Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 10

 www.urdunovelbank.com

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 10.

اپنی بہو کے آتے ہی بیٹا کون ہے آپ تو شاید بھول گئی کاشان نے حلیمہ بیگم کو تنگ کیا تھا کاشان ایمان کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھا تھا جبکہ جمشید صاحب کو کمرے میں ناشتہ دیا گیا تھا ان کے طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور نزاکت صاحب ڈیرے پر صبح سویرے ہی چلے گئے تھے۔ حویلی میں صرف ایمان حور کاشان اور کلثوم بیگم تھے۔ ایسی بات نہیں ہے ! اچھا تو کیسی بات ہے؟ کاشان نے زچ کرنے والے انداز میں پوچھا تھا اور اس کے ساتھ بیٹھی ایمان کھانے کے ساتھ انصاف کر رہی تھی۔ اور حور بھی کھانا کھاتے ان دونوں کی باتوں کے مزے لے رہی تھی۔ آپ کی بہو کو تو کچھ خیال ہی نہیں ہے شوہر نے ابھی کھانا شروع بھی نہیں کیا اور میڈم کھانے کے ساتھ انصاف کر رہی ہیں کاشان نے ترچھی نظروں سے ایمان کو دیکھتے مزاحیہ لہجے میں کہا تھا ایمان کے کھاتے ہاتھ رکے تھے اس نے کاشان کی پلیٹ میں ایک بریڈ رکھی اور گلاس میں جوس نکال کر دیا ساتھ ہی آملیٹ اس کے قریب کیا تھا۔ وہ اس طریقے سے اس کے پاس چیزیں رکھ رہی تھی جیسے ان کو توڑنا چاہتی ہوں اور کاشان ایک ایک چیز اس کے ہاتھ سے لیتے مسکرا رہا تھا۔ کلثوم بیگم ان کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور کاشان کی حرکت سے وہ اچھے طریقے سے واقف تھی وہ ایمان کو تنگ کرنے کے لئے یہ سب کر رہا تھا۔ حور ایمان کے غصے میں لال ہوتی ناک کو دیکھے اپنی ہنسی روکے بیٹھی تھی۔ میں نے تو کرلیا میں تو چلی حور اپنے کمرے کو چل دی۔ میں بھی زرا بابا سائیں کو دیکھ کر آؤں انھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں کلثوم بیگم کا بھی رخ جمشید صاحب کے کمرے کی طرف تھا۔ ایمان بڑی بڑی آنکھیں نکالتے کاشان کو گھور رہی تھی یہ کیا حرکت تھی؟ کیا حرکت مکمل انجان بنتے پوچھا تھا۔ وہی جو کچھ دیر پہلے تم نے کی ہے ایمان بھی ڈھیٹ اپنے منہ سے کچھ نا بولنا تھا اس نے۔ اچھا وہ تم نے ہی کہا تھا سب کے سامنے ایک ہیپی کپل کی طرح رہوں تو میں سکھا رہا ہوں ہیپی کپل کیسے رہتے ہیں کاشان نے سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا اور وہاں سے واک آؤٹ کرگیا تھا ایمان حیران تھی کاشان کا کونسا سائیڈ اصلی وہ جو صبح اسنے دیکھا تھا جب وہ رو رہا تھا یا پھر کچھ دیر پہلے جو ہنس رہا تھا یا پھر وہ جو ابھی اس نے دیکھا سنجیدہ وہ خود کنفیوز ہوکر رہ گئی تھی۔ باسل خان اور ساحر علی ایک ساتھ تھے کیونکہ ایک طرف باسل خان کی بہن کا ولیمہ تھا جبکہ اُس طرف سے ساحر کی بہن کا ولیمہ تھا اور وہ دونوں نے شاید دروازے پر کھڑے ہونے کا کام سنبھالا تھا سب کے استقبال کے لئے۔ مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے ہم گارڈ بن گئے ہیں ساحر نے باسل کے پاس آتے سرگوشی نما آواز میں کہا تھا مجھے بھی کچھ یہی فیلنگز آرہی ہیں ابھی تو حویلی چلو کونسا ابھی ہم نے یہاں کھڑا ہونا ہے شام کو آنا ہے میں تو بس چیک کرنے آیا تھا یہاں کھڑے ہوکر کیسا لگتا ہے۔ ساحر بولا تھا۔ ہمم چلو ! دونوں اپنی اپنی حویلی کو چل دئیے تھے۔ عنادل حویلی سے باہر نکلی تھی براق گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔ عنادل نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس میں بیٹھی تھی۔ اس نے براق کو دیکھا جس کے چہرے پر سخت تاثرات تھے۔ کل سے لیکر صبح تک تو اس کا موڈ بلکل ٹھیک تھا ان کو اچانک کیا ہوا عنادل نے سوچا تھا۔ 

وہ گاڑی سٹارٹ کئے آگے کے طرف دیکھے بغیر کچھ بولے گاڑی کو چلا رہا تھا آپ پریشان ہیں؟ عنادل نے پوچھا تھا جب کچھ دیر تک کوئی جواب نا ملا تو پھر اس نے پوچھا تھا کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائے میں آپ کے ساتھ ہوں اس نے براق کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا براق نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ دور کیا تھا عنادل کی آنکھوں میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا تھا کچھ ہوا ہے؟ میں نے کچھ کیا ہے؟ اب کی بار رندھی ہوئی آواز میں سوال کیا تھا۔ پارلر کے آگے گاڑی روکتے اس نے باہر کی جانب اشارہ کیا تھا عنادل اپنے آنسوں صاف کئے باہر نکلی تھی ابھی وہ باہر نکلتے کچھ بولتی کے وہ گاڑی کو زن سے بھگا لے گیا تھا۔ 

حور حویلی میں تیار ہورہی تھی آج اس نے باربی فروک پہنی تھی جس کا رنگ آسمانی تھا ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔ وہ تقریباً تیار ہوچکی تھی بس جیولری رہتی تھی۔ 

دانیہ نے بھی پیارے سے فروک میں جو ہرے رنگ کا تھا۔ اس نے بالوں کو جوڑے میں قید کیا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی جیولری وہ پہن رہی تھی 

ایمان حویلی سے نکلتے کاشان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی حویلی کی سبھی لوگ ہال پہنچ جانے تھے ان لوگوں کے پہنچنے سے پہلے!! کاشان نے گاڑی اپنے راستے کو دوڑائی تھی۔ ویسے میں سوچ رہا ہوں کیوں فالتو میں ولیمہ رکھ لیا ہمارا تمہارا تو ویسے بھی مجبوری کا رشتہ ہے آج نہیں تو کل ٹوٹ ہی جانا ہے۔ اتنا پیسہ خرچ کیوں کریں۔ کاشان نے پریشان ہوتے کہا تھا۔ تمہیں رشتہ ٹوٹنے کی پریشانی ہے یا پھر پیسے خرچ ہونے کی؟ اس نے جانچتی نظروں سے گھورا تھا وہ کیا ہے نا رشتہ ٹوٹنے کا اتنا دکھ نہیں ہے لیکن پیسے خرچ ہونے کا ہے ! دیکھو تمہارا تو نہیں پتا لیکن تمہارے بعد میری تو پوری زندگی پڑی ہے نا مجھے شادی تو کرنی ہے نا کاشان نے بیچ کا راستہ نکالا تھا۔ ایمان منہ کھولے اس کو دیکھے جارہی تھی جو اپنی آگے کے پلیئنگ اس کو بتا رہا تھا۔ جب شادی کا بتا دیا ہے تو اپنے بچوں کے نام بھی بتا دو ایمان نے جل بھن کر کہا تھا۔ ہاں یہ بات تو ٹھیک کہی تم نے اگر لڑکی ہوئی تو عائشہ اگر لڑکا ہوا تو عمار اس نے بھرپور زچ کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔ یہ لو پارلر آگیا چلو نکلو گاڑی سے اب مجھے اور بھی کام ہے مجھے بھی حویلی جانا ہے اس کے بعد پھر تمہیں لینے آنا ہے اس نے احسان جتاتے ہوئے بتایا تھا تو مت آنا میں کونسا تمہارے ساتھ جانے کے لئے مری جارہی ہوں ایمان گاڑی سے نکلتے دروازے کو زور سے بند کئے پارلر کے اندر چل دی تھی

کاشان مسکراتا ہوا گاڑی کو بھگا لے گیا تھا۔  

شاہنواز چودھری گرم جوشی سے جمشید صاحب سے ملے تھے عباس چودھری اور نزاکت صاحب بھی ایک دوسرے کے گلے لگے تھے۔ ہالز کے لائٹس آف ہوئی تھی عنادل براق کے ہمراہ چلتے ہوئے آرہی تھی کچھ لوگ ان کی جوڑی کو دیکھ سراہے بنا نا رہے کچھ لوگوں کی نظر میں حسد تھی تو کچھ کی نظروں میں پیار تھا مان تھا۔  

براق اور عنادل ایک ساتھ بیٹھے تھے براق ہونز سنجیدگی کے ساتھ کچھ بھی بولے بغیر بیٹھا تھا۔ جبکہ عنادل کو یہ چیز اندر اندر کھائے جارہی تھی براق کو اچانک کیا ہوگیا ہے صبح تک تو وہ بلکل ٹھیک تھا۔ کچھ دیر بعد کاشان اور ایمان بھی آئے تھے۔ کاشان اور وہ بھی اپنی جگہ بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک کیمرہ مین براق اور عنادل کے پاس کھڑا تھا جبکہ ایک ایمان اور کاشان کے پاس کیمرہ مین کھڑا تھا۔ سر آپ میم کے قریب آئے کاشان فوراً ایمان کے قریب ہو اتھا جبکہ ایمان اس سے دور ہوئی تھی۔ میم دور نہیں ہوئے آپ کیمرہ مین کے بات پر ایمان کا پارہ ہائی ہوا تھا۔ کاشان نے مسکرا کر معصوموں کی طرح ایمان کو دیکھا تھا۔ جبکہ دوسری طرف کیمرہ مین براق کو بھی کچھ یہی بول رہا تھا لیکن وہ پوز بنا ہی نہیں رہا تھا۔ سر دیکھیں آپ تھوڑا قریب آئے۔ اب کے بار وہ بھی زچ آگیا تھا۔ مجھے نہیں بنوانی کوئی بھی تصویر براق نے غصے سے کہا تھا۔ عنادل بھی ڈر گئی تھی اس کے غصے سے۔ کاشان اور ایمان نے لڑتے جھگڑتے پوز بنوائے تھے جبکہ عنادل اور براق نے مشکل سے کوئی ایک تصویر بنوائی تھی۔ کچھ دیر بعد فنکشن اختتام کو پہنچا تو سب اپنے اپنے گھر کو چل دئے۔ ایمان کمرے میں آتے ہی فریش ہونے کو چل دی۔ کاشان تو اس کی سپیڈ دیکھ رہا تھا۔ جبکہ حور کمرے میں جاتے ہی بیٹھ کر رونے لگی تھی۔ اس کو کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ کلثوم بیگم اس کے کمرے میں کسی کام سے آئی تھی حور کو یوں روتے دیکھ اس کے پاس جاتے اپنے گلے سے لگایا تھا۔ کیا ہوا بیٹا رو کیوں رہی ہو؟ وہ پریشان ہوئی تھی کہ حور کو اچانک ہوا کیا ہے۔ امی مجھے ایسا لگ رہا ہے۔ کچھ غلط ہونے والا ہے ایسے کیوں کہہ رہی ہو کیسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتاؤ انہوں نے حور کے چہرے کو تھوڑی سے اٹھائے پوچھا تھا۔ کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔ سب اچھا چل رہا ہے۔ پر مجھے لگ رہا ہے جو ہوا ہے یہ سب ٹھیک نہیں ہوا امی مجھے ڈر لگ رہا ہے عنادل آپی کے لئے براق بھائی سہی انتخاب ہیں کاشان بھائی ایمان کو خوش رکھ پائیں گے۔ وہ ہچکیوں کے درمیان بول رہی تھی۔ کچھ بھی غلط نہیں ہوگا تم پریشان نہیں ہو اور عنادل کے لئے براق کا انتخاب غلط نہیں ہوگا۔ کاشان کی تربیت میں نے ایسی کری ہے کہ وہ کبھی ایمان کے ساتھ غلط نہیں کرے گا۔ اپنے آنسوں صاف کرو اور فضول خیالات کو دماغ سے نکال دو۔ وہ اس کے سر پر پیار کرے اٹھی تھی اور کمرے سے باہر نکلی تھی۔ پیچھے حور نےا پنے آنسوں صاف کئے تھے۔ 

عنادل کمرے میں آتے براق کو دیکھتی ہے جو بغیر اس کو دیکھے چینجنگ روم کی طرف چل دیتا ہے۔ عنادل براق کے اس رویے کو صبح سے سمجھنے سے قاصر تھی اس لئے وہ براق کے باہر آنے کا انتظار کرتے خود بیڈ پر بیٹھی تھی۔  

تھوڑی دیر بعد براق باہر نکلے آئینے کے سامنے کھڑے اپنے بالوں کو ٹھیک کرتے کمرے سے باہر نکل رہا تھا جب عنادل نے اس کے ہاتھ کو پکڑا تھا اور خود اس کے آگے کھڑی ہوئی تھی۔ براق میری طرف دیکھیں روندھی ہوئی آواز میں کہا تھا جو رونے کی وجہ سے ہوگئی تھی۔ براق ہونز اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ عنادل نے ہاتھ سے اس کا چہرہ اوپر کرنا چاہا تھا لیکن براق نے اپنا رخ موڑ لیا تھا۔ آپ کی خاموشی مجھے مار دے گی۔ عنادل نے اپنے روکے ہوئے آنسوں کو باہر آنے کا راستہ دیا تھا اور خود اس کے سامنے زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔ براق نے ایک نظر اس کو دیکھا اور اپنی آنکھوں کو ضبط سے بند کرگیا تھا۔ میں مر جاؤں گی آپ کی ایک دن کی خاموشی آپ کی عنادل سے برداشت نہیں ہوسکی آپ کیوں اپنی خاموشی سے اپنی عنادل کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔ آپ تو مجھ سے بچپن سے عشق کرتے ہیں نا تو کیوں یہ سب کر رہے ہیں میری تکلیف تو آپ برداشت نہیں کرسکتے نا تو کیوں اپنی عنادل کو تکلیف دے رہے ہیں وہ اپنی ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے بول رہی تھی جیسے ان لکیروں میں کچھ ڈھونڈنا چاہتی ہوں یا پھر یہ دیکھنا چاہتی ہو کیا یہی تھی اس کی زندگی ایک دن اس پر خوب پیار نچھاور کیا گیا پھر اس کو زمین پر لا کر پٹخ دیا گیا کیا کیا خواب اس نے بُن لئے تھے ایک دن کے اندر اس کے سارے خواب جیسے ٹوٹنے کو تھے۔ نہیں کرتا میں تم سے کوئی محبت یا عشق ! براق نے سفاکیت سے کہا تھا جبکہ اس کا دل ہی جانتا تھا وہ یہ سب کیسے کہہ رہا ہے عنادل نے اس کا سہارا لے کر کھڑا ہونا چاہا لیکن وہ دور ہوگیا تھا۔ عنادل اس کی اتنی بے رخی دیکھے با مشکل اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تھی۔ کیوں مجھے اپنے پیار کا یقین دلایا کیوں میرے جزبات کا قتل کیا۔ کیوں کیوں؟ وہ روتے روتے اس کے سینے پر اپنے ہاتھ مار رہی تھی۔ ویسے حیرت ہے ایک دن میں تمہیں یقین بھی آگیا میرے پیار پر اس نے اس کے روئے ہوئے چہرے کو دیکھا تھا آنکھیں جو رونے کی وجہ سے سوجھ چکی تھی جبکہ بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ تو وہ سب کیا تھا ! اس کو اپنے حواس پر قابو پانا مشکل لگ رہا تھا اس کو لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے پاؤں پر زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکے گی۔ اس کے قدم پیچھے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ بیوی اور شوہر کا رشتہ ایک مقدس رشتہ ہوتا ہے جس کا آپ نے مذاق بنادیا ہے۔ جب یہ سب ہی کرنا تھا تو کل اتنا اچھا بننے کی کیا ضرورت تھی کم از کم مجھے کل ہی میری جگہ یا آپ کی نظروں میں میری حیثیت سے آگاہ کر دیتے تو آج مجھے اتنا دکھ نہیں ہوتا۔ رو رو کر اس نے اپنا حال برا کر لیا تھا براق پر ایک زخمی نگاہ ڈالے اس نےا پنے آپ کو واشروم میں بند کرلیا تھا۔ براق کے آنکھوں سے آنسوں نکلے تھے۔ مضبوط اعصاب کا مالک آج رو دیا تھا۔ وہ یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اگر وہ یہ سب نہیں کرتا تو شاہنواز صاحب عنادل کو ایک منٹ بھی اس حویلی میں برداشت نہیں کرتے۔

 ایمان فریش ہوئے اپنے بالوں کو ٹھیک کئے بیڈ سے تکیے کو اٹھائے صوفے پر چل دی تھی۔ جبکہ کاشان اس کی ایک ایک حرکت کو غور سے ملاحظہ فرما رہا تھا۔ اِدھر آکر سوجاؤ میں ظالم نہیں ہو جو تمہیں پوری رات وہاں سونے دوں کل کو پتا لگے کہ کاشان خان نے اپنی بیوی کو صوفے پر سونے کا بولا ہے کاشان نے طنز کیا تھا۔ اور اٹھ کر خود صوفے کی جانب آیا تھا جبکہ ایمان تو آرام سے بیڈ پر جاتے ہی لیٹ گئی تھی دونوں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ کمرے میں چھائی خاموشی کاشان کو کاٹ دوڑنے کو تھی۔ ایک بات کا جواب دو گی۔ اس نے خاموشی توڑی تھی۔ ایمان نے کوئی جواب نا دیا تھا۔ تم نے صرف اس ایک بات کو اپنے دل میں بٹھا لیا ہے جبکہ میں تم سے معافی مانگ چکا ہوں کہوں گی تو پوری زندگی تم سے معافی مانگنے کو تیار ہوں لیکن اتنی بے رخی برداشت نہیں کرسکتا۔

اب بھی خاموشی کا راج تھا کمرے میں نا ہی وہ بول رہی تھی نا کاشان نے آگے کوئی سوال کیا تھا۔ مجھے جواب چاہئیے تم سے! کاشان بولا تھا۔ کس چیز کے جواب کے تم منتظر ہو ایمان ہونز لا پرواہ سے انداز میں گویا ہوئی تھی۔ ساری زندگی تمہاری یہی بے رخی مجھے سہنی ہے؟ پھر خاموشی ! جواب کا انتظار ہے مجھے! میں تمہیں جواب دینے کی پابند نہیں ہوں! ایمان نے روکھے پن سے کہا تھا۔ اور اگر میں کہوں ایک دن تم مجھ سے سوال جواب کروں گی اس دن تمہیں میری طرف سے کوئی جواب نا ملے گا۔ کاشان اس وقت خود نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں یہ سب بول رہا ہے۔ بددعا دے رہے ہو ایمان کے لہجے سے لگ رہا تھا شاید وہ ڈر رہی ہے۔ کاشان خان کبھی تمہیں کوئی بد دعا نہیں دے سکتا کاشان کی آنکھوں سے آنسوں نکلتے تکیے میں جذب ہورہے تھے۔ ایمان کچھ پل کو ٹھٹکی تھی اس کی روندھی ہوئی آواز پر جو رونے کی وجہ سے بھاری ہوئی تھی۔ ایمان کا دل کیوں پتھر کے مانند سخت ہوگیا تھا۔ وہ جان نہیں پارہا تھا۔ کیا اس کا گناہ اتنا بڑا تھا؟ ایمان کے دماغ میں یہ سوچ گردش کرنے لگی تھی نہیں نہیں میں نہیں بھول سکتی وہ دن جب اس نے مجھے میرے رنگ پر طعنہ دیا تھا۔ لیکن کیا اتنی چھوٹی بات کو دل سے لگا کر بیٹھنا غلط نہیں؟ پھر وہ کنفیوز ہوئی تھی۔ جو شخص مجھے میری خامیاں گنوا سکتا ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور مجھ میں ایسا کیا ہے جو وہ میرے ساتھ اپنا وقت ضائع کرے گا۔ کاشان کی کہی ہوئی بات اس کے دل میں جیسے بیٹھ گئی تھی۔ آدھی رات کو ایمان کی انکھ پیاس کی وجہ سے کھولی تھی اس نے اپنے پاس پڑے جگ میں دیکھا جس میں پانی نہیں تھا۔ اس نے لائیٹس کھولی تو صوفے پر کاشان نہیں تھا۔ کاشان کو یہاں موجود نا دیکھ وہ کچھ پل کو حیران ہوئی تھی۔ لیکن اپنا سر جھٹک کر جگ کو اٹھائے کمرے سے نکلتے کچن کے جانب چل دی تھی۔ پانی کو لئے وہ کمرے میں جانے والی تھی لیکن کچن کے ساتھ ہی ایک کھڑکی تھی جو باہر لان کی طرف کھولتی تھی۔ وہ کاشان کو اتنی دیر رات وہاں دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔ جو جائے نماز کو کھلے آسمان کے نیچے رکھے اس پر بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا۔ آنسوں نماز پڑھتے ہوئے رواں تھے۔ ایمان کا دل بہت دکھا تھا۔ وہ جلدی سے کمرے کی جانب بھاگی تھی وہ یہاں روک کر اپنے آپ کو کمزور نہیں کرنا چاہتی تھی۔  

مضبوط مرد بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ یا اللّٰہ آپ جانتے ہیں کہ میں بہت شرمندہ ہوں مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے میری کونسی بات ایمان کو زیادہ ہرٹ کر گئی ہے وہ کیوں مجھ سے اتنی بد گمان ہے۔ کیوں وہ میرے علاؤہ سب سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے۔ یا اللّٰہ کیوں مجھے تکلیف ہورہی ہے اسکے اس لہجے سے میں مر جاؤں گا کیا کوئی اتنی شدت سے محبت کر سکتا ہے مجھے محبت نہیں اس سے مجھے اس سے عشق ہے ایسا عشق جس میں میں اپنے آپ کو ختم کرنے کے لئے تیار ہوں ایسا عشق جو مجھے آج سے پہلے کسی سے نہیں ہوا ایسا عشق جس میں اس کی خوشی کے لئے میں سب کچھ چھوڑ کر بہت دور جانے کے تیار ہوں جہاں میرا سایہ بھی اس پر نا پڑے ایسا عشق جس میں اس کو میرے بغیر سکون ملتا ہے۔ تو میں نہیں آؤں گا اس کے سامنے!!! وہ جائے نماز اٹھائے سائیڈ پر رکھے کچھ دیر یہی کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ رہا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا سائیں میں سوچ رہا ہوں بچوں کو کچھ دن اکیلے وقت گزارنے کے لئے باہر بھیج دوں نزاکت صاحب نے جمشید صاحب کو بتایا تھا۔ ہمم!! کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو ایسا کرو ان لوگوں کی مری کی ٹکٹ بک کروا دوں اچھا ہے کچھ وقت ساتھ گزارے لے جمشید صاحب کوئی دقیانوسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لئے انہوں نے فوراً ہاں کی تھی ٹھیک ہے میں کرواتا ہوں کاشان جو نیچے آیا تھا۔ ایمان کے برابر والی کرسی میں بیٹھا تھا۔ اس نے ایک بار بھی ایمان کو آنکھ اٹھائے نہیں دیکھا تھا۔ کلثوم بیگم نے ہی نزاکت صاحب صاحب سے بات کی تھی تاکہ وہ لوگ کچھ وقت اکیلے گزار سکیں اس لئے انہوں نے جمشید صاحب کے آگے یہ بات رکھی تھی۔ باسل تو بس ہانک لگائے رہ گیا تھا۔ ہائے میری کب شادی ہوگی۔ اس نے بس سوچا ہی تھا بولنا یہاں اس نے مناسب نا سمجھا تھا کہی جمشید صاحب اپنے دوست کی بیٹی سے اس کی شادی نا کروادے ویسے بھی وہ ہمیشہ سے اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں کہ افرح بہت اچھی تم اس سے شادی کرلوں اس طریقے سے ہماری دوستی بھی آگے قائم رہے گی لیکن یہاں باسل کی نظر ان کی دوسرے دوست کی پوتی پر تھی۔ بھائی آپ مری جائے گے وہاں کا موسم کتنا اچھا ہوگا نا۔ حور چہک کر بولی تھی۔ دادا سائیں میں ابھی کہی نہیں جانا چاہتا۔ کاشان نے صاف گوئی سے بات کی تھی۔ کیوں نہیں جانا چاہتے!! بچی کو لے کر جاؤں اور کچھ وقت ساتھ گزاروں جمشید صاحب نے سخت لہجے میں حکم دیا تھا۔ بچی تو راضی ہے نہیں اپنے شوہر کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے اس نے بس سوچا ہی تھا۔ ایمان نے کاشان کی طرف دیکھا تھا جو محسوس کر سکتا تھا ایمان کی نظریں اس پر ہی ٹکی ہوئی تھی۔ دادا سائیں آپ ایمان سے پوچھ لیں وہ چاہے گی تو میں راضی ہوں کاشان یہ کہتے کرسی کو دور یہ گاڑی کی چابی کو لئے پورچ کی طرف نکل گیا تھا۔ ایمان بیٹا تم نہیں جانا چاہتی دادا سائیں نے اس انداز میں پوچھا تھا۔ وہ لاکھ انکار کرنا چاہے بھی تو منع نہیں کر سکی تھی۔ دادا سائیں۔ میں راضی ہو میں جانا چاہتی ہوں لیکن اس سے پہلے میں آج حویلی جانا چاہتی ہوں۔ ایمان نے اجازت طلب لہجے میں پوچھا تھا۔ ہاں ہاں جاؤ بلکہ کاشان تمہیں خود چھوڑ کر آئے گا۔ لیکن میں چلی جاؤں گی دادا سائیں! اس کا کاشان کے ساتھ جانے کا بلکل بھی کوئی موڈ نہیں تھا لیکن۔ بیٹا تم اکیلی کیسے جاؤ گی میں کاشان کو بول دوں گا وہ تمہیں چھوڑ دے گا۔

عنادل نے رات کو کافی دیر خود کو واشروم میں بند رکھا تھا۔ اب تو اس کی آنکھوں کی آنسوں بھی خشک ہوچکے تھے۔ وہ رات کو اپنے مردہ قدموں سے بیڈ پر آئی تھی کمرے میں وہ اکیلی تھی۔ اس کی ساری رات یہی سوچتے گزری تھی۔ یہ سب اس کے ساتھ کیوں ہوا!! اب جب وہ اٹھی تھی تب اس دشمن جان کو آئینے کے سامنے کھڑے خود پر پرفیوم لگاتے دیکھ بالوں کو ٹھیک کرتے دیکھ کچھ پل کو ششدہ رہ گئی تھی۔ اس نے اپنا حال کیا بنا لیا تھا اور وہ تھا جس کو عنادل کی تکلیف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ براق اپنے اوپر عنادل کے نظروں کی تپش محسوس کر سکتا تھا۔ عنادل کچھ دیر اس کو یہی دیکھتی رہی پھر کچھ سوچ کر پاؤں میں چل کو اڑستے واشروم فریش ہونے کے غرض سے چل دی یا یوں کہا جائے پھر وہ اپنے دل کو ہلکا کرنا چاہتی تھی براق جو اپنے آپ کو مضبوط بنائے کھڑا تھا۔ ایک دم موڑا تھا۔ اور پاس پڑے صوفے میں ڈھے سا گیا تھا۔ جہاں عنادل واشروم میں رو رہی تھی وہاں براق بھی اندر ہی اندر مر رہا تھا۔ اس کا رواں رواں کہہ رہا تھا عنادل کو زور سے گلے لگائے اور اس کو اتنا پیار دے جس کی وہ حقدار ہے۔ لیکن وہ یہ سب نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اس کو بتانا چاہتا تھا وہ مجبور ہے۔ کہاں آج تک کسی نے براق چودھری کو یوں ٹوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ آج وہ اندر ہی اندر ٹوٹ رہا تھا۔ عنادل واشروم سے نکلتے ہی آئینے کے سامنے آگئی تھی۔ رونے کی وجہ سے آنکھیں سوجھی ہوئی تھی جو براق نے صوفے پر بیٹھے دیکھی تھی براق نے اس کا بغور جائزہ لیا شاید وہ اس کو اپنے اندر اتار لینا چاہتا ہو وہ اپنے بالوں کو بنائے دوپٹے کو ٹھیک سے سر پر سیٹ کئے باہر نکلی تھی۔ براق نے اس کو دیکھا جس نے ایک نظر اس کو دیکھنا بھی گوارہ نا کیا تھا۔ وہ لمبی سانس ہوا کے سپرد کئے کمرے سے نکلا تھا۔ نیچے آتے عنادل نے سب کو سلام کیا تھا۔ سب ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے۔ شاہنواز چودھری نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا جبکہ حلیمہ بیگم نے اس کے سر پر پیار کیا تھا۔ عباس صاحب نے بھی اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ دانیہ تو سب کو دیکھ ہی رہی تھی جیسے یہاں کوئی فلمی سین چل رہا ہو ساحر تو دانیہ کی شکل دیکھ کر ہنسنے والا ہوا تھا۔ براق بھی نیچے آتے ہی اس کے ساتھ ہی کرسی کھینچے بیٹھا تھا۔ شاہنواز صاحب نے براق کے چہرے کا بغور جائزہ لیا تھا وہ سمجھ گئے جو کہا تھا وہ کام ہورہا ہے۔ امی مجھے یہ بتائے۔ میں جب بھی سلام کرتی ہو تو کوئی مجھ سے اس طریقے پیش نہیں آتا اتنے پیار سے اس دانیہ نے منہ پھلایا تھا دانیہ کے بات پر عباس صاحب نفی میں سر ہلاتے رہ گئے تھے۔ بیٹا یہ بات بتاؤ کبھی تم وقت پر اٹھی ہو یا پھر میری کبھی کسی کام میں مدد کروائی ہے۔ یا پھر میری کوئی بات مانی ہے۔ حلیمہ بیگم نے ستائشگی نظروں سے دیکھا تھا دانیہ کے منہ کو تالا لگا تھا وہی ساحر کا قہقا چھٹا تھا۔ عنادل بھی ہنس رہی تھی ان لوگوں کی باتوں پر بیچاری دانیہ پر اس کو ترس آیا تھا۔ جو رونے والی ہوئی تھی۔ اچھا اب رونا نہیں!! ساحر نے کہا تھا۔ روئے میرے دشمن دانیہ نے اپنا آنسوں کو باہر آنے سے روکا تھا۔ براق عنادل کو دیکھ رہا تھا۔ جو ہنس رہی تھی اس کو عنادل کی مسکراہٹ بہت بھلی لگی تھی۔ عنادل کی نظریں براق کے نظروں سے ٹکرائی تھی جب براق کے چہرے پر چٹانوں سی سختی نے جگہ لی تھی۔ عنادل نے بھی اپنا رخ ان سب کی جانب کیا تھا جبکہ براق نے پھر عنادل پر پھر نظریں مرکوز کی تھی۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments