Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 11.
شاہنواز چودھری کو جیسے ہی پتا لگا کہ جمشید علی خان ایمان اور کاشان کو کچھ دنوں کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ اکیلے وقت گزرانے کے لئے باہر بھیج رہے ہیں۔ تو انہوں نے بھی فوراً براق اور عنادل کی ناران کی ٹکٹ کروائی تھی۔ براق اب ان کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ تم اور عنادل بھی کل ہی ناران کے لئے نکل رہے ہوں انہوں نے حکیمانہ انداز میں کہا تھا۔ آپ سے ایک بات کہوں ایک پوتے کے اس دنیا سے جانے کا اتنا غم آپ کو نہیں ہوگا لیکن یقیناً میری زندگی جو آپ اُجاڑنا چاہ رہے ہیں اس کا بہت پچھتاوا ہوگا اگر یہی سب کرنا تھا تو کیوں جمشید علی کے ساتھ دوستی کا جھوٹا ناٹک کیا آپ نے!! اسے ہی ان کی پوتی کو یہاں لاکر برا سلوک کر لیتے کم از کم تب یہ بوجھ تو سینے پر نہیں رہتا کہ اس کے ساتھ ظلم کیوں کئے یہ کہنے جیسے تو رہتے کہ ونی میں لائے ہیں اور ونی میں آئی لڑکی کو کبھی قبول نہیں کیا جاتا براق نے افسردگی سے کہا تھا۔ شاہنواز چودھری اس کی بات غور سے سن رہے تھے۔ میں کچھ نہیں سننا چاہتا جیسا میں کہ رہا ہوں تم ویسا ہی کرو گے۔ اور اگر تم نہیں کیا تو تمہارا آج سے مجھ سے اور اس حویلی سے کوئی رشتہ نہیں ہیں انہوں نے دھمکی دی تھی۔ براق ان کو چہرے پر بے یقینی لئے تکے جارہا تھا۔ جو اتنے بے حس ہوگئے تھے جن کو انتقام کے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اپنی سالوں پرانی دوستی بھی نہیں جو ان کی جمشید علی کے ساتھ تھی۔ براق کی آگے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں رہی تھی وہ دو کشتی کا سورا بنا پھِر رہا تھا ایک طرف اس کے دادا سائیں دوسری طرف اس کی بچپن کی محبت! اپنے دادا کے لئے وہ اپنی محبت کو قربان کرنے کے لئے تیار تھا۔
دانیہ عنادل کے ساتھ کمرے میں تھی اور اس کی پیکنگ میں مدد کروا رہی تھی۔ بھابھی آپ سے ایک بات بولو..! دانیہ نے پوچھا تھا ہمم بولو ! عنادل اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ آپ وہاں جب جائے نا مجھے اپنی اور بھائی کی اچھی اچھی تصویریں بھیجئیے گا ٹھیک ہے وہ معصومیت سے اس کو بول رہی تھی۔ عنادل کو اس کے چہرے کی معصومیت پر پیار آیا تھا۔ وہ اس کو کیا بتاتی وہ نہیں جانا چاہتی لیکن حویلی کے لوگوں کے منانے پر جارہی ہے۔ براق اتنے میں کمرے میں آیا تھا دانیہ کو دیکھ مسکرایا تھا۔ بھائی آپ میری ایک بات مانیں گے نا۔ ! دانیہ اس کے قریب جاتے آنکھوں کو پٹ پٹائے بولی تھی۔ بولو بھائی کی جان ! آپ وہاں جاکر مجھے اچھی اچھی سی اپنی اور بھابھی کی تصویرں بھیجیں گے۔ براق نے عنادل کو دیکھا تھا جو انجان بنے پیکنگ کر رہی تھی۔ ٹھیک ہے۔ اس نے دانیہ کی بات مانی تھی۔ دانیہ اچھلتی کودتی کمرے سے نکل گئی تھی۔ براق عنادل کو ہی دیکھ رہا تھا جو پیکنگ کرنے میں اتنی مصروف تھی جیسے اس سے زیادہ اہم کوئی کام ہو ہی نا۔ براق نے اسکی طرف اپنے قدم بڑھائے تھے اس سے پہلے عنادل نے اپنے قدم ورڈراب کی جانب بڑھائے تھے براق صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا اور اپنے بازؤں کو سر پر رکھ کر بیٹھا تھا اس کے سر میں صبح سے درد تھا۔ لیکن وہ کس کو بتاتا کہ وہ بھی تکلیف میں ہے۔ حور تو ایمان کو دیکھ رہی تھی جو ایک ایک چیز کو سنبھال سنبھال کر پیک کر رہی تھی ایمان چاہے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن اب جاہی رہی ہے تو سب چیزوں کو دیکھ دیکھ کر رکھ ہی تھی۔ کہی کوئی ضرورت کا سامان رہ نا جائے وہ لوگ پندرہ دن کے لئے یہاں سے جارہے تھے۔ مری وہ پہلی بار جانے والی تھی حویلی سے آج تک وہ صرف اسکول گئی ہے یا بچوں میں کچھ تقسیم کرنا ہوتا تب بھی وہ گارڈز کو لے کر نکلتی اپنے پیچھے!! کاشان تو کمرے میں آئے اس کو دیکھ رہا تھا جبکہ حور وہاں سے کھسکی تھی۔ کاشان کو اس کی تیاریاں دیکھ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ وہاں رہنے جارہی ہے۔ ایک بات بتاؤں تمہیں تو حویلی نہیں جانا تھا۔..؟؟ کوئی جواب نا دیا تھا۔ جس طریقے سے تم یہ سب پیک کر رہی ہوں میں یہ بتا دوں تمہیں کہ وہاں سردی ہوگی تو تمہارے ایسے کپڑے لے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں ایسے ہی کپڑوں میں رہ لوں گی تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے خفگی سے کہا تھا۔ ٹھیک ہے اب نیچے آجاؤں میں تمہیں حویلی چھوڑ دوں اور ویسے بھی جب تم مجھے اپنا شوہر نہیں مانتی تو ویسے میرے ساتھ جانے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی کاشان کمرے سے جاتے ہوئے طنز کرنا نہیں بھولا تھا۔ ہنہہ! میں کونسا جانا چاہتی ہوں اس کے ساتھ وہ تو بس دادا سائیں۔ کے کہنے پر جارہی ہو۔ وہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔ سہی تو کہ کر گیا تھا جب اس کو شوہر نہیں مانتی تو کیوں نہیں منع کر پائی سب کو کہ وہ نہیں جانا چاہتی۔ ! اب وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ لیکن کچھ دیر بعد ہارن کی آواز سنتے اپنے پرس کو اٹھائے باہر کی طرف لپکی تھی۔ کاشان اسکو گاڑی میں بیٹھتے دیکھ گاڑی کو زن سے بھگاتا ایمان کے حویلی کے طرف روانہ ہوا تھا سارے راستے دونوں کے درمیان خاموشی کا راج تھا۔ اب کاشان کچھ نہیں بولنا چاہتا تھا ! اور ایمان حیران تھی وہ کچھ بول کیوں نہیں رہا اس کو صرف دو دن ہوئے ہے حویلی آئے ہوئے وہ اتنا تو جان گئی تھی۔ کاشان بہت ہس مکھ ہے اور باسل خان کے ہر معاملے کو لے کر بہت حساس ہے۔ایمان نے گاڑی حویلی کے آگے روکتے دیکھ دروازہ کھولا تھا اور باہر نکلی تھی۔ ساحر ایمان کو حویلی آتے دیکھ زور زور سے بولا تھا دانیہ امی بابا دادا سائیں۔ ایمان آئی ہے۔ ساحر تو اتنا خوش تھا کہ بھاگتا ہوا ایمان کے پاس آیا تھا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھے اس کو اپنے حصار میں لئے کھڑا تھا ایمان کے آنکھوں سے آنسوں نکلنے کو تھے جو ساحر کے بات پر اندر کا راستہ واپس دیکھ چکے تھے۔ رونا نہیں ہے تم نے۔ ! دانیہ بھی ایمان کو دیکھ اس کے گلے لگی عنادل بھی ایمان سے ملی تھی براق نے بھی ایمان کے سر پر ہاتھ رکھا تھا بس کردوں میں کوئی جنگ لڑ کر نہیں آرہی جو سب مجھ سے یوں مل رہے ہوں جیسے کئی سالوں بعد میں نے حویلی میں قدم رکھا ہے۔ ایمان نے شوقیہ انداز میں کہا تھا اب مجھے کوئی اندر نہیں آنے دے گا کیا ایمان نے سب کو راستے سے ہٹایا تھا اور خود صوفے پر بیٹھی تھی دانیہ تو اس کے ساتھ چپک گئی تھی جبکہ دوسرے سائیڈ عنادل بیٹھی تھی۔ حلیمہ بیگم ایمان کو دیکھ رہی تھی جو عنادل اور دانیہ کے بیچ گہری ہوئی تھی۔ آپی ایک بات پوچھو آپ کہا جارہی ہے دانیہ نے اچنٹی نگاہوں سے گھورا تھا ایمان تو اس کے پھوپھیوں والی حرکت دیکھ کر ہی قہقہ لگائے بنا نا رہ سکی تھی میں مری جارہی ہوں اور عنادل تم کہا جارہی ہو بھائی کے ساتھ ایمان نے عنادل کے کندھے سے کندھا کو مارتے پوچھا تھا۔ ناران اس نے مسکراہٹ سجائے بتایا تھا۔ آپی آپ نے مجھے تصویریں بھیجنی ہے اپنی اور کاشان بھائی کی دانیہ اسکے سامنے بھی یہی فرمائش کی تھی عنادل نے ایمان کے قریب ہوتے کہا تھا کچھ دیر پہلے مجھے بھی یہی آڈر ملا ہے کہ تصویریں بھیجنی ہیں عنادل کی بات پر ایمان اور عنادل دونوں ہنسی تھی۔ دانیہ بھی ان دونوں کو دیکھ کھسیانی ہنسی ہنسی تھی۔
یہی شام کو کاشان بھی ان سب لوگوں کے ساتھ موجود تھا ہنسی مذاق کرتے یہ دن بھی نکلا تھا۔ کاشان اور ایمان حویلی کو واپس چل دئے تھے عنادل بھی اپنے کمرے چل دی اور دانیہ نے حور کو میسیجز کرنا شروع کر دیے تھے حور اسکے اتنے سارے میسیجز دیکھ مسکرائی تھی اس نے اتنی ساری تصویریں بھیجی تھی حور اتنا تو جان چکی تھی دانیہ کو سیلفیز لینے کا بہت شوق ہے۔
کیسی لگی؟ دانیہ کا میسج دیکھ حور مسکرائی تھی اور بولی بہت اچھی ! شکریہ میں ہوں ہی اچھی !! اس نے اپنی تعریف کی تھی وہ دانیہ ہی کسی جو باز آجائے اچھا کیسی ہو؟ حور نے پوچھا تھا۔ ٹھیک ہو بلکل میں تو اور تم کیسی ہو؟ میں بھی بلکل ٹھیک ہوں اچھا کبھی حویلی میں خود کو اکیلا محسوس کرو تو یہاں آجانا دونوں مل کر گپے لگائیں گے دانیہ نے اس کو آفر دی تھی۔ ٹھیک ہے میں آجاؤ گی حور نے اس کی بات مانی تھی اچھا اب میں جارہی ہوں امی بولا رہی ہیں بعد میں بات ہوگی حور نے کہا تھا تھوڑی دیر بعد حور بیڈ پر آکر آرام سے بیٹھ گئی تھی۔ عنادل کمرے میں آتے ہی فریش ہوکر بیڈ پر آئی تھی براق جو کمرے میں آیا تھا۔ عنادل جو صبح سے بلکل خاموش تھی اس کی خاموشی براق کو اندر ہی اندر کھائی جا رہی تھی براق اس کے پاس آیا تھا اور اس کو جھٹکے سے اپنے سینے سے لگا گیا تھا وہ جانتا تھا عنادل باہر سے اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کر رہی ہے لیکن وہ اندر سے ٹوٹ اور بکھر رہی ہے۔ وہ اس کو سمیٹنا چاہتا تھا اس کو بتانا چاہتا تھا اس کی آنکھوں میں دیکھے اور جانے کے وہ مجبور ہے۔ عنادل اس کے سینے سے آ لگی تھی۔ ہچکیوں کی آواز پر براق نے اس کو اپنے سامنے کیا تھا جو رو رہی تھی۔ عنادل نے اس کو اب بھی نہیں دیکھا تھا اور نا کچھ بولا تھا بس وہ روئے جا رہی تھی۔ براق نے اسکے چہرے پر آئے آنسوں صاف کرنے چاہے عنادل نے اپنا چہرہ دوسری طرف کیا تھا براق نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی تھی۔ وہ خود ہی اس کے دل میں اپنے لئے نفرت ڈال رہا تھا۔ براق کی آنکھوں سے نکلتا موتی عنادل کے ہاتھوں پر گرا تھا۔ عنادل نے اچانک سر اٹھا کر براق کو دیکھا تھا جس کی آنکھیں بند تھی لیکن آنسوں آنکھوں سے رواں تھے آج وہ عنادل کے سامنے رویا تھا آج سے پہلے وہ سب کو کہتا تھا محبت صرف انسان کو کمزور کر دیتی ہے لیکن آج وہ خود اپنی محبت کے آگے کمزور ہوگیا تھا عنادل اس کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی عنادل کی بھی آنکھوں سے آنسوں بنا روکے نکل رہے تھے۔ براق !! کل سے طویل خاموشی کے بعد آج پہلی بار اس نے براق کو پکارا تھا براق نے اپنی آنکھوں کو کھولے اسے دیکھا تھا۔ جو اب اس کو دیکھ رہی تھی۔ کالی گہری سیاہ آنکھوں میں پانی بھر رہا تھا۔ براق نے قریب جاتے ہی اس کی آنکھوں پر اپنے لب رکھے تھے براق کا لمس محسوس کرتے عنادل کی آنکھوں سے آنسوں ٹپ ٹپ کرتے نکل رہے تھے۔ براق اس سے دور ہٹتے کمرے سے باہر نکلا تھا۔ عنادل بیڈ پر بیٹھے روئے جارہی تھی اس کے آنسوں اس کے قابو میں نہیں تھے۔ اور وہ دشمن جان اس کو اپنے لمس دیتا پھر سے اس کو چھوڑ گیا تھا۔ ابھی تو اس نے سہی سے براق کو محسوس بھی نہیں کیا تھا اور وہ پھر اس کو اکیلا کر گیا تھا۔ وہ اس کے سینے سے لگ کر پوچھنا چاہتی تھی وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے۔
براق ریش ڈرائیونگ کرتے بنا آؤ تاؤ دیکھے بس گاڑی چلا رہا تھا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دیکھ اسنے ایک بلیڈ نکالی تھی گاڑی کو روکے اس نے اپنے ہاتھ میں جگہ جگہ مارنی شروع کردی تھی۔ خون کا فوارہ چھوٹا تھا کپڑے خون سے بھر چکے تھے وہ اپنے آپ کو تکلیف دینا چاہتا تھا۔ اور وہ اپنے آپ کو تکلیف دے رہا تھا۔ کس قدر ازیت میں تھا وہ یہ صرف براق ہی محسوس کرسکتا تھا وہ کسی کو اپنا درد نہیں بتا سکتا تھا۔
کاشان اور ایمان حویلی آتے سب کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ایمان کلثوم بیگم کے ساتھ کچھ دیر باتیں کرنے کے بات اوپر کمرے میں چل دی تھی۔ کاشان جمشید صاحب باسل اور نزاکت صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔ کاشان تم نے پیکنگ کر لی ہے..؟؟ باسل نے پوچھا تھا۔ جی کرلی ہے پیکنگ کاشان نے سادھے سے لہجے میں جواب دیا تھا۔ کوئی پریشانی ہے تمہیں؟ نزاکت صاحب اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ بولے تھے مجھے کیا پریشانی ہونی ہے میں تو بلکل ٹھیک ہوں اب میں چلتا ہوں کل نکلنا بھی تو ہے کاشان ان کی بات کو ٹالتے کمرے سے نکلا تھا۔ باسل کو کاشان کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ سوچ کر جانے دیا کہ شاید تھک گیا ہوں۔
کاشان کمرے میں آتے ہی چینج کئے بیڈ پر پڑا اپنا تکیہ اٹھائے صوفے پر لیٹا تھا۔ ایمان نے اسکی خاموشی نوٹ کی تھی اتنے چھوٹے سے صوفے پر کاشان کیسے لیٹتا وہ چھ فٹ کا اور صوفے کو دیکھا جو مشکل سے تین فٹ کا تھا بامشکل وہ اس پر لیٹا تھا۔ ایمان اس کو ہلتے دیکھ بولی تھی۔ تم بیڈ پر آکر سوجاؤ ! نہیں تم وہاں سوجاؤ میں یہاں ٹھیک ہوں کل بھی یہی سویا تھا آج بھی گزارا کرلوں گا اور ویسے بھی تمہیں میرے بیڈ پر آنے سے غیر معمولی سا محسوس ہوگا اس نے کروٹ بدلی تھی۔ ایمان اس کی اکڑ دیکھ رہی تھی ایک تو وہ اس کو بیڈ پر سونے کا بول رہی ہے اور اس کی اکڑ ہی ختم ہی نہیں ہوکر دے رہی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی وہ خود بیڈ پر نہیں آنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس نہیں آنا چاہتا تھا۔ وہ دور رہنا چاہتا تھا جہاں ایمان نے اسے سب کے سامنے ہیپی کپل کی طرح رہنے کا بولا ہے وہاں اس بات کا یہی مطلب ہوا تھا کمرے میں وہ اس کو اپنا شوہر نہیں مانتی تھی اس کے لئے یہ صرف ایک مجبوری کا رشتہ ہے اس کے علاؤہ کچھ نہیں۔ ایک تو تمہیں میں بیڈ پر سونے کا بول رہی ہوں اور تم نخرے دیکھا رہے ہو ! ایمان بولے بنا نا رہ سکی تھی۔
ایمان صاحبہ آپ کو پھر ساری رات نیند نہیں آنی کے میں آپ کے قریب نا آجاؤ ویسے بھی ان چاہے شوہر کا قریب آنا ضرور تمہاری عزت نفس کو گوارہ نہیں کرے گا تو بہتر ہے لائٹس آف کرو اور سوجاؤ کاشان نے برف کی مانند سرد لہجے میں بولے بات ختم کی تھی ابھی وہ کسی قسم کی بحث کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ایمان کچھ دیر یہی بیٹھی رہی تھی۔ اور اس کو دیکھتی رہی جو کروٹ بدل کر لیٹ چکا تھا لائٹس آف کردو اس کی آواز پر اس نے کمرے کی لائٹس بند کی تھی اور سونے کے لئے لیٹی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلثوم بیگم نزاکت صاحب اور جمشید علی نے ایمان اور کاشان کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ وہ دنوں اپنی آگے کی منزل کو نکل گئے تھے اب دیکھنا یہ تھا کیا ایمان اس کو قبول کرے گی یا ساری زندگی کاشان کو اس کے گناہوں کی سزا ملے گی۔ وہ لوگ اس وقت جہاز میں سارے عمل کی بعد اپنی جگہ دیکھ کر بیٹھ چکے تھے۔
عنادل اور براق بھی حویلی سے نکل چکے تھے۔ کیا عنادل جان پائے گی۔ براق کی مجبوری یا پھر براق اسے ہی اپنے اوپر نفرت اور سنجیدگی کا کھول چڑھائے رہ گا۔
دانیہ آرام سے بیٹھی تھی۔ ابھی عنادل کو حویلی سے نکلے ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا اور وہ ابھی سے اسے یاد کرنا شروع ہوگئی تھی عنادل سے وہ اچھی خاصی منسلک ہوگئی تھی۔ حور اور دانیہ کی کال پر اب روز بات ہوتی تھی حور کے لئے تو وہ بلکل چھوٹی بہنوں کی طرح تھی۔ دانیہ کدھر ہو تم !! حلیمہ بیگم نے آواز دی دانیہ چھوٹے چھوٹے قدم لئے ان کے پاس گئی تھی جو صوفے پر بیٹھی تھی سارے کام کرکے۔ حلیمہ بیگم دانیہ کو یوں اداس دیکھ بولی تھی۔ خیر تو ہے آج اتنی خاموش خاموش کیوں ہو؟ حلیمہ بیگم کو دانیہ کی خاموشی کھٹکی تھی میں سوچ رہی ہوں کس سے باتیں کروں دانیہ نے اپنا دکھ ان کے گوش کیا تھا۔ !! اچھا تو ایسا کرو ساحر کے ساتھ باہر آئسکریم کھانے چلی جاؤ دانیہ خوش ہوئی تھی۔ لیکن ایک اور چیز اس کے دماغ میں چلنے لگی اور چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آئی تھی۔ امی میں حور کو بھی بولا لو !! معصومیت کے ریکارڈ توڑے تھے۔ ہاں بیٹا اس کے ساتھ چلی جاؤ اگر اسے کوئی مئسلہ نا ہو تو۔ انہوں نے اجازت دی تھی جس کے بعد دانیہ بھاگتی ہوئی کمرے میں گئی تھی۔
ایمان کھڑکی والی سائڈ بیٹھی تھی جب کے کاشان بیچ میں تھا کیونکہ اس کے برابر والا سیٹ پر ایک لڑکا بیٹھا تھا جو ایمان کو گھورے جارہا تھا۔ اور کاشان کبھی ایمان کو پیچھے کر دیتا کبھی خود آگے ہوجاتا لیکن وہ لڑاکا شاید ڈھیٹ تھا۔ بھائی صاحب میری بیوی سے اپنی گندی نظریں ہٹا لیں کہی ایسا نا ہو یہاں خون خرابا ہوجائے۔ کاشان نے طنزیہ مسکراہٹ سجائے وارن کیا تھا۔ اس لڑکے نے خوف سے چہرہ ہی دوسری طرف موڑ لیا تھا۔ ایمان باہر کی طرف دیکھ رہی تھی کچھ دیر بعد وہ جہاز ہلکے ہلکے پہلے چلنے لگا ایمان کی سانسیں حلق میں اٹکی تھی۔ جیسے ہی وہ پرواز کے لئے اڑا ایمان نے زور سے اپنی آنکھوں کو بند کیا تھا۔ کاشان جان گیا تھا وہ ڈر رہی ہے اس لئے اس نے ایمان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور اس کو دیکھا تو جو آیتیں پڑھ رہی تھی۔ کاشان مسکرایا تھا۔
عنادل بھی براق کے ساتھ ہی تھی براق نے عنادل کو دیکھا جو کپکپا رہی تھی۔ میں گرنے لگی ہو مجھے بچاؤ ! وہ زور سے چیخی تھی۔ براق نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا پاگل ہوگئی ہو سب دیکھ رہے ہیں اور نیچے نہیں دیکھو عنادل بار بار نیچے دیکھ رہی تھی جس کی وجہ سے اس پر اور خوف طاری ہوا تھا میں گر جاؤں گی۔ یہاں سے گر کر تو میری ہڈیاں بھی نہیں ملیں گی ہم کیا ٹرین میں سفر نہیں کرسکتے تھے..؟ اس جہاز میں سفر کرنا ضروری تھا کیا ..!!؟؟ عنادل نے براق کو غصے سے گھورا تھا۔ براق نے اسے اپنے بازؤں کے حلقے میں لیا تھا۔ کچھ نہیں ہوتا تمہیں بس آنکھوں کو بند کرو۔ اور سوچو کے تم ابھی حویلی میں آرام سے صوفے پر بیٹھی ہوں براق نے اس کی کمر کو سہلایا تھا جس سے قدرے اس کا ڈر ختم ہوا تھا۔ براق نے اس کو دیکھا جو اس کے سینے میں سر رکھے سو گئی تھی۔ براق نے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے ڈرپوک حسینہ۔
تم ڈرتی بھی ہو؟ کاشان نے ایمان سے پوچھا تھا ایمان اپنی آنکھوں کو پورا کھولے اس کو دیکھ رہی تھی جو اس کا مذاق بنا رہا تھا۔ میں نہیں ڈرتی کسی سے !! ایمان نے اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کیا تھا۔ اچھا پر ابھی تو تمہاری حالت کچھ اور ہی بتا رہی ہے کہ تم ڈر سے کپکپا رہی ہو کاشان اس کے ساتھ لڑ کر اسکا دھیان ہٹانا چاہتا تھا تاکہ وہ اس کے ساتھ لڑنے میں مصروف رہے اور اتنی دیر میں جہاز لینڈ ہو جائے۔ منہ بند رکھو اپنا میں نے کہا میں نہیں ڈر رہی تھی۔ ایمان نے اس کے گریبان کو پکڑتے خونخوار نظروں سے گھور بتایا تھا۔ اچھا ! کاشان کی نظریں اس کے ہونٹوں کی جانب تھی۔ دیکھوں مجھے یقین نہیں آنے والا تو تمہاری محنت بیکار کی ہے اس نے کندھے آچکائے تھے۔ بھاڑ میں جاؤ میں نے کیا تمہیں یقین دلانے کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔ ایمان رخ موڑے بیٹھی تھی اب کی بار جب اس نے باہر دیکھا اتنی دیر میں وہ لینڈ کر چکے تھے اس نے چہرے کو موڑے کاشان کو دیکھا تھا جو اس کو اپنے آپ کو تکتا پاکر مسکرایا تھا۔ ایمان اب سمجھیں تھی وہ کیوں بلا وجہ اس سے بنا بات کے لڑ رہا تھا۔ وہ بھی مسکرائی تھی۔ کاشان نے پہلے بار اس کو اپنے ساتھ مسکراتے دیکھا تھا۔ چلو اب کچھ دیر بعد وہ ائیرپورٹ سے نکلتے گاڑی میں بیٹھے تھے۔ آگے ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا جبکہ ایمان باہر کا نظارہ دیکھ رہی تھی۔ اس وقت برف باری ہورہی تھی۔ میں تو ہلکے ہلکے کپڑے لے کر آئی ہوں یہاں تو برف گر رہی ہے ایمان نے کاشان سے کہا تھا جو خود باہر دیکھ رہا تھا۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا گرم کپڑے پیک کرو اب میں کیا کر سکتا ہوں اس نے اپنے کندھے اچکائے تھے۔ کیا مطلب میں کیا کروں بیوی ہوں تمہاری کچھ تو خیال کرو میں تو یہاں ٹھنڈ سے ہی مر جاؤں گی ! بیوی ہنہہ!! شوہر ہونے کا حق تو پہلے ہی تم مجھ سے چھین چکی ہو اس لحاظ سے تو صرف حویلی کی حدود تک میں تمہارا شوہر ہوں میں ٹھیک نہیں کہہ رہا کاشان نے خفگی سے کہا تھا۔ ایمان نے اس کو دیکھا جو سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔
عنادل اٹھو !! براق نے اس کو ہلایا تھا۔ جو اس کے سینے کو اپنا بستر سمجھ کر سر رکھے ہوئے تھے۔ ہمم ! ہم پہنچ گئے اس نے موندی موندی آنکھوں کو کھولے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا۔ ہاں پہنچ گئے ہیں اٹھو ..! عنادل اس کے ساتھ کچھ دیر بعد گاڑی میں بیٹھی تھی۔ وہ لوگ ایک شاندار ہوٹل میں۔ ناران میں رہنے والے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ ہوٹل میں پہنچ چکے تھے۔ سامان ان کا کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا کچھ دیر بعد وہ کمرے میں موجود تھے۔
ایمان اور کاشان بھی۔ ہیل ٹوپ ولا نامی ہوٹل میں رہنے والے تھے۔ وہ دونوں بھی اپنے کمرے میں پہنچ چکے تھے۔
دانیہ حلیمہ بیگم سے پوچھتے ہی ساحر کے ساتھ حور کے پاس چل دی تھی۔ حور دانیہ کو حویلی میں آتے دیکھ اس کے طرف بڑھی تھی۔ دانیہ نے جاتے ہی اسکو اپنے گلے سے لگایا تھا تم یہاں کیسے؟ حور نے پوچھا تھا۔ اتنی سی دیر میں باسل حویلی میں داخل ہوتا اس حسینہ کو دیکھ رہا تھا۔ جو سر پر دوپٹے کو بار بار ٹھیک کر رہی تھی۔ خیر تو ہے یہاں بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔ باسل نے آتے ہی مسخرے پن میں بولا تھا۔ دانیہ حور کے قریب جاتے ہی اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے بولی تھی تمہارا بھائی پاگل ہے۔ حور نے اسکو آنکھیں دکھائی تھی۔ اچھا اچھا نہیں کہتی کچھ بھی دانیہ نے دور ہوتے تسلی دی تھی اسکو ساحر بھی گاڑی کو پارک کئے اندر آیا تھا۔ اب وہ چاروں آرام سے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں یہاں اس لئے آئی ہوں۔ دعوت دینے آئی ہوگی۔ آج رات کو ہمارے یہاں کھانا رکھا ہے دادا سائیں نے!! باسل نے پھر ٹانگ اڑائی تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے دانیہ نے قدرے ادب سے کہا تھا۔ اتنا ادب سے کہتے بھی وہ شاید اس کی بے عزتی کر گئی تھی جو باسل نے محسوس کی تھی۔ میں اس لئے آئی ہوں کہ میں اکیلا محسوس کر رہی تھی گھر میں تو سوچا تمہارے ساتھ آئسکریم کھانے ہم باہر جائے دانیہ نے جلدی بولا تھا کہی پھر باسل کچھ اور نا کہہ دے۔ ٹھیک ہے حور جائے گی باسل نے حور کی جگہ جواب دیا تھا میں امی سے پوچھ لیتی ہوں حور کھڑی ہوئی تھی ساحر کی نظریں حور کو دور جاتے دیکھ رہی تھی۔ جب تک وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی اس کی نظریں حور پر ہی تھی۔ کون کون جارہا ہے باسل نے دانیہ سے پوچھا تھا باسل کو حور کو تنگ کرنے میں مزا آرہا تھا اور وہ اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا میں ساحر بھائی اور حور!! دانیہ نے صاف گوئی سے جواب دیا تھا۔ جب تم تینوں جاہی رہے ہوں تو میں بھی چلتا ہوں۔ دانیہ نے کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دیا تھا۔ حور کچھ دیر بعد چادر سے خود کو ڈھانپے آئی تھی۔ چلیں ! دانیہ کھڑی ہوتے بولی تھی۔ باسل اور ساحر باہر نکلے تھے۔ وہ سب لوگ ساحر کی گاڑی میں جانے والے تھے۔
عنادل کمرے میں آتے ہی چینج کرنے چل دی تھی کچھ دیر بعد وہ باہر آئی !! اب اسنے گرم کپڑے پہنے ہوئے تھے جس سے اس کو آپ ٹھنڈ کم لگ رہی تھی لیکن لگ رہی تھی۔ براق اس کو دیکھ رہا تھا جو ہاتھوں کو مسل رہی تھی۔ اپنے ہاتھ کو گرم کرنے کے لئے۔ براق بیڈ پر آتے بیٹھا تھا۔ ٹھنڈ لگ رہی ہے۔ عنادل نے اسکی طرف دیکھا جو پل میں کچھ پل میں کچھ کیا میں اس انسان کو سمجھ سکوں گی اس نے صرف دل میں ہی سوچا تھا۔ کیا۔ہوا؟ میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔ نہیں!! اس نے جھوٹ بولا تھا اور نظریں جھکا گئی تھی۔ براق اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔ اور ہیٹر چلایا تھا وہ جانتا تھا اس کو سردی لگ رہی ہے۔ عنادل شرمندہ سی ہوئی تھی۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback