Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 06.
دانیہ کچھ پسند کرلو ورنہ چلو واپس حویلی ساحر نے غصے میں کہا تھا۔ روکیں تو سہی ایک تو آپکو کیا پتا ہم لڑکیوں کو کتنی مشکل ہوتی ہی شاپنگ کرنے میں آپ کو کہا پتا ہوگا جب آپکی بیوی آئے گی تب پوچھو گی شاپنگ کیسے کہتے ہیں پھر کروانا شاپنگ اور کہنا بیگم حکم کریں آپ کو کہا جانا ہے ! دانیہ نے شوخ لہجے میں کہا تھا۔ دانیہ اپنا کام کرو اور فضول کی باتیں نا کرو ساحر نے بات کو ٹالا تھا۔ ورنہ دانیہ اماں بن کر اس کو بیوی کے ساتھ کیسے رہتے ہیں کیسے شاپنگ کرواتے ہی۔ کیا کیا سننا پڑتا ہے سب ایک ہی باری میں سکھا دیتی۔ دانیہ دانت دکھاتے واپس اپنے کام میں لگی تھی۔ ایمان ساحر کو بولے دوسرے دکان میں گئی تھی اور ساحر دانیہ کے پیچھے پیچھے تھا اگر وہ اس کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا تو یقیناً اس نے رات تک یہی سوچنا تھا کہ اس کو خریدنا کیا ہے۔
ایمان چلتے چلتے ایک دکان میں گئی تھی جہاں پر بہت پیاری پائل تھی اس کے نظریں اس پائل پر ہی روک گئی تھی اس نے اپنے ہاتھوں میں اس پائل کو لیا تھا اور اس کے پیسے دیکھے تھے۔ وہ اتنی مہنگی نہیں تھی لیکن اس نے واپس رکھ دی تھی کاشان جو خود بھی مآل میں آیا تھا۔ ایمان کو دیکھ روکا تھا۔ ایمان نے عبائے میں اور حجاب کئے اپنے چہرے کو چھپایا ہوا تھا لیکن کاشان نے اس کو آنکھوں سے پہچانا تھا۔ وہ کافی دیر دور کھڑے ہی اس کو دکھتا رہا جو ہاتھ میں پائل کو لئے دیکھ رہی تھی پھر ایک دم اس کو رکھ دیا تھا کاشان حیران ہوا تھا ایمان نے پائل کو دیکھ کر واپس کیوں رکھ دیا ایمان اس دکان سے نکلتی ساحر کے طرف چل دی جہاں وہ اب بھی دانیہ کے پیچھے پیچھے تھا کاشان اس دکان میں گیا جہاں سے کچھ دیر پہلے ایمان نکلی تھی۔ یہ پیک کردیں اور یہ لے پیسے کاشان نے اس دکاندار کے ہاتھ میں پیسے پکڑا آئے تھے۔ لیکن سر یہ اتنی مہنگی نہیں ہے۔ تمہاری دکان پر ابھی جس لڑکی نے قدم رکھا تھا اس کے صدقے میں تمہیں یہ دیتا ہوں رکھ لو وہ آدمی تو اس دیوانے کو دیکھ رہا تھا جو اس کو ہزاروں کے تعداد میں پیسے دے رہا تھا اور وہ پائل چند سو روپے کی تھی۔ کاشان جلدی سے اس کو لئے وہاں سے نکل گیا تھا۔
عنادل کو تیار کیا گیا تھا۔ عنادل پیلے جوڑے میں ہم رنگ دوپٹے کو سر پر سیٹ کئے بیٹھی تھی دوسری طرف شاہنواز چودھری کی حویلی میں براق پیلے رنگ کے شلوار کمیز میں کالی شال کو لئے ادھر سے ادھر ہورہا تھا۔
براق ..! شاہنواز صاحب نے آواز دی تھی۔
جی دادا سائیں۔ ! اس نے فوراً جواب دیا تھا۔
کہی سے لگ رہا ہے تمہاری آج مہندی کی رسم ہے۔ آج کے دن سارے کام کو ایک طرف رکھ کر ادھر آکر بیٹھو شاہنواز صاحب نے سخت لہجے میں کہا تھا۔
اچھا دادا سائیں۔ وہ ان کے ساتھ ہی تھوڑی دور بیٹھا تھا۔
ساحر دانیہ اور ایمان کو واپس حویلی لے کر آگیا تھا مشکل سے ہی دانیہ کو کچھ پسند آیا تھا اور اس کی وجہ سے دیر بھی ہوگئی تھی۔ اب وہ دونوں تیار ہورہی تھی۔
دانیہ ہٹ بھی جاؤ آئینے کے سامنے ایسے کھڑی ہوگئی ہو جیسے آئینہ تمہارا محبوب ہو جس کے پاس سے ہٹتے ہوئے تمہیں شرم آرہی ہوں آپی ابھی محبوب ہی سمجھ لیں مجھے اچھا سا۔ تیار ہونا ہے۔ دانیہ ابھی تم جتنا تیار ہورہی ہوں یقیناً عنادل بھی نہیں ہوئی ہوگی۔ ایمان نے طنز کرتے کہا تھا۔ آپی یہ عنادل کون ہے دانیہ نے اپنا رخ ایمان کی طرف کرتے پوچھا تھا۔ حد ہے جس کے گھر تم ابھی ہمارے ساتھ چلو گی اور تو اور جو براق بھائی کی شریک حیات بنے گی اور ہماری بھابھی ایمان نے دانیہ کو ہلکے سے دھکا دئے دوسری طرف کیا تھا ایمان اب اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھوں میں کاجل لگائے ہونٹوں پر ہلکا سا لپ گلوز لگائے بالوں کو کھلا چھوڑے ہرے اور پیلے رنگ کے ہم رنگ کپڑوں میں پر کشش لگ رہی تھی۔ سرمائی آنکھوں میں کاجل کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتا تھا۔
اچھا مطلب مجھے اب پتا لگا ہے ہماری بھابھی کا نام ویسے یہ غلط بات ہے پر خیر ہے میں نے آپ کو معاف کیا دانیہ پھر ایمان کو ہٹائے آئینے سے چپک گئی تھی یار اب آبھی جاؤ تم دونوں کو اور امی کو ان کی حویلی چھوڑنا ہے میں نے۔ اور تم دونوں ہو کے کمرے سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ساحر نے اونچی آواز میں کہا تھا براق اور باقی سبھی مرد ادھر براق کے مہندی کی رسم کرنے والے تھے جبکہ ادھر عنادل کی مہندی کی رسم ہونی تھی۔ جمشید علی اور نزاکت علی بھی شاہنواز چودھری کی حویلی میں موجود تھے۔ دانیہ ایمان اور حلیمہ بیگم ساحر کے ساتھ ان لوگوں کی حویلی کے باہر کھڑی تھی۔
ساحر نے ان کو ادھر چھوڑ کر واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ حور اپنے دوپٹے کو سنبھالتے ہوئے سڑھیاں اتر رہی تھی۔ وہ چیڑ چیڑی ہورہی تھی کیونکہ وہ کب سے اپنے دوپٹے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ ایک طرف ٹھیک ہی نہیں ہورہا تھا۔ آج پہلی بار اس نے ایسا دوپٹہ پہنا تھا جو اس کے قابو میں ہی نہیں آرہا تھا سڑھیاں اترتے وقت اس کے پاؤں میں دوپٹہ آیا تھا۔ ابھی وہ گرتی کے اس کو کسی نے اپنے مضبوط باہنوں میں لیا تھا۔ حور نے آنکھ کھول کر دیکھا تو پھر وہی ماسک والا چہرہ دیکھ کر اس سے دور ہوئی تھی۔ سنبھل کر چلا کریں ہر بار میں بچانے نہیں آؤں گا۔ وہ یہ کہتے اس کے پاس سے گزر گیا تھا۔ حور اب تک صدمے میں تھیں آج پھر اس نے وہی آنکھیں دیکھی تھی جو کچھ دن پہلے گاؤں میں دیکھی تھی۔ حور بیٹا آؤ ادھر دانیہ تو حور اور عنادل کو دیکھ کر ہی ان کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی میں آپ لوگوں کو جانتی ہوں آپ جانتی ہیں میں کون ہوں دانیہ نے جاننا چاہا تھا کیا ان کو وہ یاد ہے کہ نہیں جی آپ دانیہ ہیں اس دن ملاقات ہوئی تھی ہماری حور نے جواب دیا یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے آپ مجھے جانتی ہے اب تم تمہاری بہن میری بھابھی بننے والی ہیں۔ دانیہ نے ہنستے ہنستے کہا تھا۔ دانیہ بس کردوں ایمان نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ آپ کو کیا ہے میں جس سے بھی بات کروں دانیہ نے منہ بنایا تھا۔ کرلو بات لیکن ایک بات بتاؤ ابھی تم ایسی لگ رہی ہوں جیسے کوئی پاگل بیٹھی ہوں اور عجیب عجیب سوال کر رہی ہو۔ کہی تو منہ بند کرلیا کرو کیا سوچیں گے یہ لوگ ایمان نے دانیہ کو شرم دلانے چاہی تھی۔
اچھا اب نہیں بولتی عنادل کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لی تھی وہ ایمان کی اور دانیہ کے بیچ ہونے والی گفتگو سن چکی تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ بولے ہم سنیں گے عنادل نے کہا تھا۔ دانیہ ایک دم کھلکھلا اٹھی تھی باسل جو شاہنواز چودھری کی حویلی کے لئے نکلنے والا تھا۔ دانیہ کو یوں سب کے ساتھ بیٹھے دیکھ تھوڑا حیران ہوا اور حور نے باسل کو نیچے آتے دیکھ لیا تھا تبھی اس کے پاس گئی تھی بھائی آپ ادھر کیا کر رہے ہیں یہاں مرد کا آنا منع ہے حور نے جانچتی نظروں۔ سے گھورا تھا مجھے پتا ہے میں ان کی حویلی کے لئے ہی نکل رہا ہوں بس کاشان کا انتظار کر رہا ہوں اور یہ لوگ کون ہے باسل کا اشارہ صاف دانیہ کے طرف تھا۔ اررے یہ تو براق بھائی کی بہنیں ہیں حور نے بتایا تھا۔ اچھا ! باسل نے بس اتنا کہنے پر اکتفا کیا تھا۔
کاشان بھی سڑھیاں پھلانگتے ہوئے اپنی دھن میں نیچے آرہا تھا۔ جب نظر سامنے بیٹھی حسینہ پر جاکر روکی تھی۔ کاشان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہی اپنی آنکھیں زور سے میچی تھی۔ شکر الحمد اللہ بے ساختہ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے وہ سر کو جھکائے معافی مانگنے کا ارادہ بعد میں رکھتے باہر نکلا۔تھا۔
باسل اور کاشان بھی حویلی پہنچ گئے تھے ادھر عنادل کی رسم ہورہی تھی اُدھر براق کی مہندی کی رسم ہورہی تھی۔
ایمان کی نظریں سامنے دیوار میں لگی تصویر کو دیکھ رہی تھی۔ جس میں جمشید علی آگے کرسی میں بیٹھے تھے جبکہ ان کے ساتھ ہی نزاکت صاحب کھڑے تھے اور دائیں طرف باسل خان پھر ہلکے ہلکے کرتے اس نے پوری تصویر کو غور سے دیکھا تھا جب نظر اس شخص پر جاکر روکی تبھی اس نے اپنا چہرہ موڑ لیا تھا۔
اگر کاشان یہاں ہوتا تو ضرور بے ہوش ہوجاتا لڑکیاں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مری جارہی ہوتی ہے اور اس نے اس کی تصویر کو دیکھ اپنی نظریں پھیر لی تھی۔
کلثوم بیگم اور حلیمہ بیگم باتوں میں لگی ہوئی تھی۔ کلثوم بیگم کو ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ان کی بیٹی کو وہ لوگ اپنے پوتے کے خون کے عوض ونی میں لے کر جارہے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے لہجے سے اپنائیت صاف ظاہر ہورہی تھی۔ تم پریشان نہیں ہونا تمہاری بیٹی میری بیٹی ہی ہے صائم کی زندگی اتنی ہی تھی اللّٰہ کا فیصلہ تھا شاید اس کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی۔ میری طرف سے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی ہاں پر میں بابا سائیں کی طرف سے کچھ نہیں کہ سکتی کیونکہ ان کے حکم پر ساری حویلی کے افراد چلتے ہیں حلیمہ بیگم ان کو تسلی دیتے ساتھ ہی بتا گئی تھی کہ شاہنواز کے بات کے خلاف کوئی نہیں جا سکتا۔ میں سمجھ سکتی ہوں اس حویلی کا چشموں چراغ تھا صائم چودھری میں یہ نہیں کہتی میری بیٹی کی ہر خواہش پوری کرو پر یہ ضرور کہوں گی اس کے ساتھ اتنا برا سلوک نا کرنا کیونکہ آگے بیٹیاں تمہاری بھی ہیں کلثوم بیگم اپنی آنکھ سے نکلنے والے آنسوں کو اندر دھکیلتے ان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سب کچھ باور کروا چکی تھی۔ یہ تو قدرت کا اصول بھی تھا۔ جو جیسا کرتا ہے اس کے سامنے بھی ہے وہی آتا ہے چاہے دیر سے ہی سہی پر جب اللّٰہ اپنے بندے کی آزادی کی ڈور کھینچتا ہے تو وہ بندہ پھڑپھڑانے لگتا ہے پھر اپنی غلطی پر ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
تمہیں میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہوگی تم بے فکر رہوں حلیمہ بیگم نے کلثوم بیگم کے کندھے پر ہاتھ رکھے انھیں تسلی دی تھی۔
ادھر ساحر کی ملاقات باسل اور کاشان سے ہوئی تھی وہ ان سے گرم جوشی سے ملا تھا۔ براق کی ملاقات بھی باسل خان اور کاشان سے ہوئی وہ بھی ان کے گلے لگا تھا باسل تو ان لوگوں کا یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہی سکتے میں پڑگیا تھا جیسا وہ سوچ رہا تھا وہ تو اس سے بلکل الگ ہیں وہ سمجھا تھا وہ ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں تو حالات ہی مختلف تھے اس کے ساتھ ہی شاہنواز چودھری اور جمشید علی بھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ باسل کاشان ساحر اور براق ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے جو ایک دوسرے کو اپنا جانی دشمن کہتے تھے وہ اس طریقے سے باتوں میں مگن ہیں کہ ان کو اپنے آس پاس کوئی نظر ہی نہیں آرہا ہوں۔
خیر تو ہے دادا سائیں اپنے جانی دشمن کے ساتھ اس طریقے سے باتیں کی جارہی ہیں براق نے شاہنواز چودھری کے پاس آتے کہا تھا براق کی مہندی کی رسم کے بعد سب لوگوں کو وہاں سے بھیج دیا گیا تھا۔ کیونکہ یہ براق کا ہی حکم تھا جس پر شاہنواز چودھری نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا لیکن اس کا کہنا تھا میں زیادہ کچھ نہیں کرنا چاہتا شادی ہال میں ہوگی وہاں دھوم دھام سے سب کریں لیکن حویلی میں ہماری گھر کے عورتوں کی تصویریں ہر دیوار پر لگی ہے جو ان کی یادگار تصویریں تھی اور میں نہیں چاہتا کسی غیر محرم کی نظر اس تصویر پر بھی پڑے... اس لئے مہندی کی رسم بھی اس کے کہنے ے پر باہر لان میں کی گئی تھی اس نے سب انتظام وہی کروایا تھا اور جیسے ہی رسم ختم ہوئی تو کھانے کا دور شروع ہوا تھا اس کے بعد سب اپنے اپنے گھر کو نکلے تھے لیکن حلیمہ بیگم اور ایمان اور دانیہ نہیں آئی تھی حویلی اس لئے کاشان اور باسل بھی شاہنواز چودھری کی حویلی میں موجود تھے۔
شاہنواز صاحب نے براق کی طرف دیکھا تھا۔ کیا مطلب!
مطلب یہ کہ اچانک آپ کا ارادہ کیسے بدل گیا کل تک تو آپ کی اور ان کی خالص قسم کی دشمنی تھی۔
بات یہ ہے کہ۔ہم نے سوچا دشمنی کو ایک طرف رکھے دشمنی کو بھلائے ہم اپنے بچوں کی زندگی کے بارے میں سوچیں اور ویسے بھی اللّٰہ کی مرضی تھی جو ہونا تھا وہ ہوگیا اور اب صائم کو واپس تو نہیں لایا جاسکتا وہ ہمارے دل میں ہے اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی اور یقیناً صائم بھی اس فیصلے سے بہت خوش ہوگا۔
جمشید علی نے اپنے دوست کو دیکھا اور ان کے گلے لگ گئے شاہنواز چودھری نے بھی اپنے دوست کو گلے لگایا تھا۔
یاد ہے ہماری دشمنی اس بات سے ہی شروع ہوئی تھی لیکن مجھے پتا ہے کاشان نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا اگر تمہیں کبھی بھی لگے کہ کاشان نے یہ سب جان بوجھ کر کیا ہے یا پھر مجھے اس بات کی بھنک بھی پڑی تو میں اپنے ہاتھوں سے چھ۔ گولیاں اپنے پوتے کے سینے میں اتاروں گا اور یہ کرتے ہوئے مجھے زرا سے بھی شرمندگی نہیں ہوگی۔
کاشان تو اپنے دادا سائیں کو ہونک بنے دیکھ رہا تھا۔ براق کاشان کے پاس آتے بولا تھا۔ پریشان نا ہو کچھ نہیں ہوگا تمہیں اور پہلی بار میں خود یہ سب دیکھ رہا ہوں جو لڑکی میری زندگی میں ونی کے طور پر آرہی تھی اب وہ ونی کا تھپا ہٹا کر میری زندگی میں آرہی ہے۔ کبھی سنا بھی ہے کسی نے اپنے بھائی کا یا پھر بیٹے کا خون معاف کیا ہو۔۔ میں تو خود سوچ رہا ہوں گاؤں میں اسکول اور ہسپتال بنوانے کے ساتھ یہ دکیانوسی رسم بھی ختم کردوں ہر چیز میں اللّٰہ کی مصلحت ہوتی ہے کاشان نے براق کو جھٹکے سے اپنے سینے سے لگایا تھا آج اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تھا آج وہ سکون میں آیا تھا کافی عرصے سے وہ یہی بوجھ اٹھائے جی رہا تھا کہ اس کا جان سے پیارا دوست اس کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ غلطی تھی اس کی وہ ماننے سے انکاری نہیں تھا۔
نزاکت صاحب اور عباس چودھری بھی ایک دوسرے کے گلے لگے تھے آج سارے گیلے شکوے بھلائے وہ اپنی آگے کی زندگی کو سوار گئے تھے۔
باسل خان اور ساحر تو ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
آپ سے ایک بات بولو اپنی بہن کو مجھ سے بچا کر رکھے کبھی بھی وہ میری قید میں آسکتی ہے۔ باسل نے ساحر کو وارن کرتے ہوئے کہا تھا۔
ہیں! کیا مطلب؟ بہت جلد مطلب سمجھ آجائے گا۔
کاشان کی نظریں پوری حویلی کو اوپر سے نیچے دیکھ رہی تھی۔ جب اس کی نظریں حویلی کی دیوار پر لگی ایک تصویر پر رکی جہاں ایمان مسکرا رہی تھی۔ سر پر دوپٹے کو سیٹ کئے آنکھوں میں تب بھی کاجل تھا۔ کالے رنگ کے کپڑے زیب تن کئے وہ مسکرا رہی تھی۔ اور دیکھ ایسے رہی تھی جیسے اپنی نظروں سے کیسی کو گھائل کرنے کا ارادہ ہو ماشاءاللہ کاشان نے دل میں کہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا اس کی یہ تصویر اپنے ساتھ ہی حویلی لے جائے۔
شاہنواز میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں تم سے۔ جمشید صاحب نے بات کی شروعات کی تھی۔
ہاں ہاں بولو !
بات یہ ہے کہ میں اپنے پوتے کاشان کے لئے تمہاری پوتی دانیہ کا رشتہ مانگتا ہوں کاشان کی سانس تو جیسے روک سی گئی تھی وہ ایمان کے علاؤہ کسی کو اپنی زندگی میں لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
جہاں کاشان کی سانس روکی تھی تو دوسری طرف باسل نے بھی دانیہ کو کاشان کے ساتھ تصور کرتے جھرجھری لی تھی۔
میں تمہاری بات سے منع نہیں کرتا لیکن دانیہ ابھی پچی ہے تم اگر ایمان کے متعلق بات کرتے تو میں براق کے ساتھ ساتھ ایمان کی شادی کے لئے بھی تیار ہوجاتا دونوں بہن بھائی کی شادی ایک ساتھ ہو جاتی اس سے بڑی کیا بات تھی۔
تو پھر ٹھیک ہے میں باسل کے ساتھ ایمان کے لئے تیار ہوں
کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو باسل نے ان دونوں کو روکا تھا۔
کیوں تمہیں مئسلہ ہے؟ مجھے مئسلہ تو کوئی نہیں لیکن باسل روک گیا تھا وہ کیسے بتاتا۔ اررے دادا سائیں آپ بھائی کو چھوڑے میں تیار ہوں ایمان سے شادی کے لئے کاشان نے بیچ میں کودتے بولا تھا کہی موقع اس کے ہاتھ سے ہی نا چلا جائے ہاں دادا سائیں کاشان کی کروا دیں میں ابھی تیار نہیں ہوں۔ باسل نے بھی فوراً کاشان کی بات پر ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
براق نے اپنا قہقہ ضبط کیا ہوا تھا وہ سمجھ گیا تھا یہاں کونسا معاملہ چل رہا ہے۔
تو پھر کاشان کے ساتھ دانیہ دادا سائیں دانیہ نہیں ایمان دونوں نے ایک ساتھ چیخ کر کہا تھا۔
ہاں ہاں ایمان کی شادی بھی براق کے ساتھ ہوگی۔
زرا تم تینوں میرے ساتھ سائیڈ پر آؤں براق نے کاشان باسل اور ساحر کو اپنے پیچھے آنے کا کہا تھا۔
یہ کونسا سین چل رہا ہے سچ سچ بتاؤں۔ براق نے جانچتی نظروں سے دونوں کو دیکھا تھا باسل سر کو اٹھائے جبکہ کاشان سر جھکائے کھڑا تھا۔
بھائی میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ مجھے کیوں بلایا ہے۔ یہی کھڑے رہوں جب تک میں کچھ نا بولوں یہاں سے ہلنا بھی نہیں تم تینوں! اور تم باسل تم تو میری عمر کے ہو یہ کیا بچوں والی حرکت تھی براق اپنی ہنسی کو روکے ان تینوں کے چہرے کو دیکھ رہا تھا
بھائی زرا غور سے سنوں مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔ باسل نے اپنا پتہ صاف کیا تھا۔
اور مجھے! کاشان سوچ رہا تھا کہ وہ بولے یا پھر نہیں۔
ہاں تمہیں! آگے بولو براق سمیت وہ دونوں بھی اس کو ہی گھور رہے تھے۔ یار بات یہ ہے کہ میں دادا سائیں کو منع نہیں کرسکا اس لئے بولا تھا اچھا یہ بات ہے تم مجبوری میں شادی کر رہے ہوں تو کوئی بات نہیں میں دادا سائیں۔ کو بول دیتا ہوں ایمان کی ہم کہی اور شادی کر دیں گے لڑکا راضی نہیں ہے ۔۔ براق نے اپنی کمیز جھاڑتے حویلی کا رخ کیا تھا۔ اررے روکو تو سہی کہا جارہے ہوں کاشان نے براق کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا۔
لڑکا راضی ہے۔ کاشان نے نظروں کو جھکائے کہا تھا۔
مطلب میرا بھائی دیوانہ ہوگیا ہے۔ باسل نے فقرہ اچھالا تھا اررے نہیں محبوب آپکے قدموں میں ہے ساحر نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تھا۔
شرم کرلو تم دونوں براق نے ان دونوں کو گھوری سے نوازہ تھا ہاں تو ایسے کہے ٹھیک طریقے سے ساری بات بتائے آخری ہماری بہن کی زندگی ہے پوری ہم تھوڑی رسک لے سکتے ہیں ساحر نے کہا ہمم ! بات تو ٹھیک کہی ہے ہاں بھئی اصلی بات بتاؤں براق بھی کاشان کے اوپر چڑھ گیا تھا۔
یار کیا ہوگیا ہے پیچھے ہی پڑ گئے ہوں پسند ہے مجھے اب اور کچھ سننا ہے کاشان چیڑ کو بولا تھا ہاں سننا ہے کب دیکھا تم نے اس کو۔ اب کے بار باسل نے سوال کیا تھا کاشان باسل کو دیکھ رہا تھا اسے باسل سے اس چیز کی امید نہیں تھی کہ وہ بھی اپنی ٹیم بدل لے گا۔
یار گاؤں میں بچوں کو چیزیں دے رہی تھی۔ باقی اس نے سب کچھ ان لوگوں کے کان میں بات ڈال دی مطلب تم نے میری بہن کو اس کے سانولے رنگ پر طعنہ دیا۔ ساحر نے کاشان کے گریبان پکڑا تھا۔ ہاں تمہیں یہ دکھا مطلب یہ نہیں دیکھا اس نے میری اچھی خاصی بے عزتی کردی کاشان نے ناک موڑی تھی ۔۔ہاں تو کیا غلط کیا اس نے ویسے اس کی اس بات سے سب ڈرتے ہیں غلط بات پر تو وہ اپنوں کے خلاف ہو جاتی ہے چلوں میں تمہیں ایک قصہ بتادوں ایک دفعہ جب وہ گاؤں میں ٹہلنے کے لئے نکلی تھی۔ اس کو ایک لڑکی اور لڑکا دونوں یوں گھور رہے تھے جیسے اس کو کھانے کا ارادہ کئے ہوئے ہوں تو ایمان ان کے پاس گئی اور لڑکی سے پوچھا بہن آپ کا شوہر مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیوں دیکھ رہا ہے۔ لڑکی کی چیخ نکل گئی تمہیں پتا ہے کیوں؟ ساحر نے پوچھا تھا کاشان نے اپنے کندھے اچکا دئے تھے! وہ اس لئے کیونکہ وہ لڑکا اس کا شوہر نہیں بھائی تھا اور ایمان نے اس کو اس لڑکی کا شوہر بنا دیا تھا۔ پھر اس لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی اور کو ہی بیوی بنانے کا سوچ رہا ہوں ایمان نے اپنے چپل اتار کر اس کو اتنا دھویا جیسے کپڑوں کو نچوڑ نچوڑ کر دھوتے ہیں ایسے بس تب سے اس کو گاؤں کے لوگ دیکھ کر بولتے ہیں بی بی جی آپ کیوں آئی اگر آپ کو کوئی کام تھا تو ہمیں بلا لیتی بس تب سے وہ جب بھی حویلی سے نکلتی ہے تب سے لڑکے چھپ جاتے ہیں اور ہم اس کے پیچھے خاص طور پر گارڈ کو بھیجتے ہیں تاکہ وہ کسی کو پھر نہیں دھو دے۔ ساحر نے بڑے فخر سے ایمان کا کارنامہ بتایا تھا۔ براق اور باسل تو کاشان کی شکل دیکھ ہی اپنی کب سے روکی ہنسی پر قابو نا پاتے ہنس پڑے تھے۔
سچ بتاؤ ایسی ہے تمہاری بہن۔ کاشان کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا جو لڑکی اتنی معصوم سی دکھتی ہے وہ اتنی خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ نہیں تو کیا ہم جھوٹ بول رہے ہیں ساحر نے شوخ لہجے میں اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑتے دیکھ کہا تھا۔
بھائی آپ نے چلنا نہیں ہے پھر ایک دن بعد میری بھی تو شادی ہے کاشان باسل کے ہاتھ کو پکڑے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے لے کر نکلا تھا۔
جبکہ ساحر اور براق تو اس کی خراب ہوتی حالت سے لطف اندوز ہوئے تھے۔
ایمان اور دانیہ اور حلیمہ بیگم بھی حویلی پہنچ گئی تھی ۔
ایمان اور دانیہ تو اپنے اپنے کمروں میں چل دی تھی ایمان تو بہت تھک گئی تھی جبکہ دانیہ اپنے موبائل کو نکالے اپنی تصویریں دیکھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
حلیمہ بیگم عباس صاحب کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھی تھی جبکہ شاہنواز چودھری ان کو دیکھ بولے تھے۔ بہو ایمان کو بھی تیار کرلو براق کے ساتھ اس کا بھی نکاح ہوگا ۔ وہ یہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھتے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ یہ کیا ہورہا ہے عباس صاحب حلیمہ بیگم نے پوچھا تھا۔
عباس صاحب نے ان کو آج کی ساری روادار سنائی تھی حلیمہ بیگم تو بہت ہی خوش ہوئی تھی یعنی بابا سائیں نے معاف کردیا۔ ہاں انہوں نے کاشان کو معاف کردیا اور اس کے ساتھ ہی ایمان اور کاشان کی شادی بھی براق کے ساتھ ہے.! یہ تو بہت اچھی بات ہے میں ابھی ہی ایمان کو بتا کر آتی ہوں حلیمہ بیگم بہت خوش تھی کیوں نہیں ہوتی انھیں پتا تھا ان کی بیٹی کے لئے کاشان سے اچھا کوئی لڑکا ہو ہی نہیں سکتا جہاں ایمان سر پھری تھی وہاں کاشان بھی ٹیڑھے دماغ کا تھا اور ان کی بیٹی کو کاشان ہی سنبھال سکتا تھا۔
ایمان اپنے کپڑے چینج کئے آرام دہ کپڑے پہنے وضو کئے نماز پڑھ رہی تھی تبھی حلیمہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ اس کو نماز پڑھتے دیکھ بیڈ پر بیٹھی تھی ایمان نے نماز پڑھ کر سلام پھیرا تھا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تھا۔ دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھوں سے زاروقطار آنسوں بہہ رہے تھے حلیمہ بیگم اس کو غور سے دیکھ رہی تھی جو نا جانے اتنی شدت سے کونسی دعا مانگ رہی تھی۔ ایمان جائے نماز کو رکھے حلیمہ بیگم کو دیکھ کر ان کے ساتھ آکر بیٹھی تھی۔
کیا مانگ رہی تھی۔ حلیمہ بیگم نے پوچھا تھا۔ میں نے بس یہی مانگا میرے ہمسفر نیک ہوں مجھے جھیل سکیں اس کو اتنی طاقت اللّٰہ دے کے وہ میرے ناز نخرے اٹھا سکے کیونکہ آپ جانتی ہیں آپکی بیٹی تھوڑی سر پھری ہے ایمان کے چہرے پر مسکراہٹ نے جگہ لی تھی۔ بیٹا ایک بات کرنی ہے تم سے۔ حلیمہ بیگم نے تہمید باندھے کہا تھا۔ آپ کہے میں سن رہی ہوں۔
جاری ہے۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback