Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 01.
Haveli Feudal (Wadera) System based Rude Hero Story.
اس کے قدم رکھتے ہی ساری عورتوں نے اپنے چہرے کو دوپٹے سے ڈھانپا تھا۔ وہ تھا ہی اتنا غصے کا تیز کسی کی نہیں سننا اس کی فطرت میں تھا۔ قدم بڑھتے جارہے تھے۔ گاؤں کے بچوں نے گھر میں چھپنا شروع کردیا تھا۔ سب اس کے رعب اور دبدبے سے ڈرتے تھے کیوں نہیں ڈرتے وہ نزاکت علی خان کا بیٹا تھا۔ اور اس کے دادا جمشید علی خان گاؤں کے سردار تھے۔ اور وہ بہت جلد اس گدی کو سنبھالنے والا تھا۔
پاس سے گزرتے جانور بھی اس کے ڈر سے اپنا راستہ بدل لیتے تھے۔ گاؤں کے بچے بچے کو اس کے نام سے ڈرایا جاتا تھا سوجاؤ ورنہ باسل خان آجائے گا۔
بچوں کے لئے تو وہ کوئی بھوت یا پھر کیسی جن سے کم نا تھا حلانکہ گاؤں کے رہنے والے لوگوں کے لئے بھی وہ کیسی درندے سے کم نہیں تھا۔ کچھ دن پہلے جب گاؤں کی لڑکی نے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کی تو باسل خان کو بتایا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا اس لڑکی اور ساتھ والے گاؤں کے لڑکے کو آنکھوں کے سامنے رسی ان کے گلے میں ڈال کر مارا گیا تھا۔ آج تک اس گاؤں کے لوگوں نے کبھی بھی کسی کو پسند کرنے یا پھر محبت کرنے کی کوشش تک نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے وہ جدھر رہتے ہیں اُدھر باسل خان کی مرضی کے خلاف کوئی کام تو کیا کوئی پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔
سائیں جلدی چلیں وہاں چھوٹے سائیں نے ایک لڑکے کو مار مار کر برا حال کردیا ہے۔
غلام دین لمبے لمبے سانس لیتے بولا تھا۔
باسل خان کے ماتھے پر تیورھیاں چڑھی تھی۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرے آگے آگے تھا جبکہ غلام دین اس کے ہمراہ پیچھے پیچھے سر جھکائے چل رہا تھا آج وہ کاشان خان کے لئے دعا ہی کرسکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودھری سردار براق کو آج گاؤں کی گدی سونپی گئی تھی۔
آج وہ اپنے باپ دادا کے بعد اس گدی کا وارث تھا۔
سردار آپ آرام کرلیں آپ تھک گئے ہوں گے۔ اس حویلی کے خاندانی ملازم مولا بخش نے کہا تھا۔
وہ کھڑا ہوا تھا اور اس کے پاس آیا تھا۔
میری فکر کرنے کی تمہیں ضرورت نہیں مجھے زہر لگتے ہیں وہ لوگ جو تابعداری کریں میری، تم جیسے لوگوں کی جی حضوری سے نفرت ہے مجھے۔ وہ زہر خند لہجے میں باور کروا چکا تھا۔ اور وہاں رکا نہیں بلکہ سائیڈ سے ہوتے حویلی کے لئے نکلا تھا۔
مولا بخش تو اپنی جگہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اس نے تو بس اس کے آرام کے غرض سے یہ سب کہا تھا کیونکہ آج سردار براق کا اہم دن تھا۔
اور شاہنواز چودھری کے خاص تائید پر مولا بخش سردار براق کے ساتھ تھا۔ شاہنواز چودھری کو پورا گاؤں چودھری کے لقب سے جانتا تھا وہ سردار براق کے دادا تھے۔
سردار براق کو سنبھالنا اس کے دادا کے علاؤہ کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ یہاں تک کہ عباس چودھری بھی اپنے بیٹے کے غصے سے ڈر جاتے تھے۔ حلانکہ چھوٹے بیٹے کا انداز براق سے بلکل مختلف تھا۔
مولا بخش بھی سردار براق کے پیچھے پیچھے چلنے لگا تھا۔ جو اب اپنی بڑی سے مرسیڈیز کے پاس جارہا تھا۔
گاڑی کے پاس کھڑے کچھ گارڈ دور ہٹے تھے اور اپنی جیپ میں چڑھے تھے جبکہ ایک گارڈ نے براق کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا۔
کوئی ڈرائیور نہیں تھا اس کی گاڑی کو چلانے کے لئے وہ خود ہی گاڑی ڈرائیو کرتا تھا۔
لیکن گارڈ کی فوج اس کے پیچھے ہر وقت پائی جاتی تھی اب تو اور بھی اس کی سیکیورٹی سخت کروانے کا شاہنواز چودھری نے کہا تھا کیوں نا کرواتے اب وہ اس گاؤں کا نیا سردار جو تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھ بھی جاؤں تمہارے دادا اور بابا آنے والے ہوگے حویلی اور تم اب تک گھوڑے گدھے بیچ کر سورہی ہوں۔
حلیمہ بیگم اس کو کب سے اٹھا رہی تھی لیکن وہ شاید اٹھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
اچھا ہے یہی پڑی رہو پھر نہیں کہنا اٹھایا نہیں ویسے بھی تمہیں تو تمہارا بھائی آکر سیدھا کرے گا۔
حلیمہ بیگم بھی بنا اس کی پروا کئے باہر نکلی تھی وہ جانتی تھی۔ ان کے پیچھے ہی دانیہ بھی اٹھے گی کیونکہ وہ اپنے باپ اور دادا کا غصہ برداشت کر سکتی ہے لیکن براق کا غصے کے آگے اس کی زبان کے آگے تالا جو لگ جاتا ہے۔
چل دانیہ تیرا تو اللّٰہ ہی بھلا کریں۔
وہ لحاف کو دور پھینکتی بیڈ سے پھلانگتے نیچے اتری تھی۔ اور واشروم کے طرف چل دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی بھائی کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے۔ وہ منہ میں نوالے کو ڈالے بامشکل بولی تھی۔
پہلے تم کھالو پھر پوچھنا جو بھی سوال ہو۔ کلثوم بیگم نے اس کے منہ میں نوالے کو لئے بولنے پر ٹوکا تھا۔
او ہو۔۔ اچھا روکے وہ جلدی سے نوالے کو حلق کے اندر اتار کر ان سے مخاطب ہوئی۔
اب مجھے میری بات کا جواب دیں بھائی کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے وہ ہاتھ کو ڈائینگ ٹیبل پر رکھے ایک ہاتھ کو تھوڑی پر ٹکائے۔ ستائشگی نظروں سے دیکھنے لگی۔
یہ تم اپنے دادا سے اور باپ سے پوچھنا کیونکہ باسل مجھ پر تو نہیں گیا تمہارے بابا بھی اتنے غصے والے نہیں ہیں۔ ہاں تمہارے دادا کے مزاج سے پورا گاؤں ڈرتا ہے۔
اچھھھا۔۔ اس نے اچھا کو کھینچا تھا اور اپنے کندھے اچکائے پھر کھانے میں مگن ہو گئی تھی۔
کلثوم بیگم بھی اپنے کام میں لگ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسل کاشان کو کسی کو مارتا دیکھ اس تک پہنچا تھا اور اس کو بازوؤں سے پکڑے اس آدمی سے دور کیا تھا۔
زمین پر گرے لڑکے کے حالت کچھ ایسی تھی۔ ناک سے بہتا خون ہونٹوں کے کنارا پھٹا ہوا ماتھے سے بہتے خون سے لکیر جو چہرے پر سے نیچے گردن کو آرہی تھی۔
وہ زمین پر گرے خوف سے اس کو دیکھ ڈر رہا تھا۔
باسل نے غلام دین کو اشارے سے اس لڑکے کو وہاں سے لے جانے کا کہاں تھا۔
کاشان کا پارہ ہائی ہوا تھا اگر باسل بیچ میں نہیں آتا تو یقیناً وہ اس کو جان سے مار ڈالتا۔
یہ کیا حرکت تھی تمہیں کچھ اندازہ ہے اس کی کیا حالت کی ہے تم نے۔ باسل خونخوار نظروں سے گھور بولا تھا۔
بھائی میں جانتا ہوں میں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے۔ بس مجھے جو ٹھیک لگا میں نے وہی کیا وہ بنا کسی بات کو لپٹے بولا تھا۔
اچھا اور آپ یہ بتانا پسند کریں گے ایسا کیا ! کیا اس نے جو اپکی شان میں گستاخی کی وجہ بنی اور تو اور آپ نے اس کی یہ حالت کردی وہ طنزیہ انداز سے بولے اس کے ہوش اڑا گیا تھا۔
بھائی وہ آپکے بارے میں فضول بات کر رہا تھا اور آپ جانتے ہیں میں آپکے خلاف ایک الفاظ نہیں سن سکتا نیلی آنکھوں میں اس وقت جنون سوار تھا۔ کسی کو اپنے ہاتھ سے مارنے کا جنون ہر اس شخص کو اس دنیا سے مٹا دینا کا جنون جو باسل خان کے خلاف کچھ بولے۔
میں نے کتنی دفعہ تم سے کہاں ہے ایسے لوگوں کو اگنور کیا کروں لیکن تم ہو جو مانو میری ایک بات۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کتوں (گالی) کے ساتھ کتا (گالی) نہیں بنا جاتا ابھی تمہیں ان لوگوں کی باتیں برداشت کرنی ہوگی جب تک میں اس گدی پر نہیں بیٹھ جاتا کم از کم تب تک تو تم برداشت کر ہی سکتے ہو وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے نرم لہجے میں بولا تھا۔
غلام دین جو اس آدمی کو ٹھکانے لگا کر آیا تھا۔
باسل کو یوں اپنے بھائی کو سمجھاتا دیکھ روکا تھا اس کا دماغ سامنے کھڑے آدمی کو سمجھنے سے قاصر تھا اس کا موڈ جو کچھ دیر پہلے ایسا تھا جیسے وہ اپنے بھائی کو دو تین تھپڑ رکھ کر دے گا لیکن اس کا الٹ وہ اس کو بچوں کی طرح سمجھا رہا تھا۔
کاشان خان باسل خان کے معاملے میں بچا ہی بن جاتا تھا وہ نیلی آنکھوں والا شہزادہ خان ہاؤس کی جان تھا۔
اب چلوں حویلی بابا سائیں اور دادا سائیں انتظار کر رہے ہوں گے باسل خان اس کو اپنے پیچھے آنے کا کہتا خود بی ایم ڈبلیو کی طرف بڑھا تھا جو غلام دین ہی یہاں لایا تھا۔کیونکہ باسل خان تو کاشان خان کا سنتے دوڑا دوڑا اس تک پہنچا تھا۔
کاشان بھی اس کے ساتھ ہی اکر گاڑی میں بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ بھی سڑھیاں سے اترتے نیچے آئی تھی اور سب کو ڈائننگ ٹیبل پر موجود دیکھ اپنی زبان کو دانتوں تلے دبائے چھوٹے چھوٹے قدم لئے ڈائننگ ٹیبل کے قریب پڑی کرسی کھینچ بیٹھی تھی۔
شاہنواز صاحب نے اس کو ایک نظر دیکھ کر سب کو کھانے کی اجازت دی تھی۔
کیونکہ اس حویلی کا ایک اصول تھا جب تک سب کھانے کی ٹیبل پر موجود نا ہو کھانا شروع نہیں کیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہنواز علی چودھری کے ایک ہی صحب زادے تھے۔
جن کا نام عباس علی چودھری تھا ان کی شادی ساتھ والے
گاؤں کی لڑکی سے ہوئی تھی اور ان کی شادی شاہنواز چودھری کی پسند سے ہوئی تھی ان کو حلیمہ بیگم بہت ہی سگھڑ لگی تھی اور وہ تھی بھی ایسی ہی معصوم سی ہاں میں ہاں ملانے والی۔ ان کے چار بچے تھے سب سے بڑا بیٹا براق عباس علی چودھری جو اس حویلی کا بڑا پوتا تھا ۔ اب تو سردار کے عہدے پر فائز ہوا تھا اس کو شروع سے ہی کسی کی محبت یا توجہ کا مرکز بننے کی عادت نہیں تھی محبت کرنا اس کو اپنی توہین لگتا تھا کیونکہ اس نے آج تک بہت سے لوگوں کو محبت کے معاملے میں کمزور ہوتے دیکھا محبت کو طاقت بنانے کے بجائے لوگ اسے اپنی کمزوری بنا لیتے ہیں اس کے غصے کا سب سے زیادہ اثر اس کے گھر کی پوتی ایمان علی پر ہوتا تھا۔
براق کے بعد ساحر عباس علی چودھری جو ہنس مکھ سا تھا۔ اپنی پڑھائی مکمل کر رہا تھا وہ ایم بی بی ایس کررہا تھا۔ ڈاکٹر بننا اس کا جنون تھا۔ ہنستے ہوئے اپنے سارے درد چھپانے کا ہنر ساحر علی کے پاس موجود تھا۔ اس کے اور دانیہ کی حرکتیں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیتے تھے۔
تیسرے نمبر ایمان علی تھی۔ جو گھر میں بیٹھے اپنی ماں سے گھر کے کام سیکھ رہی تھی اس حویلی میں لڑکیوں کو آگے تک پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اور اس بات سے اس کو سخت چیڑ تھی کہ لڑکے جہاں تک اور جتنا چاہے پڑھ لیں لیکن لڑکیوں کا پڑھنا منع ہے۔ غلط بات سننا اور کہنا اس کی فطرت میں قطع نہیں تھا۔ چاہے اس کے اپنے ہی کیوں نا ہو وہ پر گز کسی غلط چیز میں ساتھ نہیں دیتی تھی۔
پھر اس حویلی کی سب سے چھوٹی بیٹی اور پوتی دانیہ علی جو بہت ہی شوخ اور چنچل سے مزاج کی تھی۔ باپ سے اور دادا کا ڈر اس کو نہیں تھا۔ براق کے غصے سے ابھی بھی تھوڑا بہت ڈرتی تھی لیکن ڈرنا ایسا ہوتا سامنے جب براق ہو تو ڈرنے کی ایکٹنگ کرلی جب وہ اس کے سامنے سے گیا تو پھر اس نے وہی حرکتیں کرنی ہوتی جو اس کو منع کی جاتی ہوں اور اس کی اس حرکتوں میں ساحر بھی شامل ہوتا۔
تو یہ تھا ہمارے چودھریوں کے خاندان کا مکمل تعارف۔
اور ایک راز چودھریوں کا جو ان کے لوگوں کے بیچ ہی دفن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسل خان نے حویلی کے اندر قدم رکھا اور اپنے ماں کو کیچن میں کام کرتا دیکھ اور اپنی بہن کو کھانے کے ساتھ انصاف کرتے دیکھ ایک اچنٹی نگاہ ان پر ڈالے صوفے پر براجمان ہوا تھا جہاں اس کے دادا اور بابا دونوں موجود تھے اس کے پیچھے ہی کاشان خان بھی گھر میں داخل ہوا تھا۔ اور خود بھی بڑے آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔
دادا سائیں اس سے پوچھے آج اس نے کیا حرکت کی ہے باسل خان نے اپنی نظروں کا مرکز کاشان کو بنائے جمشید علی کو کہا تھا۔
کیا ہوا ہے۔۔؟ نزاکت صاحب نے پوچھا تھا۔
آپ کا بیٹا گاؤں کے لڑکے کے ساتھ لڑتے ہوئے پایا گیا ہے اگر مجھے غلام دین نہیں بتاتا تو اس نے تو کوئی قصر نہیں چھوڑی تھی اس کو مارنے کی۔ اب کے بار وہ کاٹ دار لہجے میں بولا تھا۔
یہ میں کیا سن رہا ہوں کاشان جمشید صاحب نے اس سے جیسے تصدیق چاہی ہو۔
دادا سائیں آپ جانتے ہیں میں بھائی کے خلاف کسی کی اٹھی انگلی بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اگر آپ کو میں بتاؤ وہ کیا بول رہا تھا تو آپ ابھی اس کے سینے میں چھ کی چھ گولیاں اتار دیں کاشان اپنے غصے پر اختیار پانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن نا چاہتے ہوئے بھی آواز اونچی ہوئی تھی۔
ایسا کیا بولا تھا جو تمہارا خون آنکھوں پر آگیا ہے۔ جمشید علی کاشان کی آنکھوں میں خون اترتے دیکھ بولے تھے وہ جانتے تھے کوئی بڑی بات ہوگی تبھی کاشان نے یہ سب کیا ہوگا۔
کلثوم بیگم اور عنادل دونوں ان کے بیچ ہونے والی باتوں پر کبھی جمشید علی کو دیکھتی کبھی کاشان کو تو کبھی باسل خان کو۔
تبھی اوپر کے کمرے سے آتی آواز پر سب ڈرے تھے۔
میں نے کچھ نہیں کیا مجھے جانے دو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گی۔ ایک دم وہ لڑکی اس کو اپنے پاس آتی دکھائی دی تو وہ زور سے چیخی تھی۔
باسل خان کے پیچھے سب اوپر کے طرف بھاگے تھے باسل خان سڑھیاں پھلانگتے کمرے کے دروازے کو کھولے اندر آیا تھا جہاں حور خان پسینے سے بھیگی اپنا سر اب بھی ادھر سے اُدھر ہلا رہی تھی۔ باسل خان اس کو فوراً اپنے گلے سے لگا گیا تھا۔ جو اب ہچکیوں سے سے رو رہی تھی۔ عنادل بھی کلثوم بیگم کے سینے سے لگے اپنی بہن کی یہ حالت دیکھ رہی تھی۔ کاشان کا کچھ دیر پہلے کا سارا غصہ بھک سے اڑ گیا تھا۔ وہ بھی تو حور کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا صرف ایک واقعے نے اس کی یہ حالت کردی تھی اس لڑکی کو تو کاشان اور باسل نے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا جس نے حور کے ساتھ یہ سب کیا تھا لیکن وہ حور کے دماغ میں گہرا اثر چھوڑ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمشید علی خان کی بھی ایک اولاد تھی۔
ان کا نام انہوں نے نزاکت جمشید علی خان رکھا تھا۔
شاہنواز علی چودھری نے جمشید علی کے گاؤں کی لڑکی سے اپنے بیٹے عباس علی چودھری کی شادی کی تھی اور یہ بات جمشید علی خان کو اچھی نہیں لگی جس کے عوض انہوں نے بھی شاہنواز علی چودھری کے گاؤں کی ایک لڑکی کلثوم سے اپنے بیٹے نزاکت علی کی شادی کی تھی۔
اور تب سے ان دو گاوں میں نا تو اس گاؤں کا بندہ اس گاؤں جاسکتا تھا اور نا ہی وہاں کا کوئی بندہ ادھر آسکتا تھا ۔ ایک اور وجہ تھی جس کی وجہ سے کوئی گاؤں کا افراد وہاں نہیں جاسکتا جب سے وہ سب کچھ ہوا تھا گاؤں کے کافی لوگ اس بارے میں جانتے تھے کہ شاہنواز چودھری کے پوتے کی امانت جمشید علی خان کے گھر میں موجود ہے۔
نزاکت علی کی بھی چار اولادیں تھیں۔
سب سے بڑا بیٹا باسل نزاکت علی خان جو اب اپنے دادا سائیں کی گدی سنبھالنے والا تھا لیکن ابھی وہ سیاست میں بہت مصروف رہتا تھا۔ اس کے غصے سے گاؤں کے سبھی لوگ ڈرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا جمشید علی اور نزاکت علی کی نسبت باسل خان کا غصہ بہت تیز تھا۔ باسل خان کا غصہ اپنی بہن حور خان کے سامنے جیسے کہی گم ہوجاتا تھا وہ اپنی بہنوں کے آنکھوں میں ایک آنسوں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
دوسرے صاحب زادے کا نام کاشان علی خان جس کی نیلی آنکھیں اس کے حسن کو چار چاند لگاتی تھی اس کی آنکھوں میں جیسے کوئی نشہ تھا جو بھی دیکھتا تھا اس کے طرف راغب ہوجاتا تھا۔ اس کی آنکھیں اس کا غرور تھی اس کے جیسی آنکھیں اس پورے گاؤں میں شاید ہی کسی کے پاس موجود تھی شاید خدا نے یہ حسن کاشان خان کو ہی دیا تھا۔
پھر عنادل خان جو ناول کی دیوانی تھی اس کا کہنا تھا کوئی اس کی زندگی میں ایسا آئے جو اس سے محبت سے بڑھ کر عزت کریں اور اس پر بھروسہ کریں یہ وہ دو مقام ہے جو عورت کو محبت پر یقین دلا ہی دیتے ہے۔ اس کی فہرست میں نفرت نام کی کوئی جگہ نہیں تھی اس کی مطابق اگر ہر کوئی نفرت کرنے لگ جائے تو دنیا میں ہر انسان ایک دوسرے کا جانی دشمن ہو۔
سب سے آخر میں آتی ہے ہماری حور خان جو پہلے بلکل بھی ایسی نہیں تھی وہ کسی سے نہیں ڈرتی تھی لیکن اس کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے حور خان کی ہنسی خوشی سب چھین لی تھی۔ وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ڈر جاتی تھی اندھیرے میں وہ رہ نہیں سکتی تھی صرف اس رات کی وجہ سے جب اس کے ساتھ ایک اندھیری رات میں اس کی اپنی جان سے پیاری دوست نے یہ سب کیا تب سے وہ بہت کم کسی پر اب یقین کرتی تھی۔
تو یہ تھی خان حویلی میں رہنے والوں لوگوں کی مکینوں کا تعارف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور بھائی کی جان اب نہیں رونا آپ نے باسل خان اس کے سر ہاتھ پھیرتے اس کو سمجھا رہا تھا جو اپنی روئی روئی آنکھوں سے اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی۔
وہ کیسے بتاتی وہ نہیں بھولا پارہی وہ سب کچھ اس نے سب کو اپنے ارد گرد کھڑے دیکھ اپنی آنکھوں سے نکلتے آنسوں صاف کئے تھے اس کو شرمندگی نے آگھیرا تھا اب اس کو یہ لگ رہا تھا اس کی ایسے نیند میں روز چیخنے کی وجہ سے حویلی کے سب افراد پریشان ہوتے ہوں گے۔
بھائی آپ مجھے کسی ہوسٹل بھیج دیں آپ لوگ پریشان ہو جاتے ہوں گے میرے روز روز اس طرح کرنے پر وہ اپنی انگلیوں کو مڑوڑتے بولی تھی۔
باسل خان نے حور کو دیکھا جس کے آنکھ سے پھر ایک آنسوں نکلا تھا۔
خبردار اگر اب تمہاری آنکھ سے ایک بھی آنسوں نکلا تو اور کہی نہیں جارہی تم میرے اوپر یا گھر کے کسی بھی فرد پر تم بوجھ نہیں ہو اور ایسی بات آج کے بعد میں تمہارے منہ سے نا سنو تم باسل خان کی بہن ہو تم بہت بہادر ہو نزاکت علی خان کی بیٹی ہو تم کبھی جھک نہیں سکتی تم جمشید علی کی پوتی ہو کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا تمہیں اپنے آپ کو شیرنی بناؤ یوں چھپ کر بیٹھنا ڈرپوک ہونے کی نشانی ہے اور ان کو سزا مل چکی ہے جس نے تمہارے ساتھ یہ سب کیا تھا۔ باسل خان نرمی برتتے بولا تھا اس کو پتا تھا ابھی حور کے ساتھ سختی کرنا ٹھیک نہیں ہوگا وہ پہلے ہی ڈری ہوئی تھی۔
اب سب کمرے سے باہر چلے اور حور تم مجھے بلکل تیار نیچے نظر آؤں آئی بات سمجھ وہ اس کے سر پر دوپٹے کو ٹھیک کئے باہر کو نکلا تھا اس کے پیچھے عنادل اور کاشان بھی باہر نکلے تھے کلثوم بیگم بھی اپنی بیٹی کی ایسی حالت دیکھے اپنے آنسوں صاف کئے باہر نکلی تھی۔
جمشید علی سمیت نزاکت علی نیچے ہی تھے کیونکہ وہ جانتے تھے حور کو صرف باسل خان ہی سنبھال سکتا ہے۔
باسل خان اپنی آستینوں کو کہنیوں تک چڑھائے سڑھیاں سے نیچے کی طرف آتا دکھائی دیا تبھی نزاکت صاحب بولے تھے کب تک حور کی ایسی حالت رہے گی وہ راتوں کو جاگ جاتی ہے اس کو کسی ڈاکٹر سے چیک کرواؤ پریشانی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔
میں جانتا ہوں حور کو کسی اسے شخص کی ضرورت ہے جو اس کے قریب ہو کر اس کی پریشانی جاننے کی کوشش کریں ایسے تو یہ کسی کو بھی اپنے دل کا حال نہیں بتائے گی۔
باسل خان نے استفسار کیا تھا۔ میں چاہتا ہوں بابا سائیں اس کے لئے کوئی لڑکا ڈھونڈنا شروع کردیں میں کسی کو بھی ایسے تو اس کے قریب آنے کی اجازت نہیں دوں گا لیکن شاید یہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے۔ باسل کو یہ حل ٹھیک لگا تبھی اپنے دادا اور بابا کو اس چیز سے آگاہ کیا تھا۔
لیکن بیٹا اس سے پہلے تو عنادل کی شادی کے بارے میں سوچنا چاہئیے ہمیں وہ بڑی پوتی ہے اس گھر کی نزاکت صاحب نے جواز پیش کیا وہ کسیے اپنی بڑی بیٹی سے پہلے چھوٹی بیٹی کی شادی کر دیتے اور ابھی تو باسل خان اور کاشان خان کی بھی شادی کا انھیں سوچنا تھا ۔ یہ بات انھیں ٹھیک نہیں لگی تبھی ٹوکا تھا۔
دادا سائیں۔ اور بابا آپ دونوں کو پتا ہے میں اس خاندان میں عنادل کو نہیں دوں گا۔ اس نے حتمی فیصلہ سنایا تھا اور وہاں سے اٹھتے باہر پورچ میں جاکر اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا۔
اور وہاں سے گاڑی کو زن سے بھگا لے گیا تھا۔
بابا سائیں آپ جانتے وہ چاہے بھی تو ایسا نہیں ہوسکتا عنادل اس گھر کی امانت ہے۔ نزاکت صاحب نے جمشید صاحب کو بتایا تھا۔
انہوں نے صرف ہاں میں سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی آپ کے کہنے پر یہ کر رہی ہوں میں، آپ جانتے ہیں اگر بھائی کو پتہ لگا تو آپکا تو پتا نہیں میرا آخری دن ہوگا ادھر۔
اررے خاموش رہوں کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نا تمہارے ساتھ اور تم ساحر عباس علی چودھری کی بہن ہوکر ڈر رہی ہوں مجھے تم سے اس چیز کی امید نہیں تھی۔
وہ مصنوعی ناراضگی کے ساتھ بولا اور ایمان کے واشروم میں پڑے شیمپو میں سے سارے شیمپو کو پانی میں ڈالے اس میں پانی کو ڈالے اور اس میں پاؤڈر کو ملائے اچھے سے ہلاتے باہر نکلا تھا۔
بھائی میں تو نکلی ادھر سے کیونکہ ایمان آپی اب آنے ہی والی ہوگی اور مجھے نہیں پٹنا ان کے ہاتھوں وہ کانوں کو ہاتھ لگائے باہر نکلی تھی۔
ساحر بھی کمرے کو بند کئے الگ الگ دھن میں سٹیاں بجاتا نکل گیا اور اس کے کمرے سے دور ہوتے ہی اپنے کمرے میں چھپا تھا۔
ایمان جو کیچن کے کام کرکے اب شاور لینے کے موڈ میں تھی اتنی سخت گرمیوں میں کیچن سے کام کرکے وہ تھک ہار کر۔ اب اپنے کپڑے لئے نہانے چل دی کچھ دیر بعد اس کی چیخ پورے حویلی میں گونجی تھی۔
وہ جب سے نہا کر نکلی تھی۔ تب سے وہ اپنے آپ کو کھجا رہی تھی کبھی چہرے کبھی ہاتھ پر۔
کس نے کیا ہے یہ سب وہ لاونج میں آتی زور سے بولی تھی۔
ہاتھ اب بھی کبھی چہرے کو کھجاتے کبھی ہاتھ تو کبھی بالوں کو۔
ساحر اور دانیہ اپنی ہنسی ضبط کئے۔ بلکل معصوموں کی طرح کھڑے تھے جیسے انھیں اس حرکت کے بارے میں معلوم ہی نا ہو۔
اسی دوران براق اپنے کمرے سے نکلے ان لوگوں کو یوں لڑتا دیکھ رہا تھا جو جانے آج پورے گاؤں کو سر پر اٹھانے کے موڈ میں تھے۔
یہ سب تم نے کیا ہے نا۔۔؟ مجھے سچ سچ بتاؤ وہ اب اپنے ہاتھ اور چہرے کو کھجا کھجا کر لال ہوگئی تھی۔
کیا ہورہا ہے ادھر۔۔؟ براق کے رعب دار آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے حلیمہ بیگم تو اپنے بیٹے اور بیٹی کی حرکت پر نفی میں سر ہلاتے رہ گئی تھی وہ کیا بولتی یہ تو روز کا معمول تھا دانیہ اور ساحر ایک ہوکر ہمیشہ ایمان کو تنگ کرتے تھے اور کبھی کبھی تو ان کا نشانہ براق بھی بنتا تھا۔
بھائی دیکھے انہوں نے میرے ساتھ کیا کرا ہے وہ اپنے طرف اشارہ کر رہی تھی جو اب بھی لال ہورہی تھی اور اب تو رونے والی تھی۔
کیا کیا ہے تم نے اس کے ساتھ۔۔؟ براق نے اب کی بار ان دونوں کی طرف رخ کئے۔ جانچتی نظروں سے دیکھ پوچھا تھا۔
بھائی وہ میں ابھی دانیہ بولتی کہ براق نے اسے ٹوکا تھا۔
مجھے سب سچ سچ جاننا ہے اس کے اس طرح سخت لہجے میں بولنے پر دانیہ نے ساحر کو آنکھیں چھوٹی کرتے گھورا تھا جیسے کہ رہی ہو میں بول رہی تھی یہ سب نا کرو پر تم۔ تبھی ساحر نے بولا تھا بھائی ہم نے چھوٹی سے شرارت کی تھی۔ ہمیں کیا پتا تھا یہ سب ہوجائے گا ساحر نے سر کو جھکائے کہا تھا۔ حلانکہ وہ اچھے سے جانتا تھا تبھی اس نے یہ سب کیا ورنہ یہ سب کرنے کا فائدہ کیا تھا۔
دیکھا بھائی یہ دونوں میرے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ رونے والی ہوئی تھی۔
اچھا بس اب سب اپنے اپنے کمروں میں جاؤ اور آج کے بعد مجھے تم دونوں ایسی حرکتیں کرتے ہوئے نظر نہیں آؤ۔
براق اپنی انگلی اٹھائے ان کو وارن کر گیا تھا۔
ساحر اور دانیہ نے سر جھکائے ہی ایک دوسرے کو دیکھا تھا ساحر کی آنکھوں میں شرارت تو دانیہ کی آنکھوں میں غصہ تھا۔
تھوڑی دیر میں لاونج پورا خالی ہوا تھا براق کے علاؤہ وہاں کوئی موجود نہیں تھا تھوڑی دیر بعد وہ بھی اپنے کمرے میں چل دیا تھا۔
جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں
0 Comments
Thanks for feedback