Innocent Love by Mishi Khan Novel Complete Pdf Download


Online Urdu Novel Innocent Love by Mishi Khan. Cousin Based and Love Story Based Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.

یہ تمھاری ماں کیا کہہ رہی ہے؟ اس بات کی وضاحت دے نہ پسند کرو گے تم؟
آغا جی نے کاٹ دار انداز میں پوچھا۔
سیم نے نظر اٹھا کر سامنے صائمہ بیگم کر دیکھا جو کہ سر جھکائے بیٹھی تھیں جبکہ اسد صاحب سپاٹ چہرہ لیے اسے ہی دیکھ رہے تھے ، آنکھوں میں غصہ واضح تھا۔
سیم نے اندر کی جانب ایک لمبا سانس کھینچا اور آغا جی کو دیکھتے ہوئے آہستہ سے گویا ہوا۔
جی آغا جی ماما ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔ مجھے ہانی سے شادی نہیں کرنی، مجھے کوئی اور لڑکی پسند ہے میں اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔
سیم نے اپنی ایک ایک بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
سیم کی بات سن کر آغا جی کا چہرہ غصے کی وجہ سے سرخ پڑ گیا جبکہ ہانی کی امی نے بھی غصے سے پہلو بدلا ۔ 
پر ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، تمہیں وہی کرنا پڑے گا جیسے ہم چاہیں گے ۔ خاندان کی روایت توڑنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔ ہانی تمھاری بچپن کی منگ ہے۔ تم ایسے اس رشتے سے مکرر نہیں سکتے۔
آغا جی نے غصے سے لبریز لہجے میں کہا۔
پلیز آغا جی روایات کی تو بات ہی مت کریں۔ اور اس رشتے سے میں نے بہت پہلے ہی منع کر دیا تھا۔ میں وہی کروں گا جہاں میں چاہوں گا کوئی مجھ پر زبردستی نہیں کر سکتا۔
سیم دھیمی آواز میں بات کرو ۔بھولو نہیں کہ کس سے بات کر رہے ہو۔
اسد صاحب نے سیم کو ڈانٹتے ہوئے بولا جس پر اس نے شکایتی نظروں سے اسد صاحب کو دیکھا۔
مرحہ بھی پریشانی سے سیم اور آغا جی کو دیکھ رہی تھی جبکہ سیاب غصے میں بھرا اِدھر اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔
بابا میں یہ شادی ہرگز نہیں کروں گا۔ 
سیم اپنی بات کہہ کر وہاں سے اٹھا اور باہر کی جانب قدم بڑھانے چاہے ہی کہ آغا جی کی کاٹ دار آواز نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔
پھر تمھاری بہن کو بھی ہمارے گھر میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ 
ایسے تو ایسے ہی سہی۔
سیم کے ساتھ ساتھ سب نے  بے یقینی سے آغا جی کو دیکھا جبکہ مرحہ کی حالت ایسی تھی جیسے اسکا دل کسی نے اپنی مٹھی میں قید کر لیا ہو۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟
سیم نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچتے ہوئے اپنے اندر اٹھنے والے وبال کو قابو کیا۔
ٹھیک سنا تم نے ۔ اگر تم نے اس شادی سے انکار کیا تو اپنی بہن کا گھر تم خود اپنے ہاتھوں سے برباد کرو گے۔ 
آغا جی کی بات سن کر سیم کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ گیا۔  شدتِ ضبط کی وجہ سے سیم کی آنکھیں سرخ ہوگئ۔ اس نے ایک نظر صائمہ بیگم کو دیکھا جن کی آنکھوں میں آنسو تھے،دوسری طرف مرحہ فق چہرہ لیے کھڑی تھی جبکہ اسد صاحب صدمے کی سی کیفیت میں سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ان کی اس حالت سے سیم نظریں چرا گیا۔ وہ وہاں رکا نہیں بلکہ لمبے لمبے ڈگ بڑھتا لاؤنچ سے باہر نکل گیا ۔ جبکہ پیچھے پردے کی اوٹ میں کھڑی ہانیہ اپنی محبت کا سوگ منا رہی تھی، وہاں مستقل کھڑے رہنا اسکے بس کی بات نہ تھی ۔ اسے اپنا دل بند ہوتے ہوئے محسوس ہوا اس لیے بھاگتے ہوئے کمرے میں جاکر خود کو  بند کر لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔  اس نے تو کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی اسے اس مقام پر لا کر کھڑا کر دے گی جہاں اسکا ہونے والا شوہر خود اپنے منہ سے کسی اور سے پیار کرنے کے دعوے کرے گا۔ کتنی خوش تھی وہ یہاں آنے سے پہلے پر یہاں تو اسکی خوشیوں کی شروعات ہونے سے پہلے ہی بے دردی سے ان خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ 

Post a Comment

0 Comments