Obsession in Love by Sadaf Memon Episode 09

www.urdunovelbank.com

Obsession in Love by Sadaf Memon Novel Episode 09.

مجھے میری بات کا جواب نہیں ملا براق نے عنادل پر نظریں ٹکائے کہا تھا۔ میں جانتی ہوں مجھے یہاں ونی کے طور پر لیا گیا ہے۔ عنادل نے اپنے آنسوں روکے تھے۔ لیکن مجھے پتا ہے میرے بھائی نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا تھا۔ اب کی بار وہ رونے والی ہوئی تھی۔ آپ جو کہے گے میں کروں گی۔ آپ یہاں سوجائے میں زمین پر سو جاؤں گی۔ عنادل بیڈ سے اٹھتے روتے ہوئے سوں سوں کرتے ہوئے بولی تھی۔ براق نے اس کو کھینچ کر اپنی گود میں بٹھایا تھا۔ عنادل نے ڈر سے اپنی آنکھیں بند کی تھی کہی وہ اس کو مارے نا۔ براق نے اس کی روئی روئی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھے تھے۔ آپ کو کس نے کہا کہ میں آپ کو یہاں پر ظلم وستم کا نشانہ بنانے کے لئے لایا ہوں۔

عنادل نے اس کی طرف دیکھا جو اب اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسوں کو صاف کر رہا تھا۔ اور آپ کو کس نے کہا ہے آپ زمین پر سوئے گی۔ براق نے اچنٹی نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔ وہ وہ میں نے ہاں آپ نے آگے کہے!! براق نے اس کے گرد اپنا حصار تنگ کیا تھا جس سے عنادل کو اپنی سانس روکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ میں نے ناول میں پڑھا تھا۔ اس نے یہ کہتے فوراً اپنا سر جھکا لیا تھا۔ براق کا جاندار قہقا کمرے میں گونجا تھا عنادل کا سر شرمندگی کے مارے اور جھک گیا تھا۔ اِدھر دیکھو میری طرف اس نے عنادل کی تھوڑی کو اوپر کئے اس کو اپنی طرف دیکھنے کا بولا تھا۔ تمہیں شاید یاد بھی نہیں ہو جب تم چھوٹی تھی اسکول کے لئے روز حور کے ساتھ نکلتی تھی۔ تب سے تم براق چودھری کے دل میں رہتی ہو۔ میرا کہنا ہے کہ مجھے لوگوں کی ہمدردی اور بلا وجہ کی محبت نہیں پسند یہاں تک کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ محبت انسان کو کمزور کر دیتی ہے لیکن تم جاتی ہو تمہارے لئے براق چودھری کمزور ہونے کے لئے بھی تیار ہے۔ تمہارے علاؤہ میں نے آج تک کسی بھی لڑکی کے بارے میں نہیں سوچا اور یہ صائم والے واقعے کے بعد نہیں ہوئی مجھے تم سے محبت اس سے بھی پہلے کی محبت ہے یاد کرو وہ دن جب تم حور کے ساتھ باغ میں آم توڑنے نکلی تھی۔ تمہارے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا۔ ایک لڑکا تھا جو تمہاری تکلیف کو دیکھ تڑپ گیا تھا تمہیں اپنی بانہوں میں اٹھائے کہی دور لے جانا چاہتا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کرسکا تبھی تمہیں تمہاری حویلی سہی سلامت چھوڑ کر آیا تھا براق چودھری یعنی میں تھا جس کو بچپن میں ہی ایک لڑکی سے عشق ہوگیا تھا۔ اور وہ لڑکی آج اسکی شریک حیات بنے اس کے عین سامنے بیٹھی ہے۔ عنادل براق علی چودھری عنادل بنا پلک جھپکائے منہ کھلے اتنے سارے انکشاف پر حیرت زردہ اس کو گھورے جارہی تھی۔ تو کیا آپ مجھ پر کوئی ظلم نہیں کریں گے ناول کے ہیرو کی طرح اس نے معصومیت سے پوچھا تھا۔ 

نہیں بلکل بھی نہیں! اس نے یقین دلانا چاہا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہٹو کیوں چپک رہے ہو خوامخواہ ایمان جھنجھلا کر بولی تھی۔ اب کی بار کاشان نے سیدھے ہوتے ایمان کے ہاتھ کو پکڑا تھا دو منٹ خاموش نہیں رہ سکتی۔ اس نے اپنے کُرتے کی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی تھی اور اس کے پاؤں کو پکڑا تھا یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے۔ کاشان نے اس کے باتوں کو سرے سے نظر انداز کئے اپنا کام جاری رکھا تھا۔ ایمان تو اس پائل کو دیکھ ہی ٹھٹک گئی تھی اس کو یہ پائل بہت پسند آئی تھی لیکن کاشان نے یہ کب لی! وہ پائل بہت ہی پیاری سی تھی۔ اس کی بیچ ایک موتی تھا جو چمک رہا تھا۔ اس نے اس کے دونوں پاؤں میں اس کو پہنایا تھا اب کہ وہ اس کے ہاتھوں کو پکڑے بیٹھا تھا اب دور ہٹو اس کی زبان لڑکھڑائی تھی۔ مجھے معاف کردوں ! اس دن کیلئے میں بہت شرمندہ ہوں ہنہہ!! ایمان نےا یک ہانک لگائی تھی جیسے اس کو کاشان کی معافی سے کوئی فرق ہی نہیں پڑا ہو۔ ہوگیا تمہارا اب ہٹو مجھے نیند آرہی ہے ایمان نے ایسے ظاہر کیا تھا جیسے وہ ابھی لیٹے گی اور اس کو نیند آجائے گی۔ شرم کرلو ! یہاں شوہر شادی کی پہلی رات تم سے معافی مانگ رہا ہے اور تمہیں نیند کی پڑی ہے۔ کاشان کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ کاشان نے غصے میں واشروم کا رخ کیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ بھی فریش ہوئے باہر آیا تھا۔ ایمان جو اب سونے کی ایکٹنگ کرتے آنکھوں کو تھوڑی تھوڑی کھولے اس کو دیکھ رہی تھی جو بنا شرٹ کے آئینے کے سامنے کھڑا تھا آئینے سے پیچھے کی اور کاشان کی نظر اس دشمن جان پر تھی۔ یوں آنکھیں چھوٹی چھوٹی کئے مت گھورو تمہارا ہی ہوں میں کب دیکھ رہی ہوں ایمان نے جلدی میں بولا لیکن اپنی غلطی پر اپنی زبان کو دانتوں تلے دبایا تھا اور دل میں خود کو کوسا تھا کہ کیوں اپنی زبان چلائی وہ کیا سوچ رہا ہو گا کہ میں اس کو کیوں دیکھ رہی تھی ایمان کو پریشان لاحق ہوئی تھی تم نے نوافل نہیں پڑھنے۔ کاشان نے اپنے قہقے کو ضبط کئے بات بدلی تھی اور اپنی شرٹ پہنی تھی وہ ایمان کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پڑھنے ہیں! وہ فوراً کھڑی ہوئی تھی۔ تو جاؤ وضو کرکے آؤ پھر مل کر پڑھیں گے۔ کاشان نے کہا تھا عنادل جلدی سے پاؤں میں چپل اڑستے واشروم بھاگی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانم آپکا وزن بہت ہے ویسے براق نے اس کو چھیڑا تھا جس سے عنادل کو احساس ہوا تھا وہ براق کی گود میں بیٹھی ہے۔ وہ جلدی سے اٹھتے دور ہونے لگی تھی کہ براق نے پھر اس کو اپنے اوپر گرایا تھا۔ اب عنادل براق کے سینے پر تھی جبکہ براق اس کی آوارہ لٹوں کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے کان کے پیچھے کر رہا تھا۔ عنادل کی بند آنکھوں پر براق نے پھونک ماری تھی جس سے عنادل کی آنکھیں لرزی تھی۔ براق عنادل کو بیڈ پر گرائے اس پر قابض ہوا تھا۔ جس سے عنادل کی سانس ہلک میں اٹکی تھی۔ جبکہ براق عنادل کے چہرے کو گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر چھائی لالی اس کی بند آنکھیں اس کی چھوٹی سی ناک ہونٹ کی اوپر چھوٹا سا تل سرخی مائل ہونٹ۔ عنادل نے کافی دیر بعد اپنی پلکوں کو اٹھائے اس کو دیکھا تھا اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتے اس نے اپنا آپ براق کے سینے میں چھپایا تھا۔ 

دور سے آسمان پر چاند بھی آج ان کے ملن پر بادلوں کی اوٹ میں چھپ سا گیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشان کہ پیچھے ہی ایمان نے اپنی جائے نماز بیچھائ تھی شکرانے کے نوافل پڑھنے کے بعد دونوں نے دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے۔ یا اللّٰہ ایمان کے دل سے ساری بدگمانی کو نکال دے میں مانتا ہوں کہ میں نے اس کو بولا لیکن میرا گناہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ مجھے معاف نہیں کیا جائے باقی جب تک اس کی مرضی شامل نہیں ہوگی میں اس کے قریب نہیں جاؤں گا۔ یا اللّٰہ پلیز اپنے اس گنہگار بندے کی التجا کو اپنی عرضی میں قبول فرمائیں۔ کاشان نے ایمان کے اور اپنے حق میں بہتری کے لئے دعا کی تھی۔ یا اللّٰہ آپ کو کیا میرے لئے یہ چپکو ہی ملا تھا۔ میں نے تو سوچا تھا اس کی زندگی حرام کردوں گی پر یہ تو مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے کا ہے۔ لیکن میں بھی پیچھے نہیں رہوں گی۔ آپ میرا ساتھ دئیے گا پلیز مجھے اس چیز کا غصہ نہیں کہ اس نے مجھے میرے رنگ پر طنز کیا لیکن شاید ہے بھی غصہ پر وہ خود کنفیوز تھی کیا کہے بس مجھے اچھا نہیں لگتا یہ شخص اس نے دعا کرتے ہوئے بھی عجیب سا چہرہ بنایا تھا کاشان جو اپنے دعا مانگے اس کو بیٹھ کر دیکھ رہا تھا جو اپنے اللّٰہ سے دعاؤں میں بھی کسی کی برائیاں کر رہی تھی۔ اس نے آخر اتنی لمبی دعا مانگنے کے بعد اپنے سامنے بیٹھے کاشان کو دیکھا تھا۔ کیا ہے یوں کیوں دیکھ رہے ہو..؟؟ ایمان نے اس کی نظروں سے تنگ آتے پوچھا تھا۔ ایک بات بتاؤں میں تمہارا شوہر ہی ہوں نا ہائے بد قسمتی سے تم ہی ہو ایمان نے زچ کرنے والے انداز میں کہا تھا۔ خوش قسمتی سے تمہیں اتنا اچھا شوہر ملا ہے جو تمہاری بدتمیزی برداشت کر رہا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ہماری ملاقات کتنی دفعہ ہوئی ہے جو تم اتنی آرام سے مجھ سے بات کر رہی ہو ہائے کیا کیا سوچا تھا اچھی بیوں آئے گی۔ پیاری سی نازک سی اور بیوی ملی بھی تو کسی جس کی گز بھر لمبی زبان ایک دن بھی نہیں ہوا کچھ ہی گھنٹے ہوئے ہیں اور دماغ خراب کردیا میرا۔ اس نے جائے نماز کو رکھتے بیڈ کا رخ کیا تھا۔ کدھر ...؟؟ ایمان نے چبھتی نظروں سے دیکھتے پوچھا تھا۔ سونے جارہا ہوں اب مجھ سے تمہارے طنز کے نشتر برداشت نہیں ہوں گے۔ صوفے پر سو ایمان نے بیڈ کے قریب آتے اس پر بیٹھتے کہا تھا۔ تمہیں مجھ سے مئسلہ ہے مجھے تو تم سے کوئی مئسلہ نہیں تو تم جاؤ اور وہاں سوجاؤ کاشان نے بیڈ پر لیٹتے اپنی جگہ بنائے کہا تھا۔ تم جارہے ہو کہ نہیں ایمان نے اب کی بار وارن کرتے پوچھا تھا۔ نہیں وہ کروٹ بدلے لیٹ گیا تھا۔ میں تمہارا خون کردوں گی ہٹو اِدھر سے کاشان آرام سے لیٹا ہوا تھا۔ ایمان چلتی ہوئی اس کے سائیڈ آئی اور اس کو دیکھنے لگی جو آنکھوں کو بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ ایمان نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے تھے تاکہ اس کو ہلا سکے اس سے پہلے ہی کاشان نے اس کے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لئے اپنے ساتھ لٹایا تھا ۔ گھٹیا انسان چھوڑو مجھے۔ ایمان مزاحمت کرتے ہوئے اپنا آپ اس سے چھڑوانے کی ناکام کوششیں کر رہی تھی۔ ہوش تو تب آیا جب کاشان کی گرم سانسیں اس کی گردن پر پڑی تھی۔ تم سورہی ہو یا پھر ساری رات میرے ساتھ جاگنے کا ارادہ ہے اس کی معنی خیزی باتوں پر ایمان کے گال لال ٹماٹر جیسے ہوئے تھے۔ اوئے ہوئے!!! میری بیوی شرماتی بھی ہے۔ کاشان نے اسکو خود میں بھینچا تھا ایمان بھی اپنی تمام تر مزاحمت بھلائے اس کے حصار میں آنکھیں موند گئی تھی وہ جانتی تھی اس کی گرفت سے نکلنا اب مشکل ہے۔  

دانیہ تو آرام سے کمرے میں آتے ہی اس چیک کو کبھی آگے سے دیکھتی کبھی پیچھے سے دانیہ تو تو امیر ہوگئی ہے خیر امیر تو پہلے سے ہی تھی لیکن ابھی جو نئے نئے پیسے اس کے ہاتھ میں آئے تھے اس کی خوشی میں وہ جیسے پاگل سی ہوگئی تھی کیونکہ آج سے پہلے اُس کے ہاتھ میں اتنے پیسے نہیں دئے تھے کیسی نے اور آج وہ بلینک چیک لے آئی تھی۔ دوسری طرف باسل کا چین غارت ہوا تھا اسکے پیچھے دانیہ کے قریب جاتے ہی دانیہ نے جس طریقے سے اپنی آنکھیں بند کی تھی۔ دانیہ کی گرم سانسیں جو لمبے لمبے سانس لینے کی وجہ سے باسل کے چہرے پر پڑھ رہی تھی۔ اس کی مہک وہ اب بھی اسے اپنے پاس محسوس کرسکتا تھا۔ جبکہ حور تو حیران تھی۔ وہ اسکے اتنے قریب پہنچ کر اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائی لیکن وہ اتنا جان گئی تھی۔ وہ کوئی اور نہیں گھر کے فرد میں سے کوئی ہے کیونکہ اس کے علاؤہ مہمانوں میں گاؤں کے لوگوں کو ہال کے دوسرے سائیڈ بٹھایا گیا تھا۔ جبکہ گھر کے افراد ہی عورتوں والی سائیڈ آئے تھے۔ پہیلی ایسی تھی جو حل ہوہی نہیں رہی تھی۔ آگے اور کتنی روکاوٹیں تھی۔ یہ تو قسمت ہی جانتی تھی۔ ساحر کافی تھک چکا تھا۔ اس لئے فریش ہونے کے بعد سونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس وقت وہ اور دانیہ ایمان کے کمرے میں ہوتے تھے اسکو تنگ کر رہے ہوتے تھے لیکن اب ایمان نہیں تھی وہ اکیلا ہوگیا تھا۔ دونوں بہنوں میں اس کی جان تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنادل کی جب آنکھ کھولی اس نے اپنے آپ کو براق کے حصار میں پایا تھا۔ براق نیند میں بھی اس کو اپنی مضبوط گرفت میں لئے ہوئے تھا۔ عنادل نے اپنا آپ اس سے چھڑانا چاہا تھا لیکن اسکے حصار سے نکلنا نا ممکن سا لگا تھا۔ براق اٹھیں عنادل نےا پنے نرم نرم ہاتھوں سے اس کی بازوں کو ہلایا تھا۔ اب بھی وہ نا اٹھا تو عنادل نے زور سے اس کے کان کے قریب کہا تھا براق اٹھیں! براق ہڑبڑاہ کر اٹھا تھا۔ اور اس کو دیکھنے لگا جو اپنی ہنسی روکے اس کو معصومیت سے دیکھ رہی تھی۔ ایسے کوئی اٹھاتا ہے۔ اس نے مصنوعی ناراضگی کے ساتھ کہا تھا۔ آپ اٹھ ہی نہیں رہے تھے میں نے کوشش کی تھی سچی میں اب اتنی گہری نیند میں کون سوتا ہے۔ اچھا روکو براق نے عنادل کو گدگدی کی تھی جس سے عنادل ہنستی چلی گئی تھی۔ اچھا اچھا روکیں مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ براق نے اس کو چھوڑا تھا اب کی بار عنادل براق کے سینے پر سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ ہمم کہو ..؟ مجھے روز ایک نمبر سے کال آتی ہے۔ پتا نہیں کون ہے عجیب عجیب خط بھی بھیجتا ہے پھول کے ساتھ مجھے تو کوئی سائیکو لگتا ہے۔ عنادل نے عجیب سے چہرہ بنائے براق کو بتایا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی براق کو بعد میں کسی اور سے پتا لگے۔ اچھا ! خط سے مراد؟ براق نے جاننا چاہا تھا۔ جیسے میرا چھپا عاشق ہو ایسے خط بھیجتا ہے۔ اور اگر میں کہو کہ وہ خط میں بھیجتا تھا تو۔ ! براق نے جیسے عنادل پر نئی چیز آشکار کی تھی۔ کیا مطلب وہ خط مجھے آپ بھیجتے تھے اور وہ کال بھی آپ کرتے تھے؟ عنادل نے براق کو گریبان سے پکڑے اپنے قریب کیا تھا وہ غصے میں بھول گئی تھی کہ وہ براق کے اتنے قریب ہے جس سے ان دونوں کے ہونٹ کے بیچ کچھ انچ کا فاصلہ ہے۔ براق کی نظریں اس کے چھوٹے سے ہونٹوں پر تھی وہ بنا وقت ضائع کئے اس کے ہونٹوں کو اپنی دسترس میں لے گیا تھا۔ عنادل کو اپنا سانس لینا مشکل لگ رہا تھا وہ اپنے ہاتھ چلاتی براق کو اپنے سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی لیکن براق کے سامنے اس کی ساری مزاحمت۔جواب دے گئی تھی۔ کچھ دیر بعد براق خود کو سیراب کئے اس کے لبوں کو آزاد کئے دور ہوئے اس کو دیکھنے لگا جو لمبی لمبی سانس لے رہی تھی۔ اور اس کو گھور رہی تھی۔ براق کی اتنی شدت عنادل کہا برداشت کر سکتی تھی۔ اس کی ہونٹوں میں درد شروع ہوگیا تھا۔ کیا ہوا؟ براق انجان بنتے بولا تھا۔ 

مجھے نہیں کرنی آپ سے بات عنادل نے ناراضگی سے رخ موڑا تھا۔ سوچ لو..! سزا بہت بری دیتا ہوں میں براق کی اس طرح بے باک باتوں پر عنادل خود میں سمٹی تھی۔ 

درد ہو رہا ہے۔ ! براق نے اس کے ہونٹوں پر اپنے انگھوٹے کو پھیرا تھا۔ اس نے بس اپنا سر ہلایا تھا۔ اِدھر آؤ اس نے عنادل کو خود کے قریب کرتے اس کے ہونٹوں پر اب کی بار اپنے لب رکھے تھے اب کی بار اسکے عمل میں شدت نہیں نرمی تھی۔ عنادل اپنی آنکھوں کو جھکا گئی تھی براق نے اس کو اپنے سینے سے لگائے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمان جلدی اٹھ گئی تھی اب وہ فریش ہوئے آئینے کے آگے کھڑے اپنے بال ٹھیک کررہی تھی۔ کاشان جس کی آنکھ ایمان کی چوڑیوں کی کھنک سے کھلی تھی۔ وہ اپنے آنکھوں۔ کو مسلے آئینے کے سامنے کھڑی ایمان کو دیکھ رہا تھا ایمان جو چوڑیوں کو پہن رہی تھی۔ کاشان نے پیچھے کی طرف سے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔ ایمان کی دل کی دھڑکن۔ اچانک افتاد پر تیز ہوئی تھی۔ کاشان کا ایک ہاتھ ایمان کے پیٹ پر تھا جبکہ۔دوسرا ہاتھ گردن پر تھا۔ یہ کیا بیہودگی ہے ہٹو پیچھے سے۔ ! ایمان کا غصے سے برا حال تھا۔ نہیں ہٹتا کیا کروگی وہ اٹل لہجے میں بولا ایمان نے اپنا پاؤں اس کے پیٹ پر مارا تھا جس سے وہ کراہ کر رہ گیا تھا۔ جنگلی بلی !! وہ جاکر بیڈ پر بیٹھا تھا۔ میرے قریب آنے کی کوشش مت کرنا اور تم نہیں سو سکتے صوفے پر تو میں سوجاؤ گی میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس نے بتانا ضروری سمجھا تھا کہی وہ کوئی خوش فہمی نا پال لے۔ کاشان کھڑے ہوئے اس کے پاس آیا تھا اور اس کے ہاتھ کو پکڑے نظروں کو جھکائے بولا تھا۔ تم مجھے معاف نہیں کرسکتی میں بہت شرمندہ ہوں پھر سے وہ اس کو منانے کی کوشش کررہا تھا۔ جو نا ممکن کام تھا۔ دیکھو مجھے تمہاری معافی سے کوئی لینا دینا نہیں اور ایک اور بات تمہیں معافی چاہئیے تو جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا اس کی بات پر کاشان خوش ہوا تھا لیکن اس کی اگلی بات پر اس کی خوشی غائب ہوئی تھی۔ میرے ساتھ زیادہ فری نہیں ہونا کیونکہ میں اس سے رشتے کو نہیں مانتی یہ شادی میری مرضی کے خلاف نہیں ہوئی لیکن میری مرضی سے بھی نہیں ہوئی میرے ماں باپ کی عزت کی خاطر میں نے تم سے شادی کی۔ اور باہر ایسے ظاہر کرنا جیسے ہم بہت ہی ہیپی کپل ہیں میں کسی کو اپنے خلاف بولتے نہیں دیکھنا چاہتی ایمان نے صاف گوئی سے ساری بات کلئیر کی تھی۔ تم یہ کیوں کررہی ہوں جانتی ہو یہ میرے لئے بہت بڑی سزا ہے جانتی ہو میں نے بہت سی چیزیں تمہارے اور اپنے متعلق سوچیں تھی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اب کبھی میری زندگی میں پوری ہوگی۔ میں نہیں جانتا تم یہ سب کیوں کر رہی ہوں لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا۔ جانے تمہاری آنکھوں میں مجھے کیا دیکھا تھا اس دن تمہارے آنسوں جیسے میرے دل میں گیرے تھے۔ میرا دل دھڑکنا بھول گیا تھا اس رات میں نے سجدے میں گر کر اللّٰہ سے تم سے ایک اور ملاقات کی دعا مانگی تھی۔ اور جانتی ہو میری ملاقات تم سے ہوئی تھی۔ ایمان نے اس کو تجسس بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ جیسے جاننا چاہتی وہ کب ہوئی تھی ان کی دوسری ملاقات کاشان نے زخمی مسکراہٹ سے اس کے چہرے پر چھائی بیچینی کو دیکھا تھا۔ دوسری ملاقات میری تم سے اس دن ہوئی جب تم اس حویلی میں عنادل کی مہندی کے لئے آئی تھی۔ پہلی ملاقات میں میں نے صرف تمہاری جھلک دیکھی تھی لیکن اس دن تمہیں دیکھ کر میرے دل نے پتا ہے کیا کہا تھا الحمدللہ میں اپنے رب کا اس دن جتنا شکر ادا کرتا اتنا کم تھا۔ وہ دن میرے لئے بہت اچھا تھا اس دن مجھے پتا لگا کہ میری زندگی میری شریک حیات اور کوئی نہیں ایمان عباس علی چودھری بننے والی ہے اس دن کمبخت دل میرے قابو میں آہی نہیں رہا تھا آنکھیں بند کرتا تم دیکھتی آنکھیں کھولتا میرے پاس سے گزرتی ہوئی مجھے تم دیکھتی پاگل کردیا تم نے کاشان خان کو پاگل کردیا آج کاشان خان ایمان کے سامنے رو دیا تھا ایمان اس کو زمین پر گیرتے دیکھ حیران ہوئی تھی اتنا مضبوط انسان آج اس کے سامنے اپنا آپ ہار گیا تھا۔ لیکن میں پھر بھی کوشش کروں گا تمہارے لئے یہ رشتہ زبردستی کا ہوگا پر کاشان خان مرتے دم تک اس کو نبھائے گا میں نہیں ہارو گا۔ وہ اپنے چہرے پر آتے آنسوں رگڑتے صاف کر رہا تھا آج ایک مضبوط مرد اپنی محبت کے ٹھکرائے جانے پر رویا تھا ۔۔ وہ یہ کہتے با مشکل اپنے قدموں میں کھڑے ہوئے فریش ہونے کے غرض سے واشروم کا دروازہ کھولتے اندر گیا تھا جبکہ ایمان نے اپنا سر جھٹکا تھا۔ جانے ایمان کا دل کب سے سخت ہوگیا تھا ورنہ وہ لڑکی آج تک غلط کا ساتھ نا دینے والی لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ غلط کر رہی تھی کہا تک کاشان خان کا صبر چلنا تھا۔ کہا تک ایمان اپنی ضد پر قائم رہتی۔ 

شاہنواز چودھری نے براق کو اپنے کمرے میں آنے کا حکم سنایا تھا عنادل آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے اپنے اوپر آخری نظر ڈال رہی تھی جبکہ براق دروازے کے قریب کھڑے اس کو معنی خیزی نظروں سے گھور رہا تھا۔ اب چلیں عنادل نے براق کے پاس آتے کہا تھا اس نے ہاں میں سر ہلایا دونوں ایک ساتھ سڑھیاں اترتے نیچے لاونج میں آئے تھے عنادل حلیمہ بیگم کے پاس کیچن میں چل دی جبکہ براق شاہنواز چودھری کے کمرے میں۔ اررے بیٹا تم اِدھر کیوں آگئی حلیمہ بیگم عنادل کو کیچن میں آتے دیکھ چونک کر بولی تھی میں نے سوچا آپکی کچھ مدد کردوں پیچھے سے دانیہ کیچن میں دوڑتی ہوئی آرہی تھی۔ کیچن میں آتے ہی وہ شیلف پر چڑھ کر بیٹھ گئی حلیمہ بیگم نے اسکو گھوری سے نوازہ تھا دانیہ نیچے اترو اور باہر جاکر بیٹھو ناشتہ لے کر میں آرہی ہوں۔ امی بھابھی کے سامنے تو مجھے نا ڈانٹے میری بھی کوئی عزت ہے دانیہ نے مصنوعی ناراضگی کے ساتھ کہا تھا۔ ہائے میرا بچا نیچے اترو اور باہر جاؤ ورنہ دو تھپڑ لگا کر میں تمہیں سیدھا کرتی ہوں حلیمہ بیگم کے پہلے پیار سے بولنے پر دانیہ بہت خوش ہوئی لیکن اچانک ان کا بدلتا موڈ دیکھ وہ ناک پھولا کر باہر نکلی تھی۔ 

حد ہے دانیہ تیری تو کوئی عزت ہی نہیں ہے۔  

براق ان کے کمرے داخل ہوتے ہی ان کے سامنے بیٹھا تھا۔  

جی دادا سائیں آپ نے بلایا مجھے ..!!؛ ہاں کام تھا مجھے تم سے جی کہیں میں سن رہا ہوں وہ سنجیدگی کے ساتھ بولا تھا۔ میں نے جو کہا ہے وہ سب تم نے کرنا ہے۔ شاہنواز چودھری اس کو ان کی بولی ہوئی بات یاد کرواتے ہوئے بولے تھے۔ دادا سائیں یہ سب ٹھیک نہیں ہے کیسے میں کسی بے قصور کو اپنی زیادتی کا نشانہ بنا سکتا ہوں۔ میرا پوتا صائم بھی بے قصور تھا اس کو کیوں اپنی گولی کا نشانہ بنایا کاشان خان نے ..! وہ دھاڑے تھے ان کے اس طرح شدید غصے سے ان کا بی پی ہائے ہوا تھا۔ دادا سائیں براق نے ان کو ساتھ پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر دیا تھا۔ نہیں چاہئیے مجھے ان نے چہرہ موڑ لیا تھا ٹھیک ہے جو آپ کہیں گے ویسا ہی میں کروں گا۔ براق نے نا چاہتے ہوئے بھی۔ ان کی بات مانی تھی۔ اس کے علاؤہ اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ اب کی بار وہ تھوڑے ریلکس ہوئے تھے۔ براق یہ کہتے فوراً کمرے سے باہر نکلا تھا اس کو اچانک حویلی سے باہر جاتا دیکھ حلیمہ بیگم بولی تھی۔ بیٹا ناشتہ تو کرلو مجھے نہیں کرنا آپ اپنی چہیتی بہو کو کروائے ناشتہ زہر خند لہجے میں بولتے وہ حویلی سے باہر نکلا تھا جبکہ عنادل کو اس کا یہ رویہ بہت ہرٹ کرگیا تھا 

ایمان کمرے سے نکلے باہر آئی تھی اور کلثوم بیگم کو ٹیبل پر سامان رکھتے ہوئے دیکھ ان کی مدد کروانے لگی۔ اررے بیٹا تم بیٹھ جاؤ میں یہ سب کرلوں گی نہیں آنٹی میں مدد کروا رہی ہوں نا۔ ایمان نے ان کے ہاتھ سے سامان لئے ان کو بیٹھایا تھا اور خود سب کام کر رہی تھی۔ آج رات کو عنادل براق اور کاشان اور ایمان کا ولیمہ تھا۔ اس لئے دوپہر کو کاشان ایمان کو پارلر چھوڑنے جائے گا جبکہ عنادل کو براق پارلر چھوڑے گا اس کے بعد وہ دونوں ہی ان کے ساتھ ہال میں آئے گے۔ 

کاشان سڑھیاں سے اترتے ہوئے اس دشمن جان کو دیکھ کچھ پل کے لئے روکا تھا آسمانی رنگ کے شلوار کمیز میں سر پر دوپٹہ ٹکائے آنکھوں میں پہلے کی طرح آج بھی کاجل تھا ہونٹوں پر ہلکا سا لپ گلوز لگا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر رخمی مسکراہٹ آئی تھی سب کے ساتھ وہ کتنی خوش تھی اس کے دل نے یہ خواہش کی تھی۔ کاش جیسے وہ سب کے ساتھ اتنی خوش ہے کبھی اس کے ساتھ بھی یوں خوش ہو ابھی ایک دن نہیں ہوا تھا اس کو اس گھر میں اور وہ سب کے دل میں جگہ بنا چکی تھی شاید لیکن کاشان کے دل کا کیا؟ اس کے بارے میں وہ شاید کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اسلام وعلیکم ! وہ نیچے اترتے ہوئے زور سے بولا تھا جیسے دیکھ کلثوم بیگم مسکرائی تھی حور بھی پیچھے سے نیچے آئی تھی۔

جاری ہے ۔۔ بقیہ اگلی قسط میں

Post a Comment

0 Comments