Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 16.
دانیہ اب ان لوگوں کے سامنے موجود تھی.. اور اس بات سے باسل کا خون خول رہا تھا اس کا دل کر رہا تھا اس لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر اس کے پیچھے کتے لگوا کر پورے گاؤں میں دوڑائے اوپر سے کچھ بچا نہیں تو لڑکا بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ موجود تھا۔ جو دانیہ کو گھورے جارہا تھا جبکہ باسل اپنی پتھریلی نظریں اس پر گاڑھے بیٹھا تھا۔ یرسل کو باسل کی نظروں سے خوف آرہا تھا جو اپنے ہونٹ کو بھینچے اُسی کو گھور رہا تھا۔ انکل آپ کو برا نہیں لگے تو میں دانیہ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں ..! کے ہاتھوں سے بچائے گا انجانے میں وہ اپنی بربادی کو بلا گیا تھا۔ نزاکت صاحب نے جمشید علی کی طرف دیکھا کچھ دیر خاموشی کے بعد جمشید علی بولے تھے دانیہ یرسل کو باہر لان دکھاؤ یہ وہ موقع تھا جب دانیہ اور یرسل اکیلے میں بات کرنے والے تھے اور یہاں باسل ان کی اکیلے ملنے والی ملاقات کو خراب کرنے لگا تھا۔ وہ بھی نو دو گیارہ ہوا تھا۔ اب کچھ یوں تھا دانیہ یرسل سے تھوڑے فاصلے پر اپنے دوپٹے کو سر پر ٹھیک کئے چل رہی تھی جبکہ باسل ان کے پیچھے چھپ چھپ کر پیچھا کر رہا تھا۔
حور اٹھ کر کیچن میں چل دی دوسری طرف ساحر بھی حور کے پیچھے ہی تھا وہ کیچن میں جاتے ہی پانی کے گلاس کو گٹ سے پی گئی وہ گھبرا رہی تھی ساحر کی نظروں سے ایک یہ واحد وجہ تھی جس کی وجہ سے وہ اٹھ کر کیچن میں آگئی تھی۔ اور ساحر اس کے پیچھے ..!
دو نئے کپل کی کہانی شروع ہوئی تھی جبکہ دو خود ٹھکانے نہیں لگے تھے۔ ہائے ان چاروں کا اللّٰہ ہی بھلا ہے ..!
براق نے سب سچ بتا دیا تھا.. کیا شاہنواز چودھری کی اس کے پیچھے کوئی سازش ہوگی۔ ..! ایمان نے کاشان کو معاف کردیا کیا اس کے پیچھے کوئی مجبوری ہوگی..؟ باسل کی جان کو خطرہ ہے اور اس کی جان ہماری دانیہ میڈم ہے جو خود گھن چکر بنی ہوئی ہے..! جبکہ ساحر وہی نقاب پوش ہے جس نے حور کو بچایا یہ بات حور کو کھائے جارہی تھی۔
ماضی
سامیہ حور کو لائبریری کے ساتھ والی کلاس میں لائی سامیہ بہت سنسان سی کلاس ہے یہاں کوئی بھی نہیں آتا تم مجھے کیوں لے کر آئی ہو اِدھر؟ دانیہ نے بیزاریت سے پوچھا تھا۔ ایک منٹ تمہیں سب جواب مل جائیں گے مجھے ایک ضروری کام ہے میں تھوڑی دیر میں آئی تم ادھر ہی رہنا یہاں سے کہی جانا نہیں جب تک میں نہیں آتی..! سامیہ اس کو ہدایت دیتی جلدی سے باہر نکلی تھی باہر نکلتے اس نے کلاس کے دروازے کو لاک کیا تھا۔ اور ذیشان کو میسج کیا تھا جس سے وہ تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچ گیا تھا۔ اور سامیہ وہاں سے اپنا کام کئے چل دی حور کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا وہ دروازے کی جناب بڑھی تھی دروازے کو کھولنے کے لئے ہاتھ بڑھائے تبھی اچانک سے دروازہ کھولے ذیشان اندر آیا اس کو دیکھ حور کو انجانے خوف نے گہرا تھا۔ حور نے باہر کے جانب قدم بڑھائے اتنے میں ذیشان اس کے سامنے حائل ہوا تھا اتنی بھی کیا جلدی ہے.. تھوڑی دیر ہمیں بھی وقت دے دیں..! ذیشان شاطرانہ مسکراہٹ لئے بولا تھا۔ ہٹو میرے سامنے سے میرے پاس تم جیسے لوگوں کے لئے وقت نہیں ہے حور یہ کہتی پھر آگے بڑھی تھی جبکہ ذیشان نے اب کی بار اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑے اپنے قریب کیا تھا اور حوس بھری نظروں سے اس کو دیکھنے لگا تھا ابھی وہ اس کے چہرے پر لگا نقاب ہٹاتا کہ تھپڑ کی آواز پوری کلاس میں گونجی تھی۔ تم نے مجھے تھپڑ مارا تمہاری اتنی ہمت اب دیکھوں میں کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ اسکا انداز وحشی تھا۔ سامیہ ..! وہ زور سے چیخی تھی ذیشان نے اپنے ہاتھ سے حور کا منہ بند کروایا تھا اور طنزیہ ہنسی ہنسا وہ کیا خاک تمہیں بچائے گی جبکہ وہ خود تمہیں سب جانتے بوجھتے یہاں چھوڑ کر گئی ہے۔ حور کی آنکھوں سے بے بسی کی وجہ سے آنسوں نکلے تھے ۔۔ و ہ اپنا سر یہاں وہاں ہلانے لگی تھی۔ جبکہ ذیشان کو اس کی معصومیت پر رحم نہیں آرہا تھا۔ ایک دم اس نے کھینچ کر اس کے چہرے سے نقاب کو علیحدہ کیا تھا۔ ذیشان اس کو دیکھ حیران ہوا تھا۔ حسین ..! بے ساختہ اسکے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے تھے۔ تم تو بہت ہی کوئی دبنگ چیز ہو لہجے میں حوس تھی جو آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔ ابھی وہ آگے بڑھتا کہ حور نے اس کے ہاتھ پر زور سے اپنے دانت گاڑھے تھے۔ اور دروازے کی طرف بڑھی تھی۔ وہ دروازے کو کھولنے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے ذیشان نے اسکو کمر سے پکڑ کر واپس کھینچا تھا کلاس میں ایک لائٹ تھی جو روشنی کرنے اور نا کرنے کے برابر کر رہی تھی ..! جانے دو مجھے پلیز ..! روتی بلکتی سسکتی حور نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے عزت گواہ نہیں سکتی تھی وہ اپنے ماں باپ کا مان اپنے ساتھ لائی تھی کیا جواب دیتی وہ سب کو اپنے بھائیوں کو ..!!!۔
کلاس کی طرف سے گزرتے ساحر نے کلاس سے آتی آواز سے اس طرف اپنے قدم بڑھائے تھے۔ چیخنے چلانے کی آواز پر وہ کالس کے دروازے کو دھاڑ سے کھلے اندر آیا تھا ذیشان اپنی جگہ ساکت سا ہوگیا جبکہ حور اپنے آپ کو ڈھانپے ساحر کے پیچھے چھپ سی گئی تھی پلیز مجھے بچائے اس درندہ صفت انسان سے میری عزت وہ بولتے بولتے ساحر کی باہنوں میں جھل گئی تھی۔ ساحر اس کو دیکھے گیا جس کے چہرے کو آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا آنسوں کے نشان اس کے چہرے پر واضح تھے۔ وہ اس کو پاس سائیڈ ہی پڑی کرسی پر آرام سے بٹھاتے اور اس کے چہرے کو اچھے سے چھپاتے آگے بڑھا تاکہ باہر والے کی نظر حور پر نا پڑھ سکے اور ذیشان کی قدم بڑھ رہے تھے ..! ذیشان نے اپنے قدم پیچھے کی جانب بڑھائے تھے۔ ساحر نے آگے بڑھتے زور سے اس کی چہرے پر مکہ جڑا تھا جس سے وہ زمین بوس ہوا تھا اس کے بعد ایک کے بعد ایک وار کو وہ سہتا ادھ مرا ہوا تھا تب بھی ساحر کو رحم نہیں آیا کافی دیر اس کو مار کر خود کو سکون پہنچا کر وہ اس کے پیٹ پر لات مارے دور ہٹا تھا اور حور کے پاس پہنچا تھا۔ اس کو اپنی باہنوں میں اٹھائے وہ یونیورسٹی سے باہر نکلا تھا سب ہی اسکو دیکھ رہے تھے جبکہ ساحر کو لوگوں کی باتیں بنانے سے رتی بھر کا فرق بھی نہیں پڑتا تھا وہ اس کو اٹھائے گاڑی میں آتے ہی حور کو پیچھے لٹاتے خود ڈرائیونگ کرتے گاڑی کو حور کی حویلی کی طرف کر گیا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ فرنٹ میرر سے حور کو دیکھ رہا تھا جو بے جان سی پیچھے لیٹی ہوئی تھی۔
ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد وہ حویلی پہنچ ہی گیا تھا جمشید علی سمیت سب گھر میں موجود تھے کیونکہ آج کے دن سب نے باہر جانے کا موڈ بنایا تھا اور یہ فرمائش بھی حور کی ہی تھی۔ سب سے پہلی نظر کاشان کی اُس پر پڑی تھی وہ فوراً سے اس کے پاس پہنچا تھا۔ جب حور کو ساحر کی باہنوں میں دیکھ وہ فکرمند لہجے اور گرجدار آواز میں بولا تھا کیا ہوا ہے میری بہن کو ..!! کاشان کا چہرہ غصہ اور ضبط کے مارے لال ہوا تھا کاشان کی آواز سنتے سب ہی حویلی کے دروازے پر موجود تھے آپ سب پہلے مجھے اندر تو آنے دیں میں آپ کو سب کچھ بتاتا ہوں ۔۔۔ کاشان نے اس کو اندر آنے کا راستہ دیا تھا وہ حور کو صوفے پر آرام سے لیٹائے رخ موڑے ان سب کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ ساری روادار ان کے گوش کر گیا تھا۔ ساری بات سنتے ہی کاشان کا پارہ ہائی ہوا تھا کہا ہے وہ غلیظ انسان مجھے ابھی جانا ہے اسکے پاس کاشان نے جنون سی کیفیت میں کہا تھا۔
ابھی میں نے اسکو سیدھا کر دیا ہے وہ اب چلنے پھیرنے کے قابل نہیں ساحر نے اس کو تسلی دی تھی۔ لیکن وہ تسلی بھی بے کار گئی تھی کاشان کے غصے کے سامنے ...!!!!! مجھے ابھی جانا ہے تو مطلب ابھی جانا ہے کاشان کے ساتھ ہی باسل بھی ساحر کے ساتھ یونیورسٹی کے لئے نکلا تھا۔ حور کو کچھ دیر بعد ہوش آگیا تھا..! وہ ہر تھوڑی دیر بعد روتے روتے بیہوش ہو جاتی اب بھی اس پر پانی کے چھینٹے مارے حور کو اٹھایا تو وہ زور زور سے رونے لگی امی ..!! مجھے دیکھا اس نے مجھے اپنے قریب کیا میں گندی ہوگئی ہوں وہ ... مجھ۔۔بولتے بولتے اس کے سامنے وہ چہرا آیا جس نے اس کو بچایا تھا۔ امی مجھ..مجھے ماس.. ماسک انسان وہ وہ بول نہیں پارہی تھی جبکہ عنادل اور کلثوم بیگم سمجھ گئی تھی وہ کس کی بات کر رہی ہے۔ کاشان اور باسل اس لڑکے کے عین سامنے کھڑے تھے واقعے میں ساحر نے اس کی حالت ایسی کردی تھی جس سے وہ چلنے پھیرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کاشان نے اپنے گن نکالے ذیشان پر تانی تھی اتنے میں وہاں پولیس پہنچ چکی تھی اس نے پولیس والوں اور باقی سب کو ایک طرف روک دیا اس کے روعبدار آواز پر کچھ پل کے لئے سارے پولیس کے افسر بھی روک گئے تھے اس کو میں خود ماروں گا اپنے ہاتھوں سے ایک کے بعد ایک گولی اس کے سینے میں ماری تھی جس سے چیختے چلاتے اس کی جان نکلی تھی۔
پولیس افسر کاشان خان کے آگے کچھ بول نہیں پائے تھے کیونکہ وہ بھی کاشان کو جانتے تھے اور کاشان خان سے پنگا لینا مطلب اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھنا اور باسل خان بھی کاشان کے غصے کو دیکھ رہا تھا جو چھ گولیاں اس نے ذیشان کے سیدھا سینے میں اتاری اس سے زمین پوری خون سے بھری تھی۔
کچھ دیر بعد وہ اس کو یونہی چھوڑے باہر نکلا تھا پوری یونیورسٹی نے ساری کاروائی دیکھی تھی۔ سامیہ تو ڈر کے مارے کپکپارہی تھی۔ باسل بھائی حور کے دوست کا نام بتائیں مجھے..! باسل نے کاشان کے طرف دیکھ جس کا ارادہ اب بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ ایسے نا دیکھیں میں اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کروں گا لیکن وہ اس کی دوست ہے کچھ تو جانتی ہوگی۔ شاید سامیہ نام تھا کافی دفعہ بتایا تھا حور نے۔ ٹھیک ہے پوری یونی میں کھڑے وہ زور سے بولا تھا ادھر سامیہ نامی لڑکی کون سامیہ کا اپنا نام سنتے جیسے سانس روکا تھا۔ ان کے کلاس کے تقریبا لوگوں کا اشارہ اپنے پیچھے چھپی سامیہ کی طرف تھا وہ سب دور ہٹے تھے جس سے سامیہ ان کے سامنے موجود تھی۔ ابھی کاشان کچھ پوچھتا وہ فوراً بولی تھی مجھے معاف کردیں میں نے سب جان بوجھ کر نہیں کیا مجھے ذیشان نے حور کو کلاس میں لانے کا کہا تھا کاشان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سامیہ اس کی دوست ایسا کچھ کرے گی لیکن یہاں تو اس کے پوچھے بغیر وہ سب کچھ رٹے ہوئے طوطے کے طرح بتا گئی تھی۔ کاشان کا بس نہیں چل رہا تھا ایک اور خون اپنے ہاتھوں کردے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا اس نے پولیس افسر کو اپنے پاس آنے کا کہا جس سے وہ فوراً اپنا سر جھکائے کاشان کے آگے کھڑا تھا اس کو اندر کرو اور میری بہن کی ہر ازیت کا بدلہ لو اس سے ..!!!!! افسر کے اشارے کے بعد لیڈی پولیس نے اس کو اپنے ساتھ لے جاتے گاڑی میں بٹھایا تھا وہ معافی مانگتی رہی لیکن کاشان اس کی کسی بھی بات پر کان دھرے بغیر اپنی حویلی کو نکلا تھا کاشان اور باسل نے ساحر کا شکریہ ادا کیا تھا وہ جانتے تھے ساحر کو کیونکہ اس سے پہلے صائم اس دنیا سے کوچ کر گیا تھا لیکن ساحر اپنے بھائی کے خون کے بدلے کسی لڑکی کی عزت لوٹتے نہیں دیکھ سکتا تھا یا پھر اپنے عزت جو کہ اس کے نام سے جڑی بھی نہیں تھی لیکن وہ اسے اپنی عزت مانتا تھا۔ حویلی پہنچتے حور کے حالت دیکھ کاشان نے اس کو اپنے سینے سے لگائے کہا تھا تمہارے مجرم کو اپنے ہاتھ سے مار کر آرہا ہوں اور تمہاری دوست کو اندر کروا کر آرہا ہوں حور نے روئی روئی آنکھوں سے کاشان کو دیکھ پھر باسل کو دیکھا جو اس کے دوسری طرف ہی بیٹھا تھا۔ اب نہیں رونا تم نے بھائی مجھے ہاتھ لگایا روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ اب وہ کسی کو ہاتھ لگانے کے قابل نہیں رہا باسل نے بتایا تھا میرا دل۔کرتا ہے میں اپنا آپ نوچ ڈالوں اس کے غلیظ ہاتھ حور کے لئے اس کو ہاتھ لگانا بھی کوئی گندگی لگا تھا وہ پاکیزہ لڑکی جس کا چہرہ کبھی گاؤں کے لوگوں نے نہیں دیکھا تھا لیکن ذیشان نے اس کا چہرہ دیکھا نہیں بلکہ اسکو چھوا تھا۔ اس کا ہاتھ پکڑا تھا اس کی کمر کو اپنے گندے ہاتھوں سے تھاما تھا..... وقت گزرتا گیا اسکی دماغ میں اس کو بچانے والے انسان کی آنکھوں کا عکس گھومتا رہا راتوں کو اس کا ڈر سے اٹھنا سب کے لئے اب فکرمندی کا باعث بننا شروع ہوگیا تھا لیکن اچانک پھر وہ راتوں کو نہیں چیختی تھی اور اس کی وجہ شاید اب اسکو سمجھ آنے لگی تھی۔
حال
کاشان کو کال پر بتا دیا گیا تھا کہ دانیہ کے لئے رشتہ آیا ہے جس کے بارے میں اسنے سب کو کہہ دیا تھا وہ آکر پھر لڑکے کی چھان بین کرے گا جس پر سب نے ہامی بھری تھی اور اس نے ایمان کو بھی بتایا اتھا وہ بھی خوش ہوئی تھی۔ اب ایمان کان میں چھوٹے چھوٹے نفیس جھمکے ڈال رہی تھی اور دور کھڑا کاشان اس کو دیکھ رہا تھا۔ ایمان کاشان کی نظروں سے کنفیوز ہوتی آخر بول اٹھی تھی۔ کویں یوں دیکھ رہے ہو کچھ چاہئیے؟ ایمان نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا ہاں چاہئیے اپنی بیوی کا دل کاشان نے اس کے قریب آتے اس کو اپنے حصار میں لئے کہا تھا۔
دل تو دے چکی میں ..! ایمان نے معصومیت اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا۔ ہائے پہلے ہی مجھ سے میرا دل نہیں سنبھالا جارہا تمہارے دل کو سنبھالتے ہوئے کہی میں مر ہی نا جاؤ ایمان اس کی بات سنتے تڑپ اٹھی تھی۔
اور اس کے ہونٹ پر اپنے نرم ملائم ہاتھ رکھے اپنا سر نفی میں ہلانے لگی تھی تم اتنی جلدی ڈر کیوں گئی میں کونسا ابھی جارہا ہوں اور ہفتے پہلے تو ایمان بلکل الگ تھی مجھے ایٹ کا جواب پتھر سے دیتی تھی اب کیوں اتنی ڈرپوک سی ہوگئی ہے..؟ کاشان نے کل سے اس کی خاموشی بلا وجہ نا لڑنا محسوس کیا تھا۔ پہلے مجھے آپکے خود سے دور جانے کا ڈر نہیں تھا اب لگتا ہے آپ مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے آپ جاننا نہیں چاہیں گے میں رویہ کیسے بدل گیس ..! ایمان نے اپنی جھکی پلکیں اٹھائے آنکھوں میں نمی لئے پوچھا تھا۔ پوچھنا چاہتا تھا لیکن پھر خاموش ہوگیا ..! کاشان نے اس کے آنکھوں میں چلتے سوال کو دیکھ جواب دیا تھا۔ کیوں خاموش ہوگئے ..؟؟ ایک اور سوال ..! کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ تم مجھے سے علیحدگی کی خواہش کروگی اور اگر تم ایسا کرتی تو ضرور جس دن میں تمہیں تمہارا آزادی کا پروانہ دیتا اس دن ہی میں مرجاتا اور اگر نہیں مرتا تو ہر آئے دن اپنے آپ کو تکلیف پہنچا کر ازیت دے دے کر مارتا کبھی تو جان جاتی میری کاشان نے بغیر لگی لپٹی کئے صاف گوئی اپنائی تھی۔ ایمان اس کے جنون چاہت محبت کو دیکھ کر زور سے اسے سینے سے لگے اس کے گرد اپنا حصار حائل کر گئی تھی کاشان نے بھی اسکو اپنے حصار میں لئے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے۔
دانیہ اور یرسل جو اب روکے تھے بس اتنی سے دیر میں باسل نے پائپ کا نل ۔کھولا اور اس کو یرسل پر پھینک دیا چونکہ پانی کا پائپ کیل کی وجہ سے لٹکا ہوا تھا تو اس کا سیدھا نشانہ یرسل ہر ہی تھا اللّٰہ میں مر گیا طوفان آگیا یرسل کے بے تکی باتوں پر دانیہ کو بھی ہنسی آئی تھی لیکن وہ ضبط کرتے پائپ سے بہتے پانی کو نل۔سے بند کر گئی تھی اور باسل کو دانیہ کی اس حرکت پر غصہ آیا تھا۔
وہ یہاں کانٹوں پر چل رہا تھا اور وہ میڈم اس کے لئے مزید مشکلیں پیدا کر رہی تھی۔ اب کی بار باسل باہر آیا تھا اور ان کے پاس جاتے ہی بیچ میں بیٹھ گیا تھا۔ یرسل اور دانیہ اس کو دیکھ رہے تھے دانیہ تو اس کی آنکھوں میں سخت تاثرات دیکھ ہی نظریں جھکا گئی تھی جبکہ یرسل اس کو اچنٹی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ اررے آپ کو ایک بات بتاؤ باسل نے سرگوشی نما آواز میں کہا تھا یرسل کو اس کی بات کچھ ضروری لگی اس لئے باسل کی طرف جھکا تھا۔ یہ لڑکی تھوڑی طوطلی ہے باسل کے انکشاف پر وہ حیران ہوا تھا جبکہ دانیہ باسل کی بات سنے منہ کھولے باسل کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی تھی۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا..؟؟ باسل کا رخ دانیہ کی طرف تھا ۔ باسل اس کے ہاتھ پر زور دیتے بولا تھا۔ دانیہ نے فوراً اپنے لب کھولے تھے کچھ کہنے کے لئے اس سے پہلے دانیہ کچھ بولتی باسل بول اٹھا تھا۔ آپ جا کر اس رشتے سے منع کردے باسل نے رستہ صاف کرنا چاہا تھا۔ لیکن میں منع نہیں کرنا چاہتا یرسل نے باسل کی بات کو کسی خاطر میں نا لاتے جواب دیا تھا جبکہ دانیہ کا چہرہ اپنی ہنسی روکنے کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا.
حور ساحر کو اپنے پیچھے کھڑے دیکھ کیچن سے باہر نکلنے لگی اس سے پہلے ساحر نے حور کا راستہ روکا تھا۔ مجھے دیکھ کر بھاگنا یہ کوئی تمہارا پسندیدہ کام ہے؟ ساحر نے شریر لہجے میں کہا تھا۔ حور اس کی باتوں کو سرے سے نظر انداز کئے پھر باہر جانے لگی اب کی بار ساحر نے اس کے بازؤں کو پکڑے شلیف سے لگایا تھا۔ جس سے حور کی کمر میں ٹھیس اٹھی تھی جس کو وہ برداشت کرتی ساحر کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگی تھی۔ آپ کے ساتھ کیا مئسلہ ہے مجھے یوں عجیب طریقے سے کیوں گھور رہے تھے باہر..؟؟ حور کے دماغ میں چلتا سوال آخر اس کی زبان پر آہی گیا تھا۔ کتنی دفعہ مجھے اپنے پاس محسوس کیا تم نے اور آج تک یہ پتا نہیں لگا پائی تمہارا ہر راستہ مجھ سے شروع ہوکر مجھ پر ہی ختم ہوتا ہے ساحر کی باتوں پر وہ کنفیوز ہوئی تھی کیونکہ اُس کو ساحر کے بات سر سے گزرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ اس بات کا مطلب ..؟ حور نے سوال کیا تھا۔ ..! سوال تو تم نے کرنا ہی ہے پہلی بار باغ میں نکلی تھی تو گرتے ہوئے تمہیں کس نے بچایا تھا۔..؟ ساحر نے سوال کیا تھا۔ حور نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جس میں کئی سوال ناچ رہے تھے۔ مجھے نہیں پتا پر وہ آنکھیں مجھے آپ کی آنکھوں کی جیسی لگتی ہیں حور نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا تھا۔ حور کے صاف گوئی پر ساحر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ آئی تھی۔
اس کے بعد سڑھیاں سے گرتے ہوئے تمہیں کس نے بچایا تھا..؟ ساحر کی باتیں آرام آرام سے حور کو کچھ کچھ سمجھ آرہی تھی۔ اس نے ہی جس نے مجھے باغ میں گرنے سے بچایا تھا۔ تمہیں اپنے پیچھے ہر وقت کوئی محسوس ہوتا تھا جو تمہارا ہر جگہ پیچھا کرتا ہے جو تمہارے آنکھوں میں دماغ پر اس دن سے سوار ہے جب سے اس بند کلاس میں بچاتے ہوئے صرف تم نے اس شخص کے آنکھیں دیکھی تھی۔ میں نے ٹھیک کہا؟ ساحر نے تصدیق چاہی تھی۔ حور نے فوراً اپنے سر کو ہاں میں ہلایا تھا لیکن اب وہ کچھ بول نہیں رہی تھی حیرانگی سے اس کی ساری باتیں سن رہی تھی اور حیرت زدہ ساحر کو دیکھے جارہی تھی جس کو سب پتا تھا۔ رات کو نیند سے روز اٹھ کر تم چیختی تھی لیکن اچانک اس شخص کو اپنے قریب محسوس کرتے تمہیں جیسے سکون پہنچا تھا۔ اور تب سے لیکر آج تک تم کبھی نیند میں نہیں چیخی ..! ساحر نے بنا کسی تاثرات کے ساری بات اس کے گوش کی تھی لیکن آپ کو یہ سب کیسے پتا؟ حور نے پوچھا تھا کیونکہ وہ کوئی اور نہیں آپ محترمہ کے سامنے کھڑا معصوم سا شخص ہے اس نے سر کو خم دیتے اس کے سر پر جیسے کئی پہاڑ گرائے تھے۔
براق بھی عنادل کی سنگت بہت خوش تھا۔ اس کو اپنی زندگی بہت حسین لگ رہی تھی عنادل کی معصوم معصوم فرمائشیں اس کے نکھرے براق اس کی ساری فرمائش اور نکھرے اٹھا رہا تھا۔ جب کے عنادل کو اپنا آپ کسی شہزادی کی طرح معلوم ہورہا تھا۔ اور براق کا کہنا یہی تھا وہ براق کی شہزادی ہے اس کے دل میں حکومت کرنے والی شہزادی۔
اب بھی وہ پیاری سی پری کی طرح تیار ہوئے اپنے اوپر آخری نظر ڈالے موڑی تھی تبھی اس کا سر سیدھا براق کے سینے سے لگا تھا اپنے سامنے کھڑے اس چھ فٹ کے انسان کو دیکھ منہ بسور گئی تھی اور براق نے زور کا قہقہہ لگایا تھا کیونکہ کل سے آج تک عنادل کئی دفعہ اس کے سینے سے آکر لگ چکی ہے۔ جو اب اپنا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی۔ میرا معصوم سا بچا اس نے عنادل کے گال کھینچے کہا تھا۔ عنادل نے اس کو دور کیا تھا اور غصے میں بولی تھی۔ اتنا بڑا قد کہا سے مل گیا آپکو میں تو کوئی چھوٹی سے چیونٹی لگتی ہوں.. اور میں کوئی آپ کا بچا نہیں ہوں..! اس نے چہرے کے زوائیے بگاڑے اپنے دوپٹے کو سر پر لیتے کہا تھا۔ اچھا بچا نہیں ہو..! تو کیا خیال ہے میرے بچے کی اماں براق اسکو پیچھے سے اپنے حصار میں لئے گھمیبر لہجے میں بولا تھا براق کی گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتی عنادل کو اپنی گردن جھلستی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔بچوں کے آبا زرا دور ہٹیں گے۔ عنادل نے بھی شوقیہ لہجہ اپنایا تھا۔ میں نہیں دور ہٹ رہا ..! وہ اس کو اور خود میں بھینچے بولا تھا۔ مجھے اس پارک میں جانا ہے آپ کو یاد ہے نا آپ نے کل کیا کہا تھا۔ عنادل نے نرم لہجے میں پوچھا تھا۔ ہمم تو ..! براق نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ تو یہ آپ مجھے آج وہاں لے کر جائے گے کتنا پیارا پارک تھا وہ اور مجھے وہاں جانا ہے عنادل ضدی لہجے میں بولی تھی براق کی محبت سے عنادل کے اندر کئی تبدیلیاں آئی تھیں اب وہ براق سے ناراض ہوتی تھی اور ضد بھی کرتی تھی تنگ بھی کرتی تھی۔ اور براق خوشی خوشی عنادل کی ہر خواہش کو پورا بھی کرتا تھا۔
ساحر حور کو حیران چھوڑے کیچن سے باہر نکل گیا تھا حور کے وہم و گمان میں بھی نا تھا وہ اس شخص کے اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی اسکو پہچان نہیں سکی تھی جبکہ اس کے چہرے پر اب سکون تھا جو شاید ساحر کے باتوں سے ملا تھا یا پھر یہ جان کر وہ اور کوئی نہیں ان کی حویلی سے ہی تعلق رکھتا ہے لیکن یہ غلط فہمی حور کو کب تک رہنی تھی کیونکہ سکون تو اب اس کا غائب ہونا تھا حور کے جزبات صرف اس شخص کے چہرے کو دیکھنے تک کے لئے محدود نہیں تھے اسکے جزبات جو اس کے چہرے پر پہلے ہی عیاں ہوچکے تھے .. اس جزبات سے وہ خود بے خبر تھی جبکہ ساحر چاہتا تھا حور خود جانے کے اتنی چھوٹی سی بات پر بیچین نہیں ہوا جاتا جبکہ وہ اس شخص کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیچین ہوتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد سب اپنے اپنے حویلی کو چلے گئے تھے اور باسل کے منع کرنے کے باوجود بھی دانیہ کے ہاتھ میں یرسل کے نام کی انگھوٹی پہنا دی گئی تھی شادی دو مہینے بعد رکھی گئی تھی جس پر دانیہ کو بہت غصہ آیا تھا کیونکہ حلیمہ بیگم کا کہنا تھا ابھی شادی کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ جبکہ اس کے بر عکس شادی کی تاریخ دو مہینے بعد طے پائی گئی تھی۔ باسل حویلی آتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں چل دیا تھا اور ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی ساری چیزیں زمین بوس کردی تھی اب کمرے میں چھوٹی چھوٹی کانچ کی کرچیاں پڑھیں تھی اور وہ بالکونی میں کھڑا تھا جبکہ اس کی ماتھے پر واضح ہوتی رگیں پھٹنے کے در پر تھی۔ آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
موبائل نکالے اس نے ایک نمبر ملایا تھا۔ کچھ دیر بعد کال اٹھا لی گئی تھی۔ کافی دیر وہ اس آدمی کو کچھ سمجھتا رہا اس کے بعد باسل نے فوراً سے کال کاٹی تھی۔ جبکہ شیطانی مسکراہٹ کا راج اس کے لبوں پر تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback