لگ رہی تھی جو کہ رہی ہو جا بچا جا تجھے جو چاہئیے وہ ملے گا ویسے کیا خیال آیا ہے ..!! جو دانیہ کو ہی آنا تھا۔ 

کافی دیر ہوگئی تھی اب تو رات ہونے والی تھی حویلی میں حلیمہ بیگم پریشان تھی جبکہ شاہنواز صاحب بھی دانیہ کو لے کر پریشان تھے ساحر تو باہر ڈھونڈنے گیا تھا اور عباس صاحب پولیس میں رپورٹ درج کروانے گئے تھے لیکن پولیس کا کہنا تھا چوبیس گھنٹے سے پہلے ہم کچھ نہیں کر سکتے..! وہاں سے نزاکت صاحب اور جمشید علی سمیت حور اور کلثوم بیگم بھی یہاں موجود تھے۔ ساحر جب حویلی آیا تو سب ایک ساتھ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے لیکن وہ اپنا سر جھکا گیا اس کے اس طرح سر جھکانے پر سب سمجھ گئے تھے دانیہ کا کچھ پتا نہیں لگا۔ 

دانیہ اچانک جا کہا سکتی ہے اس کی تو کسی سے بھی دشمنی نہیں ہے ..؟ حلیمہ بیگم کی روندھی ہوئی آواز پر ساحر نے اپنے جھکے سر کو اٹھا کر ان کو دیکھا تھا۔ امی آپ پریشان نا ہوں میں پھر جاتا ہوں اب بس دانیہ کی ساری دوستوں کے گھر جانا باقی رہا ہے جو گاؤں سے باہر ہیں ساحر اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔ حور جو خود بھی پریشان تھی وہ بھی اٹھتے ہی فوراً بولی تھی میں بھی ساتھ چلوں گی۔ ساحر نے موڑ کر اس کو اچنٹی نگاہوں سے گھورا تھا۔ ابھی نزاکت صاحب کچھ بولتے کے وہ فوراً بول اٹھی تھی دانیہ میری چھوٹی بہنوں کی طرح ہے میں ایسے نہیں بیٹھ سکتی میں بھی جاؤں گی ساحر کے ساتھ حور اٹل لہجے میں بولے حویلی سے باہر قدم بڑھا گئی تھی کہی کوئی اسکو روک ہی نا لے جبکہ ساحر تو صدمے سی حالت میں تھا حور نے پہلی بار اس کا نام لیا ہائے اس کے زبان پر ساحر نام کتنا پیارا لگا تھا ہمارے ساحر کو..!! وہ تو صدقے واری جارہا تھا ابھی دانیہ کے جو ابھی غائب تھی لیکن دانیہ میڈم کی خاطر ہی لیکن حور نے اس کا نام لیا تھا۔ اب وہ بھی باہر نکلا تھا ساحر گاڑی کو گاؤں سے باہر کی حدود میں موڑ گیا تھا۔ حور مکمل انجان بنی کھڑکی سے باہر کو دیکھ رہی تھی۔ ساحر ترچھی نگاہ کئے رہ رہ کر اس کو دیکھ رہا تھا گاڑی کو چلانے سے زیادہ دھیان اس کا حور پر تھا جو جانے باہر کیا دیکھ رہی تھی۔  

عنادل اور براق کافی دیر بعد وہاں سے کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملائے چل رہے تھے۔ جب گولیوں کی آواز پر براق نے عنادل کو اپنے پیچھے چھپایا تھا۔ جبکہ وہاں کے سبھی لوگوں میں افراتفری شروع ہوگئی تھی۔ فائرنگ کی آواز اب زیادہ بڑھ چکی تھی عنادل ڈر کے مارے کپکپاتی ہوئی براق کے ساتھ ساتھ تھی جبکہ براق اس کو اپنے سینے سے لگائے ہی مکمل شال کو اس پر اچھے سے پھیلائے آگے بڑھ رہا تھا ان کی گاڑی کافی دور کھڑی تھی ابھی وہ اپنی گاڑی تک پہنچتے دور کھڑے آدمی کا نشانہ عنادل پر تھا لیکن اس کی گن سے نکلی گولی کا نشانہ چوک کر براق کو لگا تھا۔ براق اور عنادل جو گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے تبھی براق کی درد بھری سسکی پر عنادل زور سے چیخی تھی۔ اس آدمی نے عنادل پر پھر سے نشانہ بنایا ان کے باس کا کہنا تھا اس لڑکی پر نشانہ ہونا چاہئیے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے وہ اپنے باس کے جگر کے ٹکرے پر گولی چلا چکا ہے عنادل زمین پر بیٹھتی چلی گئی براق کے سر کو اپنے گود میں لئے وہ زور زور سے چیخ رہی تھی کوئی ہے پلیز ہیلپ ..!! اس کی آواز پر سبھی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے لیکن کسی نے بھی عنادل کی مدد نہیں کی تھی میری مدد کردوں کوئی براق اٹھے وہ روتی چیختی بولی تھی دو تین لوگوں نے اس کی مدد کی ایمبولینس میں براق کو ہسپتال پہنچایا گیا تھا عنادل کی حالت خراب ہوچکی تھی وہ براق کے ساتھ ساتھ تھی وہ ہسپتال میں داخل ہوئے تھے۔ عنادل دیوانہ وار چیخی تھی ڈاکٹر جلدی آئیں...!! میرے شوہر ان کا بہت خون بہہ رہا ہے اس کی آواز میں ڈر تھا خوف تھا براق کو کھو دینے کا خوف ڈاکٹر نے آتے ہی براق کو آئی سی یو میں شفٹ کیا تھا جبکہ عنادل آئی سی یو کے قریب ہی دروازے پر کھڑی تھی۔ براق کو اندر لے جا چکے تھے۔ اور عنادل اب بھی دروازے کے قریب ہی کھڑی تھی جیسے ابھی براق باہر آئے گا اور کہے گا میں بلکل ٹھیک ہوں لیکن ایسا کچھ نا تھا۔ یہ صرف اسکا خیال تھا براق کو کچھ نہیں ہوگا وہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔ اگر وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو ..؟ عنادل پاگلوں کی طرح خود سے سوال کر رہی تھی اچانک یہ سب ہوجانا ان کو کہا پتا تھا ان کے ساتھ یہ سب ہوجائے گا نہیں ایسا نہیں ہوسکتا براق کو کچھ نہیں ہوگا میں انھیں کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ تبھی ڈاکٹر کو آتے دیکھ وہ بنا آؤ تاؤ دیکھی روئی روئی آنکھوں سمیت ڈاکٹر کو دیکھ رندھی ہوئی آواز میں بولی تھی۔ ڈاکٹر براق کیسے ہیں..؟؟ دیکھیں پیشنٹ کا بہت خون بہہ گیا ہے ان کو خون کی ضرورت ہے آپ خون کا بندوست کریں آپ کے پاس صرف چار گھنٹے ہیں ورنہ ہم مریض کو بچانے کی گارنٹی نہیں لے سکتے اور آپ وہاں جاکر کچھ پیپرز پر سائن کردیں۔ ڈاکٹر پیشہ ورانہ لہجے میں بولتے جیسے آیا تھا ویسے ہی چل دیا۔ عنادل ڈاکٹر کی بات سنتے ہی ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھتی چلی گئی براق ..! اس کی حالت دیکھ کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ وہی عنادل ہے جو کچھ دیر پہلے براق کے ساتھ ہنس رہی تھی ابھی تو اس نے اپنی زندگی جینا سیکھا تھا ابھی تو اس کے اور براق کے رشتے کا آغاز ہوا تھا ابھی تو اس کو محبت کے معنی سمجھ آنے لگے تھے۔ لیکن اچانک یہ سب ہونے پر وہ ہمت رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی ٹوٹ گئی تھی کچھ دیر یونہی بے سُدھ کرسی پر بیٹھے رہنے کے بات اس کے دماغ میں جیسے کوئی چیز لہرائی تھی وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھتی موبائل جو اس کے پاس ہی قریب پڑا تھا اس کو اٹھاتے کپکپاتے ہاتھوں سے حویلی میں حلیمہ بیگم کو کال ملائی تھی۔ حلیمہ بیگم سمیت سب جو دانیہ کے لئے پریشان تھے۔ کلثوم بیگم جو حلیمہ بیگم کو سنبھال رہی تھی ان کے بجتے فون کو دیکھ بولی تھی۔ کال آرہی ہے شاید دانیہ کے متعلق ہو اٹھا لو کلثوم بیگم نے ان کو چوکنا کیا تھا۔ حلیمہ بیگم فوراً سے بھی پہلے موبائل کو کان سے لگائے بولی تھی دانیہ تم ہی ہو نا..! عنادل تو دانیہ نام سنتے ہی حیران ہوئی تھی۔ میں عنادل بول رہی ہو..! عنادل کی آواز رونے کی وجہ سے بھاری ہوگئی تھی.. کیا ہوا بیٹا روئی ہوئی ہو براق نے کچھ کہا ہے .. حلیمہ بیگم اپنا سارا دکھ بھولے اس سے سوال کرنے لگی تھی۔ ان کے سوال کرنے پر وہ کال پر ہی پھوٹ پھوٹ کر رودی بیٹا کیا ہوا ہے..؟ کچھ تو بتاؤ..؟ میرا دل بٹھا جارہا ہے کلثوم بیگم سمیت وہاں سبھی نفوس کو پریشانی نے آگھیرا تھا جبکہ شاہنواز چودھری کے چہرے پرُ سرائیت مسکراہٹ کا راج تھا آنٹی براق .. اتنا بولتے وہ پھر رو دی عنادل کیا ہوا ہے براق کو حلیمہ بیگم غرائی تھی براق کو گولی لگی ہے وہ ابھی ہسپتال میں ہے عنادل نے آنسوؤں کا بامشکل گلا گھونٹے بتایا تھا حلیمہ۔بیگم کے ہاتھ سے موبائل گرا تھا کلثوم بیگم پریشانی سے بولی تھی کیا ہوا ہے کچھ تو بتاؤ ..؟ ان کے ہلانے پر حلیمہ بیگم کی آنکھ سے آنسوں روانگی سے نکل رہے تھے۔ براق میرا براق ہاں کیا براق اب کی بار شاہنواز چودھری اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے ان کا اچانک بدلا ہوا انداز دیکھ سب چونکے تھے۔ براق کو گولی لگی ہے وہ ہسپتال میں ہے عنادل کی کال تھی حلیمہ بیگم کا سانس اکھڑنے لگا وہ ان کو بتاتے ہی ہوش خروش سے بیگانہ ہوگئی تھی۔ کلثوم بیگم پریشان تھی ایک طرف دانیہ غائب تھی دوسری طرف براق کو گولی لگ گئی ایک ماں اپنے بچوں کو کسیے تکلیف میں دیکھ سکتی ہے کلثوم بیگم جو کب سے ان کے اوپر پانی کے چھینٹے مار رہی تھی آخر حلیمہ۔بیگم نے آنکھوں کو کھولا تھا میرا براق ..؟؟ مجھے ابھی جانا ہے براق کے پاس شاہنواز چودھری یہ بات سنتے ہی فوراً اپنے کمرے میں بند ہوگئے تھے۔ جبکہ عباس صاحب نے دوبارہ عنادل کو کال کرکے ہسپتال کے بارے میں معلومات کی تھی۔ 

حور جو گاڑی سے باہر دیکھنے میں مگن تھی اس کے ساتھ ہی پڑا موبائل بجا تھا کال اٹھاتے ہی جو خبر اسکو ملی وہ کسی صدمے سے کم نا تھی کال رکھتے ہی اس نے ساحر کو مخاطب کیا تھا سنیں..!! جی کہیں ساحر نے انتہائی ادب سے جواب دیا تھا۔ براق بھائی کو گولی لگی ہے سب ابھی ہی ناران کے لئے نکل رہے ہیں دانیہ کے بات پر اس نے ایک دم گاڑی روکی تھی کیا ہوا ہے بھائی کو..؟ اب اس کا رخ حور کی جانب تھا یہ سب نہیں پتا امی نے یہ بتایا ہے وہ ابھی ہسپتال میں ہے باقی عنادل کو پتا ہے حور ایک دم پیچھے ہٹ کر بیٹھی تھی کیونکہ انجانے میں ساحر اس کے نزدیک تھا۔ اس نے گاڑی حویلی کی جانب ریورس کرنی چاہی تبھی حور بولی تھی دانیہ کہاں گئی ..! ساحر کو اس کی بات سنتے یاد آیا دانیہ بھی صبح سے غائب ہے ایک طرف اسکا بھائی زندگی موت سے لڑ رہا تھا جبکہ دوسری طرف اس کی بہن جانے کدھر ہے زندگی نے اچھا مذاق کیا تھا ان کے ساتھ ساحر نے کال کرتے ہی سب کچھ پتا کرا تھا جب اس کو پتا لگا وہ سب ناران کے لئے نکل چکے ہیں جبکہ اس کو یہ حکم دیا تھا وہ دانیہ کو ڈھونڈنے اور بیچاری حور اب اس کے ساتھ ہی تھی۔ ساحر براق سے ملنا چاہتا تھا لیکن اس کی اپنی بہن بھی نہیں مل رہی تھی۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments