Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 02

www.urdunovelbank.com

Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 02.

ایمان شاور لے کر کمرے میں اب آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اپنے اوپر نظر ڈالے سوچ میں ڈوبی تھی۔

کون ہوسکتا ہے جس کے ساتھ میری قسمت جڑی ہے؟ کون ہے وہ جو مجھے پسند کرے گا؟ ایمان علی اس نے انٹر تک پڑھا تھا۔ اس کے بعد آگے پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت نہیں تھی وہ سانولے رنگ کی لڑکی اپنے رنگ کو لے کر ہمیشہ احساس کمتری میں رہنے والی لڑکی۔ جسم بھی تھوڑا بھرا بھرا تھا وہ دانیہ علی سے بلکل الگ تھی۔ وہ بس یہی سوچتی اس کا رنگ تھوڑا صاف ہوتا کیوں وہ دانیہ جیسی نہیں ہے۔ پر کہتے ہیں نے اللّٰہ نے اپنے تخلیق کئے بندے میں کوئی نا کوئی خوبی یا خامی ڈالی ہے۔ 

ایمان ہمیشہ سے آرٹ میں بہت ماہر تھی وہ بندے کو دیکھ کر اس کا خاکہ بنا لیتی تھی۔ اس میں خامی یہ تھی وہ غلط بات برداشت نہیں کر پاتی تھی وہ ظلم کرنے والے کے آگے چپ نہیں رہ سکتی تھی۔ 

اور یہی بات اس کو ہمیشہ مشکل میں ڈال دیتی تھی۔  

آج بھی وہ وضو کئے نماز پڑھ رہی تھی۔  

نماز پڑھ کر اس نے جیسے ہی سلام پھیرا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تھا۔ یا اللّٰہ تو بڑا غفور رحیم ہے۔ مجھے کبھی غلط راہ پر نا چلنے دینا مجھے ہمیشہ ثابت قدم رکھنا ظالم اور ظلم کرنے والے لوگوں کے شر سے ہمیشہ بچانا اور مجھے اس قابل بنا دیں کے میں غلط کرنے والے لوگوں کی آنکھ سے آنکھ ملا کر جواب دے سکوں یا اللّٰہ تیری زمین پر رہنے والے لوگ بہت ظالم ہے۔ یہ ظلم کرتے کرتے یہ تک بھول جاتے ہیں ہمارا خدا ہے جو یہ سب دیکھ رہا ہے ۔۔ یا اللّٰہ تیری بندی تجھ سے اپنے تمام کئے گناہ کی معافی مانگتی ہے۔ یا اللّٰہ مجھے معاف کرینا میں نے اگر کبھی جانے انجانے میں کسی کا بھی دل دکھایا ہوں تو۔ وہ چہرے پر ہاتھ پھیرے جائے نماز کو رکھے بیڈ پر آئی تھی۔ 

اس کا روز کا معمول تھا وہ روز رات کو اپنے اللّٰہ سے بات کرکے سوتی تھی۔ ہر نئے دن کے ساتھ وہ اپنے دل کو ہلکا محسوس کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف عنادل اس بات سے پریشان تھی۔ کون ہے جس سے باسل خان اور کاشان خان اس کو یوں چھپا کر رکھ رہے ہیں۔ وہ آئے دن ان باتوں میں الجھ رہی تھی اس کو کافی دنوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کوئی اس کا پیچھا کرتا ہے۔ پر وہ ہمیشہ پیچھے موڑ کر دیکھتی ہے پر اس کو کوئی نظر نہیں آتا۔ عنادل نے بھی زیادہ نہیں پڑھا تھا لیکن باسل خان کے اجازت دینے پر وہ گاؤں کے بچوں کو پڑھاتی تھی۔ کاشان خان تو کیسی سائے کی طرح اپنی دونوں بہنوں پر نظر رکھتا تھا۔  

عنادل جب بھی حویلی سے باہر نکلتی اپنے آپ کو پورا چادر سے دھانپے اپنے چہرے کو اچھے سے چھپائے نکلتی تھی جس سے اس کی آنکھوں کے علاؤہ اس کا چہرہ کسی کو نظر نہیں آتا تھا۔ 

وہ یہی سوچ رہی تھی کون ہے جو اس کا پیچھا کرتا ہے۔

کون ہے جو اس کو نظر نہیں آتا کون ہے جو اس کہ اوپر پل پل کی نظر رکھے ہوئے ہے۔ تبھی اس کے موبائل پر کسی کی کال آئی تھی۔ 

اس نے موبائل کو کان سے لگایا تھا تبھی رعب دار آواز اس کے کان میں پڑی تھی۔ 

اتنا مت سوچو سوجاؤ وقت آنے پر ایک ایک بات کا جواب ملے گا تمہیں۔ 

عنادل نے اپنے کان سے موبائل کو ہٹائے اپنے چہرے کے سامنے کیا تھا۔ جب نمبر دیکھا تو کیسی پرائیویٹ نمبر سے کال تھی۔

وہ ڈری تھی اور کال کاٹنے ہی لگی تھی کہ مقابل سے آتی آواز پر اس نے دوبارہ موبائل کو کان سے لگایا تھا۔ 

کال کاٹنے کی ہمت بھی نہیں کرنا اور میں تمہارے ایک ایک چیز سے واقف ہوں تم کب کیا کر رہی ہوں کب کیا نہیں ابھی تمہاری حالت یوں ہے جیسے چور کی چوری پکڑی گئی ہو اور ابھی تمہارے ناخن تمہارے منہ میں ہیں۔ عنادل نے جلدی سے اپنے منہ سے انگلی نکالی تھی اور ڈر کے مارے اس نے موبائل کو دور پھینک دیا تھا۔ لیکن احتیاط سے پھینکا تھا کہی وہ ٹوٹ ہی نا جائے کیوں کہ اس کو کوئی موبائل لا کر دینے والا نہیں تھا۔ 

دور سے اس کی حرکت کسی نے بڑے غور سے دیکھی تھی۔ 

وہ اگر جان جاتی کون اس پر نظر رکھے ہوئے ہے تو ضرور بیہوش ہو جاتی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشان خان اپنے کمرے میں پنچینگ بیگ پر اسے مکے مار رہا تھا جیسے اس کے سامنے وہ آدمی کھڑا ہو جس نے صبح باسل خان کے بارے میں بولا تھا۔ 

کاشان خان صبح اس طرف سے گزر رہا تھا تبھی اس لڑکے نے دوسرے لڑکے کے قریب جاتے کہا۔

باسل خان بہت گرا ہوا آدمی ہے ابھی وہ صرف اس گدی کو پانے کے لئے شریف بنا ہوا ہے ورنہ اس سے زیادہ گھٹیا آدمی کوئی نہیں جو اپنی گاؤں کے لڑکیوں یعنی گاؤں کی عزت کے ساتھ ابھی وہ بولتا کہ پیچھے سے آتے کاشان نے اس کو مار مار کر بھرتا بنادیا تھا۔ 

اب بھی وہ اس پنچینگ بیگ کو ایسے مار رہا تھا۔ جیسے اس کا بس نہیں چل رہا ہوں اس آدمی کو اپنے ہاتھوں سے زندہ زمین میں گاڑ دے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھی۔ وہ ٹاول سے اپنے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرتے ٹاول کو اپنے کندھے پر رکھے بیڈ پر بیٹھا تھا۔  

اور اپنا موبائل نکالے کال ملانے لگا تھا۔ 

جی سائیں حکم ! اس بندے کی ایک ٹانگ توڑ دو کچھ بھی کروں یا تو اس کی پاؤں میں گولی ماروں مجھے آج کے بعد وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نظر نہیں آنا چاہئیے۔ 

ٹھیک ہے سائیں ! دوسری طرف سے فوراً اس کے حکم کی تعمیل کی گئی تھی وہ کال کاٹے اپنے موبائل کو رکھے خود بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دانیہ جو کب سے کمرے میں بیٹھے پاگل ہو رہی تھی ہلکے ہلکے قدم لئے ایمان کے کمرے کی طرف چل دی تھی۔ 

اور دروازے کو بنا آواز کے کھولے اندر لپکی تھی۔ 

ایمان اس کو یوں چوروں کی طرح آتے دیکھ اس کو یوں گھور رہی تھی جیسے اس کو کچا ہی چبا جائے گی۔

کیا ہے یوں کیوں گھور رہی ہیں میں اکیلی کمرے میں بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی اس لئے آپ کے پاس چلی آئی۔ اس نے بتایا تھا۔ 

یہاں کیوں آئی ہوں اپنے بڈی کے ساتھ ہی بیٹھ جاتی وہ ضرور تمہیں کوئی نئی ترقیب بتاتا مجھے تنگ کرنے کی وہ چہرہ موڑے ناراضگی ظاہر کرتے بولی۔  

آپی ایسی بات نہیں ہے میں نے بھائی کو منع کیا تھا لیکن وہ نہیں مانے۔ اس نے اپنا پتہ صاف کرتے کہا تھا۔

ہاں ہاں میری برائی کروں اب تم ساحر جو دانیہ کو ایمان کے کمرے میں یوں چوروں کی طرح آتا دیکھ چکا تھا تبھی خود بھی ایمان کے کمرے میں آیا تھا۔ 

بھائی آپ کب آئے۔ ایمان نے دوپٹے کو سر پر لیا تھا چاہے وہ اس سے ایک سال ہی چھوٹی ہوں لیکن ان کے حویلی میں ان کی ماں سمیت ان دونوں بہنوں کے سر سے دوپٹہ نہیں اترتا تھا۔

بھائی آپ کی برائی میں نے کب کی آپی بتائے میں نے نہیں کی بھائی کی برائی۔ وہ اب ایمان کو دیکھتے اپنے طرف داری کرنے کا کہنے لگی۔  

بھائی آپ سہی کہہ رہے ہیں یہ مجھ سے آپ کی برائی ہی کر رہی تھی۔ ایمان نے بھی نشانہ ٹھیک جگہ لگایا تھا۔

آہہہ ! ایمان تم بہت بری ہوں 

وہ منہ بنائے بولی۔  

ساحر ان دونوں کو یوں لڑتا دیکھ ہنسا تھا۔ 

اب کی بار ان دونوں کو ہوش آیا وہ دونوں ساحر کو یوں ہنستا دیکھ رہی تھی۔ ساحر جو ہنس رہا تھا ان دونوں کو خود کو یوں تکتا پاکر چپ ہو اتھا۔ 

اب مجھے پتا ہے میں ہینڈسم ہوں یوں نہیں دیکھوں ورنہ مجھ معصوم کو نظر لگ جائے گی ساحر نے سرمائی انداز میں کہا تھا۔

ہاں آپ کو لگ ہی نا جائے نظر ۔۔۔! ایمان نے اس کی بات کو غلط ثابت کرتے کہا تھا۔  

ہاں تم تو جلتی ہی ہوں میری خوبصورتی سے تم جو نہیں ہوں وہ جلدی جلدی میں بول گیا تھا ایمان ساحر کی بات سننے خاموش ہوگئی تھی۔  

دانیہ نے ساحر کے ہاتھ میں چٹکی کاٹے ایمان کے طرف دھیان دلایا تھا تب ساحر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ خود آئینے کے سامنے کھڑے اپنے آپ کو دیکھ بولا تھا۔ 

یار مجھے تو دیکھو لگ رہا ہے جیسے میں بہت جلد پھٹ جاؤں گا اب کھانا کم کرنا ہی پڑے گا چہرہ دیکھوں مجھے تو کوئی اپنی لڑکی بھی نہیں دے گا ساحر چوڑے جسامت کا مالک اپنے آپ کو کیا سے کیا بنا گیا تھا صرف اور صرف اپنی بہن کے چہرے پر خوشی لانے کے لئے۔ ایمان کا قہقہ گونجا تھا۔ دانیہ نے شکر کا سانس لیا تھا ورنہ ایمان کی آنکھ سے آنسوں نکلنے کو تیار تھے۔ ایمان کی کمزوری یہی تھی اس کو ہمیشہ یہی لگتا سب خوبصورت ہے سوائے اس کے۔ ساحر بھی ہنسا تھا اور دروازے پر کھڑا براق بھی ان تینوں بہن بھائیوں کو یوں خوش دیکھ خوش ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور صبح کا آغاز ہوا تھا۔

دانیہ اٹھ جاؤ۔۔۔ ایمان اس کو کب سے اٹھا رہی تھی۔ 

ایمان سونے دو وہ کمفرٹر کے اندر اندر سے ہی بولی تھی۔  

ایمان پانی کے جگ کو اٹھائے اس کے اوپر انڈیل چکی تھی۔ 

آہہہ..! وہ ایک دم چیخ کر کھڑی ہوئی تھی۔  

یہ کیا بدتمیزی ہے وہ ایمان کو دیکھ غصے سے بولی تھی جو غصہ اس کو کبھی نہیں آنے والا تھا لیکن ظاہر تو ایسے ہی کرنا تھا کہ جیسے اس کو بہت غصہ آیا ہوں ایمان کی اس حرکت پر۔  

اور جو بدتمیزی تم کر رہی ہوں کب سے اس کا کیا ایمان کمر پر ہاتھ ٹکائے دانیہ کو اس کی غلطی یاد دلائے بولی تھی۔ 

ہاں تو کوئی ایسے اٹھاتا ہے کیا ! دانیہ نے اپنے غلطی کو سائیڈ پر رکھے اس سے بحث کرنا ضروری سمجھا تھا۔ 

تم اٹھ رہی ہوں کہ اب کی بار میں اپنی چپل نکالو ایمان کے ہاتھ اپنے پاؤں کی طرف گئے تھے 

اچھا اچھا اٹھ رہی۔ وہ جلدی سے لحاف کو دور پھینکے واشروم کی طرف بھاگی تھی۔  

پیچھے ایمان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی اور وہ بھی اپنا سر جھٹک کر باہر نکل گئی تھی۔

وہ دانیہ کو اس لئے بلانے آئی تھی کیونکہ آج ایمان نے گاؤں کے بچوں کو اپنے ہاتھ سے بنائی گئی پینٹنگز دینی تھی وہ اکثر یہی کرتی تھی جو جو بناتی تھی وہ بچوں میں تقسیم کر دیتی تھی ان سے بچوں کو کوئی فائدہ تو نہیں ہوتا لیکن ان کے چہرے کی چمک ایمان کو سکون پہنچاتی تھی۔ 

دانیہ اس کے ساتھ جاتی تھیں اور یہاں وہاں ٹہلتی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حور آج سب کے ساتھ بیٹھی تھی ناشتے کے بعد سب لاونج میں ہی موجود تھے۔ اور عنادل بھی حور کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ باسل خان بھی وہاں موجود تھا کاشان جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا صبح صبح وہ جاگنگ کے لئے جاتا تھا اس کا یہ روز کا معمول تھا ۔ کلثوم بیگم بھی وہاں سب کے ساتھ موجود تھی۔ نزاکت علی بھی وہاں ہی بیٹھے تھے جمشید علی سب کو ایک نظر دیکھے اپنے بات کو شروع کئے بولے تھے۔  

نزاکت عنادل اکیس سال کی ہوگئی ہے تمہیں کچھ یاد ہے کیا کہا تھا ان لوگوں نے عنادل کبھی اپنی ماں اور باپ کو دیکھتی تو کبھی بھائیوں کو جو ابھی جمشید علی کی طرف متوجہ تھے۔  

دادا سائیں میرا کہنا ہے ابھی آپ یہ بات نا چھیڑے جب تک ان کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوتی بہتر ہیں ہم کچھ نہیں کریں باسل خان نے معاملہ جیسے رفعہ دفعہ کرنے کا سوچا تھا۔ جی بابا سائیں باسل بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ کاشان نے باسل کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ 

میں تم لوگوں کی بات مان کر چپ ہوجاتا ہوں لیکن جب تک وہ لوگ خاموش رہے گے۔ پر مجھے ایسا لگتا نہیں کہ وہ زیادہ دن خاموش رہے گے۔ جمشید صاحب نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا سب ان کی بات سے سب پریشان ہوئے تھے۔  

جب وہ کچھ کریں گے تب دیکھا جائے گا ابھی سے یہ سب سوچ کر ہمیں ظاہر نہیں ہونے دینا کہ ہم ڈر کی وجہ سے خاموش ہے۔ 

ہممم ..! بات تو ٹھیک کر رہے ہوں جمشید صاحب کو باسل کی یہ بات متاثر کر گئی تھی۔ 

عنادل اور حور خاموشی ان لوگوں کے بیچ یہ بات ہوتے دیکھ الجھ کر رہ گئی عنادل تو اوپر کمرے میں جاتے ہی کلثوم بیگم کو پکڑ کر پوچھنے کا ارادہ رکھتی تھی یہ سب ہو کیا رہا ہے کس سے اس کو چھپایا جارہا ہے۔ ایسا کیا ہوا تھا جو اس کو نہیں پتا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمان اور دانیہ دونوں حویلی سے نکلی تھی۔ 

ان کے پیچھے گارڈ کی فوج تھی وہ دونوں جہاں جاتی وہ ان کے پیچھے پیچھے ہوتے۔ وہ بنا کسی گاڑی پر سوار پیدل ہی چل رہی تھی گارڈ بھی ان کے ساتھ کافی دوری سے ان کا پیچھا کر رہے تھے یہ سب براق کے کہنے پر وہ سب کر رہے تھے۔ براق کا کہنا تھا ابھی وہ نیا نیا اس گاؤں کا سردار بنا ہے۔ اس سے کافی دشمن اس کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں وہ اپنی بہنوں پر کسی قسم کا کوئی بھی نقصان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔  

ایمان گاؤں کے بچوں کے بیچ میں تھے بچوں نے اس کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا تھا وہ لوگ جانتے تھے آج پھر ایمان علی ان کو کچھ دینے آئی ہے وہ ایسے ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جاتے تھے۔  

چھوٹی بی بی آپ یہاں کوئی کام تھا تو ہمیں بولا لیتی ایک عورت نے کہا تھا۔ 

کوئی کام نہیں تھا بس میں بچوں سے ملنے آئی تھی آپ لوگوں کو اس سے کسی قسم کا کوئی مئسلہ نہیں ہونا چاہئیے۔ وہ بچوں کو پاس گھٹنوں کے بل بیٹھے ان کو اپنے بنائی ہوئی پینٹنگ دینے لگی اور ساتھ ان کو ہاتھ میں کچھ پیسے تھما رہی تھی۔ 

اررے آپ یہ کیا کر رہی ہیں ہم یہ نہیں لے گے۔ اس عورت نے پھر بیچ میں بولا تھا۔  

میں آپ سے کہہ رہی ہوں میں اپنی خوشی سے یہ سب کر رہی ہو آپ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ ہمدردی میں آکر ان کو یہ سب دے رہی ہوں۔ پھر اس نے ایک گارڈ کو آگے آنے کا اشارہ کیا گارڈ تو حیران تھا کہ ایمان کو کیسے پتا لگا وہ لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔  

تم لوگ ہمارا پیچھا کر رہے ہوں اس بات سے میں بہت اچھے سے واقف ہوں تو اس طریقے سے حیران ہونے کی ضرورت نہیں اور سب بچوں کو یہ ساری چیزیں تقسیم کروں اور سب کو کھانے کا سامان بھی دو۔

جی ! اس گارڈ نے اس کے حکم کے تکمیل کی تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دانیہ جو ادھر سے ادھر ہورہی تھی۔ اچانک وہ چلتے چلتے کب گاؤں کے دوسرے سائیڈ آئی اس کو پتا ہی نہیں لگا تھا۔ 

باسل خان جو وہاں سے ہی گزر رہا تھا کسی لڑکی کو اپنے گاؤں میں یوں منڈلاتے دیکھ اپنے قدم اس کی طرف بڑھائے تھے۔ 

دانیہ اب باغ کے اندر چل دی تھی۔  

آپ کون ہے؟ اور ادھر کیا کر رہی ہے؟ میں جان سکتا ہوں۔ 

باسل کی کڑک آواز پر دانیہ ایک دم موڑی تھی۔  

اور اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگی جو آنکھوں پر غصہ لئے اس کو گھور رہا تھا۔

ہاتھ میں گھڑی پہنے اپنی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کئے بالوں کو جیل سے سیٹ کئے بلیک شلوار کمیز میں کندھے سے دوسرے کندھے پر براؤن رنگ کے شال کو ڈالے اپنے تمام تر وجاہت کے ساتھ اس ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 

دانیہ اس کو اب بھی یوں گھور رہی تھی جیسے اس نے کوئی سوال نہیں پوچھ لیا ہوں اس کو زہر دینے کی دھمکی دی ہوں۔  

اوو ہیلو کدھر گم ہو۔ ! باسل خان اب کی بار اس کے آگے چٹکی بجاتے بولا تھا۔  

ہائے کتنا ہینڈسم ہے۔ ! وہ جلدی جلدی میں بول گئی تھی۔ 

باسل خان اس کی اس طرح بولنے پر منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے اپنے گاؤں کی لڑکیوں کو یوں نہیں دیکھا تھا جو یوں بغیر جھجھک کے یہ سب بول جائے۔  

دانیہ نے اپنے زبان دانتوں تلے دبائی تھی اور اپنے آپ کو ڈپٹا تھا دانیہ کہی تو اپنا منہ بند رکھ لیا کر۔  

باسل خان اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا تھا اس کو وہ پاگل لگی تھی جو خود ہی سے بڑبڑا رہی تھی۔  

مجھے لگتا ہے تمہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے تم جاکر اپنا علاج کرواؤں اور ایک بات بتاؤں تم ہو کون؟ اور یہاں کیا کر رہی ہوں؟ 

دانیہ اس کی بات پر نظریں گھمائے اپنے چاروں اور دیکھنے لگی جب اس کو احساس ہوا کہ وہ اپنے گاؤں سے بہت دور نکل آئی ہے۔ 

آپ زرا مجھے بتائے گے میں ابھی کدھر موجود ہوں۔ اس نے الٹا سوال باسل خان سے پوچھ لیا تھا۔  

آپ اس وقت باسل نزاکت علی خان کے گاوں میں موجود ہیں۔

اچھا ! اسنے بس اتنا ہی کہا تھا۔  

ہیں ! کیا مطلب میں یہاں کیسے آئی میرا دماغ خراب ہوا ہے جو میں یہاں پہنچ گئی۔ آپ ایک کام کریں گے میرے گاؤں کا راستہ بتا دے۔ میں تو آگئی ہوں لیکن واپس جانے کا راستہ بھول گئی ہوں اور مجھے باسل خان سے بہت ڈر لگتا ہے پتا نہیں کون ہے وہ لیکن اس کے بارے میں بہت سنا ہے بندہ بہت خطرناک ہے۔ آپ کو پتا ہے میں اپنے ماں باپ کی سب سے لاڈلی بیٹی ہوں مجھے اس ظالم کے ہاتھوں نہیں لگنا یہ دیکھے میرے جڑے ہاتھ وہ یہ جانے بغیر بولی جس کے اس نے اتنے قصیدے پڑھے ہیں۔ وہ عین اس کے سامنے کھڑا باسل نزاکت علی خان ہے۔ 

ابھی وہ اور کچھ بولتی کہ باسل نے اس کا منہ بند کروایا تھا۔

خبردار اگر اب کچھ بولا ورنہ تمہیں باسل خان کے ہاتھوں مروا دوں گا میں اس کا بہت خاص آدمی ہوں۔ اس نے جیسے اسے ڈرانا چاہا تھا اور دانیہ شاید ڈر بھی گئی تھی۔ 

دیکھے آپ جو بولے گے میں وہ کروں گی۔ لیکن مجھے راستہ بتا دے وہ رونے والی ہوئی تھی باسل خان نے اس کی آنکھوں میں جھانکا جس کی آنکھوں سے اب آنسوں باہر آنے کو تھے یعنی اس کو باسل خان کے نام سے اتنا ڈرایا گیا تھا۔ 

اس نے سوچا لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی کہ دانیہ عباس علی چودھری کسی سے ڈرے گی۔

باسل نے اس کو اس کے گاؤں تک خود چھوڑا تھا۔ کہی وہ کہی اور ہی نہیں چلی جائے۔ دانیہ بھی بنا کچھ بولے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی یا یوں کہا جائے باسل اس کے پیچھے تھا اور وہ خود آگے آگے تھی باسل اپنا سر نفی میں ہلا گیا تھا۔  

جب اس کو گاؤں کا راستہ دیکھا تو اس نے روک کر باسل خان کو کہا تھا۔ 

سنیں..! اس کے اس طرح کہنے پر باسل خان کے دل کے تار دھڑکن اتھل پتھل ہوئی تھی۔ 

کہو ! 

آپ کا نام باسل خان ہے۔ میں جانتی ہوں بس میں تو اسے ہی ڈرنے کا ناٹک کر رہی تھی۔ اور آپ تو خود کو ہی باسل خان کا خاص آدمی بتانے لگے آپ کو لگا میں ڈر گئی ہوں یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ میں کسی سے ڈرتی ہوں۔ ڈرنا دانیہ عباس علی چودھری کے خون میں شامل نہیں ہے۔

میں ڈرانا جانتی ہوں ڈرنا تو لوگوں مجھ سے چاہئیے جو مجھ سے پنگا لیتے ہیں وہ بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کے طرف اچھالتے موڑ کر اپنے گاؤں کے اندر چل دی تھی۔

باسل خان کو تو جیسے صدمہ لگا تھا ایک چھوٹی سی لڑکی اس کو کیسے بیوقوف ثابت کر گئی تھی۔  

اس نے بس دانیہ کی آنکھوں کو دیکھا تھا۔ جو اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھی۔ آنکھوں میں جیسے شرارت ناچ رہی ہوں۔

باسل خان بھی اپنا سر جھٹک کر اپنے کام کو یاد کرتے نکل گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمان جو کب سے دانیہ کو ادھر سے اُدھر ڈھونڈ رہی تھی لیکن وہ کہی مل ہی نہیں رہی تھی اس نے ابھی گارڈ کو کہہ کر ادھر اُدھر دانیہ کو ڈھونڈنے کا کہا تھا۔

اور وہ آرام سے اپنی ہی دھن میں چلتی آرہی تھی۔  

ایمان کا غصہ جیسے آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ اپنے قدم بڑھائے دانیہ کے پاس پہنچی تھی۔  

کہا گئی تھی تمہیں پتا ہے کہا کہا نہیں ڈھونڈا ہم نے تمہیں وہ بھپری شیرنی کی طرح اس پر چڑھ گئی تھی۔  

کیا ہوگیا ہے بس یہی تھی میں۔ وہ ایمان کو اتنا ہائپر ہوتے دیکھ ایک دم سانس کو ہوا کے سپرد کئے نرم لہجے میں بولی تھی۔

اب چلو حویلی شام ہونے والی ہے ایمان کا غصہ اب بھی کم نہیں ہو اتھا اور حویلی کے لئے نکل گئی تھی دانیہ بھی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔  

ایک تو پتا نہیں اس کو کیا ہوجاتا ہے۔ دانیہ منہ بنائے بڑبڑا رہی تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی آپ مجھے بتائے گی یہ کون ہے جس سے مجھے چھپایا جارہا ہے۔ کیا ہے جو مجھے نہیں پتا۔ عنادل کلثوم بیگم کو اوپر آتے دیکھ ان کو اپنے کمرے۔میں لاتے بولی تھی۔ 

بیٹا آپ کو وقت آنے پر بتایا جائے گا۔ ابھی نہیں۔ انہوں نے صاف منع کیا تھا۔  

پر ایسا کیا ہے جو مجھے نہیں بتاتے آپ لوگ۔ یہ تو بتا دیں۔  

یہ تمہاری ساری زندگی کا معاملہ ہے بس اتنا جان لو۔ وہ یہ کہتی کمرے سے باہر نکلی تھی اور عنادل کو یہ سمجھ نہیں آیا اس کی زندگی میں ایسا کیا ہے جو اس کے لئے بہت اہم ہے۔ 

آپی آپ کیوں پریشان ہورہی ہے ! جو بھی ہوگا آپ کو پتا لگ ہی جائے گا حور نے عنادل کو یوں پریشان ہوتے دیکھ تسلی دی تھی۔ 

ہمم تم ٹھیک کہ رہی ہوں۔ ! اچھا تم کل میرے ساتھ حویلی سے باہر چلو گی۔ کل میں تمہیں گاؤں گھماؤ گی کافی عرصہ ہوگیا ہے تم گھر سے نکلی نہیں ہو۔ عنادل نے کہا تھا۔  

آپی مجھے کہی نہیں جانا آپ جانتی ہے میں کہی نہیں جاؤ گی وہ روہانسی ہوئی تھی۔  

تمہارے ساتھ کیا مئسلہ ہے یہاں کیوں قید ہوکر بیٹھی ہو میں آخری بار کہہ رہی ہوں کہ تم میرے ساتھ کل چل رہی ہو۔ 

جیسا آپ کو ٹھیک لگے وہ ہار مانتی بولی تھی۔

گڈ گرل یہ ہوئی نا بات۔ عنادل نے اس کے گال کو کھینچا تھا۔ 

آہہہ ۔۔۔! آپی وہ چیخی تھی۔

اچھا اچھا اب نہیں کرتی تمہارے گال ہی چھوٹے بچے کی طرح ہیں اب میں کیا کروں وہ معصومیت سے آنکھیں پٹ پٹا کر بولی تھی۔ 

عنادل کے دماغ سے کچھ دیر پہلے والا واقعہ نکل چکا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشان خان اس وقت نہا کر واشروم سے نکلا تھا۔ 

پانی کی بوندیں۔ اس کے بالوں سے ہوتے اس کے چہرے سے سینے پر آرہی تھی۔ وہ بنا شرٹ کے آئینے کے سامنے کھڑے اپنے بال بنا رہا تھا۔  

چوڑی جسامت نیلی آنکھوں والا شہزادہ انتہائی خوبصورت شخصیت کا مالک تھا۔

وہ اپنے اوپر آخری نظر ڈالے۔ اپنے کمرے سے باہر نکلتے عنادل اور حور خان کو لاونج میں بیٹھے دیکھ خود بھی صوفے پر بیٹھا تھا۔  

اور کیا چل رہا ہے اس نے پوچھا تھا۔  

بھائی ہم تو ٹھیک ہے میں تو گاؤں کے بچوں کو پڑھاتی ہوں جیسا چلتا ہے ویسا ہی چل رہا ہے۔ عنادل نے ایک ہی باری میں سب کچھ بتایا تھا۔  

اچھی بات ہے ! حور تم کیسی ہوں۔ حور جو خاموش خاموش تھی۔ کاشان نے اس کو یوں چپ دیکھ۔ کر اس سے سوال کیا تھا۔ 

میں بھی بلکل ٹھیک ہو بھائی اس نے مسکراہٹ کے ساتھ بتایا تھا۔  

بھائی میں کل حور کو لے کر گاؤں گھمانا چاہتی ہوں اگر آپ باسل بھائی سے اجازت لے لیں تو عنادل نے کاشان سے کہا تھا اگر وہ باسل سے کہتی تو وہ صاف انکار کر دیتا۔ 

ہمم یہ تو اچھی بات ہے میں کرتا ہوں۔ باسل سے بات۔ تم لوگ جاؤ اور حور بھی باہر نکلے گی ایسی بہانے۔ اس نے عنادل کو تسلی دی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساحر نماز پڑھ کر حویلی میں داخل ہوا تھا۔  

اور آج حویلی میں اتنی خاموشی دیکھ حیران ہوا تھا ورنہ دانیہ کے ہوتے ہوئے حویلی میں اتنی خاموشی۔ 

اررے امی دانیہ کدھر ہے اور باقی سب کدھر ہیں حلیمہ بیگم جو کمرے سے آئی تھی ساحر کے بلانے پر خود بھی صوفے پر آکر بیٹھی تھی۔  



دانیہ اپنے کمرے میں ہے ایمان بھی اپنے کمرے میں ہے اور تمہارے بابا اور دادا گاؤں کے سب لوگوں کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھے ہیں اور براق آنے ہی والا ہوگا۔ حلیمہ بیگم ایک ہی سانس میں سب بتا گئی تھی۔   

اچھا ۔۔ اس نے بس اتنا ہی کہا تھا۔ 

تبھی براق آتے ہوئے دکھائی دیا خیر تو ہے آج ماں بیٹا یہاں بیٹھے ہیں۔ براق نے آکر پوچھا تھا۔  

ہاں کیوں نہیں بیٹھ سکتے آپ بھی بیٹھ جائے ساحر نے۔ جگہ دی اور ساتھ اس کو بھی بیٹھنے کو کہا تھا 

اور امی کیسی ہے آپ ؟ براق نے حلیمہ بیگم سے پوچھا تھا۔

میں تو بلکل ٹھیک ہوں حیرت اس بات کی ہے تمہیں ماں یاد آہی گئی ساحر اپنی ہنسی ضبط کئے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو آج براق کی کلاس لینے کے موڈ میں تھی۔  

ایسی بات نہیں تھوڑا کام میں مصروف تھا اسلئے آپ کو وقت نہیں دے پاتا تھا۔ اس نے جواز پیش کیا تھا۔  

اور یہ وقت تو اب بھی نہیں تھا تمہارے پاس اگر ساحر کو میرے پاس بیٹھے نہیں دیکھتے تو آج بھی آتے ہی اپنے کمرے میں چل دیتے نا چاہتے ہوئے بھی ایک ماں نے اپنے بیٹے سے شکوہ کیا تھا۔  

اچھا نا یوں ناراض تو نا ہوں براق حلیمہ بیگم کے پاؤں کے پاس آتے گھٹنوں کے بل بیٹھے ان کے گود میں اپنا سر رکھ گیا تھا۔ 

حلیمہ بیگم اس کو یوں اپنے گود میں سر رکھے بیٹھے دیکھ اس کے سر میں اپنا ہاتھ چلانے لگی وہ ایک ماں تھی کسے اپنے بیٹے سے ناراض رہ سکتی تھی۔  

آج کے بعد آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ وہ یہ بولے اپنے آنکھیں موندے گیا تھا۔  

میں بھی ہوں مجھے بھی کوئی یاد کرلے۔ ساحر نے منہ بنایا تھا۔ اور آتے وہ بھی حلیمہ بیگم کے پاؤں کے پاس آتے براق کو تھوڑا دور کئے خود بھی ان کے گود میں اپنا سر رکھ گیا تھا۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments