Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 14


Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 14.

بابا سائیں براق اور عنادل کے ولیمہ پر دانیہ کے لئے میرے دوست نے اپنے بیٹے کے لئے رشتے کا کہا ہے میں نے سوچا پہلے آپ سے بات کروں۔ اس کے بعد آگے یہ بات بڑھاؤ عباس صاحب نے شاہنواز صاحب کے قریب بیٹھتے بتایا تھا وہ جو ان کے کمرے میں آئے تھے ان کو نیوز چینل دیکھتے بولے تھے۔ شاہنواز چودھری نے ان کی بات پر غور کیا پھر کچھ ٹھہر کر انہوں نے جواب دیا تھا ٹھیک ہے ان کو کل بلاؤ حویلی ہم دیکھتے ہیں۔ عباس صاحب تو ان کے حکم کی تکمیل کرتے کمرے سے باہر نکلے تھے۔ شاہنواز چودھری اور عباس چودھری کا رشتہ بس یوں رہ گیا تھا جیسے وہ اجنبی ہوں ایک حویلی میں رہتے ہوئے بھی ان کے درمیان ضرورت سے زیادہ بات چیت نہیں ہوتی تھی' شاہنواز چودھری کی بیوی عباس کو دنیا میں لاتے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ شاہنواز چودھری نے دوسری شادی نہیں کی تھی وہ عباس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ان کو ہر چیز فراہم کر دیتے لیکن جو وہ ان کو نہیں دے سکے وہ تھا وقت پیار!!! محبت" باپ کی شفقت عباس صاحب بچپن سے اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی باپ کے سائے سے محروم رہے تھے۔ شاہنواز چودھری کام میں اتنے مصروف رہتے کہ ان کو کئی کئی دن حویلی کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی اور عباس صاحب کے لئے گھر میں ایک ملازمہ رکھی گئی تھی جو ان کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ وقت گزرتا گیا عباس صاحب اپنی عمر کے ساتھ سمجھتے گئے وقت بہت خاص چیز ہے جو ہاتھ سے گزر جائے تو اس کو پیچھے موڑا نہیں جاسکتا تب سے عباس صاحب نے شاہنواز سے وقت نا دینے پر کوئی شکایت نہیں کی..! کتنے ہی سال ہوگئے تھے عباس صاحب نے شاہنواز چودھری کو گلے نہیں لگایا تھا عباس صاحب ان کے گلے لگ کر روئے نہیں تھے ان کو بتا نہیں پائے تھے کہ ان کو بھی پیار کی ضرورت تھی ماں نہیں تھی تو باپ تو تھا جس نے ان کو اکیلا چھوڑ دیا باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہوگئے تھے وہ ..! وقت پر لگا کر گزرتا گیا جب شاہنواز چودھری نے اپنے بیٹے عباس کی شادی کی عمر دیکھ کر ان کی شادی کا سوچا اور اس طرح ان کی زندگی میں حلیمہ بیگم آئی تھی۔ عباس صاحب کے یہاں صائم کی پیدائش پر حویلی میں بہت ہل چل تھی کیونکہ اس حویلی کا پہلا وارث حویلی کو ملا تھا۔ عباس چودھری نے اپنے سب بچوں کو بہت وقت دیا تھا بہت پیار دیا تھا وہ نہیں چاہتے تھے اپنے باپ کی طرح وہ بھی اپنی بچوں کو ایسا محسوس ہونے دیں کہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی کوئی بات باپ سے نا کر سکے۔

ماضی

جی آپ کو کوئی بات کرنی ہے مجھ سے ساحر جو کب سے اس کو نروس دیکھ آخر بول اٹھا تھا جو کب سے بت بنے اس کے سامنے کھڑی تھی نا خود کچھ بول رہی تھی۔ نا ساحر کو جانے دے رہی تھی حور نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا تھا ! میں جو ابھی بولوں گی آپ اس کو سیریس نہیں لینا حور نے تہمید باندھے اپنی بات شروع کی تھی۔ آپ کہے تو سہی! ساحر کافی حد تک عاجز آچکا تھا۔ میں آپکو پسند کرتی ہوں..! حور نے جلدی کہہ کر اپنی آنکھ ڈر کی وجہ سے جھٹ سے بند کی تھی۔ ساحر تو منہ کھولے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو خاموش رہتی تھی کیونکہ جب بھی وہ اس کا پیچھا کرتے باغ میں اس کے تھوڑی دور بیٹھتا تھا تب وہ صرف اپنی کتاب میں مصروف ہوتی ایک بار گاؤں کی لڑکی اس کے ساتھ آکر بیٹھی اس لڑکی نے حور سے پوچھا ! آپ یہاں روز آتی ہے؟ حور کا جواب سنتے اس کے زبان کو جیسے تالا لگا تھا۔ آپ کو کوئی کام ہے؟ حور بہت خاموش پسند لڑکی تھی خاص کر جب وہ کوئی کتاب پڑھے تو اس کا دماغ گھوم جاتا تھا کوئی اس کو تنگ کرے۔ اس لئے وہ زیادہ تر باغ میں بیٹھ کر اپنی پسندیدہ کتاب کا مطالعہ کرتی تھی گھر میں تو کاشان اور باسل اس کو تنگ کرتے تھے اور وہ رو دیتی تھی ان کے تنگ کرنے پر شروع سے ہی کاشان تھوڑا سخت تھا ان دونوں بہنوں کو لے کر لیکن باسل ہمیشہ اپنی بہنوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتا تھا۔ کاشان بھی اپنی بہنوں کے معاملے میں بہت حساس تھا حور نے کچھ دیر بعد اپنی آنکھوں کو کھولا تو سامنے ہی ساحر کو کھڑے پایا جو اس کو ہی دیکھ رہا تھا آپ شاید نئی آئی ہیں ..! ساحر نے پوچھا تھا یا بتایا تھا.! حور کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ 

جی۔۔ میں نئی آئی ہوں آج پہلا دن ہے. حور نے شرمندگی سے سر نیچے کئے ہی کہا تھا۔ کس نے آپ سے بولا ہے یہ سب کرنے کو..! حور تو سمجھ رہی تھی کہ ساحر اس کو اچھی خاصی باتیں سنائے گا لیکن وہ تو یہ پوچھ رہا تھا کہ اسکو کس نے یہ سب کرنے کا کہا ہے۔ حور نے جھٹکے سے سر کو اٹھائے اسکو حیرت سے دیکھا تھا ساحر کی ایک عادت تھی وہ ہمیشہ ہوڈڈی میں ہی رہتا تھا اور چہرے پر ماسک لگائے ہی رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے آدھی یونی نے اس کو نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اس کی شخصیت سے لڑکیاں اس کی طرف کھینچی چلی آتی تھی اور وہ سب کو اگنور کرتا تھا اس کا کہنا تھا لڑکیوں کو اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئیے نا کہ کسی بھی مرد کو دیکھ کر اس کے آگے اپنی عزت سمیت اپنی ماں باپ کا مان پیار اس لڑکے کے سامنے پیش کر دینا چاہئیے۔ لڑکی کی عزت خراب نہیں ہونی چاہئیے کیونکہ وہ اپنی عزت ہی نہیں اپنے ماں باپ کا سر پورے معاشرے میں جھکا دیتی ہے۔ میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے؟ ساحر نے اس کو گہری سوچ میں دیکھ اس کے آگے چٹکی بجاتے کہا تھا۔ وہ۔۔ مج۔۔مجھے میرے پیچھے ہی دور جو پانچ لڑکے کھڑے ہیں انہوں نے بھیجا ہے وہ ہمیں ہماری کلاس میں نہیں جانے دے رہے حور نے کپکپاتے ہوئے بتایا تھا۔ ساحر نے حور کو دیکھا جس کا جسم ڈر کے مارے ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ اچھا ٹھیک ساحر اس کے آگے سے نکلا تھا۔ اور ان پانچ لڑکوں کے سامنے جاکر کھڑا ہوا تھا۔ وہ پانچوں اس کو اپنے پاس کھڑے دیکھ چونکے تھے۔ یا شاید وہ ڈرے تھے۔ 

حال۔۔

کاشان نے ایمان کو کافی ساری جگہیں دکھائی تھی۔ کافی دیر گھومنے پھیرنے اور اچھی اچھی تصویریں لینے کے بعد وہ ایک اچھے سے ریسٹورنٹ میں آئے تھے۔ یہ ریسٹورنٹ بہت مشہور تھا۔ دیواروں پر پینٹنگز اور ہر ٹیبل پر لٹکا چھوٹا سا فانوس جس میں بے شمار چھوٹے چھوٹے لائٹ بلب لگے ہوئے تھے۔ وہ ریسٹورنٹ کی دلکشی کو اور نکھار رہے تھے۔ کاشان ایک ٹیبل پر جاکر کرسی کو کھینچے بیٹھا تھا پیچھے ہی ایمان بھی اسکے ساتھ ہی دوسری کرسی میں بیٹھی تھی۔  

براق اور عنادل جو ہوٹل سے نکلتے ہی گھومنے کا ارادہ رکھتے تھے عنادل نے براق کے بازوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ وہ ایک برج پر تھے عنادل ڈر ڈر کر اس کے ساتھ چل رہی تھی برج حل رہا تھا وہ کوئی مضبوط برج نہیں تھا۔ برج کے دونوں پار پانی کی لہر تھی ٹھندی ہواؤں میں عنادل اتنی گرم چیزیں پہننے کے بعد بھی کانپ رہی تھی۔ براق نے اسکو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ عنادل کا پاؤں لڑکھرایا تھا وہ گرتی کی براق نے اس کو کمر سے پکڑ کے مضبوطی سے تھاما تھا۔ عنادل جو اچانک گرتی اس نے اپنی آنکھوں کو زور سے بند کئے اپنے آپ کو حالت پر چھوڑ دیا تھا جیسے وہ ابھی نیچے گر جائے گی لیکن اپنے گرد کیسی کا مضبوط حصار محسوس کرتے اس نے ہلکے ہلکے کرتے اپنی آنکھوں کو کھولے براق کو دیکھا تھا جس نے اس کو بہت مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ عنادل جلدی سے سیدھی ہوئی تھی۔ براق نے اب بھی اسکو کمر سے پکڑ رکھا تھا عنادل کی سانسیں اوپر کی اوپر نیچے کی نیچے رہ گئی تھی وہ جیسے اپنی سانسیں روکے کھڑی تھی کچھ دیر بعد اس نے براق کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانا چاہا تھا لیکن براق نے اس کو خود میں اور بھینچا تھا۔ جس سے عنادل براق کے سینے سے چپکی تھی میں چل سکتی ہوں۔۔!! عنادل نے براق کو بتایا تھا مجھے پتا ہے لیکن تمہیں میں خطرے میں نہیں ڈالا سکتا تمہیں یہاں چلنے میں بہت مشکل ہورہی ہے اور میں نہیں چاہتا تمہیں۔ کسی بھی قسم کی کوئی چوٹ لگے اس نے یہ کہتے نیچے ہوتے اس کے پاؤں کو پکڑے اسکو اٹھایا تھا عنادل تو منہ کھولے اسکو دیکھ رہی جو اب اس کے باہنوں میں تھی یہ کیا کر رہے ہیں..؟ وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی کافی لوگوں کی نظروں کا مرکز یہ خوبصورت جوڑی تھی۔ کیا کر رہا ہوں؟ براق نے انجان بنتے پوچھا تھا سب دیکھ رہے ہیں براق۔۔!! براق اس کو اپنے بانہوں میں لئے ہی چل رہا تھا۔ ہاں تو دیکھنے دوں پتا تو چلے اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں .. براق نے محبت پاش نظروں سے اس کو دیکھا عنادل نے اس کے دیکھتے ہی اپنی نظروں کا زوائیہ بدلا تھا وہ براق کی آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی براق کی انکھوں میں جنون تھا محبت تھی براق نے ایک آدمی کو روکا تھا بھائی زرا آپ میرا ایک کام کریں گے اس آدمی نے سوالیہ انداز میں اس کو دیکھا تھا اررے یہ لے موبائل اور ایک تصویر بنائے وہ بھی اچھی سی عنادل منہ کھولے براق کو دیکھنے لگی منہ بند کروں ایک تو سرخ رنگ کی۔لپسٹک تم نے اپنے ہونٹوں پر لگائی ہے اب یوں منہ کھول کر میرے جزبات کو ہوا دے رہی ہوں عنادل براق کی معنی خیزی بات سنتے ہی اپنے منہ کو زور سے بند کر گئی تھی۔ عنادل کی اس حرکت پر براق کے ہونٹ گہری مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اس آدمی نے ان دونوں کی ایک تصویر بنائی تھی اور ان کو موبائل دیا تھا براق پلیز نیچے اتار دیں عنادل معصومیت سے آنکھیں پٹ پٹا کر بولی تھی۔ 

ایمان کب سے کاشان کو یوں خاموش دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد ویٹر آرڈر لینے آیا اس نے اپنا آرڈر دیا اس کے بعد ویٹر نے ایمان کا آرڈر لیا اور جیسے آیا تھا ویسے ہی چل دیا تم کچھ بول کیوں نہیں رہے؟ ایمان کو کاشان کی خاموشی کھٹک رہی تھی۔ کاشان نے اچنٹی نگاہوں سے ایمان کو دیکھا تھا۔ مجھے معاف کردوں میں کچھ زیادہ ہی بول گئی جانتی ہوں ایمان اپنی غلطی پر شرمندہ تھی۔ کاشان نے اس کی آنکھوں میں آنسوں جمع ہوتے دیکھ اپنی چپ توڑی تھی۔ بس ایک بات کا جواب دے دوں تمہیں کبھی ایسا لگا ہے میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی ہے..؟۔ کاشان نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا تھا۔ ایمان نے اپنی گردن نفی میں ہلائی تھی۔ تم رو کیوں رہی ہوں تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے کہ میں تم سے بلا وجہ بات نہیں کرتا تمہیں تنگ نہیں کرتا کاشان نے زخمی مسکراہٹ سجائے کہا تھا ایمان نے سر اٹھائے زخمی نگاہوں سے کاشان کو دیکھا تھا جو اب پھر اپنے موبائل میں لگ گیا تھا۔ اگر میں کہوں تمہارا پچپنا اور مجھے تنگ کرنا اچھا لگتا ہے تو۔۔! ایمان نے ہلکی آواز میں کہا تھا۔ کیا کہا تم نے؟ کاشان نے اسکی بات سن لی تھی لیکن انجان بنے اس کے قریب جھکتے انجان بننے کی ایکٹنگ کرتے پوچھا تھا۔ تم اتنے بیوقوف ہو یا پھر میرے سامنے ایسے بنتے ہو ایمان کو غصہ آیا تھا وہ جو پہلے ہی اتنی مشکل سے یہ بول پائی تھی اور جناب نے سنا ہی نہیں تھا۔ 

.....۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر میں نہیں نیچے اتاروں تو براق نے زچ کرنے والے انداز میں کہا تھا.. تو میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔ ! عنادل نے رخ موڑے کہا تھا اس کے انداز سے صاف ناراضگی ظاہر ہورہی تھی۔ ناراض ہو پاؤں گی براق نے جانچتی نظروں سے گھورا تھا۔ ہاں تو کیا میں ناراض نہیں ہو سکتی۔ عنادل نے منہ پھلائے اس کو دیکھ کہا تھا اُس کے پھولے سے گال براق کی باہنوں میں وہ کوئی چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔ براق نے چٹا چٹ اس کے دونوں گال پر اپنے لب رکھے تھے عنادل اپنی آنکھیں پھیلائے اس کو دیکھنے لگی آپ بہت بدتمیز ہیں عنادل نے اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپاتے کہا تھا۔ ابھی تو بد تمیزی کی ہی کہا ہے جانِ جاناں براق کی بے باک باتوں پر وہ براق کے سینے میں اور چھپی تھی براق اس کو لئے برج پار کر گیا تھا اب عنادل کو وہ نیچے اتارے کھڑے دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر چھائی لالی براق کو بھلی لگی تھی۔ 

حلیمہ بیگم کیچن سے کام کرتے باہر نکلی تھی۔ عباس صاحب صوفے پر بیٹھے تھے۔ بابا سائیں نے کچھ کہا؟ حلیمہ بیگم نے سوال کیا تھا ہاں کل بلایا ہے ان لوگوں کو دانیہ کے لئے اب دیکھتے ہیں جو اللّٰہ کو منظور ہمم..! انشاء اللّٰہ سب خیر و عافیت سے ہی ہوگا۔ میں دانیہ کو بتا دیتی ہوں ہمم ٹھیک ہے بتا دوں۔

ساحر کو بھی دانیہ کے بارے میں پتا لگ گیا تھا اب وہ دانیہ کے کمرے کا رخ کئے چھاپا مارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

دانیہ جو نماز پڑھ کر بیٹھی ہی تھی تبھی کمرے کا دروازہ دھاڑ کی آواز سے کُھلا تھا۔ ہائے اللّٰہ چور چور دانیہ زور زور سے چیخی تھی ساحر دانیہ کے زور زور سے چیخنے پر قہقہ لگائے بنا نا رہ سکا اب سین کچھ یوں تھا دانیہ بیچاری جس کو سمجھ رہی تھی چور وہ تو خود اس کا بھائی تھا۔ اور ساحر کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔ 

میری جان نکل جاتی آپ کو پتا ہے مجھے اگر ہارٹ اٹیک آجاتا تو ویسے سے بہت نازک سا دل ہے میرا دانیہ مصنوعی غصے سے بولی ساحر اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھا تھا۔ تم یہ بتاؤ تم ایسی باتیں لاتی کہا سے ہوں ہماری حویلی کے باہر پانچ گارڈ ہیں اور ہماری حویلی کے پیچھلی سائیڈ بھی تین گارڈز ہیں تو حویلی میں چور کیسے آئے گا یہ بتاؤں ساحر نے ہلکا سا تھپڑ دانیہ کے سر پر رسید کیا تھا۔ اچھا یہ بتائیں کیوں آئے ہیں اِدھر؟ دانیہ بات کی طرف آئی تھی۔ تمہیں کچھ بھی نہیں پتا لگا؟ ساحر نے دانیہ سے پوچھا تھا۔ اگر اسکو پتا ہوتا تو اب تک حویلی میں تباہی آچکی ہوتی کیا نہیں پتا۔۔!! دانیہ کا لہجہ جانچتا تھا۔ اررے تمہیں کل بابا سائیں کے دوست اور ان کے گھر والے دیکھنے آرہے ہیں ساحر نے دانیہ کے سر پر جیسے کوئی بم پھوڑا تھا۔ 

مجھے کیوں دیکھنے آرہے ہیں دیکھا ہوا ہے انہوں نے مجھے تو دانیہ نے اپنی سوچ کے مطابق بات کی تھی۔ اررے پاگل ان کے بیٹے کے ساتھ تمہاری شادی کی بات ہوگی نا..! ساحر نے خوشی خوشی بتایا تھا۔ ہیں ! میری شادی کہا سے آگئی مجھے دیکھو میں تو ابھی چھوٹی ہوں نا دانیہ نے ساحر کے چہرے کو اپنے طرف کرتے آنکھوں کو پٹپٹاتے کہا تھا۔ دانیہ میڈم آپ پورے اکیس سال کی ہوگئی ہیں ہاں تو آپ بھی تو پچیس سال کے ہیں اس لحاظ سے تو پہلے آپ کی شادی ہونی چاہئیے خونخوار نظروں سے دیکھا تھا یہ تم امی سے پوچھنا اور بابا سائیں سے ساحر یہ کہتے دانیہ کا صدمے سے منہ کھلا دیکھ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ 

دانیہ اب حلیمہ بیگم سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی کمرے سے نکلی تھی۔  

حور جو کلثوم بیگم کو کھانا بناتا دیکھ رہی تھی۔ تم بھی کچھ سیکھ لو دوسرے گھر جاؤں گی وہاں تمہیں بنی بنائی چیزیں نہیں ملیں گی۔ کلثوم بیگم نے حور کو ہدایت دی تھی۔ امی ابھی میری شادی نہیں ہورہی جب ہوگی تب سوچوں گی لاپرواہ سے انداز میں جواب دیا تھا۔ ہاں میڈم کو تو ایسا شوہر ملے گا جو کہے گا مجھے کھانا بنانا آتا ہے تم بیٹھو میں بنا کر دیتا ہوں کلثوم بیگم نے طنزیہ کہا تھا۔ امی کیا ہم شادی اس لئے کرتے ہیں کہ کھانا بنا بنا کر اپنے شوہر کو کھلائے یا ماسی بن کر ان کے گھر میں رہے حور نے سنجیدگی سے پوچھا تھا کلثوم بیگم نے اپنا رخ حور کی طرف کیا اور کہا تھا دیکھوں بیٹا یہ نہیں کہتی کہ تم پورا کھانا بنانا سیکھ لو لیکن تمہیں تو چائے بھی بنانا نہیں آتی کیا کروگی کم از کم جب تمہارا شوہر گھر تھکا ہوا آئے تو تم چائے تو اس کے سامنے پیش کر سکوں اور ماسی بننے کا نہیں بولا لیکن بیوی کے کچھ فرائض ہوتے ہیں اگر تم اپنے شوہر کے ساتھ اچھی رہوں گی تو وہ بھی تمہاری ہر فرمائش کو پورا کرے گا اگر تم ہی اس کی عزت نہیں کروں گی تو وہ باہر کی لڑکیوں میں اپنا سکون تلاش کرے گا۔ کلثوم بیگم اس کو ہدایت دیتے کیچن سے باہر نکلی تھی..! حور کو اب سمجھ میں آیا تھا کلثوم بیگم کیوں اس کو سب سیکھنے کا بولتی ہے اس نے بھی پکا ارادہ کیا تھا کل سے وہ ضرور کچھ بنانے کی کوشش کرے گی۔ 

ماضی۔

وہ پانچ لڑکوں کا اب سانس حلق میں اٹکا تھا کیونکہ ساحر سے سب ڈرتے تھے اسنے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا لیکن یہ پانچوں ساحر کے ہاتھ سے دو تین دفع مار کھا چکے تھے۔ کیا کہا ہے تم سب نے ان کو ..!! ساحر کا لہجہ برف کی مانند سرد تھا۔ حور کبھی ساحر کو دیکھتی کبھی سامنے کھڑے ان لڑکوں کو جبکہ سامیہ حور کے ساتھ آکر ہی کھڑی ہوگئی تھی۔ ہم نے تو بھائی کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ پانچوں ایک ساتھ بولے تھے ہاں یہ تو پاگل ہے جو مجھ سے آکر اپنی پسندیدگی کا اظہار کریں گی ساحر نے طنز کرتے کہا تھا اب کی بار اس نے ایک لڑکے کو گریبان سے پکڑا تھا۔ بھائی وہ تو بس چھوٹی سی شرارت کرنے کا سوچا ہم نے بس آپ کے پاس بھیجتے بولا تھا آپ کو پروپوز کریں پیچھے کھڑے لڑکے نے سب کچھ ساحر کو بتایا تھا۔ تم لوگ نہیں سدھر سکتے کتنی دفع تمہارے ماں باپ کو بلائے گے پرنسپل کم از کم تھوڑی لڑکیوں کی عزت ہی کر لیا کروں مجھے اب لگتا ہے تمہارے گھر سے ملنے والے سارے پیسے رکوانے پڑیں گے جو تمہارے ماں باپ تمہیں بھیجتے ہیں۔ بھائی ایسا نا کریں اب ہم پکا ایسا کچھ نہیں کریں گے سچی توبہ کرتا ہوں میں تو ..! دوسرا لڑکا آگے کو چھلانگ مارتے بولا تھا۔ معافی مانگوں ان سے اور آج کے بعد انھیں تنگ نہیں کروں گے اور بہن بولو انھیں ساحر نے اس کے گریبان کو چھوڑے حور اور سامیہ کو آگے آنے کا کہا تھا۔ 

بہن ہمیں معاف کردیں چاروں ایک ساتھ بولے تھے جبکہ ایک نے اس کو بہن نہیں کہا تھا اور یہ بات ساحر نے نوٹ کی تھی تم بھی بہن کہو ایسے ..! اس نے چبھتی نظروں۔ سے گھور کہا تھا۔ مجھے بھی معاف کردوں بہن ..! اس نے اپنے دانت پیستے کہا تھا۔ 

اب آپ دونوں اپنی کلاس میں جائے۔ وہ ہمیں اپنا ڈیپارٹمنٹ نہیں پتا اپ بتا دیں گے سامیہ نے ساحر سے پوچھا تھا۔ آپ کونسا ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈ رہی ہیں ہم میڈیکل ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈ رہے ہیں حور نے جلدی سے بتایا تھا۔ یہاں سے آگے جاکر بائیں جانب پہلی کلاس ہے ساحر یہ کہتے ان پانچوں کو اپنے پیچھے آنے کا بولتے آگے آگے تھا جبکہ وہ پانچوں ان کے پیچھے سر جھکائے چل رہے تھے ایک لڑکے کی نظروں کا مرکز حور پر ہی تھا اس کی آنکھوں میں حوس درندگی تھی۔  

حال

نزاکت کل دانیہ کو لوگ دیکھنے آرہے ہیں اور شاہنواز کا کہنا ہے ہم سب بھی وہاں موجود ہوں جمشید صاحب نے بتایا تھا۔ ٹھیک ہے تو کل کتنے بجے جانا ہے۔ پانچ بجے ..! وہ سب اس وقت کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے باسل کے کھانا کھاتے ہاتھ روکے تھے۔ حور تو دانیہ کی شادی کا سنتے ہی بہت خوش ہوئی تھی۔ کیوں نا ہوتی ان دونوں کی کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ باسل اپنی جگہ سے اٹھتے باہر کو نکلا تھا سب باسل کو یوں اچانک اٹھتے دیکھ چونکے تھے۔  

امی یہ کونسا رشتہ ہے جس کی بات ساحر بھائی کر رہے تھے۔ دانیہ نے حلیمہ بیگم کے آگے آتے کہا تھا۔ جب سب پتا ہے تو پوچھ کیوں رہی ہوں دانیہ..! وہ ہونز کام میں مصروف رہے بولی تھی۔ امی ..!! وہ رونی صورت بنائے بولی تھی دانیہ کیا مئسلہ ہے ابھی صرف وہ لوگ دیکھنے آرہے ہیں اگر تمہارے بابا اور دادا کو یہ رشتہ اچھا لگا تو کل ہی انگھوٹی پہنا کر وہ لوگ چلے جائے گے شادی کی تاریخ نہیں ہے لینے آرہے جو تم یوں ہنگاما کر رہی ہو.. یا اللّٰہ میں ان کو نا پسند آؤں میں بہنگی آنکھیں بنائے ان کے سامنے آؤں گی۔ وہ ٹیرھی آنکھوں والی لڑکی کے ساتھ اپنے بیٹے کی کیوں شادی کریں گے اس نے دھمکی دی تھی۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی اور تمہارے دادا سائیں نے تمہاری بہن کے سسرال والوں کو بھی بلایا ہے تو بے عزتی نا کروانا ہماری ورنہ بھول جانا تمہاری کوئی ماں بھی ہے حلیمہ بیگم نے ایموشنل بلیک میل کیا تھا ایک تو آپ جو یہ مجھے ایموشنل بلیک میل کرتی ہے اس وجہ سے خاموش ہو جاتی ہوں میں..! وہ یہ کہتے منہ پھلائے کمرے کو چل دی تھی۔  

باسل گاڑی میں بیٹھے اپنی گاڑی کا رخ شاہنواز چودھری کی حویلی کی طرف کر گیا تھا۔ زن سے گاڑی اڑاتے وہ پندرہ منٹ کے راستے کو پانچ منٹ میں طے کرتے شاہنواز کی حویلی کے کافی دور گاڑی روکے دانیہ کے کمرے کی کھڑکی کو ڈھونڈنے لگا جب اس کو کھڑکی میں کھڑی دور سے دانیہ دیکھی تھی۔ دانیہ جو کھڑکی کے پاس کھڑے ٹھندی ہواؤں کو محسوس کر رہی تھی اس کے بال ہواؤں سے اڑ رہے تھے اور منظر کچھ یوں تھا اوپر دانیہ آنکھیں بند کئے ہواؤں کو محسوس کررہی تھی جبکہ باسل پائپ جو ایک ہی ذریعہ تھا اس کے کمرے تک پہنچنے کا اس پر چڑھ کر مشکل سے اس کی کھڑکی تک آیا تھا۔ اب بھی دانیہ اپنی آنکھوں کو بند کئے کھڑی تھی جبکہ باسل اس کے چہرے کے ہر نقش کو پہلی بار قریب سے دیکھ رہا تھا میک اپ سے پاک چہرہ بال جو چوٹیاں میں ہونے کے باوجود اس کی آوارہ لٹیں اس کے چہرے پر رقص کر رہی تھی جبکہ ہونٹ جو کہ لپ گلوز لگانے کے وجہ سے گلابی رنگ میں ہورہے تھے۔ آنکھوں کی پلکیں جو ٹھندی ہواؤں۔ کو محسوس کرتے لرز رہی تھی۔ دانیہ نے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھولیں تھی۔ سامنے کھڑے باسل کو دیکھ وہ ابھی زور سے چیختی کی باسل نے اس کے ہونٹ پر اپنے ہاتھ رکھے تھے۔ وہ جلدی سے یونہی اسکے منہ پر ہاتھ رکھے اندر کو کودا تھا۔ دانیہ اپنا سر یہاں وہاں ہلا رہی تھی باسل نے اس کو دیوار کے ساتھ پن کیا تھا۔ ایک دم چپ میں ہاتھ ہٹانے لگا ہوں چیخنے کی ضرورت نہیں ورنہ اپنی طریقے سے تمہارا منہ بند کرواؤں گا۔ دانیہ نے جلدی سے اپنا سر ہاں میں ہلایا تھا۔ باسل کو اس کے جلدی جلدی سر ہلانے پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔ باسل نے ہلکے سے اس کے ہونٹ سے اپنے ہاتھ ہٹایا تھا۔ دانیہ اپنی روکی سانس بحال کرنے لگی تھی اور اس کو خونخوار نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ میں یہاں ایک بات کرنے آیا ہوں تم سے ..! باسل فوراً اصلی بات کی طرف آیا تھا۔ یہ کونسی بات ہے جو آپ میرے کمرے کے اندر زبردستی گھس آئے ہیں دانیہ نے اپنے دوپٹے کو ٹھیک کرتے کہا تھا اس کا اس طرح دوپٹے کو اپنے اوپر ٹھیک سے پھیلانا باسل کی نظروں سے چھپ نا سکا تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔ تم کل ان لوگوں کے سامنے نہیں جاؤں گی۔ باسل نے حکم دیتے کہا تھا۔ اور آپ کون ہوتے ہیں یہ مجھے آرڈر دینے والے؟

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments