Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 15.
کاشان اور ایمان کھانے کے بعد ہوٹل واپس آئے تھے ایمان کو یوں لگ رہا تھا کاشان کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے اسکو باہر الگ الگ جگہ دیکھانا اور اچھی اچھی تصویریں وہ بھی زبردستی بنوانا جو ان لوگوں نے صرف دانیہ کی فرمائش پر بنوائی تھی ورنہ کاشان کا کوئی موڈ نہیں تھا تصویریں لینے کا بھی..! اب بھی وہ اس کو ہوٹل چھوڑے جانے کدھر گیا تھا یہ جگہ اسکے لئے بلکل انجان تھی۔ وہ کافی دیر کمرے میں بیٹھے اکتا گئی تھی دروازہ کھولے اپنے کمرے سے نکلی تھی کمرے سے باہر نکلتے ہی لائن سے کتنے ہی کمرے تھے۔ وہ لفٹ کے پاس جاتے اس کے اندر جاتے مین فلور پر نیچے آئی تھی کاشان کیسی لڑکی سے بات کر رہا تھا ایمان لفٹ سے نکلتے اسکو کسی لڑکی کے ساتھ ہنستے ہوئے بات کرتے دیکھ رونے والی ہوئی تھی اس کے دماغ میں الگ الگ خدشات چلنے لگے آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے وہ جلدی سے واپس اوپر کو چل دی۔ کمرے میں آتے ہی کتنی دیر وہ روتی رہی تھی مجھ سے تو کبھی ہنس کر بات نہیں کی اِس نے۔ کبھی تم نے اس سے ہنس کر بات کی ہے..! دل سے آواز آئی تھی پھر بھی اس کو مجھ منانے کی کوشش کرنی چاہئیے نا..! دماغ میں چلتا سوال اس کی زبان پر آیا تھا۔ کیسے منائے وہ تمہیں ہاتھ تک تو خود کو تم نے لگانے نہیں دیا حوس پرست تک تو تم نے اسکو بول دیا کس حق سے وہ تمہیں آکر منائے؟ حق لینے کی کوشش تو کریں..! دل نے پھر گلہ کیا تھا۔ کیوں نہیں مانتی تم بھی اس سے محبت کرنے لگی ہو ! نہیں وہ مذاق اڑائے گا میرا اس نے ڈر سے نا میں سر ہلایا تھا۔ کیوں مذاق بنائے گا جس نے تمہیں کبھی دل کھول کر نہیں دیکھا تم سے کوئی شکوہ نہیں کیا ..! مجھ میں کیا رکھا ہے وہ میرے ساتھ اپنا وقت ضائع کرے گا؟ دماغ سے یہ بات نکالوں اور دیکھوں یہ بول کر وہ شرمندہ تھا راتوں کو نمازوں میں دعائیں کرتا ہے تاکہ تمہاری طرف سے اس کا دل صاف ہو جائے۔ وہ اپنے اوپر تک کمبل لئے لیٹ گئی تھی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی آنکھوں سے نمکین پانی تکیے میں جذب ہورہا تھا۔ اُس لڑکی کے ساتھ وہ ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا یہ بات اس کو سکون نہیں دے رہی تھی۔
عنادل کی ضد پر براق نے اتنی سردی میں بھی اسکو آئسکریم دلائی تھی اور ہوٹل کے روم میں لے کر آیا تھا باہر عنادل سے سردی برداشت نہیں ہورہی تھی جس کی وجہ سے براق نے عنادل کو ہوٹل کے روم میں ہی آئسکریم لا کر دی تھی۔ براق نے ایک ہی آئسکریم لی تھی وہ خود نہیں کھا رہا تھا بس کھاتے ہوئے عنادل کو دیکھ رہا تھا۔ آئسکریم کھاتے عنادل کی ہونٹ کہ اوپر آئسکریم لگ گئی تھی۔ آپ نہیں کھائے گے؟ عنادل نے اس سے پوچھا تھا میری آئسکریم تو میں کھانے لگا ہوں اس کی نظریں عنادل کے ہونٹوں پر تھی۔ آپ نے تو لی ہی نہیں ہے ! عنادل نے اچھنبے سے پوچھا تھا۔ میں بتا رہا ہوں نا میری آئسکریم کہا ہے عنادل کے ہونٹوں پر جھکتے اس نے عنادل کے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ عنادل کی آنکھیں پوری کھل گئی تھی اس نے براق کی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑا تھا. کچھ دیر بعد براق خود کو سیراب کئے اس سے دور ہٹا تھا۔
عنادل آنکھیں بند کئے لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔ براق اس کے چہرے پر چھائی لالی کو دیکھ محظوظ ہو رہا تھا۔عنادل کی جھکی پلکیں پر جیسے وزن آگیا تھا اس کی پلکیں اٹھ نہیں رہی تھی یا پھر ہمت نہیں تھی براق کو دیکھنے کی..! اس کی نظروں کی تپش اپنے اوپر محسوس کرتے وہ خود میں سمٹی تھی۔ آئسکریم بہت مزے کی تھی براق نے زچ کرنے والے انداز میں کہا تھا۔ عنادل نے نظریں اٹھائے اس کو حیرت سے دیکھا تھا۔ ایسے نا دیکھو براق نے اس کو خود میں بھینچا تھا وہ اس کے سینے سے لگی تھی۔ آپ بہت بدتمیز ہیں..! کمرے میں موجود ہیں یہ سب کرنے کا حق تو ہے مجھے .." براق نے اس کے چہرے پر آئی آوارہ لٹیں کان کے پیچھے کرتے اس کی کان کی لو پر لب رکھتے سرگوشی کرتے کہا تھا کان کے لو سے نیچے کی طرف آتے اس نے اپنے لب عنادل کے شولڈر پر رکھے تھے عنادل کا دل پسلیاں توڑ کر حلق میں آیا تھا۔ براق اس کو لیٹائے عنادل پر کسی سائے کی طرح جھکا تھا۔ عنادل نے بیڈ کی چادر کو مٹھیوں میں جکڑا تھا۔ براق کے لب اب کی بار عنادل کو اپنی گردن پر محسوس ہوئے تھے۔ اس نے اپنی سانس روکی تھی براق عنادل کو سانس روکے دیکھ ایک بار پھر اس کے لبوں پر جھکا تھا اب کی بار اپنی سانسیں عنادل میں انڈیلنے لگا تھا۔ عنادل نے زور سے اپنی آنکھوں کو بند رکھا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی سانس اور عنادل کی سانس کو ایک کرنے کے بعد جابجا اپنے لمس سے عنادل کو مہکا رہا تھا ..! جان تو عنادل کی تب جانے لگی جب براق کے ہاتھ اس کو اپنی شرٹ کے اندر سے اپنے پیٹ پر محسوس ہوئے تھے ۔ براق نے اپنے ہاتھ سے عنادل کے کمر کو اور مضبوطی سے پکڑ کر اپنے قریب کیا تھا عنادل نے اپنے ہاتھ براق کے گرد حائل کئے تھے اور اپنا آپ براق کے حوالے کردیا تھا۔ براق نے اس کے کندھے سے شرٹ ہٹاتے وہاں اپنے لب رکھے تھے اور اس کے اوپر سے اٹھتے لائٹ آف کی تھی اب کمرے میں ان دونوں کی سانسوں کا رقص تھا۔
کیا یہ ایک ہو پائے گے؟ یا پھر کوئی طوفان ان کو ایک بار پھر الگ کرے گا؟
دانیہ اب بھی ہونز باسل کو دیکھ رہی تھی۔ جیسا میں کہ رہا ہوں ویسا ہی کروں گی تم۔۔ باسل نے کئی جزبات کو آنکھوں میں سموئے کہا تھا۔ حد ہے ایک تو میرے کمرے میں آگئے اب میرے ہی کمرے میں کھڑے ہوکر مجھے آڈر دے رے ہیں آپ ..! آپ کو کیا مئسلہ ہے میری شادی سے میری شادی ہے اور آپ کا رشتہ میری بہن سے ہے نا کہ مجھ سے۔۔ دانیہ اس کو اپنے لہجے سے باور کروا چکی تھی کہ اس کا باسل سے کوئی رشتہ نہیں ہے اگر تم کل ان کے سامنے آئی تو کل کی رات تمہارے اور میرے نئے رشتے کی ہی پہلی رات ہوگی۔ باسل نے ڈھیٹائی سے کہا تھا۔ انتہائی کوئی بد تہذیب انسان ہیں آپ؟ دانیہ نے کاٹ دار لہجے میں بتایا تھا۔ میں بد تہذیب کے ساتھ بد دماغ گھٹیا اور جتنے بھی برے القابات ہیں ان سب کے جیسا ہوں یہ ایک لقب میرے آگے چھوٹا ہے۔ باسل اس کے رخسار پر ہونٹ رکھے جہاں سے آیا تھا وہی سے نکل گیا تھا بد تمیز انسان..! پر یہ مجھے کیوں منع کر کے گیا ہے کہ میں ان کے سامنے نہیں جاؤ دانیہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
حور اپنے لئے نئی نئی ریسیپی دیکھ رہی تھی تاکہ کل سے وہ کچھ بنانے کی کوشش کریں اس کے دماغ میں صرف ایک بات لگی تھی۔ اس کی شادی بھی کبھی نا کبھی تو ہونی ہے لیکن وہ کچھ بھی کریں گی اب کچھ پکانا سیکھے گی چاہے الٹا سیدھا ہی سیکھے پر سیکھے گی وہ اپنے شوہر کو بلکل بھی کسی کے ساتھ بانٹ نہیں سکتی اور باہر کی لڑکیوں پر تو اسکو بلکل بھی نظر رکھنے نہیں دے گی بلکہ اسکے ساتھ اس لڑکی آنکھیں بھی نوچ لے گی۔
ماضی
آج اِن دونوں کو اس یونی میں پڑھتے ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ ان چار لڑکوں نے کبھی اِن دونوں کا راستہ نہیں روکا تھا بلکہ جب بھی وہ دونوں اُن کو اپنے پاس سے گزرتا دیکھتے تو اپنا راستہ بدل لیتے جب کہ ان میں سے ایک لڑکے کی دوستی سامیہ سے ہوگئی تھی لیکن حور ان دونوں سے دور دور رہتی تھی۔ آج بھی وہ دونوں کلاس میں بیٹھی تھی لیکچر کے بعد وہ گراؤنڈ میں بیٹھی تھی حور تم کیوں اتنی خاموش رہتی ہو پہلے تو میرے ساتھ کالج میں بہت بولتی تھی۔ سامیہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا تھا۔ کیونکہ وہ ایک گرلز کالج تھا جبکہ یہاں بہت سارے لڑکے ہیں اور تم بھی اس لڑکے کے ساتھ چپکی رہتی ہوں حور نے گلہ کیا تھا۔ تو تم بھی ہمارے ساتھ باتیں کیا کروں مزے کیا کروں سامیہ نے اس کو کندھے سے پکڑتے اپنے قریب بٹھاتے کہا تھا جو کھڑی ہوکر جانے ہی لگی تھی۔ مجھے ان فالتو کاموں کا شوق نہیں ہے کیونکہ میں یہاں پڑھنے آتی ہوں وہ یہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھتے لائیبریری چل دی تھی۔ جبکہ وہ لڑکا جس کا نام ذیشان تھا جو اس دن بھی حور کو گندی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اور آج حور کے جاتے ہی سامیہ کے پاس بیٹھتے بولا تھا۔ تمہاری دوست میں کچھ زیادہ اٹیٹیوڈ نہیں ہے سامیہ ذیشان کو اپنے قریب بیٹھتے دیکھ مسکرا کر بولی تھی نہی..نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بس وہ لڑکوں سے بات نہیں کرتی..! اب ایسا بھی کیا اتنی بھی وہ کوئی پاک بی بی نہیں جو لڑکوں سے بات نا کرتی ہوں ذیشان تمسخر اڑاتے لہجے میں بولا تھا۔ اب تم جاکر اس سے لڑ لو میرا سر نہیں کھاؤ سامیہ نے تنگ آتے کہا تھا۔ اچھا ایک کام کرتے ہیں میرے پاس ایک پلین ہے اس پر عمل کروں گی۔ کونسا پلین؟ اور کیوں کرنا ہے عمل؟اور اس سے کیا ثابت ہوگا؟ سامیہ نے ایک ہی جست میں سارے سوال داگے تھے۔ بات یہ ہے تم اسکو لائیبریری کے پیچھے والی سائڈ لاؤں گی اسکے بعد ہم اس کو ایک کلاس میں بند کردیں گے تاکہ اس کے اندر تھوڑا کنفیڈینس آئے دیکھتے ہیں کیسے اپنے آپ کو اس کمرے سے نکالتی ہے۔ کیسا ! اور تو اور اس کی اکڑ بھی ٹوٹ جائے گی اس نے آنکھوں کو بڑا کئے اس کو گھورا تھا۔ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا یہ سب وہ میری دوست ہے مجھے نہیں ٹھیک لگ رہا یہ سب لیکن اکڑ تو ہے اس میں وہ سیدھے منہ کسی سے بات نہیں کرتی اور مجھے بھی اپنے سامنے کم تر محسوس کرواتی ہے سامیہ نے بھی سب کرنے کی ٹھان لی تھی چاہے اس کا نتیجہ کتنا ہی برا ہو بس تم تھوڑی دیر بعد اس کو لائیبریری کے پیچھے والے حصے میں لے کر آجانا ٹھیک ہے۔ ذیشان شاطرانہ مسکراہٹ سجائے بولا تھا۔
ہمم ٹھیک ہے۔۔ !! سامیہ وہاں سے جاتی اب حور کو لائبریری کے پیچھے لانے کا کام کرنے والی تھی۔
حال
کاشان تھوڑی دیر بعد اپنے روم میں آیا تھا۔ گھڑی میں دیکھا جو نو کا ہندسہ بجا رہی تھی۔ ایمان جو روتے روتے سو چکی تھی کاشان فریش ہوئے واشروم سے نکلا تھا اس کے قدم ایمان کی جانب بڑھ رہے تھے جو گہری نیند میں تھی جو کچھ دیر پہلے ہی سوئی تھی۔ اس کے قریب ہی نیچے بیٹھتے اسنے ایمان کے چہرے پر آئے بالوں کو اُس کے کان کے پیچھے کئے اسکے چہرے کو دیکھا تھا جس پر رونے کی وجہ سے خشک آنسوں کے نشان تھے۔ وہ حیران ہوا تھا اس کے رونے پر نا تو اس نے ایمان کو کچھ کہا تھا تو وہ روئی کیوں تھی یہ بات اس کو الجھا رہی تھی۔ اس کے قریب سے اٹھتا اس کے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑے وہ دوسری طرف آکر لیٹ گیا تھا۔ اس کے لیٹتے ہی ایمان نے اپنی آنکھیں کھولیں تھی اور اپنے سر پر ہاتھ لے جاتے اس کا لمس محسوس کیا تھا اس نے اپنا رخ کاشان کی جانب کیا تھا جو اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے سیدھا لیٹا ہوا تھا۔
کاشان کی جب ایمان پر نظر پڑی جو خود اس کو دیکھنے میں محو تھی اس نے آج کاشان کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا نیلی نیلی آنکھیں کھڑی ناک مونچھوں تلے چھپی اس کے ہونٹ جو ایمان کے سامنے آج تک کھل کر نہیں مسکرائے تھے۔ کاشان اٹھتے اس کو ہونک بنے دیکھ رہا تھا جس کی نظر اب بھی خود پر محسوس کرتے آخر وہ بول اٹھا تھا۔ کیا ہوا کچھ چاہئیے؟ نیند نہیں آرہی؟ یا پھر میرے ساتھ غیر محفوظ سا لگ رہا ہے؟ کاشان نے جزبات سے عاری لہجے میں پوچھا تھا۔
ایمان اپنی جگہ سے اٹھتے اس کے قریب جاتے ہی اس کے سینے سے لگی تھی۔ اور روکے ہوئے آنسوں پلکوں کے باڑ توڑتے بہے تھے ! کیا ہوا طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟ میں کل کی ہی ٹکٹ بک کرواتا ہوں ہم واپس حویلی جارہے ہیں ایمان کاشان کو دیکھ رہی تھی جو فکرمند نظر آرہا تھا
ہمم طبیعت ٹھیک نہیں ہے !! کیوں کیا ہوا ہے کیا محسوس ہورہا ہے کاشان تاسف بھرے انداز میں بولا تھا ایک چیز ہوگئی ہے ایمان نے انگلیوں کو مڑوڑتے بتایا تھا۔ کیا ہوا ہے..؟ کیوں الجھا رہی ہوں مجھے کاشان کے ماتھے کی نسیں جیسے پھٹنے کو تھی۔ محبت ! ایمان نے یہ کہتے ہی فوراً اپنی نظریں جھکا لی تھی۔ پاگل واگل ہوگئی ہو کیا..! کس سے ہوگیا تمہیں پیار آج تک اپنے شوہر پر تو رحم نہیں آیا تمہیں جس نے تمہارے آگے اپنی ناک تک رگڑ دی کہ اسکی بیوی اس کو معاف کردے کاشان تیورھیاں چڑھائے دانت پیستے بولا تھا۔ ایمان منہ کھلے کاشان کو دیکھ رہی تھی جو پاگل بنے کیا کیا بولے جارہا تھا۔ اب بولو کس سے محبت ہوگئی تمہیں !! کاشان نے اس کو کندھے سے پکڑے اپنے قریب کرتے کہا تھا ماتھے پر واضح ہوتی رگیں جو پھٹنے کو تھی ! ایمان اس کے اور قریب جاتے اوپر ہوتے کاشان کے سر پر لب رکھے بولی تھی اس انسان سے جس نے مجھے محبت سے زیادہ عزت دی ! مان دیا ! جس نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ اس نے مجھے آج تک دل کھول کر نہیں دیکھا جو مجھے ہر نماز کے بعد مانگتا ہے مجھے اس سے محبت ہوئی ہے جس کا کہنا ہے میری آنکھوں میں دیکھتے وہ دیوانہ ہوا تھا مجھے اس سے محبت ہے جس کا کہنا تھا ہمارے نکاح کے وقت اس کا دل دھڑکا تھا مجھے اس پاگل سے محبت ہے جو میری آنکھوں میں اپنے لئے محبت نہیں دیکھ سکا مجھے اس سے محبت ہے جس کے ساتھ رہتے مجھے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے اور وہ میرے سامنے موجود ہے..! کاشان تو ایمان کے اتنے پیارے بھرے اظہار پر گش کھا کر گرنے ہی لگا تھا تبھی اس کو اپنے سینے سے لگائے چاہت محبت سموئے بولا تھا کیا یہ واقعے تمہارے جزبات ہیں یا پھر میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں ایمان نے اپنے ہاتھ سے کاشان کے ہاتھ میں چٹکی کاٹی تھی۔ آہہہ..! ظالم کاشان نے برا سا منہ بنایا تھا ایمان کھلکھلائی تھی۔
میری آنکھوں میں دیکھو مجھے نہیں پتا میری کونسی نیکی کام آگئی ہے یا پھر کونسی کایا پلٹی کے تمہارا دل میری طرف سے صاف ہوگیا لیکن اتنا ضرور بتا دوں کہ اب دور گئی تو کاشان خان مر جائے گا۔
ایمان نے اسکے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔ اور اپنا سر نفی میں ہلانے لگی کاشان نے اس کے ہاتھوں پر اپنے لب رکھے تھے ایمان کے پلکیں لرزی تھی کاشان سے ایمان کی گھبراہٹ چھپ نا سکی کاشان نے ایمان کے ماتھے پر اپنا محبت بھرا لمس چھوڑا تھا۔
لیکن مجھے یہ بتاؤ وہ لڑکی کون تھی؟ ایمان اپنی آستینوں کو اوپر چڑھائے لڑاکا عورتوں کی طرح بولی تھی۔ کون لڑکی..؟ کاشان کنفیوز ہوا تھا جس کے ساتھ نیچے آپ جناب ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ اررے ان کا بیٹا مجھے سے ٹکرا گیا تھا ان کا بیٹا راستہ بھول گیا اللّٰہ اللّٰہ کرکے اس بچے کی ماں مجھے ملی اور میرا شکریہ ادا کیا پھر اس بچے کی حرکتوں پر میں ہنس رہا تھا۔ اس نے ایمان کو ساری روادار سنائی تھی جیسے سن کر ایمان ہنس رہی تھی اور کاشان جیسے اسکی ہنسی میں کھو گیا تھا اپنے اوپر قابو نا پاتے وہ اس کے لبوں پر جھکا تھا ایمان کا ہنستے ہوئے ایک دم منہ بند ہوا تھا وہ آنکھوں کو بند کئے کاشان کو محسوس کر رہی تھی جبکہ کاشان کے عمل میں شدت جنون تڑپ ایمان نے محسوس کی تھی ایمان کی آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے کاشان نے ایمان کی آنکھوں سے آنسوں نکلتے دیکھ اسے آزاد کیا تھا۔ مجھے معاف کردوں میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا کاشان یہ کہتے کروٹ لیتے لیٹا تھا۔ ایمان تو کاشان کو دیکھ رہی تھی جو اپنا حق ہوتے ہوئے بھی اس سے معافی مانگ رہا تھا ایمان نے کاشان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہلکی سے آواز میں کہا تھا کاشان ..! کاشان نے آج پہلی بار اپنا نام ایمان کے منہ سے سنا تھا اس کے منہ سے کاشان نام اس کو بہت پیارا لگا ہمم کہو ہونز لیٹے کہا تھا۔ میری طرف دیکھیں ..! کاشان نے اس کی روندھی ہوئی آواز سنتے اس کی جانب دیکھا تھا۔ اتنے میں ایمان اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ گئی تھی اور اپنی آنکھوں کو زور سے بند کر گئی تھی۔ کاشان نے جھٹکے سے ایمان کو خود کے نیچے گرایا تھا۔ اور اس پر حاوی ہوا تھا۔ لبوں کو اب بھی آزاد نہیں کیا تھا۔ اس کے لبوں کو آزاد کئے ایمان کو دیکھا تھا جو اس کو ہی دیکھ رہی تھی آج اتنا رحم اپنے شوہر پر کہی کل پھر مجھے زمین پر پٹخنے کا ارادہ تو نہیں..! کاشان مجھے معاف کردیں غلطی ہوگئی تھی مجھ سے ..! ایمان اپنی غلطی پر پہلے ہی شرمندہ تھی کاشان کے طنز سہنے کی وہ سکت نہیں رکھتی تھی تبھی بولی تھی۔ اچھا نہیں کہتا کچھ بھی ویسے تم ہو بہت حسین کاشان کی نظر اس کے دیپ گلے پر گئی تھی وہ اس کو حیرت انگیز نظروں سے گھورنے لگی آپ کتنے بے شرم ہیں ..! تمہاری سوچ سے بھی زیادہ اب کی بار وہ لائٹ آف کرگیا تھا کچھ دیر بعد مدھم چلتی سانسوں کا شور کمرے میں گونجا رہا تھا۔
ایمان کے اچانک بدلنے کی وجہ کیا تھی کیا یہ کاشان جان پائے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ کو حلیمہ بیگم نے آج خود نیا ڈریس نکال کر دیا تھا وہ جانتی تھی دانیہ کچھ الٹا سیدھا کرے گی تبھی وہ آج صبح سے اسکے ساتھ تھی کیونکہ وہ شام کو کسی قسم کا کوئی ہنگامہ نہیں چاہتی تھی۔ دانیہ اچھا سا ڈریس پہنے آئینے کے سامنے کھڑی تھی تب ہی حور اسکے کمرے میں آئی تھی کیونکہ۔رات کو ہی دانیہ نے حور کو کال۔کرکے کہہ دیا تھا کہ وہ جلدی اس کے پاس آجائے اور وہ باسل کے ساتھ یہاں پہنچ چکی تھی۔ جبکہ تھوڑی دیر بعد باسل سمیت جمشید علی اور نزاکت علی کے ساتھ کلثوم بیگم بھی نیچے موجود تھے دوسری طرف شاہنواز چودھری اور عباس صاحب سمیت ساحر اور حلیمہ بیگم بیٹھے تھے سب ہی آچکے تھے بس جنکا انتظار تھا وہ اب تک نہیں پہنچے تھے۔ باسل پانی کا بہانہ کئے اپنی جگہ سے اٹھتے دانیہ۔کے کمرے کی جانب چل دیا تھا دانیہ جو اپنے شرٹ کی زپ بند کرنے کی نا ممکن کوشش کر رہی تھی کمرے میں کسی کو آتے دیکھ بولی تھی حور یار یہ بند کردو مجھ سے بند نہیں ہورہی ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسے کپڑے ہوتے ہی کیوں ہیں جن میں پیچھے زپ لگی ہوں باسل وہاں کھڑے اس کے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا اب آؤں گی یا پھر میں یہی پر دوسری شرٹ چینج کرلوں باسل جھٹکے سے فوراً اس کے پیچھے جاتے اس کی شرٹ کی زپ بند کرنے لگا حور کو اپنے کمر پر کسی کے بھاری ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تو اس نے آئینے سے ہی اپنے پیچھے کھڑے باسل کو دیکھا تھا۔ جب تک اسکی زپ بند ہوچکی تھی۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور میرے قریب کیسے آئے ہیں؟ دانیہ نے جانچتی نظروں سے گھور کر پوچھا تھا میں یہاں تمہیں یاد دلانے آیا تھا کہ میری بات یاد رکھنا نہیں تو تم جانتی ہو اور تمہارے قریب بھی مجبوری میں آیا ہوں کیونکہ جس طریقے کی تم دھمکیاں دے رہی تھی اس سے مجھے ڈر لگ رہا تھا باسل شریر مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔
اب نکلے یہاں سے..!! دانیہ اپنی نظریں نہیں اٹھا پا رہی تھی کچھ دیر پہلے جو وہ بول گئی تھیں یہ سوچتے ہی اس نے جھرجھری لی تھی ابھی جارہا ہوں لیکن تم نیچے نہیں آؤں گی اور اگر آگئی تو اس لڑکے سے اکیلے نہیں بات کروں گی کیونکہ وہ لڑکا شہر کا ہے اور جہاں تک مجھے پتا ہے وہ ضرور تم سے اکیلے بات کرنا چاہے گا۔ اور میں بلکل ایسا نہیں چاہتا اور جو میں نہیں چاہتا وہ تم بھی نہیں چاہتی ورنہ جو میں کرنے پر آیا اس کو تم برداشت نہیں کرسکوں گی۔ وہ یہ بول کر اس کے کان کے قریب جھکا تھا ویسے تم بڑی ہوٹ ہو سرگوشی نما آواز میں کہتے وہ کمرے میں سے آرام سے باہر نکلا تھا پیچھے دانیہ تو منہ کھلے صدمے سے باہر ہی نہیں آرہی تھی۔ جاہل انسان ..! اسنے باسل کو لقب سے نوازہ تھا۔
حور تو ساحر کے نظریں خود پر محسوس کرتے کبھی اپنی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنساتی یا پھر اپنے ٹھیک بالوں کو بار بار ٹھیک کر رہی تھی اور یہ سب ساحر بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ شاہنواز چودھری اور جمشید علی ان لوگوں کے آنے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ نزاکت صاحب اور عباس صاحب اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے ایسے ہی حلیمہ بیگم اور کلثوم بیگم بھی اپنے میں ہی مگن تھی۔ جب کہ باسل اپنی دھن میں چلتے آرہا تھا دوسری طرف دانیہ کشمکش میں تھی وہ کرے تو آخر کرے کیا..! جبکہ ساحر اِدھر بیٹھ کر حور کو تاڑ رہا تھا اور حور مشکل سے خود پر قابو رکھے بیٹھی تھی ورنہ دل تو کر رہا تھا اس کا منہ توڑ دے۔ پر ہائے ہماری حور اتنی بہادر کہا ..!
سورج کی روشنی چہرے پر پڑتے ہی عنادل کی آنکھ کھلی تھی۔ اس نے اٹھ کر براق کو دیکھا جو اس کو اب بھی اپنے حصار میں لئے ہوئے تھا۔ شرمیلی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی تھی۔
براق ! اس نے اپنے ہاتھوں سے ہلاتے اسے اٹھانا چاہا تھا براق نے اپنی آنکھیں کھولے عنادل کو دیکھا تھا جو اس کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے عنادل کے کمر میں ہاتھ ڈالے اسکو اپنے اوپر گرایا تھا۔ براق یہ کیا حرکت ہے؟ عنادل مصنوعی غصے سے بولی تھی۔ کیا حرکت؟ عنادل کے چہرے پر آئی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے اس کے کان میں سرگوشی کرتے بولا تھا۔ اٹھ جائے اور فریش ہو جائے اس کے بعد مجھے آپ کے ساتھ ابھی اور بھی بہت سے جگہیں دیکھنی ہے عنادل نے جوش سے کہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک الوہی چمک تھی ۔
لیکن میں تو کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں براق نے چہرے پر مصنوعی پریشانی سجائے کہا تھا۔ عنادل اس کو پریشان دیکھ فکرمند لہجے میں بولی تھی۔ کیا سوچ رہے تھے آپ؟ آج ہم کہی باہر نہیں جائے تم میرے ساتھ ادھر ہی میری باہنوں میں لیٹی رہوں میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں براق کے معنی خیزی باتوں پر عنادل نے اپنے ہاتھ کا مکہ بنائے براق کے سینے پر مارا تھا۔ آہہہ..! براق جان کر چیخا تھا۔ زیادہ لگ گیا..؟ عنادل کی آنکھوں سے آنسوں باہر نکلنے کو تھے۔ ہاں تم نے میرے دل پر وار کردیا براق کی بہکی بہکی باتیں عنادل کے سر سے گزر رہی تھی۔ دکھائیں ! اس نے جلدی سے اس کے سینے پر سے ہاتھ ہٹائے تھے لڑکی تم تو میری عزت لوٹنے چلی ہوں براق مسخرہ پن میں بولا تھا۔ آپ میرا مذاق بنا رہے ہیں؟ عنادل ناراضگی سے رخ موڑے بولی تھی۔ نہیں میں مذاق نہیں بنا رہا براق نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے اپنی طرف کیا تھا۔ اچھا دیکھ لو پھر نہیں کہنا براق آپ تو واقعے بہت ہیندسم ہیں براق اپنے ہی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا۔ مجھے نہیں دیکھنا آپ بہت برے ہیں..! دور ہٹتے وہ بیٹھی تھی ہائے اللّٰہ اپنے معصوم سے شوہر کو تم برا کہہ رہی ہوں..! اللّٰہ جی آپ کی بندی دیکھیں کتنی نا شکری ہے براق نے نفی میں سر ہلاتے مصنوعی افسوس ظاہر کیا تھا۔ اللّٰہ آپ کا بندہ بہت بے شرم ہے..! عنادل بھی شکایتی پروگرام کھول کر بیٹھ گئی تھی۔ آپ کی بندی کو اپنے شوہر کی قدر ہی نہیں ہے براق نے پھر نیا گلہ کیا تھا .. اللّٰہ تعالیٰ آپ کا بندہ دماغ سے پھیرا ہوا ہے کہی دماغ آپ کے پاس تو نہیں رہ گیا عنادل کہا براق کو چھوڑنے والی تھی ایٹ کا جواب پتھر سے دیتی بولی تھی۔ کچھ دیر بعد دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کو زور سے ہنس دئے تھے ان کے قہقے کی آواز پورے روم میں گونجی تھی۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback