Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 04

www.urdunovelbank.com

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 04.

ایمان اپنے اوپر چادر کو اچھے پھیلا کر کمرے سے نکلتی ہے۔ امی آپ سے بات کرنی ہے میں نے وہ کیچن میں آتے حلیمہ بیگم کو کام میں مصروف دیکھتے بولتی ہے۔

کہوں بیٹا۔ ! ہونز کام میں مصروف رہے کہا تھا۔

امی آپ کی اور بابا کی شادی کیسے ہوئی تھی۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھی۔ کہ اس کی ماں ان کو کیسے پسند آئی تھی۔ 

بیٹا یہ کیسا سوال ہے۔۔۔! شاید وہ بتانا نہیں چاہتی تھی یا پھر ایمان کو ایسا محسوس ہوا تھا۔ 

امی آپ بتائے نا میں سننا چاہتی ہوں اور جاننا چاہتی ہوں۔ 

کیسے بابا کو آپ پسند آئی ! اب بھی وہ اپنی بات کا جواب سننے کو بیچین تھی۔  

بیٹا۔۔! تمہارے دادا نے کروائی تھی ہماری شادی ہمیں اجازت نہیں تھی ایک دوسرے کو پسند کرنے۔ کی یا پھر محبت کرنے کی انہوں نے سکون سے جواب دیا تھا۔  

مطلب دادا سائیں نے آپکی شادی بابا سے کروانے کا بولا اور آپ کے امی ابو مان گئے وہ حیران ہوتے بولی تھی۔  

ہممم ! انہوں نے مختصر سا جواب دیا تھا۔  

آپ کہا رہتی تھی ہم نے تو کبھی آپ کا گھر بھی نہیں دیکھا۔ ایمان کا منہ اترا تھا۔ 

کیوں جاننا چاہتی ہوں اور جان کر کیا کروں گی۔  

حلیمہ بیگم نے بنا کسی تاثر کے پوچھا تھا۔  

ایسے ہی بس جاننا چاہتی ہو۔ 

میں جہاں رہتی تھی اب وہاں جانا مجھے منع ہے۔ یہاں تک کہ اس گاؤں کے ہر بندے کا اس جگہ قدم رکھنے پر پابندی ہے۔ اس انکشاف پر ایمان اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی جو اتنی آرام سے سب بتا رہی تھی۔  

ایک آخری سوال وہاں جانا کیوں منع ہے ! 

کیوں کہ میں اِس گاؤں کی نہیں ہوں میں ساتھ والے خان لوگوں کے گاوں کی ہوں اور اِس بات پر کافی لڑائی جھگڑے ہوئے تھے۔ جمشید علی خان جو اُس گاؤں کے سردار تھے اور تمہارے دادا سائیں کے۔ جس کے عوض جمشید علی خان نے بھی اپنے بیٹے نزاکت علی کی شادی اِس گاؤں کی لڑکی سے کی تھی اور بھی بہت وجہ ہے جو وقت آنے پر تمہیں بتا دی جائے گی ۔ وہ یہ کہتی کیچن سے نکلتے باہر کو چل دی۔ 

پیچھے ایمان حیران تھی۔ کہ اس بات پر ان دو گاوں میں لڑائیاں ہوئی تھی مطلب اس گاؤں کی لڑکی اس گاؤں میں جا بھی نہیں سکتی اس کو یہ بات بہت عجیب لگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساحر نے ان کے گاوں کی زمین پر اپنا قدم رکھا تھا۔ اِس گاؤں کا منظر بلکل الگ تھا۔ اُن کے گاوں میں بہت رونک ہوتی تھی۔ بچے جو گاؤں میں ادھر سے ادھر ہورہے ہوتے اور اِدھر ایک بچا گاؤں میں نہیں دیکھ رہا تھا۔ کافی خاموشی تھی۔  

وہ اب ان کی حویلی کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔  

جب ان کی حویلی میں قدم رکھے اس کی نظر حور پر پڑی جو پودوں کو پانی دے رہی تھی ایک دم ہوا سے اس کے سر پر رکھا دوپٹہ کندھے پر آگرا تھا۔ 

ساحر نے یہ منظر بہت غور سے دیکھا تھا۔  

چہرے پر مسکراہٹ لئے وہ کبھی ادھر پانی ڈالتی تو کبھی اُدھر ایک دم وہ گھومی تھی۔ جس سے سارا پانی ساحر کو بھیگا گیا تھا۔ ساحر اپنے کپڑوں کو دیکھ رہا تھا۔ جو پانی کی وجہ سے آدھے بھیگ چکے تھے۔ 

حور ڈری سہمی کھڑی تھی۔  

ایم سوری! مجھے پتا نہیں تھا آنکھوں سے آنسوں باہر آنے کو تھے۔

کوئی بات نہیں اس کی آنکھوں میں آنسوں آتے دیکھ اس نے فوراً بات گھمائی تھی۔  

وہ اس وقت شلوار قمیض میں تھا بالوں کو جیل سے سیٹ کئے تھے جو پانی کی وجہ سے بکھر گئے تھے اب ساحر کے بال ماتھے پر پھیلے ہوئے تھے۔  

حور جلدی سے حویلی کے اندر بھاگی تھی۔  

پیچھے ساحر مسکراہٹ لئے رہ گیا تھا۔  

اور خود بھی حویلی کے اندر چل دیا تھا۔  

لاونج میں بیٹھے باسل خان نزاکت علی اور جمشید علی اس کو یہاں موجود دیکھ حیران ہوئے تھے۔

اندر آؤں باسل نے اس کو اندر آنے کا کہا تھا۔ 

وہ اب حویلی کے اندر آتے باسل کے کہنے پر صوفے پر بیٹھا تھا۔  

یہاں کیسے آنا ہوا؟ جمشید علی نے رعب دار آواز میں پوچھا تھا۔  

دادا سائیں نے پیغام دیا ہے شام کو پنچائیت میں آپ سب کو آنا ہے انہوں نے کوئی خاص بات کرنی ہے بات کا تو مجھے پتا نہیں پر شام کو سب وہاں موجود ہوں۔ کسی امانت کی بات کر رہے تھے ساحر کی اس بات سے باسل خان سمیت وہ دونوں اور کلثوم بیگم بھی سمجھ گئی تھی وہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔  

ٹھیک ہیں ہم وہاں شام میں موجود ہوں گے۔  

جمشید صاحب نے آنے کا بتایا تھا۔ 

باسل خان اب کھڑا ہوا تھا اس کے پیچھے ساحر بھی کھڑا ہوا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا باسل خان کے آنکھوں میں غصہ جنون سب دیکھ رہا تھا جب کہ ساحر کی آنکھیں خالی تھی بیچین سی تھی جیسے کچھ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔

باسل نے ساحر کو ہاتھ کے اشارے سے باہر کا راستہ دکھایا تھا۔ 

اس کے اس طرح کرنے پر ساحر اپنی مٹھیاں بھینچتا رہ گیا تھا وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا ابھی وہ ان کے گاؤں میں تو تھا ساتھ ہی ان کی حویلی میں کھڑا تھا۔  

وہ حویلی سے نکلا تھا۔  

حور جو اپنے کمرے میں کھڑی پردے کے پیچھے چھپے اس کو دیکھ رہی تھی۔  

ساحر نے موڑ کر اوپر کی طرف دیکھا تھا۔ حور نے جلدی سے پردے کو آگے کیا تھا ساحر مسکراتا اپنے سر کو جھٹکے باہر نکلا تھا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دانیہ آج تو کیا کرے گی ایمان آپی بھی گاؤں کے بچوں میں لگی ہوتی ہے ساحر بھائی بھی آج نہیں ہوں گے۔ امی بھی۔ آج بہت مصروف ہے۔ اور یہ کیا ہونے والا ہے آج شام کو مجھے تو کوئی کچھ بتاتا ہی نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے اس حویلی میں ایسا لگتا ہے جیسے اس حویلی میں جتنے لوگ رہتے ہیں ان کے پیچھے کتنے راز چھپے ہوں۔ 

دانیہ چل آج پھر تو حویلی سے نکل کوئی نا کوئی بہانا بنا کر یہاں سے نکل۔ وہ اپنی انگلی کو تھوڑی پر ٹکائے بہانا بنانے کا سوچنے لگی۔ 

ایمان آج پھر بچوں کے بیچ تھی۔ آپی آپ ہمیں کیوں یہ سب دیتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا بچا تھا جو اس کے قریب آتے بولا تھا۔  

مجھے اچھا لگتا ہے تم لوگوں کو یہ سب دے کر اس نے بچے کو اپنے پاس بلاتے اس کو اپنے حصار میں لئے پیار کرتے کہا تھا۔  

اس بچے نے جھٹ سے ایمان کے گال چوم لئے تھے۔  

ایمان سرخ ہوئی تھی۔   

کاشان خان اور باسل خان سمیت نزاکت علی اور جمشید علی سب دونوں گاؤں کے بیچ و بیچ پنچائیت میں موجود تھے۔  

کاشان کب سے یہاں بیٹھے بیٹھے تھک گیا تھا کیونکہ ابھی تک شاہنواز چودھری کے گھر کا کوئی افراد وہاں نہیں آیا تھا۔ پر گاؤں کے بڑے بڑے لوگ ادھر موجود تھے کاشان اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے۔ ان کے گاوں کو دیکھنے لگا دیکھتے دیکھتے وہ کافی بچوں کے ساتھ بیٹھی ایمان کو دیکھ روکا جو بچوں کے ساتھ بیٹھے ہنسی مزاق کر رہی تھی بچے اس کی بات پر قہقے لگا رہے تھے۔ اس نے ایمان کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس جگہ بیٹھی تھی جہاں آدمی نہیں آسکتے تھے اس لئے اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹائی تھی اور اس کو اچھے سے سر پر سیٹ کئے۔ ان کے ساتھ بیٹھی تھی۔  

آپی ایک اور بات پوچھنی ہے آپ سے۔ بچے نے اپنے ہاتھ کو اٹھائے کہا تھا۔  

ایمان ہر بچے کے سوال کا جواب دے رہی تھی جو بچے اس سے ڈرتے تھے کہ وہ براق چودھری کی بہن ہے اس سے کسی بھی طریقے کا کوئی سوال نہیں کیا جائے آج ایک ایک بچہ اس کے ساتھ یوں بات کر رہا تھا جیسے ان لوگوں کے بیچ سالوں کا کوئی گہرا رشتہ ہوں۔ 

پوچھو۔۔! وہ مکمل اس بچے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔  

جس سے اس کا آدھا چہرہ کاشان خان نے دیکھا تھا۔  

مجھے پوچھنا نہیں بتانا ہے میں بھی آپ کے جیسا بننا چاہتا ہوں آپ کی طرح سب کی مدد کرنا چاہتا ہوں میں بھی سب کو ایسے ہی چیزیں دیا کروں گا وہ اتنی معصومیت سے بولا تھا کہ ایمان نے چٹا چٹ اس کے گال چوم لئے تھے۔  

یہ تو اچھی بات ہے لوگوں کی مدد کرنا تو اللّٰہ کو بھی پسند ہے۔۔۔

اس بچے نے منہ بنایا جیسے اسے ایمان کی حرکت اچھی نہیں لگی ہو۔ جس پر ایمان کا منہ کھلا رہ گیا تھا۔ 

کاشان دور کھڑے اپنی ہنسی ضبط کئے ان کو دیکھ رہا تھا۔  

ایک بچے کی اس پر نظر پڑی تو اس نے ایمان کو کہا تھا وہاں کوئی کھڑا ہے ایمان نے اس کی نظر کے تعاقب میں دکھا تھا جہاں کاشان خان کھڑا تھا۔  

بے دھیانی میں وہ اپنے چہرے کو چھپانا بھول گئی تھی ایک دم اس نے اپنے چادر کو چہرے کے آگے کیا تھا۔ 

بس اتنی سی دیر میں کاشان خان اس کو دیکھ چکا تھا۔ 

وہ بچوں کے بیچ سے کھڑی ہوتے اس تک آئی تھی۔  

آپ کون ہے.؟ اور یہاں کیا کر رہے ہیں؟ اس نے غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے دیکھ کہا تھا۔  

کاشان خان اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگا۔ جو اس کے کندھے تک آتی تھی۔ 

وہ ہرے رنگ کی شلوار کمیز میں ملبوس تھی۔ براؤن کلر کی چادر کو اپنے اوپر پھیلائے چہرے کو چھپائے پر اعتماد طریقے سے کھڑے کاشان خان کی نیلی آنکھوں میں اپنی سرمائی آنکھیں گاڑھے پوچھ رہی تھی۔  

میں آپ کو کیوں بتاؤ؟ نا جان پہچان میں آپ کو جانتا نہیں تو ابھی وہ کچھ بولتا کہ ایمان نے اس کی بات کو ٹوکا تھا۔ 

میں ایمان عباس علی چودھری سردار براق عباس علی چودھری کی بہن اس نے۔ بڑے فخر سے اس کو اپنا تعارف کروایا تھا۔   

کاشان خان ایمان کے اس طریقے روڈ لہجے میں بولنے پر بولا تھا۔ 

میں کاشان نزاکت علی خان باسل نزاکت علی خان کا بھائی اس نے بھی ایمان کو اسی انداز میں جواب دیا تھا جس طریقے سے اس نے بتایا تھا۔  

ایمان تو حیران تھی کہ وہ ان گاؤں میں آیا کیسے جہاں تک اسے معلوم تھا وہاں سے کوئی بھی یہاں نہیں آسکتا۔ 

آپ بتائے گے آپ یہاں کس سلسلے میں آئے ہیں۔ ایمان نے استفسار کیا تھا۔   

میں آپ کے سوالوں کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں وہ یہ کہتے جدھر سے آیا تھا وہی سے جانے کے لئے موڑا تھا۔ 

پیچھے ایمان کا غصے سے برا حال تھا۔

میں آپ کے سوالوں کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں ایمان نے اس کی نقل کی تھی کاشان نے موڑ کر ایمان کو دیکھا جو اپنی سرمائی آنکھوں کو گھمائے اس کا مذاق بنا رہی تھی۔ 

آپ کہے تو آپ کے سوالوں کے جواب میں دے سکتا ہوں۔ کاشان نے موڑ کر اس کی طرف قدم بڑھائے تھے۔  

آپ۔۔ آپ کو شرم نہیں آتی گاؤں کے بیچ میں کھڑے ہوکر کیسی لڑکی کو چھیڑ رہے ہیں۔ وہ بڑی بڑی آنکھیں کئے اس کو گھور کر پیچھے کی طرف قدم لیتے بولی تھی۔  

شرم سے میرا دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ہے اور مجھے تمہیں چھیڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے تم میں ہے ہی کیا جو میں یعنی کاشان خان تمہارے ساتھ اپنا وقت ضائع کریں۔

اس نے ایمان کے رنگ پر چوٹ کی تھی۔ ایمان نے اس کی بات سنتے اپنی آنسوں کو ضبط کرتے چیخ کر کہا تھا۔  

تم جیسے لوگوں کی سوچ ہوتی ہی چھوٹی ہے رنگ دیکھ کر خوبصورتی دیکھ کر تم ہر لڑکی پر مر مٹنے کو تیار ہوتے ہوں اور ہم جیسے لوگوں کی اہمیت تم جیسے لوگوں کی نظر میں ہے ہی نہیں تمہارے جیسے یہ بھول جاتے ہیں اللّٰہ نے جب تم سے تمہاری خوبصورتی چھین لی تو تمہارے پاس رہ ہی کیا جائے گا اپنی خوبصورتی پر اتنا غرور نہیں کرنا چاہئیے۔ جانا تو تم نے بھی قبر میں ہے اور میں نے بھی۔ ایمان اس کو وہی حیران چھوڑے حویلی کی طرف چل دی تھی۔   

کاشان خان حیران تھا کیسے وہ اس کو سچائی سے روشناس کروا گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد سب ہی۔ ادھر موجود تھے۔ 

شاہنواز چودھری اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے وہاں آرام سے بیٹھے تھے ان کے پیچھے ساحر علی کھڑا تھا۔ دائیں طرف ان کے بیٹے عباس چودھری کھڑے تھے ۔ جبکہ ان ساتھ ہی براق علی بیٹھا تھا ان کا حکم تھا وہ ان کے ساتھ ہی بیٹھے گا۔ 

ان کے عین سامنے جمشید علی بھی اپنی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے ان لوگوں کو دیکھ رہے تھے ان کے بیٹے نزاکت علی ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے جبکہ باسل خان اپنی مٹھیوں کو بھینچے ان کے بائیں طرف کھڑا تھا۔ اور کاشان خان دائیں جانب باقی گاؤں کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔  

کیا بات کرنے ہے تم نے؟ جمشید علی نے سوال اٹھایا تھا۔

جو بات میں کرنا چاہتا ہوں اس سے اچھی طرح سے تم واقف ہوں انہوں نے چبھتی نگاہوں سے دیکھتے طنز کیا تھا۔ 

جمشید علی کا جیسے وہ ضبط آزما رہے تھے۔  

آج سے پہلے ان کی دوستی کی مثالیں دی جاتی تھی پورے گاؤں میں لیکن اب دشمنی میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔  

ہم اپنی امانت کو اپنے ساتھ حویلی لے کر جانا چاہتے ہیں شاہنواز علی کا لہجہ گویا برف کی مانند سرد تھا۔

اور تمہیں کیوں لگتا ہے ہم عنادل کو تمہارے حوالے کر دیں گے۔ جمشید علی نے جیسے کوئی دھماکہ کیا تھا۔ جس سے شاہنواز چودھری اپنے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے رہ گئے۔ 

یہ تم بہت اچھے سے جانتے ہوں اگر عنادل کو میرے پوتے کے ساتھ رخصت کر کے نا بھیجا گیا تو تمہارے پوتے کاشان خان کی لاش تمہارے گھر ہوگی جس کے زمہ دار تم خود ہو گے۔ 

جمشید علی آج اپنے پوتے کی ایک غلطی پر جیسے سو بار مر کے زندہ ہوئے تھے اگر کاشان کے ہاتھوں وہ گناہ سر زد نہیں ہو تا تو آج ان کی پوتی ان کے دشمن کے گھر نہیں دی جارہی ہوتی۔  

کب رخصتی چاہتے ہوں؟ آج جمشید علی کا سر جھکا تھا۔ اور ساتھ ہی باسل خان بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ جانتا تھا۔ کہ اگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا تو وہ ضرور جیسا بول رہے ہیں وہ کریں گے اور تھوڑا بھی وقت نہیں لگے گا کاشان خان کے سینے میں چھ گولیاں اتارنے میں۔ 

اس جمعے کو سردار براق عباس علی چودھری کا نکاح دوبارہ عنادل نزاکت علی خان کے ساتھ ہوگا پورے گاؤں کے سامنے اور شادی دھوم دھام سے ہوگی۔  

جمشید علی کنفیوز نظروں سے شاہنواز چودھری کو دیکھ رہے تھے جو ان کو دیکھ مسکراہٹ پاس کئے انہی کو دیکھ رہے تھے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ سال پہلے۔

کاشان خان شکار پر نکلا تھا۔ اور عباس علی کے بڑے بیٹے صائم چودھری بھی اپنے دوستوں کے ساتھ ان کو گاؤں گھمانے نکلا تھا۔ کیونکہ اس کے دوست شہر سے آئے تھے اور ان گاؤں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔  

صائم اپنے دوستوں کو گاؤں دکھا رہا تھا۔ تبھی کاشان خان ان کے پاس آیا تھا صائم اور کاشان کی دوستی پر گاؤں کے لوگ رشک کرتے تھے شاہنواز چودھری اور جمشید علی کی دوستی ان کے پوتے آگے قائم رکھنے والے تھے لیکن شاید قدرت کو یہ سب منظورِ نہیں تھا۔ 

کاشان اور صائم ایک دوسرے کے گلے ملے تبھی کاشان اس کے دوستوں کو دیکھنے لگا۔  

تبھی صائم نے ان کا تعارف کاشان سے کروایا تھا۔

پھر وہ سب ایک ساتھ گاؤں کو دیکھنے لگے کچھ دیر بعد صائم کے تین دوستوں میں سے ایک دوست ادھر سے ادھر ہو اتھا لیکن ان کو پتا نہیں چل سکا اس کے بعد گن چلنے کی آواز آئی تھی۔ جو کاشان خان کے ہاتھ میں تھی اور دور کھڑے صائم کے دوست کے ہاتھ میں یہ صائم چودھری کا وہ دوست تھا جو صائم کو مارنا چاہتا تھا سلیم۔

وہ سب ایک مقصد کے تحت وہاں موجود تھے اپنی حسد میں وہ صائم چودھری کو مارنے چلے تھے۔ 

لیکن کاشان کو کچھ غلط محسوس ہوا تھا اس نے اپنا سر جھٹک دیا شاید اس کا وہم ہوں لیکن وہ اس کا وہم نہیں سچ تھا۔  

جب صائم کے دوست سلیم نے صائم پر گن کا نشانہ بنایا عین اس وقت کاشان نے بھی اس لڑکے پر اپنا نشانہ رکھا تھا۔ 

پر بدقسمتی سے کاشان کے گن سے نکلی گولی صائم چودھری کے سیدھا سینے پر لگی تھی۔ سلیم کے گن سے نکلی گولی کاشان خان کے سیدھا کندھے میں لگی۔ وہ اپنے کندھے سے نکلتے خون کی پروا کئے بغیر صائم کے پاس زمین پر بیٹھا تھا لیکن جب تک اس کے سانسیں تھم گئی تھی۔  

کاشان خان کی آنکھ میں خون اترا تھا۔ اس نے اپنے آس پاس دیکھا تب تک وہ لوگ یہاں سے جا چکے تھے۔  

یار تم نے یہ سب کیوں کیا تمہیں پتا ہے تم نے گاؤں کے سردار کے پوتے کو مارا ہے۔ اس کے ایک دوست نے کہا تھا۔ 

میں نے نہیں کاشان نے مارا ہے اسے اور ویسے بھی میرے گن سے نکلی گولی اس خبیث کے کندھوں پر لگی ہے۔ تو اس کے گن سے نکلی گولی صائم چودھری کو لگی ہے نا۔ سلیم نے ان کو جیسے عقل سے سے کام لینے کا کہا تھا۔  

اوہ ..! ہاں یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں لیکن تمہیں کیا لگتا ہے ہم اس کاشان خان کے ہاتھوں بچ جائے گے۔  

اس کے ہاتھ آئے گے تبھی بچیں گے نا اس کو کیا پتا ہم کہا سے آئے ہیں یہ گاؤں کے لوگ ہیں یہاں آئے روز خون ہوتے ہوں گے۔ اور مجھے جہاں تک پتا گاؤں میں ونی میں لڑکیوں کو دیا جاتا ہے ان کی یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوگا تو ہمیں اس سب چیزوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں جس نے کیا ہے وہی بھگتے گا۔  

سلیم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آئی تھی۔ وہ صائم چودھری کا دوست نہیں اس کا سب سے بڑا دشمن تھا جس نے اس پر پیچھے سے وار کیا تھا۔ وہ حسد کرتا تھا صائم چودھری سے سارے یونی کا ٹاپر صائم چودھری کے یونی کے پروفیسر اس کی تعاریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ لڑکیاں اس کی دیوانی تھی صائم چودھری اپنی گاؤں کے ساتھ حویلی کا پہلا فرد تھا جو شہر سے پڑھ کر آیا تھا۔ براق شروع سے ہی اپنے دادا کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے مسئلے سنتا تھا اور تب سے ہی اس کا ایک مقصد تھا کہ وہ اپنے گاؤں میں ہسپتال اور اسکول بنوائے گا۔  

سلیم کی یہ حسد آج اس کے دوست کہنا توہین تھی دوستی کے نام پر دشمن تھا وہ جو صائم کی زندگی کو جیسے کھا گیا تھا۔ گولی چاہے کاشان کی گن سے چلی تھی لیکن مارنے کا ارادہ سلیم رکھتا تھا اسے۔ 

اس کے بعد چودھریوں کی حویلی میں جیسے قیامت برپا ہوئی تھی۔ 

شاہنواز چودھری کو اپنے پوتے کے اس طرح اس دنیا سے جانے پر گہرا صدمہ لگا تھا جس سے ان کی طبیعت کافی ناساز رہنا شروع ہوگئی تھی لیکن ان کو براق نے اور عباس صاحب نے سنبھالا تھا۔  

حلیمہ بیگم نے بھی اپنے آپ کو سنبھالا تھا ان کا بیٹا جگر کا ٹکڑا آج ان کو چھوڑ کر چلا گیا تھا۔  

بہنوں پر جان نچھاور کرنے والا بھائی آج اپنی دو بہنوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا تھا۔ دانیہ اور ایمان بھی خاموش خاموش رہنے لگی تھی۔  

اگلے دن انہوں نے پنچائیت بیٹھائی تھی۔ جس میں جمشید علی اور نزاکت علی کے ساتھ باسل اور کاشان موجود تھے۔ 

جس میں شاہنواز آج اپنی دوست کو دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ سب نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے پوتے کا خون جمشید علی کے پوتے کاشان کے ہاتھوں سر زد ہوا تھا۔  

پنچائیت اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ عنادل خان اپنے بھائی کے غلطی کی وجہ سے ونی میں براق چودھری کے ساتھ نکاح میں دی گئی تھی۔  

عنادل تب گیارہ سال کی تھی۔ اور براق انیس سال کا تھا۔ 

جبکہ صائم براق سے بڑا تھا۔ پچیس سال کا لیکن اس دنیا سے جا چکا تھا۔ اب گھر کے بڑے پوتے اور اپنے بڑے بھائی کے جانے کا بعد براق کے غصے سے سب اتنا ڈرتے تھے کے کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی اس کے بات کے خلاف جائے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال۔

کاشان خان سب کے اچانک کھڑے ہونے پر اپنی سوچ سے باہر نکلا تھا۔  

تو جمعے کے دن تیار رہنا آج سے ہی اپنی پوتی کو مایوں بیٹھا دوں۔ 

جمشید علی بھی شاہنواز کی بات سنیں گاڑی میں بیٹھے تھے تبھی دونوں گاڑیاں اپنی اپنی منزل کو روانہ ہوئی تھی۔ 

دانیہ کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے وہ اپنے کمرے سے نکلتے حویلی کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ پہلی بار یہاں آئی ہو ایک ایک چیز کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔ پھر اس کی نظر ایک تصویر پر جا کر رکی جس پر ان کی فیملی کی ایک ساتھ تصویر تھی۔

سب سے آگے شاہنواز چودھری کرسی پر بیٹھے تھے ان کے دائیں طرف عباس چودھری اور بائیں طرف صائم چودھری 

اور پیچھے براق دانیہ اور ایمان کے ساتھ حلیمہ بیگم کھڑی تھی۔ 

دانیہ کی آنکھ میں آنسوں آئے تھے۔ بھائی آپ یوں اچانک ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔ آپ کتنے ہینڈسم ہیں اور براق بھائی کھڑوس ہیں ہر وقت ناک پر غصہ رہتا ہے۔ تصویر میں صائم اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا۔ اور دانیہ روتے روتے شوخ لہجے میں بولی تھی جیسے وہ اس کی بات سن کر مسکرا رہا ہوں۔ حویلی میں داخل ہوتے ساحر براق عباس صاحب اور جمشید علی دانیہ کو یوں اپنے بھائی سے باتیں کرتا دیکھ صوفے پر خاموشی سے بیٹھے اس کی باتیں سن رہے تھے براق تو اپنے بہن کے منہ سے اپنے لئے اسے الفاظ استعمال ہوتے دیکھ صدمے سی کیفیت میں سب سن رہا تھا 

ایمان اور حلیمہ بیگم بھی کیچن سے نکلتے لاونج میں آگئی تھی۔ اور دانیہ کو یوں دیکھ رہی تھی جو اپنے سر پر دوپٹے کو ٹھیک کرتے سوں سوں کر رہی تھی۔  

مونچھیں دیکھی ہیں آپ نے جیسے کوئی ڈان کھڑا ہوں۔

بس ایک گن کی کمی ہے پھر آپ سے بلکل ڈان والی وائبز آنی تھی۔

اب بس بھی کردوں میں جیلیس ہورہا ہوں براق دانیہ کے پیچھے کھڑے نروٹھے پن سے بولا تھا۔ 

جبکہ دانیہ اپنے پیچھے سے آتی براق کی آواز پر اچھلی تھی۔ ۔آپ کب آئے۔ اور میری باتیں سن رہے تھے۔ وہ مصنوعی ناراضگی لئے پوچھ رہی تھی۔  

میں نہیں اس حویلی کا ہر فرد یہی موجود ہے اور تمہارا صائم کے ساتھ چلتا ایموشنل سین دیکھ رہے ہیں۔۔  

براق نے مزاحیہ لہجے میں کہتے اس کو آگے کی طرف آنے کی جگہ دی تھی جس سے دانیہ سب کو وہاں موجود دیکھ شرمندہ سی ہوئی تھی۔  

اب یوں کیوں منہ بنایا ہے تم نے ساحر دانیہ کے پاس آتے اس کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ چوٹ کرتے بولا تھا۔ 

مطلب بندہ کسی سے بات بھی نہیں کر سکتا اور منہ بھی نہیں بنا سکتا دانیہ ایک دم چیڑ چیڑی ہوئی تھی۔  

بھائی دانیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کو ڈاکٹر کو چیک کروائے اور پوچھے اس کے پاس کتنا وقت رہ گیا ہے کب تک یہ ہمارے ساتھ ہے جہاں تک مجھے پتا ہے یہ یوں تو سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کر سکتی سب کچھ کر سکتی ہے لیکن سیریس کبھی نہیں ہوسکتی اگر ایسی کوئی بات ہے تو ساحر علی نے تمہیں تمہاری ساری شرارتوں کی معافی دی وہ ہاتھ کو ہلائے اس کو معاف کرتے زچ کرنے والے انداز سے کہتے دانیہ کے ہوش اڑا گیا تھا۔  

بھائی ..! سمجھا لے ساحر بھائی کو دانیہ براق کے سینے سے لگتے ساحر کو دیکھ منہ بنا رہی تھی۔  

ساحر کیوں پریشان کر رہے ہو میری بہن کو۔ ! براق نے ساحر کو آنکھوں سے اشارہ کرتے خاموش رہنے کو کہا تھا۔ 

مجھے لگتا ہے میں ان تینوں کی کچھ نہیں لگتی ایمان اب رونے والی ہوئی تھی ان تینوں کو یوں ایک دوسرے میں مصروف دیکھتے وہ روہانسی ہوئی تھی۔  

براق اب اس کے پاس آیا تھا۔ اور بولا تھا۔ 

میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں براق نے اس کے پاس آتے اس کو اور دانیہ کو اپنے حصار میں لیا تھا۔ 

دوسری طرف شاہنواز چودھری سمیت وہ دونوں اس طرح بہن بھائیوں کے پیار کو دیکھ رہے تھے۔

جاری ہے۔۔ بقیہ اگلی قسط میں 

Post a Comment

0 Comments