Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 08.
اس دیوانگی اس کے ہر انداز سے جنون ظاہر ہوتا تھا وہ پاس نہیں تھا لیکن ہر دفعہ کچھ ایسا کرتا جس سے عنادل کا دل گھبرا جاتا تھا آج بھی وہ ایسی کشمکش میں تھی اس کے کمرے میں یہ بوکیں آئے کب کیونکہ وہ تو سورہی تھی۔ اس نے اپنا سر جھٹکا اور اس کو ٹیبل پر رکھے باہر نکلی تھی۔ ناشتے کے بعد آج اسکو بیوٹیشن تیار کرنے آنے والی تھی اور اِدھر سے سیدھا ہی ہال میں پہنچنا تھا۔ عباس صاحب تو موبائل پر ہر تھوڑی دیر بعد کال میں لگ جاتے کیوں نا لگتے آج ان کے گھر کے چشم وچراغ سردار براق کی شادی تھی۔ یہاں ساحر بھی غائب تھا جس کی وجہ سے عباس صاحب کافی پریشان تھے۔ براق عباس صاحب کے پاس آتے بولا تھا۔ بابا سائیں آپ کسی چیز کو لے کر پریشان ہیں میں کب سے دیکھ رہا ہوں کوئی بات ہے۔ براق نے ان کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ اررے نہیں بیٹا۔ ساحر کہیں دیکھ نہیں رہا اس سے ہال کے بارے میں پوچھنا تھا۔ بابا سائیں وہ بس آتا ہی ہوگا۔ لو آگیا۔۔۔! براق نے حویلی کے داخلہ دروازے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ساحر ہاتھ میں کافی چیزیں پکڑے آیا تھا۔
یہ کیا ہے؟ عباس صاحب نے پوچھا تھا۔ بابا سائیں یہ سب ایمان کے لئے ہے میری طرف سے میں نے گفٹ لئے ہیں ساحر نے ایک ایک چیز ایمان کی پسند کی لی تھی۔
ہمم ٹھیک! تم نے سارے انتظامات دیکھ لئے۔ عباس صاحب کے چہرے پر صاف پریشانی کے آثار دیکھ رہے تھے۔ جی بابا سائیں سب کچھ پرفیکٹ ہے بس اب تو شام کو نکلنا ہے۔ اور بھائی آپ بھی ایک بار اپنا کُرتا پہن کر دیکھ لیں آپ نے اس کو پہن کر دیکھا نہیں ہے کہی آخری وقت پر کوئی مئسلہ نا ہوجائے ساحر نے اس کو مشکل سے بچانے کے لئے کہا تھا کہ آخری وقت پر کوئی مئسلہ نا ہوجائے۔
ہمم تم ٹھیک کہہ رہے ہوں میں پہن کر چیک کرتا ہوں براق نے اس کی بات سے اتفاق کیا تھا وہ ٹھیک ہی کہ رہا تھا۔
حور نے اتنے بھاری بھرکم جوڑے کو دیکھا اور کمرے سے نکلتی کلثوم بیگم کے پاس آئی تھی۔
امی ! امی! وہ زور زور سے بولتے پوری حویلی کو سر پر اٹھا چکی تھی سارے ملازم تو پریشان ہوگئے تھے کہی ان سے تو کوئی غلطی نہیں ہوگئی۔ کیونکہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ضرور باسل خان نے ان کو نکال دینا ہے کام سے۔
ہاں کہو ! کیوں پوری حویلی کو سر پر اٹھایا ہوا ہے۔
امی میں اتنا بھاری جوڑا کیسے پہنوں گی۔ آپی کی شادی ہے میری نہیں اس نے جیسے ان کو یاد دلایا تھا وہ بہت ہی پیارا سا جوڑا تھا جو گلابی رنگ کا تھا۔ اتنا بھاری نہیں تھا جتنا حور نے کہا تھا ! کیا خرابی ہے اس میں اتنا پیارا تو ہے کتنے مختلف موتیوں کا کام ہوا ہے اس میں اور کہا بھاری ہے آجکل تو لڑکیاں کتنے بھاری بھاری ڈریس پہنتی ہیں اور تم اتنا ہلکا سا ڈریس نہیں پہن سکتی۔ کلثوم بیگم نے غصہ کیا تھا۔ امی مجھ سے نہیں پہنا جائے گا یہ۔ اس نے چہرے کے زوائیے بگاڑے تھے۔ کیوں نہیں پہنوں گی شرافت سے جاؤ اپنے کمرے میں اور تم یہی پہنوں گی میں دیکھتی ہوں کیسے نہیں پہنتی تم یہ ڈریس۔ انہوں نے تنبیہ کی تھی۔
اچھا جارہی وہ منہ بناتے اپنے کمرے میں چل دی کیونکہ آج اس نے عنادل کے ساتھ تیار ہونا تھا اور یہ بھی کلثوم بیگم کی انوکھی خواہش تھی۔ کلثوم بیگم تو حور کی تبدیلی پر حیران تھی اب وہ رات کو اٹھ کر ڈر کر چیختی نہیں تھی۔ شاید وہ اب ٹھیک ہورہی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی اس کو جس شخص کی آنکھوں میں دیکھ کر سکون ملتا ہے وہ اس کو اکثر اپنے پاس محسوس ہوتا ہے۔
عنادل نے لال جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا کچھ دیر بعد بیوٹیشن نے آنا تھا۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی شاید اس کو خود کو یقین نہیں آرہا تھا وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہے۔ دودھیا رنگت پر پڑھتی سورج کی روشنی اور نکھر رہی تھی۔ میک اپ سے پاک صاف چہرہ گھنی آنکھوں کے جھالر جو کبھی جھکتے تو کبھی اٹھتے وہ کنفیوز تھی۔ لیکن کس بات سے وہ ابھی خود نہیں سمجھ پارہی تھی۔ اس کو بس اتنا بتایا گیا تھا۔ کہ اس کی شادی کے ساتھ ان کے حویلی سے بھی ایمان کو رخصت کرکے یہاں لایا جائے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی شاہنواز چودھری نے اپنے پوتے کے خون کو معاف کردیا ہے اب وہ دھوم دھام سے اپنے پوتے براق کی شادی کر رہے ہیں۔
ایمان نے بھی۔ لال رنگ کا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا اس نے ایک دفعہ صرف ایک دفعہ اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ اس کو آج اپنے آپ سے جیسے عشق ہوگیا تھا۔ سانولی رنگت آج وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔ وہ ابھی اپنے آپ کو ٹکٹکی باندھے آئینے کے سامنے کھڑے دیکھ رہی تھی جب دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھولتے دانیہ آئی تھی۔ اپنے دوپٹے کو سنبھالتے آج بھی وہ ایمان کو تنگ کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھی۔
ایمان نے اسے دیکھا جو کبھی ادھر سے دوپٹے کو پکڑتی تو کبھی اُدھر سے۔ کیا ہوا ہے وہ سمجھ تو گئی تھی لیکن پوچھنا مناسب سمجھا تھا۔ آپی آپ کو دیکھ نہیں رہا یہ دوپٹہ مجھ سے نہیں سنبھالا جارہا وہاں دیکھے براق بھائی اور ساحر بھائی تیار ہوگئے ہیں اور اِدھر میرا دوپٹہ قابو نہیں آکے دے رہا۔ اِدھر دکھاؤ اس نے دانیہ کے ہاتھوں دوپٹہ لئے اس کو سیٹ کیا تھا۔ جبکہ ایمان خود اپنی میکسی کو سنبھالتے اس کا دوپٹہ ٹھیک کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ حلیمہ بیگم کمرے میں ایمان کو دیکھنے آئی تھی جو خود دانیہ میں لگی ہوئی تھی۔ بیٹا کیا کر رہی ہوں تم ۔۔ حلیمہ بیگم پریشان ہوئی تھی ایمان کی یہاں آج شادی تھی اور دانیہ اپنا مئسلہ لئے بیٹھی تھی۔ امی دانیہ کا دوپٹہ ٹھیک کر رہی ہوں۔ تم چھوڑو میں کرتی ہو تم ادھر بیٹھ جاؤ۔ انہوں نے دانیہ کو گھوری سے نوازہ تھا جو اب اپنا منہ بنا گئی تھی۔ کیا ہوگیا ہے امی !! ایمان کو ان کا یوں اس کو سائیڈ پر بیٹھنے کا بولنا اچھا نہیں لگا تھا بیٹا تمہارا میک اپ خراب ہو جائے گا ابھی ہی بیوٹیشن تمہارا میک اپ کر کے گئی ہے اور اس کے مسئلے ہی نہیں ختم ہوتے۔ اب کی بار انہوں نے دانیہ کو غصے سے دیکھا تھا۔ دانیہ اپنی نظریں جھکا گئی تھی۔
کچھ دیر بعد شاہنواز چودھری کی حویلی کے گاڑیاں ایک کے بعد ایک منزل کو نکلی تھی دوسری طرف سے جمشید علی کی حویلی کے لوگوں کی گاڑیاں بھی اپنے راستے کو روانہ ہوئی تھی۔
ہال میں شاہنواز چودھری کی فیملی پہنچ چکی تھی ایمان کو برائیڈل روم میں بٹھایا گیا تھا۔ شاہنواز چودھری کو بے صبری سے جمشید علی کا انتظار تھا۔ تھوڑی دیر بعد کئی گاڑیاں ایک ساتھ روکی تھی۔ گاڑی سے نکلتے ہی عنادل کو برائیڈل روم میں بٹھایا گیا تھا۔ جبکہ حور سمیت سب لوگ ہال میں داخل ہوئے تھے۔ دانیہ جس کا دوپٹہ حلیمہ بیگم نے سیٹ کیا تھا وہ واپس اپنی پرانی حالت میں موجود تھا۔ اب وہ اپنے دوپٹے کو سنبھالتی بغیر سامنے کسی کو دیکھے چل رہی تھی جبکہ نزاکت صاحب عباس صاحب کے پاس موجود تھے اور جمشید صاحب شاہنواز صاحب کے پاس ایسے ہی ایمان اور عنادل برائیڈل روم میں بیٹھی تھی۔ تو۔ حور اپنی امی کلثوم بیگم کے ساتھ تھی جبکہ کلثوم بیگم حلیمہ بیگم کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی اور وہ تھی جو کبھی اِدھر دیکھتی کبھی اُدھر دانیہ زور سے کسی سے ٹکرائی تھی۔ آہہہ..! بندہ دیکھ کے چل لے میرا سر توڑ دیا وہ عجیب عجیب چہرے بنارہی تھی جبکہ باسل اس کی ساری کاروائی کو دیکھ رہا جس سے ایک دوپٹہ نہیں سنبھالا جارہا تھا۔ دانیہ نے کافی دیر مقابل کی آواز نہیں سنی تو اپنے جھکے سر کو اٹھائے سامنے کھڑے انسان کو دیکھا تھا جو آرام سے اس کو دیکھنے میں مگن تھا۔
دانیہ نے اس کو دیکھا تو دیکھتی رہ گئی جو آج بھی کالے رنگ کے شلوار کمیز میں ہاتھ میں برانڈڈ گھڑی پہنے۔ بالوں کو جیل سے سیٹ کئے۔ برانڈڈ شوز پہنے۔ آنکھوں کو چھوٹی چھوٹی کئے اوپر کے ہونٹ جو مونچھوں کی وجہ سے چھپے ہوئے تھے۔ جبکہ اس کے چہرے پر سے صاف ظاہر تھا وہ مسکرا رہا ہے۔ ہلکی سے بیرڈ میں وہ دانیہ کا دل دھڑکا گیا تھا۔ دانیہ اپنی منتشر ہوتی سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی جو کیسی اور ہی لے میں دھڑک رہی تھی۔ یہ مجھے دیکھ کر کن سوچوں میں ڈوب جاتی ہے باسل یہ صرف سوچ ہی سکا تھا۔ اب مجھے یونہی گھورتے رہے گے یا ہٹے گے بھی میرے سامنے سے دانیہ نے اس کو اپنے آگے سے ہٹنے کو بولا تھا۔ باسل نے اس کو راستہ دیا اس کی نظر دور جاتی دانیہ پر ہی تھی۔ اچانک اس کو دور جاتے دیکھ اس نے دانیہ کو اپنے قریب کھینچا تھا۔ دانیہ ابھی لڑکھڑا کر گرتی کہ باسل نے اس اپنی مضبوط حصار میں لیا تھا۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ وہ چیختی کہ باسل نے اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔ جبکہ دوسرا ہاتھ اس کے پشت کی طرف تھا۔ دانیہ کو اس کا ہاتھ اپنی کمر پر رینگتا محسوس ہوا تھا وہ اس کے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔ اور بڑی بڑی آنکھیں کئے اس کو غصے سے گھور رہی تھی۔ جبکہ باسل نے اس کی شرٹ کی زپ کو اوپر کی طرف کیا تھا جس سے باسل کی انگلیاں دانیہ کی کمر سے مس ہوئی تھی دانیہ نے ایک دم کمر پر اس کی انگلیوں کا لمس محسوس کرتے زور سے اپنی آنکھیں میچی تھی۔ ہلکے سے باسل نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹایا تھا۔ دانیہ جو اب بھی آنکھوں کو بند کئے ہوئے تھی۔ باسل نے اس کے ہاتھ سے دوپٹے کو لئے اس کے کندھوں پر ٹھیک سے سیٹ کیا تھا۔ سیفٹی پن دو باسل نے اس کے کان کے قریب جھکتے سرگوشی نما آواز میں کہا دانیہ اپنے اتنے قریب اس کی آواز سنتے فوراً آنکھیں کھولے اس سے دور ہونے لگی۔ میں نے کہا سیفٹی پن دو باسل کی لہجہ اس بار سخت تھا۔ دانیہ نے اپنے ہاتھ آگے کئے تھے اور سر جھکا گئی تھی۔ باسل کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔ اس نے سیفٹی پن لئے دوپٹے کو اچھے سے پھیلا کر سیٹ کیا تھا۔ اب یہ خراب نہیں ہونا چاہئیے اور یہاں اب نہیں آؤں گی تم عورتوں والی سائیڈ پر جاؤں یہاں کافی مرد ہیں اور میں نہیں چاہتا کسی بھی کی نگاہ کا مرکز تم بنوں۔ دانیہ جلدی سے بھاگی تھی۔ اس کی سپیڈ دیکھتے باسل خان مسکرایا تھا۔
حور آرام سے بیٹھی اپنی انگلیوں کو مڑوڑ رہی تھی۔ تھوڑی دیر یونہی بیٹھے وہ تھک گئی کچھ سوچتے وہ برائیڈل روم کی طرف چل دی۔ جب اس کو لگا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے اس نے موڑ کر دیکھا لیکن اس کو کوئی نہیں دیکھا۔ پھر وہ آگے چلنے لگی اب کی بار وہ اس کو بلکل اپنے قریب محسوس ہوا۔ وہ چلتے چلتے اچانک رخ موڑ گئی جب اپنے سامنے ماسک لگائے آدمی کو دیکھ روکی تھی۔ ایک دم وہ ہوش و خروش سے بیگانہ اس کی باہنوں میں جھول گئی۔ شاید اس کو اتنے قریب دیکھے وہ ڈر گئی تھی یا پھر یقین کرنا مشکل تھا کہ جس کا سوچ سوچ کر وہ ٹھیک ہورہی ہے وہ عین اس کے سامنے وہ بھی۔ اس کے بھائی کی شادی میں موجود ہے۔ کچھ دیر بعد جب اس کو ہوش آیا اپنے آنکھوں کو ہلکے ہلکے کرتے کھولے اس کو اب بھی اپنے سامنے دیکھ ہڑبڑاہ کر اٹھی تھی۔ وہ جو اس کے قریب کھڑا تھا۔ اور وہ ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی۔ کیونکہ یہاں کوئی کمرہ تو ہونے سے رہا تھا اس لئے اس نے حور کو ایک کرسی پر بیٹھایا تھا۔ حور بے یقینی سی کیفیت میں اس کو دیکھ رہی تھی یا کہنا ٹھیک تھا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ حور آرام سے کرسی سے کھڑے ہوئے اس کے قریب گئی تھی ۔ وہ اس کو اپنے قریب آتے دیکھ پیچھے کی طرف قدم بڑھا گیا تھا۔ اب کی بار حور اس کو کوئی بھی موقع دئے بغیر اس کے قریب جاتے اپنے ہاتھوں کو اس کے چہرے پر لے جاتے اس کے ہر نقوش کو آنکھیں بند کئے محسوس کررہی تھی۔ اور وہ ہونک بنے اس کی ایک ایک حرکت پر کچھ بولے بغیر دم سادھا کھڑا تھا۔ حور اپنے ہاتھ کو اس کی آنکھوں کے قریب لے جاتے اپنی آنکھوں کو بند کئے محسوس کر رہی تھی۔ دل میں جیسے چلتا طوفان تھم گیا ہو۔ حور نے اس کے چہرے سے ماسک ہٹانا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی اس نے حور کو گول گھمایا تھا جس سے حور کی پشت اس کے سیدھا سینے سے آ لگی تھی۔ اس کی گرم سانسیں اپنے گردن پر پڑتے دیکھ اس کی جان جیسے ہوا ہوئی تھی۔ کنٹرول ڈارلنگ کنٹرول اتنی جلدی نہیں اس نے اپنے دانت حور کے گردن پر گاڑھے تھے جس سے حور کی سسکی نکلی تھی۔ اب کی بار اس نے جدھر اس کو زخم دیا ادھر اپنے لب کو رکھے حور کو جیسے سکون پہنچانا چاہا تھا۔ حور میں اب کھڑے رہنے کی سکت نہیں تھی۔ اس نے پیچھے موڑ کر دیکھا اتنے میں وہ جاچکا تھا ہوا کی طرح تھا وہ جیسے آتا ویسے ہی غائب ہو جاتا۔ حور کا دل اب بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کو ڈر تھا کہی کوئی اس کی چلتی دھڑکن کا شور سن نا لے۔ اس نے ایک لمبی سانس کو ہوا کے سپرد کئے خو کو نارمل کئے باہر کا رخ کیا تھا۔
بابا سائیں آپ کی اجازت ہو تو۔ نکاح شروع کیا جائے۔ نزاکت صاحب نے جمشید صاحب سے اجازت لی تھی۔ ہاں کیوں نہیں انہوں نے خوش اخلاقی سے جواب دیا تھا۔ براق ساحر اور دانیہ کے ساتھ۔ حلیمہ بیگم اور عباس صاحب اب ایمان کے پاس کھڑے تھے۔ اس کو کاشان کے نام سے جوڑ دیا گیا۔ ادھر کاشان کی خوشی کا ٹھکانا نہیں تھا۔ ایسے ہی ایمان اور کاشان کے نکاح کے بعد عنادل اور براق کا نکاح ہوا تھا۔ جس میں کاشان خان باسل اور حور سمیت کلثوم بیگم اور نزاکت صاحب اس کے پاس موجود تھے۔ عنادل کا نام بھی براق چودھری کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا عنادل نزاکت علی خان آج سے عنادل براق علی چودھری بن گئی تھی۔
کچھ دیر بعد دانیہ کے ہمراہ چلی آتی ایمان کو دیکھ کاشان اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا اور اپنے ہاتھ کو آگے کئے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔ جس کا چہرہ اب بھی چھپا ہوا تھا۔ ایمان نے اندر سے ہی پہلے اسکو دیکھا پھر اس کے ہاتھ کو۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس نے اپنا ہاتھ کاشان کے ہاتھ میں رکھا تھا۔ اب وہ کاشان کے ساتھ بیٹھی تھی۔
عنادل بھی حور کے ہمراہ چلتی آئی تھی براق بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اب عنادل بھی براق کے ساتھ بیٹھی تھی۔
حور اور دانیہ باتوں میں لگی ہوئی تھی جبکہ اب کھانے کا دور شروع ہوا تھا۔ ساحر اور باسل بھی سب کو دیکھ رہے تھے حور کو اپنے اوپر کیسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی اس نے ادھر اُدھر دیکھا تو سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ جبکہ ایک نفوس دور کھڑے اس کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ عنادل کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ چکی تھی۔ جبکہ براق اس کی خراب ہوتی حالت جان گیا تھا۔ اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے سامنے دیکھ رہا تھا۔ عنادل تو اس کے یوں ہاتھ پکڑنے پر ہی گھبرا گئی تھی۔ اپنی نظروں کو اٹھائے وہ اس کو دیکھ رہی تھی۔ براق نے عنادل کو دیکھا جس کا چہرہ چھپا ہوا تھا لیکن وہ شاید اپنے ہاتھ پکڑنے کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔ براق اس کی طرف تھوڑا جھکتے بولا تھا۔ جس طرح تم ڈر رہی ہو گھبرا رہی ہو ..! اس سے یہ لگ رہا ہے تم سے زبردستی یہ نکاح کروایا گیا ہو۔ براق نے اپنے لب اس کے ہاتھوں پر رکھے تھے۔ عنادل نے ایک دم سامنے دیکھا تھا۔ براق کو اس کی حرکت پر اپنی ہنسی روکنا مشکل لگی لیکن اپنی ہنسی پر کنٹرول کئے وہ بولا تھا۔ جانم ! کسی نے نہیں دیکھا اس کے اس قدر بے شرمی پر عنادل خود میں سمٹی تھی۔ براق مسکرائے پھر آگے کی طرف دیکھنے لگا۔
ایمان تو یوں بیٹھی تھی جیسے اس کو کسی چیز سے سروکار ہو ہی نہیں کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا جب ایمان نے اپنے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے دور کیا تھا۔ کاشان جان گیا تھا شاید وہ ناراض ہے۔ کاشان اس کے قریب ہوتے بیٹھا تھا۔ جبکہ ایمان دور ہوئی تھی کاشان پھر قریب ہوا اسے پھر ایمان دور ہوئی جب بلکل تھوڑی سی جگہ رہ گئی ایمان پھر دور ہونے لگی جب کاشان نے اس کو کمر سے پکڑے اپنے قریب کیا تھا۔ الحمداللہ میں نہا کر آیا ہوں مجھ میں کوئی بیکٹریا نہیں ہے تمہیں مجھ سے دور ہونے کی ضرورت نہیں کاشان نے اپنی مسکراہٹ دبائے کہا تھا۔ مجھے نہیں آنا دور ہٹو ایمان نے دانت پیستے کہا تھا۔ کیا جان سکتا ہوں کہا نہیں آنا دل کو تو تم پہلے ہی قابو کر چکی ہو۔ کاشان اب بھی باز نہیں آیا تھا۔ تم خاموش ہو رہے ہو یا سب کے بیچ تمہارا حشر بگاڑو ایمان نے وارن کیا تھا۔ نہیں کمرے میں بگاڑنا میرا حشر تمہارا پورا حق ہے مجھ پر کاشان نے دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔ انتہائی..! انتہائی معصوم پیارا نیک اور فرمانبردار شوہر ملا ہے یہی کہنا چاہ رہی ہو نا۔ ایمان اپنی بات پوری کرتی کہ کاشان نے بیچ میں ہی اپنی بات شروع کردی تھی۔ کاشان نے دیکھا اب ایمان کچھ نہیں بول رہی تبھی اس کے قریب جھکتے اس رخسار پر اپنے ہونٹ رکھے تھے۔ ایمان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جو کاشان نے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ جان گیا تھا ایمان کی کیا حالت ہوئی ہے۔ تمہیں شرم نہیں آتی سب یہاں موجود ہے ایمان نے چھوٹی آنکھیں کئے گھورا تھا۔ اچھا یعنی اکیلے میں یہ سب کر سکتا ہوں کاشان نے نئے سرے سے بات نکالی تھی۔ بھاڑ میں جاؤ . ..! ایمان نے اپنا رخ موڑا تھا۔ تمہیں لے کر جاؤں گا۔
کچھ دیر بعد رخصتی کا شور اٹھا تھا کاشان نے ایمان کی طرف دیکھا تھا۔ جو اب اپنی امی ابو کے گلے لگی تھی۔ دوسری طرف عنادل کا بھی کچھ یہی حال تھا۔ دانیہ تو کھڑی ہوئے ان کو دیکھ رہی تھی۔ ایمان جب دانیہ کے پاس آئی۔ تبھی دانیہ نے سوچے سمجھے بغیر کہا تھا۔ ایمان یہ تم رو کیوں رہی ہو۔ اس نے دھیمی آواز میں بولا تھا لیکن اس کی آواز وہاں سب نے سنی تھی باسل بھی دانیہ کو دیکھ رہا تھا۔ ایمان اس کو گھور رہی تھی۔ حد ہے ویسے میں تو کبھی نہیں رو اتنا ایک تو پہلے اتنا اچھا میک اپ کرواؤں پھر آنسوں بہا کر اس کو خراب کردوں دانیہ نے منہ بنایا تھا۔ جبکہ باسل کا قہقہ ہال میں گونجا تھا۔ دانیہ نے باسل کو دیکھا جو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہا تھا۔ اب آپ کا کیا دماغ خراب ہوگیا ہے جو یوں پاگلوں کی طرح ہنس رہے ہیں دانیہ نے طنز کرتے کہا تھا۔ جبکہ حلیمہ بیگم دانیہ کو کندھے سے پکڑے پیچھے ہٹیں تھی۔ اب یہی کھڑی رہو کہی بھی تم خاموش نہیں رہ سکتی۔ حلیمہ بیگم نے۔ اس کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا۔ دانیہ چہرے کے زوائیے بگاڑے۔ کھڑی تھی باسل کی نظروں کا مرکز صرف دانیہ ہی تھی۔ عنادل بھی کلثوم بیگم کے گلے لگے اور عباس صاحب کے گلے لگے قرآن پاک کے سائے میں رخصت ہوئی تھی اسی طرح گاڑیاں اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئی تھی۔ عنادل گاڑی میں ایک جگہ سمٹ کر بیٹھی تھی۔ براق اس کو ہی دیکھ رہا تھا جانے کیوں وہ اتنا ڈر رہی تھی اس سے براق نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنی قریب کھینچا تھا۔ جس سے عنادل اس کے چوڑے سینے سے لگی تھی۔ عنادل نظروں کو جھکائے اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔ ایمان گاڑی میں بیٹھے باہر کے نظارے کو دیکھنے میں مصروف تھی گاڑی کاشان خان کے گاوں کے حدود میں داخل ہوئی تھی۔ کاشان اس کو گھورے ہی جارہا تھا۔ جو مکمل اس کو نظر انداز کر رہی تھی۔ جب گاڑی حویلی کے باہر روکی تبھی کاشان باہر نکلا تھا دوسری سائیڈ کا ابھی وہ دروازہ کھولتا کہ اس سے پہلے ایمان اپنے آپ کو سنبھالے باہر نکلی تھی۔ کاشان کو اس کا ایسا رویہ بہت برا لگا تھا۔ وہ مانتا تھا اس نے ایمان کا دل دکھایا ہے لیکن وہ اپنے کئے پر شرمندہ تھا۔
عنادل کو کچھ رسموں کے بعد براق کے کمرے میں بٹھایا گیا تھا۔ حور بھی اپنے کمرے میں چل دی تھا اس کا فلحال کوئی موڈ نہیں تھا کسی کو تنگ کرنے کا وہ خود اپنے آپ میں الجھی ہوئی تھی۔ رخصتی کے وقت بھی جانے کیوں اس کو اپنے اوپر کسی کا تحفظ محسوس ہوا تھا جیسے کوئی چھپ کر بھی اس کی حفاظت کر رہا ہوں۔
جبکہ دانیہ براق کے پاس کھڑی تھی کہ اس کو منہ بولی رقم چاہئیے براق نے ایک بلینک چیک اس کو تھمایا تھا جس کے بعد وہ بھی اچھلتی کودتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کاشان جب کمرے میں داخل ہوا تو ایمان کو دیکھ حیران رہ گیا تھا جو اب سادہ سے کپڑوں میں آئینے کے سامنے کھڑے اپنے بال بنا رہی تھی۔ جبکہ ایمان اس کو اندر آتا دیکھ چکی تبھی دل جلانے والی مسکراہٹ پاس کی تھی۔ یہ کیا حرکت کی ہے تم نے؟ کاشان نے اپنے غصے پر قابو پاتے پوچھا تھا۔ کونسی حرکت؟ بلکل انجان ظاہر کیا تھا۔ اتنی جلدی کپڑے کیوں چینج کر لئے آخر کاشان نے بولا تھا۔ وہ جانتا تھا ایمان خود نہیں بتائے گی۔ میری مرضی میں اب بہت تھک گئی ہوں میں تو چلی سونے اور ہاں لائٹس بند کر دو ایمان یہ کہتی کمفرٹر اپنے اوپر تک اوڑھ گئی تھی جبکہ کاشان بت بنے کھڑا تھا۔
براق جب کمرے داخل ہوا تو عنادل روایتی دلہنوں کی طرح گھونگٹ کئے بیٹھی ہوئی تھی۔ براق اس کے قریب آیا تھا۔ براق نے اس کے اور اپنے درمیان آتے اس کے گھونگٹ کو ہٹایا تھا۔ اس کو دیکھ جیسے اس کی نظر تھم سی گئی تھی۔ آنکھیں جو جھکی ہوئی تھی میک اپ میں وہ شاید براق پر ظلم ڈھانے کا ارادہ کئے ہوئے تھی۔ براق نے عنادل کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا جس پر عنادل نے اپنی جھکی نظروں کو اٹھا کر اس کو دیکھا تھا جو اس کو ہی دیکھ رہا تھا دونوں کی نظروں کا ملاؤ ہوا عنادل نے فوراً اپنی نظریں پھر جھکائی تھی۔ براق نے ایک مخملی ڈبیہ سے ڈائمنڈ کی رینگ نکالے اس کی انگلی میں پہنائی تھی ۔ آپ سے ایک بات پوچھو جواب دے گی مجھے؟ براق نے اجازت مانگی تھی۔ عنادل نے اپنا سر ہاں میں ہلایا تھا۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کا نکاح میرے ساتھ بہت پہلے ہی کردیا گیا تھا.؟؟۔ براق یہ جاننا چاہتا تھا۔ ہمم جانتی ہو۔ اتنے وقت میں پہلی بار عنادل نے کچھ بولا تھا۔ براق تو عنادل کی میٹھی سے آواز کے سحر میں جکڑ گیا تھا۔ اپنے امڈتے جزبات پر قابو پاتے ایک اور سوال براق نے پوچھا تھا۔ کیا آپ جانتی ہیں ہمارا نکاح کس وجہ سے ہوا تھا؟ عنادل اپنے آپ کو تیار کرکے آئی تھی ان سب سوالوں کے جواب کے لئے وہ جانتی تھی۔ وہ ونی کے طور پر اس حویلی میں آئی گئی ہے۔
کاشان نے اس کے اوپر سے کمفرٹر ہٹایا تھا۔ ایمان ایک دم اٹھے اس کو خونخوار نظروں سے دیکھنے لگی۔
کیا مئسلہ ہے؟ مئسلہ مجھے نہیں تمہیں ہے شاید کاشان نے اس کے ٹانگوں کو بیڈ سے نیچے لٹکائے بٹھایا تھا۔ اور خود گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ اور اپنے سر کو اس کی گود میں رکھا تھا ایمان تو ہونک بنے اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہی تھی۔ ہٹو یہاں سے کیوں خوامخواہ چپک رہے ہو ایمان نے اس کو دور ہٹانا چاہا تھا لیکن وہ بھی اپنی جگہ جیسے جم گیا تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
1 Comments
Oosm
ReplyDeleteThanks for feedback