Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 03.
عنادل کمرے میں بیٹھی تھی۔ تبھی اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی تھی۔
اس نے موبائل کو اٹھا کر دیکھا تو وہی پرائیویٹ نمبر سے کال آرہی تھی۔ اس نے نا چاہتے ہوئے بھی کال اٹھائی۔
کسی ہوں؟ گھمبیر آواز میں پوچھا تھا۔
کون ہو تم؟ اور کیوں مجھے کال کرتے ہوں؟ عنادل نے اٹک اٹک کر کہا تھا۔ اس کی آواز سے صاف ڈر اور خوف ظاہر تھا۔ میں جو بھی ہوں اس کی تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں بہت جلد تمہیں پتا لگ جائے گا میں کون ہوں اور تمہیں کیوں کال کرتا ہوں۔ تمہیں اپنی امی سے پوچھنے کی ویسے ضرورت نہیں تھی کہ تمہیں کس سے چھپایا جارہا ہے۔ اگر انہوں نے بتانا ہوتا تو بہت پہلے ہی تمہیں سب کچھ معلوم ہوتا وہ یہ بولے کال کاٹ گیا تھا اور اس کو ایک اور سوچ میں مبتلا کر گیا تھا۔
آہہہ ! کون ہے یہ مجھے کیوں کال کرتا ہے کیوں میری زندگی میں عذاب کی طرح نازل ہوا ہے۔
دور سے اس کی یہ حرکت دیکھ کر کوئی مسکرایا تھا۔
وہ یہ کہتے اپنے اوپر تک کمبل اوڑھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا بڑا مجھے ڈرانے والا دیکھا میں نے ہی اس کو بیوقوف بنا دیا واہ..! دانیہ واہ تجھے تو اپنے اوپر فخر ہونا چاہئیے کے تو نے چودھریوں کی ناک نہیں کٹنے دی وہ اپنے کندھے کو تھپتھپاتے خود کو داد دے رہی تھی۔
کیسے بول رہا تھا میں باسل خان کا خاص آدمی ہوں۔ وہ کیا سمجھا مجھے پتا نہیں ہوگا کہ وہ ہی باسل خان ہے۔ مطلب اتنا ہینڈسم بندہ باسل خان کا کوئی خاص آدمی ہوسکتا ہے۔ ہائے ویسے لڑکے نے دل لے لیا پہلی ہی بار میں ایک اور ملاقات ہوجائے بس۔ وہ کوئی سستی فلم کی ہیروئن کی طرح اپنے محبوب کے دیدار کے لئے جیسے مری جارہی تھی۔
یہ کون ہے جس کے دیدار کے لئے تم مری جارہی ہوں ایمان جو کب سے دروازے پر کھڑی اس کی نوٹنکی دیکھ رہی تھی جو کبھی اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپا رہی تھی تو کبھی۔ اپنے منہ میں ڈال کر شرمانے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔
آپ کب آئی وہ ایک دم ہڑبڑاہ کر سیدھی ہوئی تھی۔
جب تم یہ اپنے محبوب کے قدموں میں گرنے والا تعویز کر رہی تھی۔ اس نے طنز کرنے والے انداز میں کہا تھا اور آرام سے آکر بیڈ پر بیٹھی تھی۔
کون محبوب کس کے قدم اور یہ ہے کون محبوب مجھے سچ سچ بتائے آپی کہی آپ کو تو دانیہ الٹا ایمان پر ہی چڑھی تھی۔
کیا ہوگیا ہے پاگل تو نہیں ہوگئی۔ یا دماغ بیچ آئی ہو۔ اور دیکھو ڈرامے تم میں زرا بھائی سے بول کر تمہارے فلمیں اور ڈرامے دیکھنا بند کرواتی ہوں۔ ایمان نے اس کو دھمکی دی تھی۔
آپی آپ اپنی بہن کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کریں گی میری آنکھوں میں دیکھیں آپ کو میری معصومیت نظر نہیں آرہی وہ آنکھیں پٹ پٹا کر بولی۔
نہیں بلکل بھی نہیں وہ ہنسی ضبط کئے اپنی گردن نا میں ہلانے لگی۔
آپ کو کہا آئے گی میری معصومیت نظر وہ رخ موڑے بیٹھ گئی تھی۔
اچھا اچھا اب ناراض نہیں ہو اور یہ بتاؤ آج کہا گئی تھی تم مجھے سچ سچ بتاؤ۔ وہ سنجیدہ ہوئی تھی۔
آپی میں گاؤں گھومتے گھومتے ساتھ والے گاؤں میں چلی گئی تھی۔
کس کے باسل خان والے گاؤں میں۔ اس نے جیسے تصدیق چاہی تھی۔
ہاں نا۔ وہی گئی تھی۔
پھر کیسے آئی یہاں ایک اور سوال پوچھا تھا۔
بہت لمبی کہانی ہے چلے سنیں وہ اس کو سب کچھ بتاتی ہے۔
یعنی تم باسل خان کے ساتھ ادھر آئی ہو۔
ہاں جی۔ وہ ہاں میں سر ہلاتے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ گئی تھی۔
تم پاگل ہو آج کے بعد وہاں نہیں جاؤں گی اگر بابا اور دادا سائیں۔ کو پتا لگا نا تو تمہاری ٹانگیں توڑ کر گھر میں ہمیشہ کے لئے بیٹھا دے گے ایمان نے اس کو سمجھایا تھا۔
ٹھیک ہے اب نہیں جاؤ گی۔ آپ بتائے آپ یہاں کیسے آئی دانیہ نے بات تبدیل کی تھی۔
ایسے ہی سوچا تمہارے ساتھ بیٹھ جاؤ تمہیں تو شرارتوں سے ہی فرصت نہیں اس لئے میں خود ہی آگئی ابھی ہی کیچن سے فارغ ہوئی تھی۔
اچھا تو آپی آپ سے ایک بات پوچھو؟
ہاں پوچھو اس نے دانیہ کو دیکھتے اجازت دی تھی۔
آپی آپ اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر کیوں سمجھتی ہے آپ کو پتا ہے نا آپ خود میں بہت خوبصورت ہے۔ اس نے ایمان کو اس کی خوبصورتی کے بارے میں بتایا تھا۔
بس ایسے ہی مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیوں ایسی ہوں تم بھی تو پیاری ہو وہ مایوسی سے بولی تھی۔
آپی مایوسی کفر ہے۔ اب آپ مایوس نہیں ہونگی آپ کو پتا ہے ہم اللّٰہ کی تخلیق کردہ انسان ہے تو غرور کیسا اور آپ دل سے خوبصورت ہے۔ چہرے سے یا انسان کا خوبصورت دیکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ دل سے خوبصورت بہت کم لوگ ہوتے ہیں دانیہ ایمان سے چھوٹی تھی لیکن اس کو بہت گہری بات سمجھا گئی تھی۔
ہمم ! تم ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ وہ مسکرائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور نے نماز پڑھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے۔
یا اللّٰہ وہ کون تھا جس نے مجھے بچایا تھا اس رات یا اللّٰہ اس رات وہ جیسے میرا محافظ بن کر آیا تھا یا اللّٰہ مجھے ہر تکلیف سے وہ بچاتا ہے مجھے نہیں پتا وہ کون ہے۔ اس رات میں نے اس کو دیکھا نہیں تھا کیونکہ اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا شاید اس نے ماسک لگایا تھا۔ یا اللّٰہ اسے اپنے حفظ وامان میں رکھنا یا اللّٰہ میں اسے دکھنا چاہتی ہوں یا اللّٰہ میں وہ رات نہیں بھولتی وہ کیسے میرے سامنے کسی چٹان کے طرح کھڑا تھا کیسے اس نے سب کو مارا تھا۔ وہ دعا میں بھی مسکرائی تھی۔ یا اللّٰہ آج میں اس ایک شخص کے لئے دعا کرتی ہوں وہ جہاں بھی ہے جیسا بھی اس کی زندگی میں کبھی دکھ نا آئے۔ وہ دعا مانگ کر کھڑی ہوئی تھیں اور آج پہلی بار وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کی ہواؤں کو محسوس کر رہی تھی۔ آج اندھیرے میں اس کو ڈر نہیں لگ رہا تھا وہ کمرے میں اندھیرے میں بیٹھی تھی اج اس کو الگ سا ہی تحفظ محسوس ہورہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت کمرے میں بیٹھا تھا۔ اس دن اگر وہ نا پہنچتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا یہ بات سوچتے ہی اس نے جھرجھری لی تھی۔ کیسے وہ اس کے شرٹ کو پکڑے بلکل چھپ سی گئی تھی۔ وہ سب یاد کرتے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشان خان ہر لڑکی تجھ پر مرتی ہے اس سے بڑی بات کوئی ہوہی نہیں سکتی۔ اس کو اپنے اوپر بہت اعتماد تھا ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی لڑکی اس کو ریجکٹ کرے۔ لیکن ایک لڑکی تھی جو اس کو ریجکٹ کرنے والی تھی۔ اس کو بھرے مجموعے میں ذلیل کرنے والی تھی۔
وہ اس کو بتانے والی تھی جو لڑکیاں تم پر مرتی ہے وہ صرف اس لئے کی تم باسل خان کے بھائی۔ اور نزاکت علی کے بیٹے ہو اس کے علاؤہ تمہاری اپنی کوئی پہچان نہیں اس بات سے یہ بلکل انجان تھا اس کی زندگی میں ایک طوفان نہیں آنے والا اپنے ساتھ ایک لڑکی روشنی لانے والی تھی تاکہ اس کو اندھیری دنیا سے نکالے اور دکھائے کہ اس ایک شخص کے علاؤہ بھی دنیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسل خان کی سوچ کا مرکز بس ایک ہی لڑکی بنی ہوئی تھی۔ جس سے صبح اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس کے ہر انداز پر ہکا بکا رہ گیا تھا۔ جس انسان کو آج تک کوئی بیوقوف نہیں بنا سکا ایک لڑکی اپنی معصومیت سے اس کو دن میں تارے دکھا گئی تھی۔
وہ بس مسکرا ہی سکا تھا۔ اور سونے کے لئے لیٹا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی ہم باہر جارہے ہیں آپ پریشان نہیں۔ ہونا ہم تھوڑی دیر میں آئے گے۔ دانیہ نے حلیمہ بیگم سے کہا تھا اور ایمان کا ہاتھ پکڑے۔ حویلی سے باہر نکلی تھی۔
دوسری طرف عنادل حور کو اپنے ساتھ لئے حویلی سے نکلی تھی آج اس نے حور کو گاؤں گھمانے کا موڈ بنایا ہوا تھا۔
اس طرف سے ایمان اور دانیہ اپنے چہرے کو ڈھانپے نکلی تھی ادھر سے حور اور عنادل نے اپنے آپ کو مکمل چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔
دانیہ تو آج ایمان کو اپنے ساتھ گاؤں کے بیچو بیچ لے آئی تھی۔ دوسری طرف عنادل بھی حور کو گاؤں کو بیچ و بیچ لے آئی تھی اب ان دونوں گاؤں کا فیصلہ کچھ ہی قدم کا تھا۔ عنادل حور کو درخت کے پاس کھڑے دیکھ آگے کو چلی تھی وہ بھی ادھر سے ادھر گھوم کر ایمان اور دانیہ کو دیکھ روکی تھی اور زور سے بولی تھی۔
تم لوگ سردار براق کے گاوں کی لڑکیاں ہو عنادل نے کہا تھا۔
نہیں ہم شہر کی لڑکیاں ہیں دانیہ نے جل۔بھن کر کہا تھا۔
آپ اس کی بات کو دل پر نہیں لینا اور جی ہم سردار براق کے گاوں میں رہتی ہیں دراصل ہم ان کی بہنیں ہیں۔ ایمان نے بتانا ضروری سمجھا تھا۔
اچھا ۔۔ عنادل نے ہونٹ گول کرکے کہا تھا۔
جی اور آپ ضرور باسل خان کی بہنیں ہیں۔ دانیہ نے تکا لگایا تھا۔
جی سہی سمجھیں آپ ہم بھی باسل خان کی بہنیں ہیں میرا نام۔ عنادل خان ہے اور جو اُدھر کھڑی ہے۔ وہ بھی میری بہن ہے اس کا نام حور خان ہے۔
میرا نام ایمان علی چودھری اور یہ میری ابھی وہ کچھ بولتی کہ دانیہ نے اپنے ہاتھ کو آگے کرتے کہا تھا۔
جی میرا نام دانیہ عباس علی چودھری اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے اپنا تعارف کروایا تھا
عنادل نے اس کے ہاتھ کو تھاما تھا۔
آپ سے مل کر اچھا لگا۔
دوسری طرف حور جو پھولوں کو دیکھ رہی تھی اس کا پاؤں کسی چیز میں آیا تھا۔ ابھی وہ گرتی کہ اس کو کسی نے تھاما تھا۔ حور نے آنکھ کھول کر دیکھا تو وہ اس کو سیدھا کئے بولا اپنا دھیان رکھا کریں۔ اور سر پر ہوڈی کو پہنے جیسے آیا تھا ویسے ہی غائب ہوا تھا حور کو تو تب ہوش آیا جب وہ جا چکا تھا۔
کون تھا یہ اس کو بچانے والے نے ماسک پہن رکھا تھا اور اپنے سر کو ہوڈی سے چھپائے ہوئے تھا۔
کہیں وہی تو نہیں جس نے مجھے اس رات حور ابھی آگے کچھ سوچتی کہ عنادل نے اس کو آواز دی تھی۔
وہ جلدی جلدی۔ عنادل کی طرف قدم بڑھا گئی تھی دور سے اس کو بچانے والے کی آنکھیں چمکی تھی۔
ان سے ملوں یہ ایمان علی اور یہ دانیہ علی ہے۔ سردار براق کی بہنیں۔ عنادل نے ان لوگوں کا تعارف کروایا تھا۔
حور نے ان کو دیکھ مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔
اب ہم چلتے ہیں ویسے ہی بہت مشکل سے اجازت لے کر حویلی سے نکلے ہیں۔ ایمان نے جانے کا بولا تھا
وہ بھی اپنی منزل کو نکلی تھی عنادل حور کو کافی خوش خوش دیکھ پوچھ بیٹھی تھی۔
تمہاری خوشی کی وجہ جان سکتی ہوں۔ کس بات پر اتنا خوش ہوا جارہا ہے۔
اررے ایسے ہی آج بہت دنوں بعد حویلی سے نکل کر اچھا اچھا محسوس ہورہا ہے۔ وہ اصلی بات کو چھپا گئی تھی حور کیا بتاتی کہ اس کو لگا کہ اس رات اس کو جس نے بچایا وہ آج بھی کسی محافظ کی طرح اس کی حفاظت کر رہا ہے۔
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا گھر سے نکلا کرو دیکھا اچھا محسوس کر رہی ہوں نا
ہمم حور مسکرائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حویلی میں آتے ہی۔ حور اپنے کمرے میں چل دی اور عنادل اپنے کمرے میں۔ کلثوم بیگم ان دونوں کو یوں ہنستے ہوئے حویلی میں آتے دیکھ ان کی دائمی خوشیوں کی دعائیں کرنے لگی۔
ایمان اور دانیہ بھی خوشی خوشی حویلی کے اندر داخل ہوئی تھی۔ براق کو دیکھ اس کے پاس آتے بیٹھی تھی آج کئی دن بعد وہ براق کے ساتھ بیٹھی تھی ورنہ وہ کہاں ان کو اتنا وقت دیتا تھا۔
بھائی آج آپ یہاں۔ دانیہ نے طنز کیا تھا۔
ہاں کیوں میں نہیں بیٹھ سکتا ادھر۔ اس کو دانیہ کا اس طرح کہنا برا لگا تھا لیکن وہ جانتا تھا اس میں غلطی ان کی نہیں ہے۔
بیٹھ سکتے ہیں پر مجھے لگتا ہے ہمیں کمرے میں جانا چاہئیے کیونکہ آپ کو ضروری کام بھی تو ہوسکتا ہے وہ اب بھی تیر چلا رہی تھی جو وہ جانتی تھی براق کے دل پر لگ رہے ہوں گے۔
ایمان ایک بات تو بتاؤ دانیہ کو آج کریلا کھلایا ہے تم نے اس نے ایمان کی طرف متوجہ ہوتے اپنے ہنسی کو روکتے پوچھا تھا۔ ایمان سمجھ گئی تھی براق دانیہ کو تنگ کر رہا ہے تبھی اس نے جواب دیا تھا۔
بھائی کریلا تو نہیں کھلایا اس نے ایک ہی جملے میں ساری بات بتائی تھی۔
پر مجھے تو ابھی یہ بلکل ہری مرچ کی طرح لگ رہی ہے۔
دانیہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا براق نے اس کی طرف دیکھا جو منہ بنائے بیٹھی تھی۔
کیا ہوا ہے میری بہن کو اس نے دانیہ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے بولا تھا۔
آپ مجھ سے بات نہیں کریں۔
وہ رخ موڑ گئی تھی۔
میں تو کروں گا تم سے بات وہ بھی ضدی لہجے میں بولا تھا۔
آپ کو پتا ہے آپ کی دو بہنیں بھی ہیں نہیں آپ تو بس اس ڈیرے پر بیٹھے رہے اور لوگوں کی داستانیں سنے۔ وہ اپنے انگلی کو اس کی طرف کئے ہاتھ ہلا ہلا کر بولی تھی۔
میری بہن اس وجہ سے ناراض ہے۔
میری طرف دیکھوں دانیہ اس نے زرا سختی سے کہا تھا جو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔
اس نے براق کو دیکھا تھا۔ مجھے اتنی بڑی زمے داری ملی ہے میں کیسے اس سے پیچھے ہٹ سکتا ہوں تم جانتی ہوں میں انصاف پسند انسان ہوں کیسے کسی کو۔ بھی ان کے حال پر چھوڑ دوں اس گاؤں کے لوگ مجھ سے امیدیں باندھے بیٹھے ہیں کہ میں اس گاؤں میں ایک اسکول بناؤں یہاں کی بچیوں کو اعلئ تعلیم دے سکوں یہاں ایک ہسپتال بناؤں کہ لوگوں کو شہر نہیں جانا پڑے۔ تم جانتی ہوں گاؤں سے کتنے لوگ آئے دن اپنے اتنے پیسوں کو لے کر شہر اپنے گھر کے لوگوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں اور پتا ہے وہاں کے لوگ امیروں کے پیسے کو دیکھ کر ان کو چیک کرتے ہیں غریبوں کی لائن وہاں ایسی انتظار۔ میں ہوتی ہے کہ کب ان کی باری آئے اسی انتظار میں کتنے بچوں کی ماں ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاتی ہے کتنے لوگوں کے بچے تڑپتے ہوئے مرجاتے ہیں۔ اب تم خود ہی بتاؤں میں کسیے ان لوگوں کو چھوڑ کر اپنے بارے میں سوچوں میں اس گدی پر اس لئے نہیں بیٹھا کہ۔ مجھے دکھانا تھا یا کسی پر اپنا حکم چلانا تھا یا پھر میں کہو اب اس گدی پر میں بیٹھا ہوں میرے اصول مانے جائے۔ نہیں! میں اس لئے اس گدی پر بیٹھا ہوں کہ۔اس گاؤں کے لوگوں کے لئے کچھ کرسکوں۔ نا کہ ان کو ادھر قید کرنا میرا مقصد ہے۔ میں مانتا ہوں مجھ سے پہلے اس گدی پر دادا سائیں بیٹھے تھے لیکن وہ کیا کر سکے زیادہ سے زیادہ انہوں نے اس گاؤں کے عورتوں کا گھر سے نکلنا منا کروا دیا اور یہاں تک کہ عورت مر ہی کیوں نا جائے اسے کسی میل ڈاکٹر کو نہیں دکھایا جائے کم از کم گاؤں میں ایک ہسپتال ہوگا جس میں لیڈز ڈاکٹر ہوگی تو یہاں کی مردوں کی غیرت کو یہ گوراہ تو ہوگا کہ۔ اپنے بیٹی بیوی کو بچا سکیں۔
براق کے اس طرح اتنی گہری بات کہنے پر دانیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا وہ ان کو وقت نہیں دے رہا تو اس میں کوئی بہت بڑی وجہ ہوگی تبھی وہ ان کو وقت نہیں دے رہا ان کو سمجھنا چاہئیے وہ یہ سب اپنے لئے نہیں کر رہا گاؤں کے لوگوں کے لئے کر رہا ہے۔
ایم سوری بھائی وہ شرمندہ ہوئی تھی۔
کوئی بات نہیں پر اگلی بار سے یاد رکھنا میرا مقصد تم لوگوں کو ہرٹ کرنا نہیں ہے بس میں وقت نہیں نکلا پاتا اس نے دانیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔
وہ مسکرائی تھی۔ ایمان مجھے چائے ملے گی۔ تمہاری بہن تو میرا آدھا دماغ کھا چکی ہے۔ وہ شوخ لہجے میں بول تھا۔
بھائی !! وہ چیخی تھی۔
لاونج میں براق اور ایمان کا قہقا گونجا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمشید علی نے باسل کو اور نزاکت علی کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا تھا۔
جس کے تھوڑی دیر بعد دونوں ان کے کمرے میں موجود تھے۔
جی بابا سائیں آپ نے بلایا تھا۔ نزاکت صاحب صوفے پر بیٹھتے بولے تھے۔
ہاں ایک ضروری بات کرنی تھی تم دونوں سے۔
جی آپ کہے ہم سن رہے ہیں دادا سائیں۔۔۔! باسل خان کو ان کی بات جاننے کی بہت جلدی تھی۔
مجھے بھنک پڑی ہے کہ شاہنواز چودھری اب اپنے براق کی شادی کرنا چاہتا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے اب وہ لوگ ضرور یہاں آئے گے۔
جمشید علی کی اس بات سے باسل اور نزاکت صاحب کو جھٹکا لگا تھا۔
پر دادا سائیں۔ آپ کو یہ خبر پکی ملی ہے کیونکہ مجھے جہاں تک پتا ہے وہ لوگ اپنے انا کو ٹھیس نہیں پہنچنے دے سکتے اگر ان لوگوں کو ہم سے بات کرنی ہوئی تو وہ ہمارے گھر آنے سے بہتر پنچائیت میں بیٹھنے کو زیادہ اہمیت دیں گے۔
بات تو یہ بھی ٹھیک کہہ رہے ہوں تم لیکن مجھے اس کی خاموشی کسی بڑے طوفان کے آنے کی خبر دے رہی ہے۔
جمشید علی نے بتایا تھا۔
بابا سائیں اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو ہم بھی ایسے ہی اپنی بیٹی کو اس گھر میں جانے نہیں دے گے آپ بے فکر رہے ہم مانتے ہیں غلطی ہماری طرف سے ہوئی تھی لیکن اس طرح ہم اپنی گھر کی بیٹی کو ان کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے۔ اور جہاں تک مجھے پتا ہے عنادل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے وہ لوگ۔
نزاکت صاحب کی بات سے باسل خان نے بھی اتفاق کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں بچانا تمہیں سب چیزوں سے محفوظ میں رکھوں گا بہت جلد تمہیں پتا لگے گا کہ میں کون ہوں..! کیوں تمہیں ہر مشکل سے بچا کر رکھتا ہوں۔..! کیوں تماری ہر مشکل میں مدد کے لئے حاضر ہوجاتا ہوں میں جانتا ہوں تم اس بات کو لے کر پریشان ہو کہ میں ہوں کون وہ سوچتے سوچتے مسکرا رہا تھا۔ ابھی بھی اس نے اپنا چہرہ ماسک سے چھپا رکھا تھا۔ وقت آنے پر سب بتاؤں گا کہ میں کون ہوں وہ حور کو تصور میں لئے بول رہا تھا۔ جیسے وہ اس کے عین سامنے کھڑی ہوں اور وہ اپنی پہچان ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موبائل۔کب سے بج رہا تھا پر کوئی کال اٹھا ہی نہیں رہا تھا اس کا جنون اب غصے میں بدلا تھا۔
کون ہے؟ جس کو چین نہیں ہے۔
ہیلو کیا مئسلہ ہے؟ کس سے بات کرنی ہے۔؟ اور کام کیا ہے؟ ایک منٹ انتظار نہیں ہوسکتا کیا بندہ مصروف بھی ہوتا ہے موبائل کے آگے نہیں بیٹھی ہوتی میں اب بولو بھی کیا بات کرنی یا میں ہی بولو زبان بیچ آئے ہوں۔ وہ بولے جارہی تھی۔ مقابل سے ایک آواز آئی تھی۔
آپ بولنے دیں گی تو میں بولو گا نا۔ اس نے معصومیت سے کہا تھا۔
عنادل جانی پہنچانی آواز سنیں موبائل کو کان سے ہٹائے دیکھنے لگی وہی پرائیویٹ نمبر تھا تبھی اس نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔
آپ ہیں کون کیوں میرا دماغ خراب کرکے رکھ دیا ہے بندہ پہلے ہی پریشان ہے اور آپ کو جانے کیا مئسلہ ہے جب دیکھو منہ اٹھا کر کال کر دیتے ہوں۔ عنادل تنگ آچکی تھی روز روز اس کے فون کرنے کی وجہ سے۔ تبھی چیڑ کر اس نے آخر پوچھ ہی لیا تھا جو اس کے دماغ میں اور دل میں چل رہا تھا۔
مقابل کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے عنادل کے اس طرح بولنے۔ پر۔
آپ کیا جاننا چاہتی ہے کہ میں کون ہوں..؟ یا پھر آپ کو کیوں کال کرتا ہوں؟ اور آپ پریشان کیوں ہیں۔ کوئی مئسلہ ہے تو مجھے بتائے میں آپ کی مدد کروں گا۔ وہ فکر مند لہجے میں بولا کہ جانے عنادل کو کیا مئسلہ ہے جو وہ پریشان ہے۔
دیکھیں میں آپ کو کیوں بتاؤ میں کیوں پریشان ہوں۔ میں کال بند کرنے لگی ہوں برائے مہربانی اب اس نمبر کال نا کرئے گا عنادل نے یہ کہتے ہی فوراً کال کاٹی تھی۔
کچھ دیر بعد اس کو ایک میسج موصول ہوا تھا۔ آپ کے کہنے پر اب میں آپ کو کال نہیں کروں گا۔ اس نے دل والا ایموجی بھیجا تھا
پاگل ہے یہ جو بھی ہے۔ عنادل اپنا سر جھٹک کر بیٹھی تھی۔
کچھ دیر بعد حور اس کے کمرے میں ایک پھول کا گلدستہ لے کر آئی تھی۔
عنادل یہ کسی نے بھیجا ہے اور بولا ہے کہ عنادل میڈم کے لئے ہے! دیکھو اس میں ایک کاغذ بھی ہے۔
پر میں نے تو کچھ بھی نہیں منگوایا دکھاؤ میں دیکھو۔
حور سر جھٹک کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس نے پھول کو اپنے ناک کے قریب کرتے اس کی خوشبو اندر تک اتاری تھی۔ وہ گلاب کے پھول تھے۔
اس پر ایک کاغذ تھا جس کو کھول کر اس نے پڑھا تھا
یوں ہم سے منہ نا موڑا کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔جانم .............
ہمیں پھول کے ذریعے خط بھیجنے آتے ہیں۔
اس میں بس اتنا لکھا تھا جس کو پڑھ کر عنادل کا منہ کھلا رہ گیا تھا ابھی تو اس نے اس کو کال کرنے سے منع کیا تھا ۔
لیکن یہاں تو پھول آنا شروع ہوگئے تھے۔
یا اللّٰہ کونسی بلا ہے جو میرے پیچھے ہاتھ منہ دھو کر لگ گئی ہے۔
تبھی اس کے موبائل کی ٹون بجی تھی۔
بلا نہیں جن لگا ہے تمہارے پیچھے ساتھ میں ہنسنے والا ایموجی تھا۔
اس نے اپنا موبائل کو بند کر دیا تھا۔
اور اپنا چہرہ تکیے میں چھپایا تھا۔
بہت جلد ایک سرپرائز ملے گا تمہیں اس نے اپنے مونچھوں کو تاؤ دیتے کہا تھا۔
اور دوسری طرف عنادل اس بات سے بلکل غافل تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عباس میں سوچ رہا ہوں اب ہمیں ان سے بات کرنی چاہئیے۔ شاہنواز چودھری بات کو گھما کر بولے تھے۔
بابا سائیں میں سمجھا نہیں آپ کیا بول رہے ہیں۔ عباس صاحب ان کے بات سمجھنے سے قاصر تھے اس لئے ان سے پوچھا تھا۔
تم جانتے ہوں کہ براق کی عمر ہو رہی ہے اب وہ گاؤں کا سردار بھی بن چکا ہے کب اس کی شادی کرنے کا سوچا ہے۔
بابا سائیں جب آپ کہے۔ انہوں نے بنا کسی بات کو رد کئے ان پر فیصلہ چھوڑا تھا اور ویسے بھی آخری فیصلہ شاہنواز چودھری کا ہی ہونا تھا۔
تو پھر کل بلایا جائے۔ ان سب لوگوں کو۔ کل ہی ہم اپنی امانت ان سے لینے کی بات کرتے ہی۔ اور پنچائیت میں سب کو بلاؤ براق کو بھی بولوں کل اپنے سارے کام کو چھوڑے وہاں موجود ہوں۔ انہوں نے جیسے حکم صادر کیا تھا اور وہاں سے اٹھتے اپنے کمرے میں چل دئے تھے۔
عباس صاحب اب اوپر کمرے کی طرف گئے تھے۔
ساحر جو کمرے میں بیٹھا تھا۔ عباس صاحب کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ جلدی سے کھڑا ہوا تھا۔
بابا سائیں آپ یہاں کیوں آگئے آپکو کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیتے میں حاضر ہوجاتا۔ اس نے ان کو بیڈ پر بیٹھنے کی جگہ دی تھی اور خود دور ہوکر کھڑا ہوا تھا۔
میں اور بابا سائیں چاہتے ہی۔ کل تم اور براق گاؤں کی پنچائیت میں موجود ہو اور تم جانتے ہوں ان کی کسی بھی بات کو رد نہیں کرسکتے اور کل ایک اہم فیصلہ ہونے والا ہے میں چاہتا ہوں تم خان کے گاوں میں جاکر ان کو اطلاع دو کہ شاہنواز چودھری نے کل پنچائیت میں آنے کا کہا ہے جو دونوں گاؤں کے بیچو بیچ ہوگی۔ عباس چودھری نے ساحر کو ہر ایک بات سے روشناس کروایا تھا تاکہ کسی بھی کام میں کوئی کمی نا رہے کیونکہ کل دو سردار آمنے سامنے بیٹھنے والے تھے سالوں کی دشمنی کل کیا کرنے والی تھی وہ تو وقت نے ہی بتانا تھا۔
جی بابا سائیں جیسا آپ کا حکم کل میں وہاں جاکر خان حویلی میں اطلاع دے دوں گا ویسے پنچائیت رکھی کب گئی ہے۔ سوال پوچھا تھا۔
کل شام کو سب وہاں موجود ہوں گے۔ انہوں نے اس کو بتایا اور وہاں سے اٹھتے چلے گئے
پیچھے ساحر کل کے دن خانوں کے گاوں اور ان کی حویلی جانے والا تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback