Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 12.
ان دونوں پر ایک ایک پل کی نظر رکھوں مجھے تک ہر خبر پہنچی چاہئیے۔ سامنے سے آتی کڑک آواز پر اس آدمی نے فوراً ان کی بات پر ہامی بھری تھی جیسے آپ کہے! سامنے سے آتی آواز ان کے دل کو سکون پہنچا گئی تھی۔ انہوں نے فوراً فون رکھا تھا۔ اور کچھ سوچتے شاہنواز چودھری کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ آئی تھی۔
ایمان بیڈ پر بیٹھے سردی سے کانپ رہی تھی کاشان جو فریش ہوئے باہر آیا تھا۔ ایمان کو یوں کانپتے دیکھ اپنے بیگ کے پاس جاتے بیٹھا تھا ایمان اس کو دیکھ رہی تھی جو نا جانے کیا ڈھونڈ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد کاشان اس میں سے ایک بھاری بھرکم شال نکالے ایمان کی جانب بڑھا تھا ایمان اس کو اپنے قریب آتے دیکھ ٹھیک ہوکر بیٹھی اور اپنے آپ کو ٹھیک ظاہر کر رہی تھی لیکن وہ ٹھنڈ کے مارے اکڑ رہی تھی۔ کاشان اس کی طرف جھکا تھا ایمان نے کاشان کو بلکل اپنے چہرے کے قریب جھکتے دیکھ اپنے چہرے کو دوسری طرف کیا تھا کاشان نے شال کو پیچھے لے جاتے ایمان پر اچھے سے شال ڈالی تھی اور پیچھے ہٹا تھا۔ اور جاکر بیڈ کے دوسرے سائیڈ بیٹھا تھا کمرے میں اب صوفہ تو ہونے سے رہا تھا وہ اپنے حویلی میں اور اپنے کمرے میں تو موجود تھے نہیں اسلئے کاشان کو مجبوری میں یہاں بیٹھنا پڑھا تھا۔ ورنہ وہ چاہ کر بھی یہاں نا بیٹھتا ایمان نے اس کو ترچھی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جو آنکھوں پر اپنے بازؤں کو رکھے بیٹھا ہوا تھا۔
براق ہیٹر چلانے کے بعد بیڈ پر آکر عنادل کے قریب بیٹھا تھا عنادل براق کو اپنے اتنے قریب بیٹھے دیکھ پیچھے کو کھسکی تھی۔ براق کو عنادل کا خود سے یوں دور جانا ناگوار گزرا تھا وہ اٹھ کر فریش ہونے کے غرض سے واشروم چلا گیا تھا۔ عنادل مسلسل اپنے انگلیوں کو مڑوڑ رہی تھی۔ براق باہر نکلا تھا۔ وہ ناران کی اتنی سخت سردی میں شرٹ لیس آئینے کے سامنے جاکر کھڑا ہوا تھا۔ عنادل کے دھیان جب اس کے ہاتھوں کے زخم پر گیا تو وہ حیران ہوئی تھی کہ براق کے ہاتھوں میں اتنے گہرے زخم کیسے آئے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اپنے دل کو سمجھانے کے باوجود بھی براق کے بلکل قریب کھڑے اس کے زخم کو دیکھ رہی براق کا دل اس کو اپنے اتنے پاس کھڑے دیکھ دھڑکا تھا۔ پر عنادل کو کہاں ہوش تھا وہ تو بس براق کے ہاتھ پر لگے زخم دیکھ رہی تھی تبھی اس کی آنکھوں سے ایک موتی ٹوٹ کر گرا تھا۔ اب کی بار اس نے اپنے نرم ملائم ہاتھ براق کے زخم پر رکھے تھے براق نے زور سے اپنی آنکھیں بند کی تھی زخم کا درد جیسے غائب ہوا تھا عنادل نے اسے چھوا تھا اس کو سکون دیا تھا اس کا درد جیسے کہی سو گیا تھا۔ یہ کیسے ہوا؟ روتے ہوئے پوچھا تھا دھیان اب بھی اتنے سارے گہرے گہرے کٹ پر تھا براق نے خود اپنے آپ کو زخم پہنچایا تھا۔ یہ تو ہونا ہی تھا ایک چیز ٹوٹ گئی تھی تو بس کچھ کٹ لگ گئے! براق نے چھپے الفاظوں میں اتنا کہا تھا جس انسان نے اپنی متاعِ جاں کا دل توڑ دیا وہ خود کیسے چین اور سکون سے رہ سکتا ہیں۔ وہ سکون سے نہیں رہ سکتا میرے آگے یہ بھی چھوٹی سی سزا ہے وہ انسان تو جینے کا حق ہی نہیں رکھتا جو یقین توڑ دے جو بھروسہ توڑ دے جو عزت نا دے سکے براق نے یہ سوچتے آنکھوں کو زور سے بند کیا تھا۔ عنادل تو اس کو دیکھ رہی تھی ایسا کیا ٹوٹا تھا جو اتنا گہرا زخم چھوڑ گئی وہ چیز ! عنادل نے براق کو بازوں سے پکڑے بیڈ پر بٹھایا اور پوچھا تھا۔ اب بھی وہ اس کے سامنے شرٹ لیس تھا لیکن عنادل کو کسی چیز کی کوئی پرواہ ہی نہیں تھی اس وقت وہ ایک دیوانی لگ رہی تھی براق کی دیوانی براق کی ایک دن کی قربت اس کو دل کو موم کر گئی تھی۔ اس نے بیگ سے جاکر آئل میٹ نکالے براق کے پاس بیٹھتے اس کے ہاتھوں پر لگانا شروع کیا تھا۔ کیوں میری اتنی فکر کر رہی ہو؟ براق کا چہرہ ہر جزبات سے عاری تھا۔
ساحر دانیہ حور اور باسل آئسکریم پارلر پہنچ چکے تھے سب نے اپنے اپنے فلیور کی آئسکریم منگوائی تھی ! باسل اس چھوٹی سے آفت کو دیکھ رہا تھا جو کھا کم رہی تھی چہرے پر زیادہ لگا رہی تھی۔ بھائی ہم یہاں ایک قریب ہی پارک ہے وہاں تھوڑی دیر ٹہل کر گھر جائے گے کافی دنوں بعد آپ مجھے گاؤں سے باہر لے کر آئیں ہیں ! دانیہ نے آئسکریم کھاتے حکم صادر کیا تھا ہمم۔ ٹھیک ہے پہلے تم آئسکریم تو ختم کروں ساحر اپنے ہاتھ ٹشو سے صاف کرتے ہوئے بولا تھا۔ حور تم چلو گی ہمارے ساتھ؟ دانیہ نے پوچھا تھا۔ باسل کلس کر رہ گیا تھا جہاں دیکھوں حور یہاں چلو گی وہاں چلو گی حور کا بھائی بھی یہی بیٹھا ہے اس کی طرف بھی تھوڑی سے نظر کرم کرلو وہ یہ صرف سوچ ہی سکا تھا۔ آخر باسل خان بھی نہایت ہی کوئی ڈھیٹ بندہ تھا حویلی چلا جائے گا لیکن اپنے منہ سے کچھ نہیں بولے گا۔ حور کے جواب کے لئے ساحر بھی بیچین تھا وہ بھی اسکے جواب کا منتظر تھا۔ حور نے گردن گھما کر باسل کو دیکھا تھا۔ بھائی آپ چلیں گے ! حور نے باسل سے پوچھا باسل نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ حور نے اس سے پوچھا ورنہ وہ تو یہی سمجھا تھا کہی حور ان کو ہاں ہی نا کردیں اور وہ منہ لٹکاتے حویلی جا رہا ہوں۔ اگر تم جانا چاہتی ہو تو میں بھی چلوں گا تمہارے ساتھ باسل نے نرم لہجے میں کہا تھا ورنہ دل میں تو اس کے لڈو پھوٹ رہے تھے کچھ دیر بعد وہ آئسکریم کھا کر ساتھ ہی پارک میں چل دئے تھے۔
عنادل کے آئل میٹ لگاتا ہاتھ روکا تھا۔ اس نے گردن اٹھا کر براق کو دیکھا تھا جو اب بھی جواب کا منتظر تھا۔ اس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا تھا اور پھر سے اپنے کام میں مشغول ہوئی تھی۔ براق کو عنادل کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا تھا ایک دم اس نے اپنے ہاتھ کو کھینچا تھا اور دور جا کر اپنی شرٹ پہنے کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا تھا جہاں سے باہر کا نظارہ بہت پیارا دیکھ رہا تھا اتنی ٹھنڈ میں وہ کھڑکی کھولے کھلی ہواؤں میں کھڑا تھا اتنی سرد ہوائیں بھی اسکو سکون نہیں پہنچا سکی تھی۔ عنادل آئل میٹ کو سائڈ پر رکھے اسکے پیچھے جاکر کھڑی ہوئی تھی۔ وہ کنفیوز سی پیچھے کھڑی تھی۔ براق اس کو اپنے پیچھے کھڑا محسوس کر سکتا تھا۔ تم جاکر آرام سے سو جاؤ انتہائی روڈ لہجہ اختیار کیا تھا۔ عنادل نے اپنے نازک سے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھے تھے اور ہمت اکھٹا کرتے بولی تھی۔ آپ کو مجھ پر تھوڑا بھی بھروسہ نہیں ہے۔ یا پھر مجھے آپ اس قابل نہیں سمجھتے! میں آپ کی شریک حیات ہوں۔ مجھے آپ بتا سکتے ہیں کوئی پریشانی ہے تو میں آپ کے ساتھ ہمیشہ کھڑی ہوں کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گی عنادل نے ایک عزم سے کہا تھا۔ براق جو باہر دیکھ رہا تھا اُس کو عنادل کے اتنا اچھے رویے کی امید نہیں تھی کہ وہ اتنی اُس کی بے رخی کے بعد بھی اس سے پریشانی کی وجہ پوچھے گی وہ مان گیا تھا عنادل کو اس کے یقین کو! اس کا یقین بہت پختہ تھا جو بس دو دن میں وہ براق پر کر چکی تھی۔ کیا کوئی انسان اتنی جلدی دوسرے کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔ یا پھر اُس پر آنکھ بند کر کے یقین کر سکتا ہے! اس کا دل آج رویا تھا۔ اس نے موڑ کر عنادل کو زور سے خود میں بھینچا تھا عنادل کو اس کی مضبوط گرفت میں سانس روکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ عنادل اپنے درد کو برادشت کرتے اس کے سینے سے لگی رہی! کچھ دیر بعد براق نے اس کو خود سے الگ کرتے اپنے قریب ہی کھڑا کیا تھا۔ اللّٰہ کا جتنا میں شکر ادا کروں اتنا کم ہے تم جانتی ہو میں ہار رہا ہوں میں بہت کمزور ہوں..! براق بہت کمزور ہے ..! اس کا دل بہت کمزور ہے اتنا مضبوط دیکھنے والا مرد اندر سے ٹوٹ رہا ہے! آپ اپنا درد مجھے بتائیں میں آپ کو سنبھالوں گی! عنادل براق کی اتنی ٹوٹتی ہوئی حالت کو دیکھے خود بھی رو دینے کو تھی لیکن خود کو مضبوط بنائے اس کے پاس زمین پر بیٹھی تھی جو بولتے بولتے زمین پر بیٹھ گیا تھا۔ درد بہت گہرا ہے نہیں سنبھال پاؤں گی مجھے..! مجھے بتائیں گے میں سمیٹ لوں گی آپ کو ..! یقین تھا عنادل کو خود پر یا پھر اپنی محبت پر جو نکاح کے دو بول بولنے کے بعد اسکو براق سے ہوئی تھی کانچ کا ٹکرا کبھی کسی کو جوڑتے دیکھا ہے میں وہ کانچ ہوں جس کا ایک حصہ چبھنے پر خون کی بوندیں زاروقطار بہہ جائے گی۔ براق نے عنادل کے ہاتھوں کو پکڑے ان پر نظریں مرکوز کئے کہا تھا۔ میں مرہم لگا کر اس زخم کو ٹھیک کر دوں گی۔ عنادل نے اس کی جانب دیکھتے اپنا ایک ہاتھ اس کے بال میں لے جاتے ان کو ٹھیک کیا تھا۔ پر زخم بہت گہرا ہے نہیں ٹھیک کر پاؤں گی..! براق ہارے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔ اپنی محبت سے زخم کا نام نشان مٹا دوں گی۔ عنادل نے براق کے چہرے پر آئے آنسوں صاف کئے تھے۔ براق نے نظروں کو اٹھائے اس پری پیکر کو دیکھا جو ہونز اسی کو دیکھ رہی تھی۔ یقین ہے مجھ پر ..!! براق نے سوال کیا تھا۔ خود سے بھی زیادہ ..! عنادل نے مان سے کہا تھا۔ کبھی کوئی ایسا وقت آئے جب میں تمہیں چھوڑ جاؤں تو کیا کروں گی۔ ..! براق کا لہجہ اور انداز جانچتا تھا۔ مرجائوں گی ..! دو لفظی جواب میں بات بیان کی تھی۔ اس کے علاؤہ اگر موت نا آئی تو...! براق نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا۔ عنادل کے دل میں جیسے کوئی تیر سے وار کر رہا تھا جس سے اس کا دل اندر ہی اندر زخمی ہورہا تھا۔ اس نے اپنی ٹوٹتی ہمت کو جمع کرتے پھر کہا تھا۔ مردہ جسم کے ساتھ اس زندگی کو گزاروں گی آپ تو ہوں گے نہیں تو عنادل کا کیا جواز اس دنیا میں رہنے کا۔ ..! لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں مرجائوں گا۔ براق نے عنادل کو بتایا تھا۔ عنادل نے زخمی نگاہوں سے براق کو دیکھا تھا جو اس کو ہی دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں کیا نا تھا جزبات محبت جنون یقین سب کچھ اس کی آنکھیں بتا رہی تھی عنادل زیادہ دیر براق کی آنکھوں میں نا دیکھ پائی تبھی اپنی نظروں کا زوائیہ بدل گئی تھی۔ براق نے اسکو خود کے قریب کیا تھا اب بھی وہ ہونز زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ عنادل جھٹکے سے اس کے قریب آئی تھی اگر مجھے کبھی تمہیں چھوڑنا پڑا یہ کبھی میں نے دوسری شادی کا سوچا تو کیا کروں گی اور دوسری شادی کی شرط تمہیں چھوڑنا ہوئی تو ..! براق نے اس کو اپنی باتوں میں مکمل الجھایا تھا۔ عنادل کی آنسوں پلکوں کے بار توڑتے نکلے تھے۔ اور وہ روتے روتے اس کے گریبان کو پکڑے بولی تھی۔ سب سے پہلے اس لڑکی کا قتل کروں گی پھر میرا نشانہ آپ پر ہوگا آپ کو مار دوں گی اور اپنی محبت کو مارنے میں قطع شرمندگی نہیں ہوگی جو میرا نہیں ہوا زندگی میں وہ کسی اور کا کیسے ہوگا پھر خود کو مار لوں گی نا میں بچوں گی نا آپ کی شادی کی خواہش پھر جب اللّٰہ کی طرف آپ سے سوال کیا جائے تو بتائے گا بیوی کو کہا تھا دوسری شادی کا قتل کروا کر آپ کے پاس آیا ہوں ..! عنادل اس کے پاس سے اٹھتے بیڈ پر جاکر لیٹ گئی تھی اور لائٹس آف کی تھی براق چاہتا تھا اس کو پر سکون کردے کہ وہ صرف اپنے دادا سائیں کے لئے اس کے ساتھ ایسا رویہ رکھے ہوئے ہے لیکن محترمہ تو بات سنیں بغیر ہی سونے کو چل دی اور براق یہ موقع گنوا بیٹھا تھا اور اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ کیا ضرورت تھی دوسری شادی کی بات کرنے کی۔
پارک میں آتے ہی حور اور دانیہ ساتھ ہی بینچ پر بیٹھی تھی کچھ دیر کے بعد دانیہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی تو ٹہلنے لگی اور کھلی ہواؤں کو محسوس کر رہی تھی ساتھ ہی کچھ دیر بعد جب اپنے ساتھ کسی کو چلتے دیکھ پیچھے موڑ کر دیکھا تو باسل اس کے ساتھ پیچھے پیچھے تھا باسل جو ساحر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا دانیہ کو اکیلے ٹہلتے دیکھ دانیہ کی طرف چل دیا تھا دوسری طرف ساحر حور کو اکیلے بینچ پر بیٹھے دیکھ رہا تھا جو نا جانے کونسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ اس کی قریب آتے ہی اس کے ساتھ بیٹھا تھا حور نے جب اپنے ساتھ کسی کو بیٹھے دیکھا تو اپنا چہرے کا رخ اپنی بائیں جانب کرکے دیکھا تو ساحر اسکو مسکرا کر ہی دیکھ رہا تھا۔ حور نے مسکراہٹ پاس کی تھی اور پھر آگے کی جانب دیکھنے لگی تھی ساحر کو اس سے یہی امید تھی وہ زیادہ بات نہیں کرتی تھی وہ جان گیا تھا۔ دانیہ پھر بغیر کچھ بولے آگے آگے کو چلنے لگی جبکہ باسل اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ آج بھی دانیہ نے اپنے آپ کو دوپٹے سے چھپایا ہوا تھا۔ آپ جس طرح میرے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اِس سے تو یہ ہی لگ رہا ہے جیسے آپ لڑکی پٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ آپ کو بھاؤ نہیں دے رہی تبھی اُس کے پیچھے پیچھے آپ ہیں .! دانیہ کی زبان زیادہ دیر چپ نا رہ سکی اس لئے بولی تھی۔ اوروہ جو بول گئی تھی شاید ہی کسی نے بولا ہو باسل کو یا پھر کسی نے بھی نہیں ..!!! باسل اب کی بار اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اب ٹھیک لگ رہا ہے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں اب تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ میاں بیوی ہیں باسل نے بڑبڑاتے کہا تھا..! کچھ کہا آپ نے ... دانیہ نے اچنٹی نگاہوں سے گھورا تھا۔ نہیں میں نے تو کچھ نہیں کہا ..! باسل نے جلدی سے بتایا تھا۔ دانیہ پھر آگے آگے چلنے لگی۔
حور جو ہونز یونہی خاموش بیٹھی تھی ساحر نے پوچھا تھا۔ آپ یوں ہی خاموش رہتی ہیں ..؟؟ حور نے پھر اس کو دیکھا اور اب اس نے خاموشی توڑی تھی۔ جی میں اتنا ہی بولتی ہوں ..! یہ کہتے وہ پھر خاموش ہوئی تھی۔ زندگی کو کھل کر جینا چاہئیے شاید آپ کو باہر آنا نہیں پسند..؟ ساحر نے پہلے بتایا پھر پوچھا تھا۔ ایسی بات نہیں ہے مجھے باہر آنا پسند ہے پر بغیر وجہ کے کسی سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں حور کا اندازہ چبھتا تھا جسیے وہ ساحر کو کہہ رہی تھی جو بلا وجہ اس سے باتیں کر رہا تھا اور وہ کوئی جواب دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔ حور نے اتنی دیر دونوں کے بیچ چھائی خاموشی کے بعد ساحر کی طرف دیکھا جو خود بھی خاموش بیٹھا آگے کو دیکھ رہا تھا۔ حور نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ حیرت پریشانی خوف کتنے سائے اسکے چہرے پر لہرائے تھے۔ وہ اٹھتی ساحر کے آگے آکر کھڑی ہوئی تھی۔ ساحر حور کو اچانک اپنے پاس کھڑے دیکھ حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس کو دیکھنے لگا تھا۔ کیا ہوا ..؟؟ ساحر نے فکرمندی سے سوال اچھالا تھا حور جو خود پریشان تھی وہ اس مقام پر تھی جہاں اس کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا وہ جس کے قریب بیٹھی تھی جس کو اپنے قریب محسوس کرتی تھی وہ اور کوئی نہیں ساحر علی چودھری تھا آپ وہی ہیں نا ..! حور نے بے یقینی سی کیفیت میں پوچھا تھا۔ کون..؟ میں سمجھا نہیں..!! ساحر بھی کھڑا ہوا تھا اور اُس کو دیکھ رہا تھا جو جانے کیا بول رہی تھی یا پھر ایسا ظاہر کر رہا تھا جیسے اُسے کچھ معلوم ہی نہیں..! حور حیران تھی کیا یہ وہ نہیں تھا کیا ساحر وہ نہیں جس نے اُس کو اس رات بچایا تھا۔
ماضی
حور کو پڑھنے کا بہت شوق تھا باسل کے اجازت کے بعد وہ کالج میں پڑھنے کے لئے شہر میں لگی تھی۔ ہنستی مسکراتی پوری حویلی میں اچھلتی کودتی آج وہ اتنی خوش تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ سب کو ایک ایک کرکے بتائیں وہ شہر پڑھنے کے لئے جائے گی۔ باسل اپنی بہن کی خوشی کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ کلثوم بیگم بھی کچھ نہیں بول سکتی تھی نزاکت صاحب نے بھی اجازت دے دی تھی اور جمشید صاحب نے تو ہاں کردی تھی کیونکہ باسل ان سے بات کر چکا تھا۔ کل اس کا پہلا دن تھا کالج میں وہ اپنی ساری تیاریاں کر رہی تھی یہاں سے شہر جانے میں بہت مشکل ہونی تھی لیکن باسل نے حور کے لئے ایک ڈرائیور رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک ملازمہ اس کے ساتھ روز جانی تھی کیونکہ کاشان اس معاملے میں بہت سخت تھا وہ اپنی بہن کو ایک غیر مرد کے ساتھ قطع اکیلا کہی نہیں بھیج سکتا تھا اس کو اپنی بہن پر پورا بھروسہ تھا یقین تھا مان تھا لیکن ایک دن کے رکھے ہوئے ڈرائیور پر وہ چاہ کر بھی بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔ واہ بھئی واہ ..! حور تو شہر پڑھنے جائے گی عنادل اسکے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھتے اس کے کندھے پر کندھا مارے بولی تھی۔ حور کھلکھلائی تھی۔ آپی آپ کو پتا ہے سامیہ بھی میرے ساتھ اس ہی کالج میں لگے گی۔ حور کی بچپن کی دوست دنوں ایک ساتھ ہی اسکول میں پڑھتی تھی۔ حور مجھے وہ اچھی نہیں لگتی ہو سکیں تو اس سے دور ہی رہوں مجھے جانے کیوں اس کی سنگت تمہارے لئے ٹھیک نہیں لگتی ..! عنادل نے حور کو سمجھایا تھا۔ او ہو..! آپی ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو بہت اچھی ہے آپ کو ایسے ہی وہم ہو رہا ہے۔ اچھا ٹھیک ہے لیکن محتاط رہنا ..! ہمم آپ بے فکر رہیں حور اپنی کتابوں کو بیگ میں رکھتے بولی تھی۔
حال
دانیہ تنگ آچکی تھی باسل کو اپنے ساتھ یوں چلتے دیکھ
ایک بات بتائیں آپ تھوڑی دور ہو کر نہیں چل سکتے کیا یوں چپکنا ضروری ہے بندہ دور ہوکر چل لے پورا پارک خالی پڑا ہے ..! دانیہ نے خفگی سے کہا تھا۔ پارک تو پورا خالی پڑا ہے پر تمہارے ساتھ چلنے کا مزا کہی اور نہیں آئے گا اس نے شوقیہ لہجے میں بتایا تھا۔ کیوں میں کیا کوئی جوکر ہوں جو آپ کو تفریح ملے گی۔ دانیہ نے جل بھن کر سوال کیا تھا۔ باسل اس کو تنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتے حور کی طرف بڑھا تھا دانیہ اس پاگل انسان کو دور تک گھورتے رہ گئی تھی عجیب بندہ ہے تمہارے ساتھ چلنے میں مزا آتا ہے بھلا یہ کیا بات ہوئی وہ منہ بنا کر خود سے بڑبڑائی تھی۔
ساحر نے اسکی آگے چٹکی بجائی تھی۔ حور ماضی کے یادوں سے باہر نکلی تھی تبھی باسل اس کو اپنے پاس آتا دکھائی دیا تھا۔ حور باسل کے پاس جاتے بولی تھی بھائی اب حویلی چلیں کافی رات ہوگئی ہے۔ ہمم چلو باسل ساحر سے اجازت لیتے وہاں سے چل دیا جبکہ ساحر اور دانیہ بھی کچھ دیر بعد حویلی کو نکلے تھے۔
کاشان جو ہونز آدھا بیڈ پر تھا جبکہ پاؤں نیچے تھے ایمان اس کو یوں دیکھیں بولی تھی اوپر ٹھیک سے لیٹ جاؤں کاشان نے اُس کی بات سنتے فوراً اپنے آنکھوں سے بازؤں ہاٹئے اس کو دیکھا تھا جو خود بھی اسکو نہار رہی تھی۔
ایسے کیوں دیکھ رہے ہوں جب تک ہم یہاں ہے تم یہاں سو سکتے ہوں کیونکہ یہاں کوئی اور جگہ تو ہے نہیں لیٹنے کے لئے ایمان نے اب کی بار پھر بات کلئیر کی تھی کہی کاشان یہ نا سمجھ لے کہ ایمان کو اسکی فکر ہے۔ کاشان خود بھی ٹھیک ہو کر اوپر آیا تھا اور دانت پیستے بولا تھا۔ تم اتنی اچھی تو ہونے سے رہی کہ بولو تم سوجاؤ یہاں مجھے تم ہر پورا بھروسہ ہے ..! کاشان کی اس بات پر ایمان نے اس کو خونخوار نظروں سے گھورا تھا۔ میری پوری بات سن لو پھر جو آئے بول لینا ہم دونوں کے بیچ تکیے کے بارڈر لائن بنیں گی بولو منظور ہے ..! ایمان نے انگلی دیکھائے پوچھا تھا۔ ٹھیک ہے کاشان نے لچارگی سے کہا تھا۔ اور بیچ میں تکیے رکھے تھے۔ اب کچھ یوں تھا دونوں سائڈ تھوڑی تھوڑی جگہ تھی کاشان نے تو سوچا کیوں وہ نا زمین پر سوجائے کیونکہ اس جگہ کو دیکھ کر تو لگ رہا تھا کہ وہ ضرور آدھی رات کو زمین پر گرا پڑا ہوگا۔ کاشان اپنا رخ موڑے لیٹا تھا جبکہ ایمان نے بھی دوسری طرف کروٹ لی تھی۔ نا اس کو نیند آرہی تھی نا کاشان کو کاشان کبھی یہاں ہوتا کبھی وہاں وہ سوچ رہا تھا آخر وہ سوئے کیسے..!ایمان آنکھوں کو بند کئے سونے کی نا ممکن کوشش کر رہی تھی ایک دم کاشان اٹھ کر بیٹھا تھا۔ اور غصے میں آتے بولا تھا۔ اگر یہ دیوار ہمارے بیچ رہی تو یقیناً مجھے کبھی نیند نہیں آنی اور تمہارا مجھے نہیں پتا کیونکہ تم اتنی تو بے حس ہو ہی کہ تم سو سکتی ہو ..! لیکن میں یہاں زمین پر بھی نہیں سو سکتا ورنہ پھر میں تمہیں بیمار ملوں تو پورے پندرہ دن یہاں گھومنے کے بجائے میرے تیمارداری میں گزار دینا ایمان اس کے بیمار ہونے والی بات پر ایک جھٹکے سے اٹھی تھی اور اپنے اور اس کے بیچ رکھے تکیوں کو سائڈ پر رکھے بولی تھی اب سوجاؤ اور خدا کے لئے مجھے بھی سونے دوں لیکن اگر میرے قریب آنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا تمہارے لئے اور زمین پر گرنے کی کوشش بھی مت کرنا میں یہاں گھومنے آئی ہوں نا کہ تمہاری دیکھ بھال کرنے کے لئے۔ ..! ایمان پھر کروٹ لئے لیٹ گئی..! قریب بھی نہیں جانا اور نیچے بھی نہیں گرنا یہ معصوم بچا جائے تو جائے کہا..! گر گیا تو ضرور اتنی سردی میں ہڈی پر زخم تو لگے گا اگر قریب گیا تو میں خود ہی نہیں بچوں گا اسنے بڑبڑاتے ہوئے کروٹ لی تھی جبکہ ایمان اس کی بے تکی بات مسکرائی تھی۔
براق بھی بیڈ پر آتے لیٹا تھا جب تک وہ بیڈ پر آیا تب تک عنادل سو چکی شاید وہ سفر سے کافی تھک چکی تھی اس لئے براق بھی اس کے ساتھ ہی آتے اس کو اپنے حصار میں لئے لیٹا تھا۔ عنادل ہلکا سا کسمسائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلثوم بیگم کیچن سے کام کرتے کمرے میں آئی تھی۔ نزاکت صاحب ان کو کمرے میں آتے دیکھ بولے تھے۔ سب کچھ اچھے سے ہوگیا کتنا اچھا محسوس ہو رہا ہے نا انجانی خوشی کا گہرا تھا ہمم اللّٰہ کا شکر ہے سب کچھ ٹھیک سے ہوگیا کلثوم بیگم نے شکر کا سانس لیا تھا کہا وہ کل کو ڈرے ہوئے تھے ان کی بیٹی خوش رہ پائے گی کیا وہ ان کی بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں گے کہا آج وہ پر سکون تھے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے وہ جتنے سکون میں ہیں وہ برباد ہونے والا ہے ایک بار پھر وہ سب ختم ہونے والا ہے۔
حلیمہ بیگم کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ عباس صاحب ان کو گہری سوچ میں دیکھ بولے تھے خیر تو ہے آپ اتنی پریشان کیوں ہیں ..؟ مجھے براق کا رویہ کچھ بدلہ بدلہ لگ رہا تھا کل اور آج صبح جانے سے پہلے۔ حلیمہ بیگم نے اپنا ڈر بیان کیا تھا۔ آپ کو ایسا کیوں لگا۔ ..؟ وہ مکمل ان کی طرف متوجہ ہوتے بولے تھے۔ براق کا رویہ عنادل کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا جانے کیوں وہ اس کو دیکھ کر سخت بننے کی کوشش کررہا تھا جبکہ وہ اس سے چہرہ مورتی تو ایسے دیکھتا جسیے عنادل اسے کافی دور ہو مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا شاید کچھ غلط ہے ان دونوں کے بیچ جو یہ دونوں ہم سے چھپا رہے ہیں صبح بھی میں نے یہ بات نوٹ کی تھی لیکن اگنور کر گئی تھی حلیمہ بیگم فکر مندی سے بولی تھی آپ پریشان نا ہو اب تو وہ دونوں اکیلے باہر گئے ہیں ایک ساتھ وقت گزاریں گے تو ٹھیک ہو جائے گے۔ عباس صاحب نے انہیں تسلی دی تھی۔ ہمم..! ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ وہ بھی سر جھٹک کر بیٹھ گئی تھی۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback