Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 07

www.urdunovelbank.com

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 07.

براق کے ساتھ ایک دن بعد تمہارا بھی نکاح ہے۔ حلیمہ بیگم نے ایمان کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا تھا۔ امی ! یہ کیا بول رہی ہوں آپ جانتی ہیں آپ کیا بول رہی ہیں۔ نکاح اور وہ بھی میرا ہے کس سے یہ بتائیں ! اپنی جگہ سے کھڑی ہوتے اس نے سب کچھ جاننا چاہا تھا۔ بیٹا کاشان خان سے تمہارے دادا اور بابا نے بتایا ہے ابھی مجھے اور مجھے کوئی برائی نہیں لگتی اس میں۔ حلیمہ بیگم نرم لہجے میں بولی تھی۔ ٹھیک ہے میں تیار ہوں اپ بابا سائیں کو بول دیں ایمان کے دماغ الگ ہی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مجھے پتا تھا میری بیٹی کبھی مجھے انکار نہیں کر سکتی۔ حلیمہ بیگم پیار کرتے بولی تھی۔ ایمان نے بس مسکراہٹ پاس کی تھی۔ اور دماغ کو دوڑا رہی تھی۔  

ٹھیک ہے بھئی اب میری شادی وہ بھی اس آدمی سے مجھے بلکل بھی منظور نہیں لیکن کچھ تو کرنا پڑے گا۔ ایمان۔۔۔۔!! ایمان آئینے کے پاس کھڑے ہوتے خود سے ہی باتوں میں لگی ہوئی تھی۔ عنادل بھی اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی اس کو یہ ہی بات اندر اندر کھائی جارہی تھی ۔کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا۔ حور بھی اپنے کمرے میں جاتے ہی۔ کپڑوں کو چینج کئے اور فریش ہوکر کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ آسمان پر نظریں مرکوز کئے جانے وہ کیا تلاش کر رہی تھی۔ اس اندھیری رات کی طرح میرے دل میں اندھیرا ہے ۔ اس نے سرگوشی نما آواز میں کہا تھا۔  

کون تھا وہ آج پھر مجھے بچایا اس نے مجھے اپنا چہرہ کیوں نہیں دکھاتا اس کی آنکھیں مجھے کیوں اس رات کی یاد دلاتی ہے۔ حور پاگل ہونے کو تھی۔ جب جب وہ اس بات کو بھلانے کی کوشش کرتی لیکن وہ رات اس کے سامنے ہر نئے دن کے ساتھ نئے انداز کے ساتھ آتی تھی۔  

موبائل جو کب سے بج رہا تھا لیکن وہ اپنی ہی سوچ میں مگن تھی۔ جب اس کی نظر موبائل پر پڑی تو وہ اپنے سر کو ہاتھوں میں گرائے بیٹھ گئی کیا مئسلہ ہے اس آدمی کے ساتھ۔ کیوں مجھے چین سے جینے نہیں دے رہا۔ عنادل کو فکرمندی نے آگھیرا تھا۔  

اس نے موبائل کو ہاتھ میں اٹھائے موبائل کو بند کرنے کا سوچا لیکن اس کے کال نا اٹھانے پر آئے دن پھول بھیجنے والے واقعہ یاد کرتے اس نے کال اٹھائی تھی۔  

کیا مئسلہ ہے تمہارے ساتھ کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑ دیتے کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے لگ گئے ہو۔ عنادل کی آواز رونے کی وجہ سے بھاری ہوئی تھی۔ 

تم رو رہی ہو..؟ مقابل کی طرف سے پہلا سوال تھا۔  

تمہیں کیا مسئلہ ہے مجھے بتاؤ کیوں کال کی ہے مجھے۔ ! اب کی بار وہ چیخی تھی۔  

پہلے تم مجھے بتاؤ روئی ہو اگر ایسا ہے تو میں ابھی تمہارے حویلی پہنچتا ہوں اور پھر تم سب کو جواب دینا میں کون ہوں۔ کیونکہ۔مجھے تو کوئی مئسلہ نہیں ہے مجھ سے تو کوئی کچھ نہیں پوچھے گا مقابل نے سفاکیت کی حدیں پار کی تھی۔  

تم بہت ہی کوئی گھٹیا آدمی ہو تمہیں پتا ہے میری شادی ہورہی ہے اور میں کل ہی اپنے بابا سائیں کو تمہارا نمبر دیتی ہوں پھر میرے بھائی تمہیں سیدھا کریں گے اس نے دھمکی دی تھی ٹھیک ہے دے دوں وہ خود تمہیں بولیں گے کہ مجھ سے بات کروں۔ اور اس کے علاؤہ ان کے پاس کوئی حل بھی نہیں ہوگا۔  

حد ہیں اس نے فوراً کال کاٹی تھی۔ اور روکے آنسوں آنکھوں سے باہر نکلے تھے۔  

کیوں خود کو ازیت دیتی ہو۔ بہت جلد پتا لگے گا کہ میں کون ہوں۔ اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشان تو آج بہت ہی خوش تھا کیونکہ کل اس کی شادی تھی۔ وہ بھی اس سے جس سے اس کو محبت ہے وہ الگ بات ہے۔ اس نے کبھی اس کو بتایا نہیں تھا کیسے بتاتا اس کو کیا بولتا کہ اس کے رنگ پر طعنہ دیتے ہوئے وہ بھی صرف ایک بار ایمان کی آنکھوں میں آنسوں دیکھے جیسے دیکھ وہ دیوانہ ہوگیا یا پھر یہ کہتا جب اس نے گاؤں کے بچوں کے سامنے اپنی بے عزتی ہوتے دیکھی تب اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا یا پھر یہ کہتا اس کے لئے وہ اپنے لہجے کو بدل رہا ہے یا پھر یہ کہ وہ کوشش کرتا ہے پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی یا پھر یہ کہ وہ بہت پاکیزہ ہے۔ اور وہ ہر کسی کا مذاق اڑانے والا کاشان خان وہ اس کو بتا گئی تھی کہ تم اپنے باپ دادا اور بھائی کی وجہ سے اتنا بڑا رتبہ رکھتے اس کے علاؤہ اس کے پاس کیا تھا۔ غرور اکڑ ہر کسی کو اپنے سے کمتر سمجھ لینا اس کے علاؤہ وہ کرتا ہی کیا تھا۔  

کاشان نے اس دن کے بعد تہجد کی نماز پڑھنی شروع کردی تھی ہر دعا اس کی ایمان سے شروع ہوتی اور اس پر جاکر ہی ختم ہوتی ہے۔ یا پھر وہ اس کی دعاؤں تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ کاشان کہ دل میں الگ ہی سکون تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپی آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا آپ کا بھی کل نکاح ہے۔ دانیہ نے ایمان کو بازوؤں سے پکڑے اپنے سامنے کیا تھا۔ کیا ہوگیا ہے اب تو پتا لگ گیا ہے نا ایمان نے عام سے لہجے میں کہا تھا۔ کیا مطلب ! آپ ایک دم یہ سب ہونے پر پریشان نہیں ہورہی میں تو بہت ہی پریشان ہوں کہ آپ کی شادی وہ بھی کاشان بھائی کے ساتھ کیوں کیا مئسلہ ہے اس میں؟ ایمان نے پوچھا تھا۔ مئسلہ تو کچھ نہیں ہے۔ اس نے پر سوچ انداز میں کہا تھا۔ تو پھر کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی ہوں اور ویسے بھی نکاح کا بولا ہے رخصتی کا نہیں بولا مجھے امی نے۔ ایمان نے دانیہ کے معلومات میں اضافہ کیا تھا۔ لیکن مجھے جہاں تک پتا ہے بابا سائیں اور دادا سائیں نے کہا ہے آپ کی بھی کل رخصتی ہے عنادل بھابھی ادھر آئے گی اور آپ اُدھر جائے گی۔ ایمان کو دھچکا لگا تھا دانیہ کے بات پر لیکن وہ اپنے چہرے کے تاثرات کو ٹھیک کئے اس کے چہرے کو اوپر اٹھائے بولی۔ تم کیوں پریشان ہورہی ہوں بابا سائیں نے کچھ سوچ کر ہی یہ سب کیا ہوگا اور میں وہاں بہت خوش رہوں گی تم اپنے کاشان بھائی کی فکر کروں ایمان نے طنزیہ مسکراہٹ سجائے کہا تھا۔ 

دانیہ ایمان کے گلے لگی !  

عنادل اور حور ایک ساتھ بیٹھی تھی۔ آپی آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ حور نے بات کا آغاز کیا تھا۔ ہممم ! کہوں میں سن رہی ہوں۔ آپی جس رات وہ سب ہوا تھا میرے ساتھ اس رات کو ایک شخص نے مجھے بچایا تھا میں نے آپکو بتایا تھا۔ ہاں تو ! عنادل نے آنکھیں سیکڑے دیکھا تھا کہ جانے حور وہ بات کیوں لے کر بیٹھ گئی ہے۔ وہ شخص مجھے دو دفعہ دیکھا ہے لیکن وہ اپنا چہرہ چھپا کر رکھتا ہے۔ حور الجھے ہوئے لہجے میں بولی تھی۔ عنادل کو حور کی بات سمجھ نہیں آئی تبھی کہا تھا حور شاید تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔ آپی مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی یاد ہے آپ مجھے گاؤں دکھانے لے کر گئی تھی تب میں میرا پاؤں پھسلا تھا میں گرنے والی تھی تب اس نے مجھے آکر بچایا تھا مجھے کوئی وہم نہیں ہوا پھر کل آپ کی مہندی میں میرا دوپٹہ میرے پاؤں میں آگیا میں ساڑھیوں سے گرنے کو تھی لیکن پھر اسی شخص نے مجھے نیچے گرنے سے بچایا آپی وہم ایک بار ہوتا ہے لیکن بار بار نہیں میں نے اسکی آنکھیں دیکھی تھی اس رات کو اور دو دفعہ مجھے جس نے بچایا تھا اس کی آنکھیں بھی ویسی ہی تھی۔ اچھا تو تم نے اس کا چہرہ دیکھا تھا؟ عنادل نے پوچھا تھا اس کو اب یقین آرہا تھا حور کی باتوں پر! نہیں آپی اس رات کی طرح ان دو ملاقاتوں پر بھی اس نے اپنے چہرے کو ماسک سے چھپایا ہوا تھا۔ اچھا اب کی بار جب تمہاری ملاقات اس سے ہوں تو اس کی کوئی نشانی یاد رکھنا! عنادل نے سمجھداری والی بات کی تھی۔ ہممم ! حور نے بھی عنادل کی اس بات سے اتفاق کیا تھا۔ 

ساحر کدھر ہو تم ! براق نے ساحر کو ڈھونڈتے زور زور سے آوازیں دینی شروع کردی لیکن وہ اپنے بل سے باہر نکل ہی نہیں رہا تھا۔ یہ رہا بھائی روک تو جائیں ساحر بھاگتے ہوئے براق کے پاس آیا اب اس کو سانس چڑھ گیا تھا۔  

مجھے یہ کہنا تھا دادا سائیں نے کہا ہے۔ ایمان کی شادی کا بھی تو تم نے سب تیاریاں دیکھ لی ہیں۔ براق نے ہر کام کو بلکل ٹھیک کرنا تھا وہ کسی قسم کی بھی کوئی۔ غلطی برادشت نہیں کرسکتا تھا تبھی وہ خود بھی ساحر کے ساتھ سارے کام دیکھ رہا تھا۔ ہاں بھائی سارے کام کو دیکھ کیا ہے سب کچھ ٹھیک ہے اور کچھ دنوں کو لوگوں کو جرگے پر بھی آنے سے منع کردیا ہے۔ اور گاؤں کے کچھ لوگوں کو بھی دعوت دے دی ہے۔ ساحر نے سب کچھ اس کو بتایا تھا۔ ہمم ٹھیک ہے۔ براق کا رخ اب شاہنواز چودھری کے کمرے کی طرف تھا۔ 

دروازہ کھولے وہ اندر گیا تھا۔ شاہنواز چودھری صوفے پر بیٹھے کوئی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ 

آؤ براق ادھر بیٹھو ہونز کتاب کو دیکھتے کہا تھا۔  

دادا سائیں۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟

کیا مطلب انھوں نے کتاب کو ایک طرف رکھے پوچھا تھا۔ دادا سائیں۔ آپ جانتے ہیں میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں میں نہیں مان سکتا کہ آپ نے جمشید علی کے پوتے کو اتنی جلدی معاف کردیا ۔۔۔ آپ سب سے چھپا سکتے ہیں لیکن مجھ سے نہیں آپ کیا کرنے والے ہیں۔ اب کی بار اس نے جانچتی نظروں سے دیکھتے پوچھا تھا۔ صحیح سمجھے تم۔ ..! مان گیا تمہیں میں ..! تمہارا باپ نہیں پہچان سکا اور تم جان گئے شاہنواز چودھری کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ آپ کو پتا ہے آپ کیا کر رہے ہیں پہلے یہ تو سمجھ آتا تھا۔ کہ ان کے حویلی کی لڑکی ادھر آرہی ہے لیکن اب تو آپ نے اپنی پوتی کی زندگی کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ اس نے جیسے ان کو غلطی بتائی تھی۔ میں نے یہ بھی سوچ کر رکھا ہے ویسے بھی مجھے نہیں پتا تھا وہ اپنے پوتے کے لئے ایمان کا رشتہ مانگ لے گا لیکن اب اس کا حل بھی میرے پاس ہے۔ شاہنواز صاحب نے اس کا بھی حل نکال کر رکھا تھا۔ اور میں جان سکتا ہوں کیا حل ہے اس کا..؟ ۔ براق نے دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا۔ میں بس یہ چاہتا ہوں تم اس لڑکی کو ہر طریقے سے ٹارچر کرو اور ڈرا کر رکھو۔ جہاں میں اس کے دادا سے اپنی دوستی کو جاری رکھو گا۔ اور آپ کو لگتا ہے میں یہ کروں گا؟ براق نے سخت تاثرات لئے پوچھا تھا۔ مجھے لگتا نہیں یقین ہے تم یہ ضرور کروں گے اپنے بھائی کے لئے اتنا نہیں کرسکتے جو بھری جوانی میں اس دنیا سے صرف اور صرف اس کاشان خان کی وجہ سے چلا گیا۔ 

ٹھیک ہے میں کروں گا یہ سب براق نے کچھ سوچ کر حامی بھری تھی۔ بس اس لڑکی کو اپنے قابو میں رکھنا تمہارا کام ہے۔ باقی ایمان کو اُدھر کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا جہاں میں اس چیز میں کامیاب ہوگیا وہاں تم اُس لڑکی کو چھوڑ دینا وہاں میں ایمان کو اس کی قید سے آزاد کروا لوں گا۔ آپ جانتے ہیں آپ چار زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔ براق نے ایک بار پھر ان کو محتاط رہنے کو کہا تھا۔ مجھے کیوں لگ رہا ہے شادی سے پہلے ہی تم نے غلامی شروع کردی ہے۔ شاہنواز صاحب نے اس پر طنز کیا تھا۔ یہ غلامی نہیں ہے۔ اور مجھے اپنی یا اُس لڑکی کی کوئی فکر نہیں ہے میں اپنی بہن کے لئے فکرمند ہوں۔ آپ جانتے ہیں وہ کتنی حساس ہے چھوٹی چھوٹی بات پر وہ ٹوٹ جاتی ہے یہ تو اس کی زندگی کا معاملہ ہے۔ میں نے کہا ہے اسے کچھ نہیں ہوگا تم بے فکر رہوں اب تم یہاں سے جاسکتے ہوں اور کل کے لئے تیار رہوں۔ انہوں نے اس کو باہر جانے کا راستہ دکھایا اور خود دوبارہ کتاب اٹھائے اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ براق اپنا سر نفی میں ہلاتے اور شاہنواز چودھری کو ان کے حال پر چھوڑے باہر نکل اتھا وہ جانتا تھا اب وہ چاہے بھی تو ان کو روک نہیں سکتا لیکن جیسا وہ کہ رہے ہے وہ کرنے سے منع بھی نہیں کر سکتا تھا۔

..............................  

باسل خان ادھر کاشان کو دیکھ رہا تھا جو کبھی حویلی کے اندر تو کبھی حویلی کے باہر ہوتا۔ کاشان ایک جگہ بیٹھ جاؤ تمہارا نکاح آج نہیں کل ہے۔ مجھے تو لگ رہا ہے۔ تمہارا دماغ کام نہیں کر رہا بھائی ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ اُس نے اپنے چہرے پر واضح ہونے والے جزبات جیسے چھپانے چاہے تھے۔ جبکہ دل اِس کام میں اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا ۔ وہ چاہتا تھا سب کو چیخ چیخ کر بتائے کہ جس لڑکی کی صرف ایک دفعہ اس نے جھلک دیکھی ہے۔ کیا اس سے پیار ہوسکتا ہے۔ وہ چاہتا تھا اپنا دل سب کے سامنے کھول کر رکھ دے آج تک لڑکیاں اس کے ایک دیدار کے لئے مرتی تھی لیکن آج کاشان خان صرف ایک لڑکی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار تھا۔

تو ایک جگہ بیٹھ جاؤ کب سے دیکھ رہا ہوں پہلا لڑکا ہوگا جو اپنی شادی کی تیاریاں خود کر رہا ہے۔ مانتے ہیں تمہاری پسند کی شادی ہے لیکن زرا صبر بھائی پھر تمہاری ہی ہوگی بھابھی صاحبہ باسل نے آنکھ ونک کرتے اس کو چھیڑا تھا۔ وہ کاشان کا بھائی تھا کیسے نا پہچانتا۔ اس کے بھائی کے دل و دماغ پر اِس وقت کون سوار ہے۔ کاشان شرمندہ سا ہوا تھا۔ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں کی ویسے آپس کی بات ہے تم نے کبھی دیکھا بھی نہیں ایمان۔ کو تو کیسے..؟ مطلب یہ سب کب ہوا؟ اور جہاں تک مجھے پتا ہے جب ہم گاؤں کے بیچ و بیچ تھے تب پہلی ہی دفعہ ہم سب گاؤں میں اکھٹے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے تو ہم نے بچپن میں ہی وہاں قدم رکھا تھا۔ کاشان کے دماغ میں وہ منظر گھومنے لگا جب وہ اس کو دور کھڑے دیکھ رہا تھا۔ اس کی کھلکھلاہٹ اور بچوں کے قہقے اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے ایک دم اس کی چادر کا چہرے سے ہٹنا ایمان کا گھبرا کر چادر کو چہرے پر آگے کرنا۔ کاشان کا اس رنگ پر بولنا ایمان کا اس کو آسمان سے زمین پر لا کر کھڑا کرنا وہ سب یاد کرتے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ کاشان خان جو اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ ایمان کے منہ سے بولے ہوئے الفاظ جیسے اس کے دل میں شہد کی طرح محفوظ ہوگئے۔ باسل اس کو یوں مسکراتا دیکھ رہا تھا۔ کدھر ..! اس نے کاشان کے آگے چٹکی بجاتے کہا تھا۔ کہی نہیں بھائی۔ بس ایسے ہی کاشان نے اپنا سر جھٹکا تھا۔ جب جب وہ اس کے خیالوں میں ہوتا اس کو اپنے آس پاس کیا ہورہا ہے اس کا احساس نا ہوتا تھا۔ 

دانیہ تو حلیمہ بیگم اور ایمان کے ساتھ یوں بیٹھی تھی جیسے کل ایمان کی نہیں اس کی شادی ہو۔

دانیہ زرا دور ہوکر بیٹھو حلیمہ بیگم نے اس کو کپڑوں سے دور بیٹھنے کا بولا تھا کیونکہ اس کی حرکتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ سارے کپڑے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے جائے گی جو حلیمہ بیگم نے ایمان کے لئے رکھے تھے۔  

امی یہ دیکھے کتنا پیارا لگ رہا ہے۔ یہ میں لے لوں دانیہ نے معصومیت سے پوچھا تھا۔ اور اس کو اپنے ہاتھوں میں لئے اس ڈریس کو دیکھنے لگی۔ جو بہت ہی پیاری سی میکسی تھی۔ لال رنگ کی جس کے سائیڈ میں پیارے سے سٹون سے کام کیا گیا تھا۔  

دانیہ اسے اِدھر رکھ دو تمہارے لئے دوسرے ہیں۔ یہ ایمان کے ہیں۔ دانیہ نے منہ کے زوائیے بدلے تھے۔ لیکن مجھے تو یہی پسند ہے۔ اب بھی اپنی بات پر وہ قائم تھی۔ کہو تو تمہارے لئے بھی کوئی لڑکا ڈھونڈ کر کل ہی رخصت کردوں۔ حلیمہ بیگم نے چوبھتی نظروں سے دیکھ بولا تھا۔  

ہائے سچی امی ! میں تو تیار ہوں وہ اپنے دوپٹے کو منہ میں لئے شرمانے کے ایکٹنگ کرنے لگی۔ ادھر آؤ تمہیں تو میں بتاؤ حلیمہ بیگم نے پاؤں سے چپل نکالی تھی جیسے دیکھ دانیہ کمرے سے بھاگی تھی۔ اس کی حرکت پر ایمان کا قہقہ کمرے میں گونجا تھا۔ 

واہ امی واہ۔ ! ویسے ایسے سیدھا آپ ہی کر سکتی ہیں۔ ایمان نے۔ کپڑوں کو سمیٹتے کہا تھا۔ اچھا بیٹا اب تم سو جاؤ کل کا دن تمہارے لئے بہت اہم۔ ہے۔ حلیمہ بیگم یہ کہتی کمرے سے چل دی تھی۔  

ایمان جس کا موڈ کافی اچھا تھا حلیمہ کی اس بات پر ایک دم موڈ خراب ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے کپڑوں کو رکھا اور کھڑکی پاس پڑے صوفے پر بیٹھتے آسمان میں بادلوں کے پیچھے چھپے چاند کو دیکھنے لگی جو اتنی رات میں ہر جگہ روشنی پھیلائے ہوئے تھا۔ اس کے چہرے پر ایک دم طنزیہ مسکراہٹ۔ نمودار ہوئی۔ تمہاری زندگی نا اندھیرے سے بھر دی تو میرا نام بھی ایمان نہیں۔ لیکن اس کو کہا پتا تھا۔ جس کی زندگی میں وہ اندھیرے کو اتارنے کی بات کر رہی تھی وہ تو خود اس کے عشق میں اپنے زندگی کو روشنی سے بھر چکا ہے۔ وہ تو خود ہی تصور میں بھی اس کو دیکھتا ہے آنکھیں بند ہو پلک جھپکتے بھی وہ اس کو اپنے پاس پاتا ہے۔ آنکھیں نہیں جھیل ہے جیسے..! ڈوبتے سمندر میں ہیں !!! میں تو بہہ گیا ان آنکھوں میں۔ ادھر ایمان نئے نئے منصوبے بنائے بیٹھی تھی کیسے اس کی زندگی سے چین سکون بھگانا ہے ادھر کاشان کل کا انتظار کر رہا تھا کل اس کی محبت اس کی دسترس میں ہوگی۔

عنادل کا یہ سوچ سوچ کر برا حال تھا۔ کہ براق کیسا ہوگا کیا وہ وہاں رہ سکے گی۔ کیا براق اس رشتے کو قبول کرے گا؟ 

حور اپنے کمرے میں آرام سے بیڈ پر آڑھی ترچھی لیٹی ہوئی تھی۔ موبائل رنگ ہونے لگا جب اس نے کال پیک کی تبھی دانیہ کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ کیسی ہو۔ .؟؟ کیا حال ہے تمہارے دانیہ نے دوستانہ انداز میں کہا تھا جیسے ان کے درمیان سالوں کی بے تکلفی ہو۔ پہچان تو گئی ہوگی۔ مجھے آپ دانیہ کا لہجہ نرم تھا۔  

ہمم پہچان گئی آپ ضرور ایمان کی بہن ہیں اور ایمان میرے بھائی کی ہونے والی بیوی حور نے۔ تفصیل سے بتانا ضروری سمجھا تھا۔  

اررے واہ ..! آپ کو میں یاد ہوں میں نے سوچا آپ کو کال کرلوں اب تو میں بلکل اکیلی ہوں جاؤں۔ گی ایمان کے بنا اس سے مل بھی نہیں سکوں گی دانیہ کی اداس آواز حور نے سنی تھی۔ ایسا کس نے کہا تم اس سے مل نہیں سکوں گی جب تمہارا دل کریں ادھر آجانا اچھا ..! تم بھی تو عنادل آپی کے بنا اکیلی ہو جاؤں گی نا دانیہ ہونز اداسی سے بولی تھی۔ ہمم..! لیکن مجھے لگتا ہے میری بہن وہاں بہت خوش رہے گی تو میں کیوں اداس ہو میں جب چاہوں گی اسے کال کرکے باتیں کروں گی۔۔ اچھا مجھے تم سے باتیں کرنی تھی سوچا کال کرلوں۔ اور اب تو ہم بہت اچھے دوست ہیں نا دانیہ کی امید بھری آواز ابھری تھی۔ ہمم بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ اب ہم دونوں دوست ہیں تو تم جب بھی اداس ہو مجھے بتا سکتی ہوں حور کو بھی آج چھوٹی سی پیاری سی دوست ملی تھی۔ لیکن مجھے پہلے یہ بتاؤں میرا نمبر کدھر سے ملا تمہیں..؟ حور کے چہرے پر سنجیدگی آئی تھی۔ وہ کیا ہے نا جب آپ مہندی کی رسم کے لئے آئی تھی تب ہی میں نے۔ عنادل آپی سے لیا تھا۔ اس نے جھوٹ کہا تھا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ ابھی امی بولا رہی ہے میں بعد میں بات کروں گی دانیہ نے بہانہ بنایا تھا۔ آخری کلمات کہتے اس نے کال کاٹی تھی۔ اور سکھ کا سانس لیا تھا آج تو وہ جیسے پکڑی گئی تھی۔ کیونکہ اس نے حور کا نمبر عنادل سے نہیں لیا تھا۔ عنادل کی جب وہ تصویریں لے رہی تھی عنادل کے موبائل سے تب ہی اس کو حور کا نمبر مل تھا اور اس نے اپنے موبائل میں سیو کیا تھا۔ یہ غلط تھا لیکن اس کو حور کا نمبر یوں لیتے ہوئے تھوڑی سی بھی شرمندگی نہیں ہوئی تھی۔  

ساحر کمرے میں آتے ہی اوندھے منہ اپنے بیڈ پر لیٹا تھا۔ کام کرتے کرتے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا تھا جب سے گھڑی میں وقت دیکھا تو رات کے دس بج چکے تھے۔ اس نے اٹھتے ہی واشروم کا رخ کیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ شرٹ لیس آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے اپنے بال بنا رہا تھا پانی کی بوندیں اس کے بالوں سے ہوتی اس کے چوڑے جسم پر گر رہی تھی وہ ایک پر کشش مرد تھا گیری سیاہ آنکھیں بڑی بڑی تھی۔ گول سے ہونٹ جو مونچھوں کے نیچے چھپے ہوئے تھے ہلکی ہلکی بیرڈ میں وہ اور بھی ہیندسم لگ رہا تھا۔ 

نزاکت صاحب اور جمشید صاحب بہت خوش تھے کیونکہ آج یہ رات بھی اختتام پر تھی اور کل خوشیوں سے پوری حویلی چہچہانے والی تھی۔  

شاہنواز چودھری کے چہرے پر سنجیدگی طاری تھی جبکہ عباس صاحب اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں ساحر کے ساتھ ہر کام دیکھ رہے تھے دوسری طرف براق کبھی اپنے دادا سائیں کی باتوں کے بارے میں سوچتا جیسا وہ کہہ رہے ہیں کیا اس کو کرنا چاہئیے یا پھر نہیں وہ اسی کشمکش میں اپنی رات کروٹیں لیتے گزارنے والا تھا۔  

عنادل کا سانس اوپر سے نیچے ہورہا تھا کل وہ کیسی اور کے کمرے میں موجود ہوگی کیسے وہ وہاں رہے گی۔ یہ سوچتے اس نے اپنی پوری رات بیچینی میں گزارنی تھی۔ جبکہ کاشان کو خوشی کے مارے نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ اور ایمان دو نفل نماز پڑھ رہی تھی۔ ہاتھ اٹھاتے اس نے دعا کی تھی یا اللّٰہ کل سے میرا نام کسی اور کے ساتھ جڑ جائے گا۔ یا اللّٰہ میں نہیں جانتی جو میں کر رہی ہوں ٹھیک ہے یا نہیں لیکن میں جب بھی اپنی تزلیل یاد کرتی ہوں کیسے اس مرد نے مجھ پر میرے رنگ پر طنز کیا تھا کیا وہ ساری زندگی مجھے خوش رکھ پائے گا یا ایسے ہی مجھ میں خامیاں ڈھونڈے گا۔ آپ جانتے ہیں میں غلط کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکتی اس نے میرے ساتھ غلط کیا تھا اور اب وہی میرا ہمسفر بننے والا ہے مجھے نہیں پتا تھا۔ اس شخص کے منہ سے بولے جانی والی باتیں میرے سینے میں خنجر کی طرح کیوں چبھ رہی ہیں۔ آنسوں اس کی آنکھ سے رواں تھے وہ بہت حساس تھی۔ چہرے پر ہاتھ پھیرتے وہ جائے نماز کو جگہ پر رکھے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ کچھ دیر بعد نیند اس پر مہربان ہوئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کا دن سب کے لئے بہت خاص تھا صبح کی کرنیں جو اس کے کمرے کے پردوں سے بھی کھڑکی سے اندر کی طرف روشنی کر رہی تھی۔ آنکھوں میں پڑتی روشنی سے اس کی نیند میں خلل پیدا ہوا تھا۔ آنکھوں کو مسلتے اس نے اپنے دوپٹے کو اٹھایا تھا اور چپلوں کو پاؤں میں اڑستے واشروم کی طرف چل دی تھی۔   

تھوڑی دیر بعد فریش ہوکر وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ اچانک اس کی نظر پیچھے ٹیبل پر پڑے بکوں پر گئی جس میں آج پھر لال گلاب تھے۔ اس میں آج بھی چھوٹا سا خط تھا۔ اس نے اپنے قدم ٹیبل کی طرف بڑھائے تھے اور گلاب کے بکوں کو اٹھائے ان کو اپنے ناک کے قریب لے جاتے اس کی خوشبو اپنے اندر تک اتارنے لگی تھی۔ کچھ دیر وہ اس کو یونہی اپنے قریب لئے محسوس کرتی رہی جب اس کو احساس ہوا کہ اس کے ساتھ ایک خط بھی ہے اس نے۔ خط کو کھولے دیکھا تو اس میں سمائل والا چہرہ بنایا ہوا تھا جو اڑھا ترچھا تھا شاید بنانے والا اس کو ٹھیک سے بنا نہیں سکا تھا۔ اس کے نیچے کچھ یوں لکھا تھا۔ 

 آنکھوں کا ٹکراؤ ہوگا آنکھوں سے۔

کب تک بچاؤں گی آنکھوں میں مجھ کو ڈوبنے سے

کہی تو بہہ کر جانا ہے ہم نے

تو اس میں ہی کیوں نا خود کو برباد کرلوں۔

ہر انداز بتانے سے نہیں بتایا جاتا۔

کچھ کیا جاتا ہے تو کچھ عمل کرکے دکھایا جاتا ہے۔

ضروری نہیں دوری کے رشتے ہمیشہ ادھورے رہ جائے 

کچھ رشتے دور رہ کر بھی نبھائے جاتے 

لکھنے والے نے جیسے اپنے جزبات اپنے ان الفاظوں میں بتائے تھے۔ عنادل کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ چکی تھی۔ وہ ڈر رہی تھی اس شخص سے اس کی دیوانگی سے۔ 

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں 

Post a Comment

0 Comments