Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 05


Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 05.

جمشید علی اور نزاکت علی کے ساتھ وہ دونوں حویلی میں داخل ہوئے تھے۔ 

کلثوم بیگم ان لوگوں کو یوں خاموش دیکھ سمجھ گئ تھی۔ فیصلہ کس کے حق میں ہوا ہے۔ کاشان جس کا غصہ قابو میں ہی آرہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا صائم کے دوست سلیم کو گریبان سے پکڑ کر چودھریوں کے سامنے لا کر کھڑا کرے اور گن کو اس کے سر پر رکھے ساری سچائی بتانے کا بولے لیکن اس کو ان لوگوں کا کچھ نہیں پتا تھا وہ کہا گئے ہیں کدھر رہتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں ! کلثوم بیگم نزاکت صاحب کے پاس آتی بغیر کسی پریشانی کے ان سے سوال پوچھ بیٹھی تھی۔ کب آئے گے وہ لوگ؟ عنادل کو لینے؟ نزاکت صاحب تو ان کو دیکھ رہے تھے جن کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی کوئی فکرمندی ظاہر نہیں۔ ہو رہی تھی۔ جمعے کی شام کو وہ دھوم دھام سے عنادل کو لینے آئے گے ان کا کہنا ہے پورے گاؤں کے سامنے وہ عنادل کو اپنے پوتے براق چودھری کی شریک حیات بنا کر ہماری حویلی سے لے کر جائے گے اور عنادل کو آج سے ہی مایوں بیٹھا دو اور کل وہ لوگ مہندی کی رسم کے لئے آئے گے۔  

ہمم ! انہوں نے بس اتنا ہی کہاں تھا کلثوم بیگم کو پتا تھا۔فیصلہ یہی ہونا تھا وہ اپنی بیٹی کو یوں اداس ہوکر رخصت نہیں کرنا چاہتی تھی ان کو پتا تھا۔ براق ان کی بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کب ہوا اچھا ہوا آپ کی دلہن آرہی ہے اس گھر میں دانیہ کے توں پاؤں زمین پر ٹک ہی نہیں رہے تھے۔

بھائی کل آپ ہمیں شہر لے کر جائے گے ہم وہاں سے اپنے لئے خریداری کریں گے دانیہ نے پہلے سے ہی اپنی بات براق کے آگے رکھی تھی وہ جانتی تھی براق اس بات کے لئے بلکل راضی نہیں ہوگا اس لئے اس نے شاہنواز چودھری کی موجودگی میں یہ فرمائش کی تھی وہ جانتی تھی شاہنواز چودھری براق کے سامنے دانیہ کا ہی ساتھ دے گے۔ 

ٹھیک ہے کل ساحر کے ساتھ چلی جانا براق ہونز موبائل میں جھکے بولا تھا جیسے اسے کسی چیز سے کوئی سروکار ہو ہی نہیں۔ 

دانیہ تو اتنے میں ہی خوش ہوتی ایمان کو کھینچے کمرے میں چل دی تھی ایمان دانیہ کے اس طرح کھینچنے پر اس کے ساتھ چل دی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنادل اور حور کمرے میں بیٹھی تھی تبھی کلثوم بیگم ان کے کمرے میں آئی تھی۔ 

حور بیڈ پر لیٹے جانے کن سوچوں میں تھی جبکہ عنادل اپنے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی اور ان کو دیکھ دیکھ کر عجیب عجیب سے چہرے بنا رہی تھی حور میں سوچ رہی ہوں کہ اب ہمیں شاپنگ پر چلنا ہی چاہئیے میرے سارے کپڑے پرانے ہوگئے ہیں وہ بولتے بولتے موڑی تھی تبھی کلثوم بیگم کو اپنے پاس آتے دیکھ بولی تھی۔

امی آپ یہاں۔ کیوں میں نہیں آسکتی۔ 

نہیں آسکتی ہیں کوئی کام تھا۔ ہاں کام تو تھا کل تمہاری مہندی ہے سردار براق کے ساتھ اور اس جمعے کو تمہاری رخصتی ہے۔ عنادل پر تو جیسے کسی نے حیرتوں کے پہاڑ گرائے تھے۔ کیا مطلب یہ سب اچانک کیسے بے ساختہ اس کے منہ سے یہی جملہ نکلا تھا۔ تم جاننا چاہتی تھی نا کہ ایسا کونسا راز ہے جو تمہیں نہیں بتایا گیا ادھر بیٹھو میں تمہیں آج سب بتاؤ وہ اس کو بیڈ پر لائی تھی اور وہ ان کے ساتھ کھینچتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی تھی۔  

کلثوم بیگم جیسے جیسے اس کو سب بتا رہی تھی وہ شکوہ کن نظروں سے ان کو دیکھ رہی تھی۔ ساتھ حور بھی یہ سب سن کر حیران ہوئی تھی۔ پر بھائی نے یہ سب کیا کیوں؟ وہ اپنے آنکھ سے نکلنے والے آنسوں کو اندر دھکیلتے بولی تھی۔ کاشان کا کہنا ہے یہ سب ایک غلطی ہے وہ یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے گن سے نکلی گولی شاہنواز چودھری کے پوتے صائم چودھری کو لگی تھی اس سے یہی ثابت ہوا تھا کہ کاشان نے ہی صائم چودھری کو مارا ہے جس کے عوض تمہارا نکاح براق علی کے ساتھ بچپن میں ہی کر دیا گیا تھا۔ عنادل کا دل جیسے ٹوٹ کر رہ گیا تھا اس کو یہ امید نہیں تھی کہ اس کا نکاح یوں ہوگا وہ کیسی کے گھر ونی ہوکر جائے گی اس کو اس بات سے مئسلہ نہیں تھا کہ اس کی شادی سردار براق سے ہورہی ہے۔ آج نہیں تو کل بھی اس کے ماں باپ جہاں کہتے اس نے شادی کرنی ہی تھی لیکن اس کو یہ ڈر تھا اس کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جائے گا کیونکہ اس نے جہاں تک سنا ہے ونی میں آئی لڑکی کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ یہ سب سوچتے ہی کانپ گئی تھی۔  

میں راضی ہوں امی آپ بابا سائیں کو بتا دے کہ ان کی بیٹی ان لوگوں کی حویلی میں رخصت ہوکر جانے کے لئے تیار ہے۔ بھائی کو بھی کہہ دے ان کی بہن کو ان پر پورا بھروسہ ہے وہ کبھی ایسا کچھ نہیں کر سکتے مانتی ہوں وہ غصے کے بہت تیز ہیں لیکن غصے میں آکر کیسی کا خون کرنا ان کے فطرت میں شامل نہیں ہے۔ بس ایک دعا آپ سب کرئیے گا میرے لئے میں وہاں ان کے ہر ظلم وستم برداشت کرسکوں ان کے ہر سلوک پر اپنے اوپر صبر رکھ سکوں۔ 

اور میرا وعدہ ہے آپ لوگوں سے کبھی آپ لوگوں کا نام جھکنے نہیں دوں گی میرا مرنا جینا سب وہی ہی ہوگا ۔اگر میں ان کے ظلم وستم سہتے سہتے مرجائوں تو۔ بس ایک کام کرنا میرا محرم ہو اسے کہنا ہر جمعے کو میری قبر پر آکر فاتحہ پڑھ دیا کریں اتنا تو وہ کر ہی سکتے ہوں گے باقی آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ عنادل نے اپنے چہرے پر آئے آنسوں کو بے دردی سے رگڑا تھا آج وہ ٹوٹ گئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی وہ ونی کے طور پر کسی کی حویلی میں جائے وہ ہر لڑکی کی طرح اپنے ہمسفر کے ساتھ خوش رہنا چاہتی تھی لیکن یہاں تو اس کو سب بلکل الگ رہا تھا کہتے ہیں نا خواب خواب ہی ہوتے ہیں حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے۔ اس کو بھی کچھ یہی لگ رہا تھا۔ کلثوم بیگم تو اپنی بیٹی کی ایسی بات سنتے ہی اس کو اپنے سینے سے لگا گئی تھی۔  

عنادل کے آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے لیکن دل کے سارے احساس مر چکے تھے وہ اپنے سارے جذبے کو کہی دور پھینک چکی تھی۔ حور بھی عنادل کے گلے لگے رودی تھی۔ 

تم کیوں رو رہی ہوں میں مر تھوڑی رہی ہوں جب مروں تب رونا میرے لئے میں چاہتی ہوں میں مر کر بھی سب کے دل میں زندہ رہوں ناول میں پڑھا تھا گاؤں کے سرداروں کے یہاں ایسی روایت ہوتی ہیں لیکن آج اپنے اوپر گزر رہی ہے تو پتا چل رہا ہے۔ کہانیوں میں تو ہیپی انڈنگ ہوجاتی ہے لیکن حقیقت بہت تلخ ہوتی ہے۔  

آپی ایسی بات کیوں کر رہی ہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا اور براق بھائی ایسے نہیں ہوگے وہ آپ کو بہت خوش رکھیں گے۔ حور اپنا حصار اس پر تنگ کر گئی تھی۔ کلثوم بیگم کے بھی آنکھ سے آنسوں آگئے تھے وہ جانتی تھی۔ ان کی بیٹی کے بھی بہت خواب تھے لیکن وہ کیا کر سکتی تھی۔ یہ تو ہونا ہی تھا آج نہیں تو کل عنادل کو اس گھر سے جانا ہی تھا اگر آج وہ ان لوگوں کو منع کر دیتے تو ان کو کاشان کو مارنے میں تھوڑا بھی وقت نہیں لگتا۔

عنادل اٹھتے ان دونوں کو وہاں چھوڑے خود واشروم کے اندر جاتے پانی کا نل کھولا چھوڑے اپنے روکے ہوئے آنسوں کو باہر آنے کا راستہ دے گئی تھی۔

باہر کلثوم بیگم اور حور بھی اس کی یہ حالت دیکھیں چپ سی ہوگئی تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشان کو اپنی بہن کے ساتھ یہ سب ہونے پر بہت پچھتاوے نے آگھیرا تھا۔ اور ایک اور سوچ اس کے دماغ میں چل رہی تھی کہ وہ لڑکی کون تھی..! جس سے آج شام کو اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ لڑکی اس کی بات اس کو اپنے دل کے اندر اترتے ہوئے محسوس ہوئی تھی۔  

وہ فوراً واشروم میں جاتے وضو بنانے لگا کچھ دیر بعد وہ جائے نماز لئے عیشاء کی نماز پڑھنے لگا۔ نماز پڑھنے کے بعد اس نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے تھے۔  

یا اللّٰہ میری بہن نے کچھ نہیں کیا اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونا چاہئیے آپ تو جانتے ہیں میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا میرا نشانہ صائم پر نہیں تھا۔ وہ تو میرا یار تھا۔ اور میں کیسے اس کو مار سکتا ہوں یا اللّٰہ جس نے یہ سب کیا ہے اس کا فیصلہ میں آپ کے حوالے کرتا ہوں کیونکہ آپ ہم دنیا کے رہنے والے لوگوں سے کئی بہتر انصاف کرنے والے ہیں آپ کی طاقت کے آگے کوئی بھی نہیں کھڑا رہ سکتا ہے۔ یا اللّٰہ مجھے معاف کر دے میں نے آج ایک لڑکی کا دل دکھایا ہے۔ میں کیسے اس کو اس کے رنگ کا طعنہ دے سکتا ہوں وہ بھی تو ہماری طرح ہیں یا اللّٰہ یہ بوجھ میرے دل پر ہیں میں چاہتا ہوں ایک بار میری ملاقات اس سے ہوجائے میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں یا اللّٰہ میں چاہتا ہوں وہ مجھے معاف کردے پھر آپ بھی مجھے معاف کردیں گے۔ کاشان کی آنکھ سے آنسوں زاروقطار بہہ رہے تھے آج وہ اپنے کئے پر بہت نادم تھا۔ بے شک اللّٰہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ وہ دعا کئے اپنے چہرے پر ہاتھ کو پھیرے جائے نماز کو رکھے کھڑکی کے پاس آیا تھا آج۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ آج ان نیلی آنکھوں میں۔ سرمائی آنکھوں والی کا راج تھا۔ اس میں کچھ تو کشش تھی جو کاشان خان جس کے پیچھے ہزار لڑکیاں پاگل تھی اور وہ دیوانہ ایمان علی کے پیچھے تھا ہائے رے یہ یک طرفہ محبت بہت دکھ پہنچاتی ہے۔ کاشان خان کی یک طرفہ محبت جانے کہاں تک جانی تھی اس کو کتنا دکھ دینے والی تھی یا پھر۔ خوشیاں ہی خوشیاں اس کے حصے میں آنے والی تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنادل جو کافی دیر اپنا دل ہلکا کرنے کے بعد واشروم سے باہر آئی تھی۔ کمرا خالی تھا کلثوم بیگم اور حور دونوں کچھ دیر اس کو اکیلا چھوڑنا چاہتی تھی۔ عنادل آئینے کے سامنے کھڑے اپنے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ آنکھیں جو رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھی۔ چہرہ سوجا ہوا تھا۔ کچھ دیر تو وہ اپنے آپ کو دیکھ کر بھی ششدہ رہ گئی تھی۔ اتنے سے وقت میں اس نے اپنی کیا حالت بنالی تھی۔  

موبائل پر مسلسل کال آرہی تھی لیکن اسے ہوش ہی کہاں تھا۔  

حور کمرے میں آئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں آج پھر گلاب کے پھول کا گلدستہ تھا اس نے عنادل کے پاس آتے اس کی اجڑی حالت کو دیکھا تھا۔ اور اس گلدستے کو ٹیبل پر رکھا تھا اور خود عنادل کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔  

عنادل تم نے یہ کیا اپنا حال بنالیا ہے۔ تمہیں کیوں یہ لگتا ہے تم وہاں خوش نہیں رہوں گی کیا پتا براق بھائی کبھی تمہاری آنکھ میں آنسوں نہیں آنے دیں۔  

عنادل حور کی اچانک موجودگی پر اپنے سر کو جھٹک کر اس کی طرف رخ کرے اس کو سن رہی تھی آنکھیں جھکی ہوئی تھی۔  

یوں مایوس نہیں ہو ! تم جانتی ہوں کبھی کبھی جو بندہ سوچتا ہے اس کے بر عکس اللّٰہ کرتا ہے کیا تم نے معجزہ کے بارے میں نہیں سنا ہے! اس نے عنادل کے چہرے کو تھوڑی سے پکڑے اوپر کرتے پوچھا تھا۔  

عنادل کی آنکھ میں پھر سے آنسوں چمکے تھے۔ کیوں اپنے آپ کو کمزور کر رہی ہوں کیوں اپنے ساتھ یہ ظلم کر رہی ہوں میری بات مانوں تو اپنے آپ کو اتنا بہادر بنالوں کہ کوئی تمہارے اوپر انگلی اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے۔ اپنے آپ کو اتنا قیمتی بنالوں کے تمہیں پانے کے لئے لوگ صرف سوچ ہی سکے حاصل تم جیسی نیک سیرت لڑکی کو صرف تمہارا محرم ہی کر سکے۔ حور عنادل سے چھوٹی تھی لیکن اس کی باتیں ایسی تھی۔ جیسے وہ یہ سب سہہ چکی ہے۔

عنادل زور سے اس کے گلے لگی اور پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی شاید وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکلنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے دل کو ہلکا کرنا چاہتی تھی ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی حور اپنے آپ کو کمزور نہیں ہونے دینا کمزور کو دنیا والے ٹور کر رکھ دیتے ہیں۔ اچھا اب اپنے آنسوں صاف کروں اور یہ دیکھوں کیسی نے بھیجا ہے۔ اور اپنے موبائل کو دیکھو کب سے کیسی کی کال آرہی ہے حور عنادل کے چہرے پر آئے آنسوں صاف کئے۔ اس کو گلاب کا گلدستہ پکڑائے اور موبائل پر مسلسل کال آنے کا بتاتے کمرے سے باہر نکلی تھی۔  

عنادل جب اس گلاب کے گلدستے کو پکڑے دیکھنے لگی جس میں چھوٹا سا خط دیکھا تو اس کو کھولا تھا۔  

تمہارے آنسوں بہت قیمتی ہے انہیں ضائع مت کروں۔

تمہارا ہر ایک آنسوں میرے لئے اس دنیا کی ساری چیزوں سے کئی زیادہ معنی رکھتا ہے۔ خوش یوں رہوں جیسے کبھی دکھ نے تمہیں چھوا بھی نہیں ہوں۔ مسکراؤ یوں کہ تم سے زیادہ اس دنیا میں کوئی خوش نا ہوں۔

اس چھوٹے سے خط میں بس اتنا ہی لکھا تھا۔ 

پھر اس نے مسلسل بجتے موبائل کو اٹھایا تھا۔ آج بھی پرائیویٹ نمبر سے کال آرہی تھی۔ اس کے ہاتھ کپکپائے تھے۔ جانے کیوں آج وہ ڈر رہی تھی کال اٹھانے سے۔ اس نے ڈر کو ایک طرف رکھے ہمت کرتے کال اٹھاتے موبائل کان سے لگایا تھا۔ سنا ہے تمہاری شادی ہورہی ہے..؟ ۔ مقابل سے گھمبیر آواز سنتے ہی عنادل کا دل دھڑکا تھا۔ کون ہے جس سے تمہاری شادی ہورہی ہے..؟ کیا کام کرتا ہے؟؟ کدھر رہتا ہے؟؟ تمہیں پسند ہے!!! یا پھر بس گھر والے کروارہے ہیں ۔

کبھی دیکھا ہے کیسا دکھتا ہے؟ مذہبی بندہ ہے یا لڑکیوں کے چکر میں رہتا ہے۔ اتنے سارے سوال پر تو عنادل خود کنفیوز ہوئی تھی تو اس کو کیا جواب دیتی۔ ایک لمبا سانس ہوا کے سپرد کرتے اس نے اپنی بات کہنا شروع کی تھی ۔۔تم کون ہوتے ہوں یہ سب جاننے والے۔ 

ہاں میری شادی ہورہی ہے۔ ! آپ کو کوئی مئسلہ ہے یہ اس کے پہلے سوال کا جواب دیا تھا ۔ کوئی بھی کام کریں آپ کو اس سے کیا..! میرے دل میں رہتے ہیں۔ وہ جو منہ میں آرہا تھا بول رہی تھی یا پھر حور کی بات کا نتیجہ تھا۔ 

پسند کو چھوڑیں محبت کرتی ہوں ان سے۔ وہ پر جوش لہجے میں بولی تھی۔ لڑکیوں کے چکر میں رہتا ہے۔ سو آگے تو دو سو پیچھے ہوتی ہیں جل بھن کر جواب دیا تھا۔ مقابل کا قہقہ چھٹا تھا۔ اس کے اس طرح بولنے پر۔ 

عنادل کے غصے کو اس کے یوں قہقہ لگانے نے اور ہوا دی تھی۔ بھاڑ میں جاؤ۔ اس نے یہ کہتے ہی جلدی سے کال کاٹی تھی۔ بھاڑ میں جانے والا کام مجھ سے تو نہیں ہوگا۔ پر بہت جلد ایک کام کروں گا۔ 

کون ہے یہ کیا مئسلہ ہے اب تو میری شادی ہورہی ہے کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ..! اور اس کو کیسے پتا چل جاتا ہے کب کیا ہورہا ہے۔ وہ الجھ کر رہ گئی تھی۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

باسل میں ابھی شہر کے لئے نکل رہا ہوں۔ کاشان نے باسل کے کمرے میں آتے ہی اس کو کہا تھا۔  

پر کل تمہیں پتا ہے عنادل کے سسرال والے آرہے ہیں۔ اس نے جیسے محتاط رہنے کو کہا تھا۔  

جانتا ہوں اس لئے کل شام سے پہلے گاؤں میں موجود ہوں گا پر مجھے ابھی شہر نکلنا ہے اور میں نہیں چاہتا میرے راستے میں کوئی روکاوٹ بنے مجھے کچھ دیر اکیلے رہنا ہے۔ 

کاشان کے لہجے سے صاف دکھ ظاہر ہورہا تھا۔  

اچھا ٹھیک ہے لیکن کل شام سے پہلے حویلی میں موجود ہونا میں نہیں چاہتا کوئی بد مزگی پیدا ہو۔ اگر وہ لوگ ہمارے ساتھ ٹھیک سے پیش آرہے ہیں تو ہمارا بھی فرض ہے اپنے بہن کو دعاؤں کے ساتھ اس حویلی سے رخصت کریں اور اس کے اچھے نصیب کی دعائیں کریں باسل نے کاشان کے کندھے کو تھپتھپاتے کہا تھا۔ کاشان نے بھی اپنا سر ہاں میں ہلایا تھا۔ اور کمرے سے نکلتا چلاگیا تھا اب اس کا رخ اپنے کمرے کی جانب تھا ۔۔ کمرے میں آتے ہی اس نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکلتے ہی پورچ کی طرف بڑھا تھا۔ گارڈ نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔ سائیں آپ کو کہا جانا ہے میں لے چلتا ہوں آپ کو۔ نہیں کوئی ضرورت نہیں اب ہٹو میرے راستے سے کاشان کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی سخت ہوا تھا وہ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا اس کے انداز یا اس کے لہجے سے کسی کو کوئی تکلیف نا ہوں۔

وہ گاڑی میں بیٹھتے اس کو زن سے بھگا لے گیا تھا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمان جلدی کرو ہمیں نکلنا ہے شام کو یاد نہیں اپنی بھابھی کو دیکھنے جانا ہے تمہیں پتا ہے میں کتنی خوش ہوں ہمارے بھائی کی شادی ہو رہی ہے سوچوں کتنا مزا آئے گا۔ آج تو شاید مہندی کی رسم ہے پر میں یہ سوچ رہی ہوں سب اتنا جلدی کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ بندہ آرام سے شادی کریں ابھی شام کو مہندی رکھ لی پھر جمعے کو نکاح اور رخصتی ہمارے بھی کچھ شوق ہے دانیہ پٹر پٹر بولے جارہی تھی۔ دانیہ اپنی باتوں کو زرا بریک لگاؤ ایک ہی سانس میں بولتی ہو تھکتی نہیں ہو اتنا بول کر ایمان نے اس کے ایک ہی سانس میں بولنے پر چوٹ کی تھی۔ دانیہ نے اس کی بات سنتے ہی اپنا منہ بنایا تھا۔ جس کی شادی ہورہی ہے سوچو اس لڑکی کے کتنے ارمان ہوں گے یہاں تمہیں اپنی پڑی ہے۔ وہ بھی سوچ رہی ہوگی یہ سب اتنا جلدی کیوں ہورہا ہے ہمیشہ اپنا نہیں سوچنا چاہئیے ہم سے زیادہ اس وقت وہ پریشان ہوگی اچانک اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر وہ یہاں آرہی ہے لڑکیوں کے لئے یہ وقت کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے ماں باپ جان سے پیارے بہن بھائیوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے گھر میں آنا پھر وہاں کے طور طریقے سیکھنا ان کے رنگ میں ڈھل جانا ایمان نے دانیہ کو سمجھانا چاہا تھا۔ ہمم سوری دانیہ نے اپنے کان پکڑے تھے۔ اور معصوموں کے طرح سر جھکا گئی تھی۔ اچھا اب یوں نا منہ بناؤ بہت بری لگ رہی ہوں اور اب دیر نہیں ہورہی۔ ساحر بھائی نیچے ہی کھڑے ہمارے انتظار کر رہے ہیں تمہاری وجہ سے..! اب یہاں سے شہر جاؤ خریداری کرنے پھر واپس حویلی آؤ پھر تیار ہو اور تب کہی جا کر ہم ان کی حویلی مہندی کی رسم کے لئے جائے گے مطلب آج میں بہت تھکنے والی ہوں ایمان نے تو سب کچھ تصور کرتے ہے جھجھری لی تھی۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو اب شاپنگ کریں گے تبھی تو اچھے اچھے کپڑے پہن کر ادھر جائے گے آپ کیا چاہتی ہے عبائے میں خود کو ڈھانپ کر جیسے شہر جارہے ویسے ہی ہم وہاں چلے جائے۔ دانیہ نے چبھتی نظروں سے اس کو گھورا تھا۔  

اب میں نے ایسا بھی نہیں بولا اچھا اب چلو ایک بات کو لے کر ہی تم تو بیٹھ جاتی ہوں۔ ایمان اس کا ہاتھ پکڑے کمرے سے نکلی تھی کہی وہ کوئی اور ہی بات پکڑ کر نا بیٹھ جائے۔ اور تھوڑی دیر سے آجاتی مطلب تم لوگوں کو میں لے کر جارہا ہوں تم نے تو مجھے اپنا ڈرائیور ہی سمجھ لیا ہے۔ ساحر مصنوعی غصے سے بولا تھا۔ کیوں آپ نہیں ہیں ہمارے ڈرائیور دانیہ نے دانتوں کے نمائشیں کرتے کہا تھا۔ کیا مطلب تمہاری اس بات کا..؟ ساحر نے جانچتی نظروں سے گھورا اور اس کی بات کا مطلب جاننے کی کوشش کی تھی۔ م...میں تو بول رہی تھی اچھا چھوڑے اس بات کو اب کیا دیر نہیں ہورہی ایک تو آپ نے باتوں میں لگا دیا ویسے آپ بولتے بہت ہیں۔ دانیہ گاڑی کا دروازہ کھولے اندر بیٹھی تھی ساحر منہ کھولے اس کی ساری کاروائی دیکھنے لگا اور ایمان کے طرف دیکھ اشارہ کیا تھا یہ کون سے بلا ہے ساحر نے ایمان سے پوچھا تھا۔ یہ آپ اپنی بہن سے ہی پوچھے ایمان کندھے آچکاتے گاڑی میں بیٹھی تھی۔ ساحر گاڑی کو سٹارٹ کرتا گاڑی کو منزل کی جانب روانہ کر گیا تھا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نزاکت علی بھی صبح سے ہی کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ جمشید صاحب حویلی میں ہل چل ہوتے دیکھ نزاکت صاحب کو اپنے پاس آنے کا کہتے خود صوفے پر براجمان ہوئے تھے۔ کب تک آنے کا کہا ہے ان لوگوں نے؟ بابا سائیں شام تک آنے کا کہا ہے ان لوگوں نے اور ساتھ ہی ان کے خاندان کے کچھ لوگ بھی آرہے ہیں عباس کا کہنا ہے کہ شاہنواز چودھری نے کہا ہے ہم بھی اپنے خاندان کے کچھ لوگوں کو بولا لے تاکہ کوئی بعد میں یہ کہہ نا سکے کہ براق اور عنادل کے رشتے کے بارے میں انھیں پتا نہیں تھا۔ ۔۔۔ہمم یہ تو ٹھیک ہے اچھا ہے ویسے بھی غیر سے زیادہ تو اپنوں کو باتیں بنانے کا بہت شوق ہے۔ تم نے بھی کہہ دیا ہے نا ہمارے خاندان میں سے بھی ۔۔۔ جی بابا سائیں کہہ دیا ہے۔ بس اللّٰہ عنادل کے نصیب اچھے کرے نزاکت صاحب نے اپنی بیٹی کے لئے دعا کی تھی۔ ویسے مجھے ابھی تک حیرت ہورہی ہے شاہنواز کا ارادہ کیا ہے۔ آج تک ونی میں دی گئی لڑکی کو یوں رخصت کر کے کوئی لے کر نہیں گیا مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی جمشید صاحب اب تک اس بات پر سوچ رہے تھے۔ بابا یہ بات تو مجھے بھی سمجھ نہیں آیا پھر خیال آیا کیا پتا جیسا ہم سوچ رہے ہوں وہ نا ہو دشمنی سے پہلے تو آپکی دوستی بھی بہت گہری تھی کیا پتا وہ اپنے پوتے کے خون کو معاف کردے اور عنادل کو اپنے گھر کی بہو کے طور پر قبول کرلے۔ نزاکت صاحب نے اپنے دماغ میں چلتا خیال پیش کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حور اپنے کمرے میں بیٹھے اپنے کپڑے دیکھ رہی تھی جو کلثوم بیگم نے دئے تھے اور کہا تھا آج وہ یہ کپڑے پہنے گی کیونکہ حور زیادہ ہلکے رنگ کے ہی کپڑے زیب تن کرتی تھی جس کو دیکھ کلثوم بیگم اس کو بہت سمجھاتی ایسے کپڑے کیوں پہنتی ہوں اچھے اچھے رنگ کے کپڑے پہنا کروں لیکن وہ ان کی نہیں سنتی تھا اور آج بھی وہ عنادل کے لئے ایسے کپڑے پہن رہی تھی وہ جوڑا پیلے رنگ کا تھا زیادہ بھرا بھرا نہیں تھا ہلکا سا پیارا سا جوڑا تھا جو اس پر بہت اچھا لگتا۔

بھائی یار یہ کونسی جگہ لے کر آگئے آپ ہمیں مجھے تو کسی بڑے سے مآل میں جانا ہے میں نے دیکھا ہے وہاں کتنے پیارے پیارے کپڑے ہوتے ہیں جیولری ہوتی ہے دانیہ نے ساحر کو ڈرامے میں دیکھا ہوا نظارہ بتایا تھا۔ حد ہے دانیہ تم ایسے ڈرامے دیکھتی کیوں ہوں ڈراموں میں دکھائیں گے کہ لڑکی نے چھت سے کود کر اپنی جان دے دی تو کیا تم بھی وہی کرو گی۔ ہائے اللّٰہ میں کیوں اپنی جان دینے لگی مجھے اپنی زندگی بہت پیاری ہے ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی دانیہ نے سر پر ہاتھ رکھے ڈرامائی انداز میں کہا تھا۔  

ساحر نے اپنی گاڑی بڑے سے مآل کے آگے روکی تھی۔ دانیہ جلدی سے گاڑی سے نکلے اس عمارت کو اوپر سے نیچے تک دیکھ رہی تھی۔ منہ بند کرلو کوئی کیا سوچے گا پہلی بار بچی کو گھر سے نکالا ہے یا پھر اس نے کبھی ایسی جگہ دیکھی نہیں ہے ایمان نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے کہا تھا اور مال کے اندر ساحر کے پیچھے چل دی تھی۔  

حد ہے بندہ اب دیکھ بھی نہیں سکتا اور یہ کوئی اتنی خاص بھی نہیں ہے اس سے اچھی تو ڈراموں میں دیکھی تھی میں نے۔ اس کو یہ جگہ بہت اچھی لگی تھی لیکن اس نے ایمان کے پیچھے جاتے اس جگہ کے تھوڑی برائی کرنا ضروری سمجھا تھا۔ ایمان اپنا سر نفی میں ہلاتے رہ گئی تھی۔ وہ جانتی تھی دانیہ نہیں سدھر سکتی۔ ساحر ان دونوں کو الگ الگ دکان میں جاتا دیکھ باہر ہی کھڑا ہوگیا کیونکہ آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا اور ہماری دانیہ کو ایک بھی چیز پسند نہیں آئی تھی۔

جاری ہے۔۔۔ بقیہ اگلی قسط میں 

Post a Comment

0 Comments