Hisaar e Wafa Rakhna by Kanwal Akram Novel Complete Pdf Download


Online Urdu Novel Hisaar e Wafa Rakhna by Kanwal Akram Age Difference Based, Innocent Heroin Based and Love Story Based Romantic Urdu Novel Downloadable in Free Pdf Format and Online Reading Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.

ہنی؟ ہر سوچ کو جھٹکتے وہ بے ساختہ سا اُس کا گال تھپتھپاتا اُسے پُکار اُٹھا تھا۔ اپنے طرزِ تخاطب پر وہ خُود بھی حیران ہوا تھا۔ 
اُٹھو! کھانا کھا لو!" دانیال نے اُس کا گال پھر سے تھپتھپایا تو وہ سوتے ہوئے ہی نفی میں سر ہلانے لگی۔
نہیں کھانا۔ سونا ہے بس!" دھیمے سے بڑبڑا کر وہ سیدھی لیٹ گئی۔
 دانیال نے نفی میں سر ہلاتے اُس کو دونوں کلائیوں سے پکڑ کر اوپر کھینچا تو وہ بے بس اور ڈھیلی سی ہوتی اُس کی طرف کھینچی چلی گئی۔ اپنا سارا وزن دانیال پہ ڈالے وہ اب اُس کے سینے پر سر رکھے، اُس کے گِرد بازو حمائل کر چُکی تھی۔ اُس کی حرکت پر سٹپٹاتا وہ اُس کے اپنی پُشت پر بندھے ہاتھ کھولنے لگا۔
ہنی! اُٹھو کھانا کھاو پھر سو جانا!" دانیال نے اب کی بار غُصّے سے کہا تھا۔
سونے دو نا کھڑوس! آنکھ کُھلنے کی بعد نیند نہیں آتی پھر!" زرا سی آنکھیں کھول کر اوپر دانیال کو دیکھا اور پھر اُس کے سینے میں سر گُھساتی آنکھیں بند کر گئی۔ دانیال نے بے بسی سے گہرا سانس بھرا اور پھر کُچھ سوچ کر اُسے بانہوں میں اُٹھا لیا۔ وہ اب بھی گہری نیند میں تھی۔ وہ اُسے اُٹھائے باہِر لاونج میں آیا اور اُس صوفے پر بِڑھا دیا۔ وہ صوفے کی پُشت سے ٹیک لگائے، پاوں صوفے سے نیچے لٹکائے پھر سے آنکھیں موند چُکی تھی۔ دانیال کِچن کی جانِب بڑھا اور وہاں سے گلاس میں پانی ڈال کر اُس کے قریب پہنچا۔ ہاتھ سے پانی اُس کے چہرے پہ چھڑکا تو وہ ہڑبڑاتی ہوش میں آئی۔
بارِش بارِش! عالم بھائی کپڑے سوکھ گئے اُتاریں! وہ اِدھر اُدھر دیکھتی تیزی سے بولی مگر عالم کو نا پا کر سامنے دیکھا جہاں وہ دِلچسپی سے اُسے ہی دیکھا رہا تھا۔ وہ ہوش کی دُنیا میں لوٹتی منہ بسور کر واپس صوفے کی پُشت پی سر گِرا گئی۔ سِلک کے بے بی پِنک کلر کے ٹراوزر شرٹ میں ملبوس، دوپٹے سے بے نیاز، بِکھرے بالوں، گُلابی چہرے اور گُلابی ہوتی آنکھوں سمیت وہ مقابل کا ایمان ڈگمگانے پر تُلی ہوئی تھی۔ اُس کے وجود سے نظریں چُراتا وہ واپس کِچن کی جانِب بڑھ گیا تھا۔ 
جب وہ واپس لوٹا تو اُس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جِس میں پیزے کے سلائس، کیچپ اور گلاس رکھے تھے جِن میں کولڈ ڈرِنک موجود تھی۔ وہ ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر اُس کے قریب بیٹھا تھا۔
ہنی! ویک اپ! اُٹھ جاو جلدی سے!" اُس نے ایک بار پھر اُسے جگانے کی کوشش کی تھی۔ لہجہ سخت تھا تبھی وہ مُندھی مُندھی آنکھیں کھولتی اُسے تکنے لگی پھر آنکھوں میں نیند کا خُمار لیے اُس کے قریب ہوتی پھر سے اُس کے سینے میں پناہ ڈھونڈنے لگی۔ وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا وہ بچّی تھی اور بچوں کی طرح ہی حرکتیں کر رہی تھی۔ 
جگا کر کون سی مزدوری کروانی ہے انکل؟ مُجھے سچ میں بہت نیند آ رہی ہے سارا دِن آرام کر کر کے بہت تھک گئی ہوں۔" اُس کی نیند سے بوجھل آواز میں کہے گئے الفاظ پر نا چاہتے ہوئے بھی ایک دِلفریب مُسکان نے اُس کے لبوں پر بسیرا کیا تھا جِسے وہ جلدی سے چُھپا گیا۔
"انکل نہیں ہوں میں اور کھانا کھانے بغیر نہیں سوتے! پیزا لایا ہوں تُمہارے لیے! اُٹھو کھاو پھر سو جانا۔" اُس نے نرمی سے اُس کے تھوڑے پتلے سے ہاف سلیو شرٹ سے نمایاں ہوتے بازو سہلاتے کہا۔ 
اچھا! پھر بھائی کہہ لوں گی تُم نے ہی کہا تھا نا؟" وہ بڑبڑائی تو اُس نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے سامنے کیا۔ جھٹکا لگنے سے اُس کے بال کُچھ بِکھر سے گئے جب کہ حُنین نے گھور کر اُسے دیکھا تھا جو بِلاوجہ اُس کی نیند خراب کر رہا تھا۔
کیوں نِکاح فاسد کروانے پر تُلی ہو؟ شوہر ہوں تُمہارا! بھولنا مت اب سکون سے ہوش میں آو ورنہ مار لگاوں گا۔" کُچھ سختی سے کہہ کر وہ ٹرے کو پاس رکھ کر پیزے کی طرف اِشارہ کرنے لگا۔ حُنین نے منہ بسور کر اُسے دیکھا پھر دِل ہی دِل میں "ہونہہ" کرتی پیزے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ لارج سائز پیزا تھا جِس کے چار پیس کھانے کے بعد بھی وہ سکون سے کھائے جا رہی تھی جبکہ وہ ابھی پہلا پیس پکڑے حیرت سے اُس کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا جو دِکھنے میں چھوٹا سا ہی لگا تھا اُسے!
کیا؟ پہلے زبردستی جگایا کہ کھاو اب جب کھا رہی ہوں تو نوالے گِننے شروع کر دئیے ہیں؟" وہ اُس کی مسلسل گھورتی نظروں پر زِچ ہو کر اُسے دیکھ کر بولی تو دانیال نے بھی اُسے گھورا۔ 
ڈال کہاں رہی ہو اِتنا سارا؟" دانیال نے حیرت سے پوچھ ہی لیا تھا جبکہ اُس کے سوال پر حُنین نے آنکھیں گُھمائیں تھیں۔
ٹمی میں!" فٹ سے جواب دے کر وہ پھر سے کھانا شروع ہو چُکی تھی۔ اُس کے بال کُھلے ہوئے تھے جو بار بار اُس کے چہرے پر آ رہے تھے۔ حُنین ایک ہاتھ سے پیزا کھاتے دوسرے سے مسلسل اُنہیں پیچھے ہٹا رہی تھی مگر وہ آوارہ بادلوں کی طرح مسلسل اُس کے رُخساروں پر سایہ فِگن تھے۔

Post a Comment

0 Comments