Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 13

 

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 13.

زندگی مختصر سی ہوتی ہے یہ تو سب ہی جانتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کب اِس زندگی کا آخری دن ہو! 

ماضی 

آج حور بہت ہی خوش تھی وہ سڑھیاں اترتے کندھے پر بیگ لٹکائے ڈائینگ ٹیبل پر آکر بیٹھی تھی۔ عنادل بھی کیچن سے نکلتے ناشتے کو ڈائینگ ٹیبل پر حور کے سامنے رکھے اسکے ساتھ ہی قریب کرسی کھینچ کر بیٹھی تھی۔ حور جلدی جلدی کھانے کو اپنے حلق کے اندر اتار رہی تھی اور عنادل اسکو اتنی جلدی کھاتے دیکھ مصنوعی غصے سے بولی تھی۔ مانتی ہوں آج تمہارا یونی میں پہلا دن ہے لیکن کھانا تو ٹھیک سے کھاؤں اگر کمزوری کی وجہ سے کہی گر گرا گئی تو ۔۔۔! عنادل نے اسکو ٹوکا تھا۔ حور نے ہاتھ روکے عنادل کو دیکھا پھر آرام آرام سے کھانے کے ساتھ انصاف کرنے لگی اور عنادل کی بات سے وہ متوفق تھی۔ اگر پہلے ہی دن اس کو کچھ ہوگیا تو یہ بات کتنی شرمندگی کا باعث بنے گی۔ اور ویسے بھی شہر میں رہنے والے لوگ مذاق اڑانے سے پہلے یہ تھوڑی پوچھے گے کہ تم کہا سے آئی ہو نئی ہو زیادہ چوٹ لگی۔ کچھ دیر بعد وہ ڈرائیور اور ایک ملازمہ کے ساتھ شہر کے لئے نکلی تھی وہ کالج کے ٹائم سے پہلے ہی حویلی سے نکل گئی تھی کالج اور اس کی حویلی کا تقریبا فاصلہ آدھے گھنٹے کا تھا

حال

ایمان کی آنکھ اپنے اوپر کسی چیز کا وزن محسوس کرتے کھلی تھی۔ اس نے آنکھیں جھٹ سے کھولیں اور اپنے بائیں جانب لیٹے کاشان کو دیکھا جس کا ہاتھ اس کی گردن کے قریب تھا جس سے اُس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا اُس نے کاشان کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹانا چاہا تھا لیکن نا ممکن وہ تو اس طرح اس پر ہاتھ رکھے سویا تھا جیسے نیند میں بھی اسکو کسی چیز کے چھین جانے کا ڈر تھا۔ ایمان نے کاشان کے بازوں میں اپنے دانت گاڑھے تھے مجھے چھوڑ کر مت جاؤ میں کبھی تمھارے سامنے نہیں آؤں گا بے ساختہ وہ یہ بولتے ہوئے زور سے چیخ کر اٹھا تھا۔ پر جب اپنی جانب ایمان کو یوں حیرت زردہ دیکھتے پاکر بولا تھا۔ تم پاگل ہوں کوئی یوں اٹھاتا ہے۔ کاشان نے خونخوار نظروں سے دیکھ کہا تھا۔ اور تم جب میں نے تمہیں بولا تھا میرے قریب نہیں آنا تو میرے اتنے قریب کیا کر رہے تھے۔ ایمان نے اس کی بات کو گول کئے اپنی بات کا جواب جاننے کے لئے اسکو کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔ نیند میں کیا مجھے ہوش میں رہنا تھا ایمان میڈم کے قریب نہیں جانا یا مجھے الہام آنا تھا۔ کہ تمہارے قریب جب آنے لگوں گا تو مجھے بجلی کے جھٹکے لگے۔ کاشان نے جل بھن کر کہا تھا اور اپنے بازؤں کو دیکھا تھا جو ایمان کے دانت گاڑھنے کی وجہ سے سرخ ہوچکے تھے۔ بہت ہی کوئی گھٹیا انسان ہو تم ! آخر ہو نا تم بھی حوس پرست انسان ایمان کے جو منہ میں آیا وہ بول گئی تھی۔ کاشان کا پارہ ہائی ایمان کی اس بات پر ہوا تھا اس نے جھٹکے سے ایمان کو خود کے قریب کیا تھا اور اس کے منہ کو دبوچے غرایا تھا۔ حوس پرست میں تمہیں حوس پرست انسان لگتا ہوں میں وہ انسان ہوں جو تمہارے قریب اس لئے نہیں آتا کہی تمہارے ساتھ زبردستی نہیں ہوجائے تمہارے اُوپر حق ہوتے ہوئے بھی تمہیں چھونا مجھے گناہ لگتا ہے کیونکہ تمہاری مرضی شامل نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ بیٹھ کر کچھ پل بات نہیں کر سکتا کیونکہ تمہیں مجھ سے بات کرنا پسند نہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتا خود کو سکون نہیں پہنچا سکتا صرف اس لئے کہی تمہیں دیکھنے سے تمہیں میری ہی نظر نا لگ جائے تمہاری آنکھیں کاشان خان کے دل پر کسی تیر کی طرح لگتی ہیں جب تمہاری نظروں میں اپنے لئے نفرت دیکھتا ہوں تو لگتا ہے غلطی تھی میری سب سے بڑی جو اپنی محبت کے ملنے پر خوش تھا کیونکہ دراصل وہ محبت تو کبھی میری تھی ہی نہیں وہ تو بس ایک زبردستی کا رشتہ تھا بات مختصر تھی میری بس ایک غلطی تھی۔ میری ملاقات اس دن تم سے ہوئی میری غلطی بس اتنی تھی کاشان خان مر مٹا تمہاری آنکھوں پر غلطی بس اتنی تھی تمہارے نکاح کے وقت سائن کرتے ہاتھ کپکپاتے تھے اور میرا دل دھڑکا تھا۔ وہ پھنکارتے ہوئے اس کو جھٹکے سے چھوڑتے چینج کرنے چلا گیا تھا۔ ایمان کو اپنی غلطی پر شرمندگی تھی سہی تو کہا تھا اس نے کبھی اس کو چھوا بھی نہیں تھا ان چار دنوں میں کبھی اس نے یہ خواہش بھی نہیں کی تھی کہ وہ اس کی محبت چاہتا ہے اس کے قریب رہنا چاہتا ہے اور ا سنے ایک ہی پل میں اسکو حوس پرست انسان قرار دے دیا تھا اب اسکو اپنی غلطی پر شرمندگی ہو رہی تھی۔ عنادل اٹھی تو براق اٹھ کر چینج کرکے آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔ اٹھ گئی تم براق نے آئینے سے ہی پیچھے عنادل کو دیکھ کر کہا تھا عنادل اس کو اگنور کرتی واشروم میں چل دی براق سمجھ گیا تھا وہ اب بھی کل والی بات کو لے کر بیٹھی ہے براق کا لہجہ کبھی خطرناک حد تک سنجیدہ ہوتا کبھی وہ عنادل کے ساتھ اتنے نرم لہجے میں بات کرتا جس سے عنادل اب خود کنفیوز ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد عنادل واشروم سے نکلی تھی اب وہ لال رنگ کے کپڑوں میں تھی۔ دودھیا رنگت اس میں اور بھی نکھر رہی تھی براق اس کے پاس آیا تھا اور اُس کا جائزہ لینے لگا تھا عنادل براق کی نظر خود پر محسوس کرتے اس کو اگنور کرنے کی کوشش کرنے لگی تبھی براق نے پیچھے سے عنادل کو اپنے حصار میں لیا تھا۔ اگنور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جتنا تم مجھے اگنور کروگی اتنا ہی مجھے اپنے قریب پاؤ گی۔ عنادل نے اپنا رخ براق کے طرف کیا تھا اور اس کو دیکھ پوچھا تھا آپ مجھے بتائیں گے میں آپ کے کونسے لہجے کو رویے کو اصلی سمجھو؟ کیونکہ میں آپ کو سمجھنے سے قاصر ہوں میں یہ نہیں جان پارہی ہوں آپ کا کونسا انداز مجھے ٹھیک لگنا چاہئیے کل سے پہلے آپ مجھے میری حیثیت اپنی زندگی میں بتا رہے تھے۔ کل صبح آپ مجھے اگنور کر رہے تھے۔ اس سے پہلے آپ کا سنجیدہ لہجہ روڈ طریقے سے مجھ سے بات کرنا پھر جہاز میں مجھے خود سے لگانا پر سکون کرنا تحفظ سا محسوس کروانا کل رات مجھے ٹھنڈ لگتے دیکھ آپ میرے لئے اتنے فکرمند تھے اس کے بعد آپ کا رونا آپ کا ٹوٹا ہوا لہجہ پھر آپ کی دوسری شادی اور مجھ سے دور جانے والی بات کونسی بات کو میں سمجھو میں بہت کنفیوز ہوں کس بات پر میں بھروسہ کروں؟ کونسی بات پر یقین کروں؟ آپکا کونسا رویہ مجھے تکلیف نہیں پہنچائے گا؟ کونسا رویہ مجھے تکلیف پہنچائے گا؟ عنادل نے الجھے ہوئے میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے پوچھا تھا۔ براق نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لئے کہا تھا۔ میرے دل میں بہت کچھ دفن ہے اگر کبھی میں تمہارے ساتھ نا انصافی کر جاؤں تو یہ سمجھ لینا میں بہت مجبور تھا کیونکہ میں مجبور ہوں بہت مجبور ہوں ! براق کا لہجہ پھر ہارا ہوا تھا کیوں مجبور ہیں یہ بتائیں ..؟ میں نے پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہتی ہوں آپ کے ساتھ ہوں میں ! عنادل نے براق کو تسلی دی تھی کہ وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ ہے۔ براق نے عنادل کو اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھایا تھا اور خود لیٹتے اس کے گود میں سر رکھا تھا عنادل کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگنے لگی براق کو اچانک اپنے اتنے قریب آتے دیکھ براق نے عنادل کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا تھا دادا سائیں تمہارے دادا سائیں سے صرف دوستی کا کھیل کھل رہے ہیں ! براق نے عنادل ہر کہی پہاڑ گرائے تھے کیا مطلب؟ عنادل نے بے یقینی سے پوچھا تھا مطلب یہ کہ دادا سائیں۔ کا کہنا ہے عنادل جمشید علی کی پوتی سے میں نے تمہاری اس لئے شادی کروائی ہے تاکہ تم اس کو ٹارچر کرو اور دوسری طرف سب کے سامنے عنادل کے ساتھ بہت اچھا رویہ اختیار کرو ! عنادل کا ہاتھ بے ساختہ براق کے سینے سے ہٹا تھا۔ براق اٹھ کر اس کے قریب بیٹھا تھا۔ پھر مجھ سے شادی کیوں کی تھی آپ نے..؟ کیا آپ پہلے بھی یہ سب جانتے تھے؟ عنادل کا لہجہ اب کی بار ٹوٹا ہوا تھا اور پھر میرے بھائی سے اپنی بہن کی شادی کروانے کا مقصد کیا آپ کو ڈر نہیں تھا کہی جو آپ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کی بہن کے ساتھ میرا بھائی نا کرے ! عنادل نے تمسخر اڑاتے لہجے میں پوچھا تھا۔ دادا سائیں بس یہی چاہتے تھے سارے گاؤں کے سامنے تمہیں رخصت کرواکے ہم یہاں لے کر آئے اور پورے گاؤں میں یہ بات ثابت ہوجائے کہ جمشید علی کی پوتی پر ونی کا داغ شاہنواز چودھری نے اپنے پوتے صائم چودھری کے قتل پر معاف کردیا ہے اور بس پھر دادا سائیں نے تمہارے دادا سائیں سے دوستی پھر سے قائم کی کیونکہ اس سب سے پہلے تمہارے دادا سائیں اور میرے دادا سائیں کی کافی اچھی دوستی تھی لیکن انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ تمہارے دادا سائیں اپنے کاشان کے لئے ایمان کی بات کریں گے بس پھر مجھے تب ہی شک ہوگیا تھا لیکن اس کے پیچھے بھی دادا سائیں نے سوچ رکھا تھا اور یقین دلانے کے لئے انہوں نے ایمان کو بھی کاشان کے ساتھ رخصت کردیا جس دن تمہارے اور میری مہندی تھی اس کے اگلے دن میں نے دادا سائیں سے بات کی تھی کہ اچانک دوستی ان کا بس یہی کہنا تھا جہاں میں تمہیں ٹارچر کروں وہاں سب کے ساتھ اچھا سلوک رکھوں اور دوسری طرف ان کے دوستی بڑھتی جائے گی اور جب وہ مجھے تمہیں چھوڑنے کا بولے گے تب وہ ایمان کو بھی کاشان کی قید سے آزاد کروا لے گے۔ 

براق نے ساری بات عنادل کے گوش کی تھی۔ تو پھر جب میں آپ کی حویلی میں پہلی دفعہ آئی تھی پہلی بار آپ کے کمرے میں مجھے بٹھایا گیا تب کیوں نہیں بتایا مجھے یہ سب ! ایک اور سوال پوچھا تھا کیونکہ مجھے لگا دادا سائیں اس وقت غصے میں تھے لیکن اگلے دن دادا سائیں کو میں نے سمجھایا یہ سب زیادتی ہے لیکن ان کا کہنا تھا صائم چودھری کے ساتھ بھی ظلم ہوا تھا وہ بھی کاشان کی گولی سے مارا گیا ہے۔ ان کا بی پی ہائی ہوگیا تھا نا چاہتے ہوئے بھی میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی تھی لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میری ہاں مجھ سے میری محبت دور کردے گی۔ مجھے معاف کردوں کل سے پہلے کے رویے کے لئے بس اس وجہ سے میں نے تمہارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا تھا..! میرا عشق ہو تم..! میرے رگ رگ میں سمائی ہو تم ! میری جان ہے تم میں۔۔!! براق نے اس کے ہاتھوں پر اپنے لب پر رکھے کہا تھا۔ تم سے نظریں نہیں ملا پارہا تھا ان دو دنوں سے مجھے تم دیکھتی تو بے رخی سے نظر پھیر لیتا اور جب تم کسی کو دیکھتی تو میری نظریں تم پر ہی مرکوز رہتی تھی۔ تمہاری طویل خاموشی تمہارا مجھے اگنور کرنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا میں نے خود کو کافی مضبوط بنانے کی کوشش کی لیکن میں نہیں نا بنا پایا خود کو مضبوط اس دن تمہیں۔ سینے سے لگا کر مجھے سکون ملا تھا پھر تمہیں یوں چھوڑ کر اچانک باہر چلا گیا تھا اس کا دکھ مجھے ہے میں جانتا ہوں تمہیں میری ضرورت تھی لیکن میں ہار نہیں سکتا تھا پر یہ جو تم نے کل میرے ہاتھ میں کٹ دیکھے ہیں بلیڈ سے مارے گئے ہیں اس نے اپنے ہاتھوں کو آگے کیا تھا ! عنادل اس کو بے یقینی نظروں سے دیکھ رہی تھی کبھی اسکو دیکھتی کبھی اسکے ہاتھوں پر لگے کٹ کو ! بس پھر دادا سائیں کے کہنے پر ہم دونوں یہاں آئے ہیں اور یہاں آکر مجھے تمہیں سب کچھ بتانے کا موقع ملا وہاں مجھ پر پل پل بھر کی نظر رکھی ہوئی تھی یہاں تک کہ میرے کمرے سے نکلتی کھڑکی پر بھی نیچے دو گارڈ کھڑے کئے گئے تھے صرف اس لئے کہ میرا رویہ تمہارے ساتھ کیسا ہے اس ایک ایک پل کی خبر دادا سائیں کو ملتی رہے۔ عنادل روتے ہوئے براق کے سینے سے لگی تھی اور ہچکیوں سے رو دی تھی براق نے اس کی کمر کو سہلایا تھا اور اس کو پر سکون کیا تھا کافی دیر بعد عنادل اس سے دور ہوتی شکوہ کن نظروں سے دیکھتے بولی تھی۔ اتنا کچھ دل میں رکھا ہوا تھا آپ نے!! اگر سچ میں مجھے چھوڑنے کا بولا تو آپ مجھے چھوڑ دیں گے؟ عنادل نے کسی ڈر کے تحت پوچھا تھا کہی براق اس کو چھوڑ ہی نا دے اور کاشان بھائی تو ایمان کو پسند کرتے ہیں تو وہ کیسے ایمان کو چھوڑ دیں گے !! عنادل کو شادی کے دو دن یاد آئے تھے جب کاشان خود ہی سارے کاموں میں لگا ہوا تھا اور باسل سے پتا لگا تھا بھائی کی پسند کی شادی ہے! تمہیں چھوڑنا مطلب زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ زمین میں مٹی تلے دفن ہوجانا کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا اور کچھ کرتا ہوں دادا سائیں کو سمجھانا بہت مشکل ہے لیکن دعا ہے وہ اپنی ضد سے پیچھے ہٹ جائیں کاشان کی پسند کی شادی ہے لیکن دادا سائیں اگر چاہے تو ان دونوں کا رشتہ توڑنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اس نے عنادل کو تسلی دی تھی۔ عنادل محبت پاش نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ مانتی تھی دو دن براق کی بے رخی سے وہ بہت ہرٹ ہوئی تھی لیکن یہ بھی غلط تھا کسی کو بنا غلطی کی سزا دینا اور عنادل تو تھی ہی نرم دل کی تھوڑی سی محبت اس کو پگھلا گئی تھی۔ اب چلو فریش ہو پھر باہر چلتے ہیں یا پھر پورے پندرہ دن ادھر اس کمرے میں ہی گزارنے ہیں عنادل جلدی سے اٹھتے فریش ہونے چل دی وہ براق کے بےباک باتوں کو سرے سے نظر انداز کر گئی تھی۔ براق بھی باہر ہی بیٹھ کر اس کا انتظار کر رہا تھا۔  

حور ناشتہ کرنے کے بعد کمرے میں بیٹھی تھی۔ وہ سدیوں کی تھکی ہوئی لگتی تھی جیسے کافی عرصے سے وہ کسی چیز کی تلاش میں ہو۔ اس نے تھکن سے چور لہجے کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کی تو کل کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا تھا اس نے ایک جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھلی تھی۔ یہ وہی آنکھیں تھی۔ میں جانتی ہوں یہ وہی آنکھیں تھی۔ حور جیسے خود کو یقین دلا رہی تھی۔ ماضی کسی بھیانک خواب کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔  

ماضی 

وہ یونی کے باہر گاڑی سے اتری تھی کچھ دیر تک ڈرائیور اور وہ ملازمہ وہی کھڑی رہے تھے کیونکہ حور )سامیہ( اپنی دوست کا انتظار کر رہی تھی۔ جب وہ اس کو آتی دکھائی دی تو دونوں ایک ساتھ اندر گئی تھی۔ ساحر بھی اسی یونی میں پڑھتا تھا۔ اس کو ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا یا یہ کہا جائے جنوں تھا۔ حور تو ایک ساتھ اتنے سارے لڑکے لڑکیوں کو بیٹھے دیکھ ہی حیران ہوئی تھی اگر کاشان یہاں یہ سب دیکھ لیتا تو یقیناً وہ یہاں نہیں پڑھنے آتی کیونکہ کاشان پہلے ہی راضی نہیں تھا۔ ساحر جو خود اس یونی میں پڑھ رہا تھا۔ اس کا میڈیکل ڈیپارٹمنٹ تھا جبکہ حور اس سے دو سال پیچھے تھی۔ لیکن وہ بھی میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی اسٹوڈینٹ تھی۔ سامیہ اور وہ دونوں اپنا ڈیپارٹمنٹ ڈھونڈ رہی تھی سامیہ کی نسبت حور کافی ڈرپوک تھی۔ وہ اس کے پیچھے تھی جبکہ سامیہ آگے آگے تھی ایک دم کچھ لڑکوں نے انکو گہرا تھا۔ حور جلدی سے سامیہ کے پیچھے ہوئی تھی۔  

نئی آئی ہو۔ ! ایک لڑکے نے ان کے حلیہ کو دیکھ کہا تھا سامیہ جو اچھا سا ڈریس پہنے منہ پر اچھا خاصہ میک اپ کئے یونی آئی تھی اس کے حلیہ سے کہی سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ یونی میں نئی ہے جبکہ حور نے عبایہ لیا ہوا تھا اس کے ساتھ اس نے اچھے سے حجاب لیا تھا۔ جی۔۔۔!! سامیہ نے یک لفظی جواب دیتے آگے بڑھنا چاہا جب دوسرا لڑکا ان کے آگے آیا چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لئے ان کو دیکھا تھا جو اُدھر سے جانے ہی لگی تھی۔ کوئی کام ہے آپ کو ..؟؟ سامیہ نے چوبھتی نظروں سے گھور کر پوچھا تھا۔ جب کہ تیسرا لڑکا ان کے سامنے آیا تھا۔ وہ کیا ہے نا یونی میں آئے نئے لوگوں کو ہم خالی ہاتھ جانے نہیں دیتے انھیں تحفے دیتے ہیں۔ لڑکے نے حوس بھری نظروں سے دیکھتے نظروں کو عبائے میں ملبوس حور پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔

ہمیں نہیں چاہئیے کوئی تحفہ سامیہ حور کا ہاتھ پکڑتے آگے ہونے لگی جب ایک لڑکے نے حور کا ہاتھ پکڑا تھا۔ حور ایک دم ڈر کر اس لڑکے کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ لڑکے نے اتنی مضبوطی سے حور کا ہاتھ پکڑا تھا کہ سامیہ چاہ کر بھی حور کو اپنے ساتھ نہیں لے کر جا پارہی تھی۔ تم لوگ چاہتے کیا ہوں دیکھو ہم یہاں نئے ہیں ہمیں ابھی اپنا ڈیپارٹمنٹ بھی ڈھونڈنا ہے تو جانے دوں ہماری تم سے کسی بھی قسم کی کوئی دشمنی نہیں ہے۔ !! سامیہ کا بس چلتا تو وہ ضرور اس لڑکے کا سر پھاڑ دیتی لیکن وہ دو تھی جبکہ ان کے سامنے پانچ مضبوط جسمات رکھنے والے لڑکے کھڑے تھے ان کے آگے وہ دونوں چیونٹی کی طرح لگ رہی تھی اس لئے سامیہ نے نرم لہجے میں بولنے میں ہی عافیت جانی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ بھی ڈھونڈ لینا پہلے ہم جو کہے وہ کرو ایک لڑکے نے شرط رکھی تھی۔ سامیہ نے پہلے تو سوچا لیکن جب حور کا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ پر محسوس کیا تو اس کو دیکھا جو آنکھوں سے کہہ رہی تھی کر لو جو وہ کہہ رہے ہیں اسکے علاؤہ ہمارے پاس راستہ نہیں ہے اور یہ ہمیں یونہی تنگ کریں گے سامیہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں حور کو پر سکون ہونے کا کہا اس کے بعد اپنا رخ اس لڑکے کی طرف کیا تھا جو آنکھوں آنکھوں میں ان دونوں کے اشارے میں کی جانے والی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیا کرنا ہے کہو؟ سامیہ نے جان چھڑانے والے انداز میں پوچھا تھا۔ وہ یونی کا دروازہ دیکھ رہی ہو وہاں سے جو لڑکا اب آئے گا اس کو تم نے پروپوز کرنا ہے لڑکے نے اپنی بات کہتے ان کو یونی کے دروازے کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا تھا۔ سامیہ جو ہونک بنے اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔ جو چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ سجائے اس کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا سر جھٹک تھا وہ ابھی فلحال کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھی۔ تبھی اسنے دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں سے ساحر اندر آرہا تھا۔ سامیہ ابھی آگے بڑھتی کے جس لڑکے کے ہاتھوں سے حور کب سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی اس نے حور کے آزاد کیا اور سامیہ کو روکا تھا۔  

روکو !! سامیہ نے موڑ کر آئبرو اچکائے اس لڑکے کو دیکھا تم نہیں یہ لڑکی جائے گی !! اس کے پاس کیونکہ وہ جان گئے تھے سامیہ دو منٹ میں ساحر کو پروپوز کرکے آجائے گی جبکہ حور ڈرپوک تھی اور وہ یہ بلکل نہیں کرے گی جس سے وہ ان دونوں کو اور کچھ کرنے کو بولیں گے۔ حور حیرت زدہ نظروں سے سامیہ کو دیکھ رہی تھی سامیہ حور کے قریب آئی تھی اور بولی تھی۔ حور جلدی سے جاکر اس لڑکے کو پروپوز کردوں یار ورنہ ان لڑکوں نے ہمیں یونی میں ایک دن سکون سے نہیں رہنے دینا سامیہ نے منت سماجت کرتے کہا تھا۔ لیکن ! حور ابھی کچھ بولتی کہ سامیہ نے اس کو ٹوکا تھا۔ لیکن کچھ نہیں ویسے ہی کافی دیر ہوگئی ہے ابھی تک ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ ہمارا ڈیپارٹمنٹ کونسا ہے سامیہ نے اس کو یاد کروایا وہ کب سے ان کے بیچ گہری ہوئی ہیں۔ حور آخر تھک ہار کر اپنے چھوٹے چھوٹے قدم لئے ساحر کی جانب بڑھی جبکہ اس طرف سے ساحر ہوڈڈی میں چہرے پر ماسک لگائے اندر آرہا تھا۔ حور کے دل کے دھڑکنے کی رفتار یوں تھی جیسے وہ ابھی ایک دم بند ہو جائے گا حور ساحر کے پاس آکر روکی تھی ساحر جو یہاں سے اپنی کلاس میں جانے لگا تھا اپنے سامنے ایک لڑکی کو یوں راستہ روکتا دیکھ اپنا سر اٹھائے اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو عبائے میں ملبوس کالی گہری سیاہ آنکھیں ان آنکھوں کے علاؤہ اس نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ لیکن وہ یہ جان گیا تھا یہ لڑکی کون ہے۔ کیونکہ گاؤں میں اکثر اس نے حور کو باغ میں بیٹھے دیکھا تھا لیکن تب بھی اس نے کبھی اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا نا آج اس نے حور کا چہرہ دیکھا وہ اس کی مہک سے پہچان سکتا تھا کیونکہ باغ میں اکیلے بیٹھی رہنے والی حور کے ساتھ اُدھر کوئی اور بھی تھا جو ہمیشہ اس کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ اور وہ تھا ساحر !! وہ کبھی یہ جان نہیں پایا تھا کیا اس کو حور سے محبت ہے یا نہیں !! کیونکہ وہ جب بھی حور کو کہی بھی اکیلا دیکھتا اس کے ساتھ آکر انجان بن کر بیٹھ جاتا تھا۔ اور حور کو بھنک بھی نہیں لگتی کہ کوئی اس کے ساتھ بیٹھا ہے۔ حور ساحر کو دیکھ رہی تھی جو جانے حور کو کیوں دیکھے جارہا تھا۔

آپ سے ایک بات کرنی ہے ! حور کی میٹھی آواز پر ساحر کا سحر ٹوٹا تھا دور کھڑی سامیہ حور کو دیکھ رہی جس نے کچھ کہا تھا سامیہ سے تھوڑی دور وہ پانچ لڑکے کھڑے تھے۔  

حال

کاشان جو چینج کئے باہر نکلا ایمان ایک دم کھڑے ہوئے کاشان کے پاس آئی تھی مجھے معاف کردوں ! میں نے کچھ زیادہ ہی بول دیا کاشان نے اس کو خونخوار نظروں سے گھورا تھا۔ لیکن کہا کچھ نہیں تھا ! دیکھوں میں مانتی ہوں کچھ زیادہ ہی بول دیا لیکن تم بھی تو اتنی پاس آکر لیٹے ہوئے تھے۔ ایمان نے واپس اپنی ٹون میں آتے کہا تھا۔ کاشان اب بھی خاموش تھا۔ کچھ بول کیوں نہیں رہے؟ ایمان اسکی خاموشی سے تنگ آتی بولی تھی۔ تمہیں کب سے میری خاموشی کی پرواہ ہونے لگی تمہاری بلا سے میں بھاڑ میں جاؤ تمہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھنا چاہئیے۔ کاشان نے طنز کرتے کہا تھا۔ ایمان کے دل کو کچھ ہوا تھا کاشان کا ایسا روڈ رویہ نہیں تھا جیسا وہ ایمان کے ساتھ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تم نرم لہجے میں بات کرتے ہوئے اچھے لگتے ہوں جب تم سخت نہیں بن سکتے تو ایسا رویہ کیوں رکھ کر جتانے کی کوشش کررہے ہوں کہ تم بھی سنجیدہ رہنے والے انسان ہو۔ ایمان نے اس کے سنجیدگی اور روڈ لہجے میں بولنے پر تنقید کی تھی۔ جب آپکی نرمی اور پیار کی کسی وہ قدر نا ہو تو انسان کو سنجیدہ رہنا پڑتا ہے چاہے وہ اس کی عادت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جب انسان سنجیدگی اور روڈ لہجے کا کھول اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے تو اس کو کوئی بھی چیز محسوس نہیں ہوتی نا ہی لوگوں کی نا قدری! نا محبت کے بدلے نفرت ملنے کا دکھ ! نا یکہ طرفہ محبت میں ہارے ہوئے مرد کی طرح دکھ اور اور سوگ منانے کا موقع کاشان کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو ایمان کچھ بول ہی نہیں پائی تھی۔ اب جاؤ فریش ہو جاؤ اس کے بعد کہی باہر چلو اور وہاں اچھی اچھی تصویریں بنا کر دانیہ کو حور کو بھیجو میں نہیں چاہتا کل کو یہ کہا جائے وہاں صرف ایک کمرے میں قید ہونے کے لئے گئے تھے۔ کاشان یہ بولتے کمرے سے باہر نکلا تھا اور ہوٹل سے اپنے قدم باہر کو بڑھائے تھے جہاں گاڑی کھڑی تھی جو کاشان کے بولنے پر وہاں بھیج دی گئی تھی۔ 

ایمان فریش ہونے کے غرض سے واشروم چل دی پانی کا نل کھولے اس نے اپنے چہرے پر پانی ڈالا اور آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ کیا میں اتنی سخت ہو سکتی ہوں؟ کیا میں صرف اتنی چھوٹی سی بات پر اس انسان کا دل دکھا سکتی ہوں جس کا کہنا ہے میری آنکھوں کو دیکھتے ہی میری ایک جھلک دیکھتے ہی اس نے اپنا دل ہار دیا۔ کیا میں کاشان کو توڑ سکتی ہوں۔۔! جو مجھے مانگتا ہے رب سے روتا ہے میرے لئے ہر نماز میں..! کیا میں مجرم ہو کاشان کی اور اس کی محبت کی..! کیا میں گنہگار ہوں جو اپنے شوہر کا دل بھی نہیں جیت پائی کیا میرے رویہ نے اسکو اتنا مایوس کردیا کہ وہ اب کوشش نہیں کرتا میرے قریب آنے کی اور مجھ سے بات کرنے کی۔۔!! یہ سوچتے ہوئے کب ایمان کی آنکھ سے آنسوں نکلے تھے وہ یہ جان نہیں پائی تھی محبت کا ایک احساس ایمان کے دل میں بھی تھا جو اس پر کبھی ظاہر نہیں ہوا تھا لیکن آج اس احساس کی تھوڑی سی جھلک ایمان میں آشکار ہوئی تھی لیکن وہ یہ کب جانے گی اس کے دل میں بھی کاشان کے لئے جزبات آنے لگے ہیں اس کی خاموشی پر وہ بھی تنگ آنے لگی ہے اس کے خود سے مخاطب نا ہونے پر وہ بھی چڑ چڑ ی ہونے لگی ہے۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments