Tere Sang Yara by Arfa Ejaz Complete Pdf Novel


Complete Online Urdu Novel in Pdf Tere Sang Yara by Arfa Ejaz Pdf Novel Based On Cousin, Funny, Love Story and Innocent Heroin Based Urdu Romantic Novel Downloadable in Free Pdf Format and Urdu Novel Online Reading in Mobile Free Pdf Download Urdu Novels Complete Posted on Novel Bank.

میں کونسا شادی سے انکار کر رہی ہوں، بس کچھ عرصہ اور اس دیو کی قید سے رہائی چاہ رہی ہوں۔ مگر بھلا ہو میرے ماں باپ کا جو مجھے اس دیو کی قید میں بھیج کے ہی چھوڑیں گے۔" اس نے آنکھیں اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بند کرتے اپنی بےبسی کا اظہار کیا تھا۔

اگر یہ بات اس دیو سے ہی کہہ دوں تو کیسا رہے گا؟ اک دم سے اس کے دماغ کی بتی جلی تو اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔

مگر اس دیو سے بات کون کرے؟ اک اور سوال اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا، جس نے اس کے ایکسائٹمینٹ کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔

اب تو میں ان کی بیوی ہوں، اور ان سے بالکل بھی نہیں ڈرتی۔ کچھ لمحوں بعد اس نے خود کو مضبوط ظاہر کیا یہ الگ بات تھی کہ دماغ اس بات کی شدت سے نفی کر رہا تھا۔ مگر اس نے شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنے کا کا ارادہ کر لیا تھا۔

ہالے نے اک نگاہ گھڑی پہ ڈالی، اس کے آنے کا وقت ہو چکا تھا۔ اک گہری سانس بھرتے اس نے خود کو پرسکون کرتے وہ نیچے والے پورشن میں آئی تھی۔ ثمامہ کے کمرے کی طرف بڑھنے سے پہلے اس نے اردگرد کا جائزہ لیا مگر اسے کہیں کوئی نظر نہ آیا۔ کسی کو نہ پا کر وہ ثمامہ کے کمرے کی طرف بڑھی۔

اس دن میرے روم میں ناک کیے بغیر آیا تھا کھڑوس آج میں بھی ناک کیے بغیر ہی جاؤں گی۔ اس کے کمرے کے دروازے پہ پہنچتے اس نے دستک دینی چاہی مگر اچانک ہی اس کی انا جاگی تھی۔ جس کے زیرِ اثر وہ ناک کیے بغیر دھڑلے سے ثمامہ کے روم میں داخل ہوئی تھی۔ مگر روم میں پہنچتے ہی اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ثمامہ بغیر شرٹ کے یونیفارم کی پینٹ زیب تن کیے کبرڈ کے سامنے کھڑا اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔ وہ شاید ابھی ہی گھر آیا تھا اور اب شاور لینے جا رہا تھا۔ کھڑکے کی آواز پہ اس نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا تھا۔ جہاں ہالے کبوتر کی طرح آنکھیں میچے کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کے ثمامہ کے ماتھے پہ ہمیشہ کی طرح بل آئے تھے۔

ہالے نور تم نے کب سیکھنے ہیں منیرز؟ اس کی بات پہ ہالے کی شرمندگی پل میں اڑن چھو ہوئی اور اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولی تھیں۔

اپنی دفعہ منیرز کہاں جاتے ہیں، ابھی کچھ دن پہلے آپ بھی میرے روم میں بغیر ناک کیے آئے تھے۔ ہالے نے تڑخ کے کہا تو ثمامہ کے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ اس کی نظروں میں آنے سے پہلے ہی چھپا گیا تھا۔

اچھا تو جو میں کروں گا تم وہی کرو گی؟ کبرڈ کا دروازہ بنر کرتے ثمامہ نے ہاتھ میں پکڑے کپڑے کندھے پہ رکھے اور قدم اس کی طرف بڑھائے تھے۔

ہہہہ۔۔۔ ہاں بالکل۔ ہکلا کے بولتے ہوئے ساتھ میں زوروشور سے سر بھی ہلایا تھا۔ جبکہ اسے اپنے قریب آتے دیکھ کے اس نے دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی تھی۔ اس کے قریب آتے ثمامہ نے اسے روم کے اندر کھینچتے پیچھے دروازہ بند کیا تھا۔

Post a Comment

1 Comments

Thanks for feedback