Aina by Noshiba Ilyas Afsana


آئینہ
نوشیبہ الیاس
 گجرات 

شِٹ..." یہ گاڑی کو کیا ہو گیا وہ خود سے بڑبڑایا, پھر گاڑی سے باہر نکلا اور دیکھا کہ ٹائر پنکچر ہو چکا تھا
اووو گاڈ اتنے خراب موسم میں گاڑی خراب ہو گئی ہے
عجیب اندھیرا سا چھایا تھا آسمان سیاہ دکھائی دے رہا تھا
وہ اس وقت شہر سے کافی دور سنسان سڑک پر کھڑا تھا
سڑک کے دونوں طرف ہرے بھرے درخت تھے
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی
ایک راستہ سا بنا ہوا تھا وہ اسی طرف جانے لگا
چاروں اطراف دیکھ رہا تھا کہ شاید کوئی نظر آ جائے
اس کچے راستے سے ہوتا ہوا گھر کے تھوڑا قریب گیا
وہ  گھر باہر سے کافی خوبصورت دکھائی دے رہا تھا-سارا گھر لکڑی سے بنا تھا- گھر کے اطراف میں لکڑی کی ہی بھاڑ لگائی ہوئی تھی
ہری بھری گھاس پودے....عالیار امپریس ہوا-
اس نے دروازے کے پاس جا کر آواز دی...
کوئی ہے؟؟
ہیلو....کوئی سن رہا ہے ؟؟
وہ دروازے سے ہٹ کر اطراف میں دیکھنے کے لیے مڑنے لگا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی
اسے تسلی ہوئی کوئی رہتا تو ہے
عالیار نے دیکھا دروازہ کھولے سامنے لڑکی کھڑی تھی
گھٹنوں سے نیچے تک آتا لمبا فراک پہنے نیچے فراک کا ہم رنگ ہی پاجامہ تھا
سر پہ دوپٹہ اوڑھے,  بڑی بڑی آنکھیں, ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی تھی اسے اس لڑکی میں
عالیار کچھ نہ بولا تو وہ لڑکی بولی....جی کون ہیں آپ ؟؟
میں عالیار میری گاڑی خراب ہو گئی ہے کیا میں یہاں آج رات رک سکتا ہوں میرے سیل فون کی بیٹری حتم ہو چکی ہے کسی کو کال بھی نہیں کرسکتا اور باہر تو موسم بہت خراب ہے اس نے منت بھرے لہجے میں ساری بات ایک ہی دفعہ کہہ دی تاکہ مقابل منع نہ کردے
کیونکہ سنسان سڑک پر رات گزارنا اس کے لیے محال تھا
اسرا نے کچھ سوچتے ہوئے مسکرا کر کہا 
آپ آ جائیں اندر کوئی بات نہیں۔
عالیار نے سکھ کا سانس لیا- عالیار کے کندھے پر ایک بیگ تھا جس میں ہمیشہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں رکھتا تھا-وہ اندر داخل ہوا اندر بھی ہر چیز کو لکڑی سے بنایا گیا تھا
اس نے ادھر ادھر دیکھا اور کوئی بھی نظر نہ آیا تو  اسے تھوڑا عجیب لگا 
کیا آپ اکیلی رہتی ہیں ؟؟؟ اس نے جھجکتے ہوئے پوچھا 
نہیں تو میرے ساتھ میری تنہائی بھی رہتی ہے
جس میں میں کسی کو بھی دخل دینے نہیں دیتی
عالیار کو اسکی باتیں عجیب لگیں
آپ بیگ رکھ کے بیٹھیں میں چائے وغیرہ لاتی ہوں۔
عالیار نے حکم کی تعمیل کی اور لکڑی کی کرسی پر بیٹھ گیا
اس نے سیل فون چارجر لگانے کے لئے جگہ تلاش کی لیکن نہ ملی

**********

یہ لیں آپ کی چائے اور اسنیکس..........وہ ٹرے پکڑے آیی
اوو تھینکس...عالیار مشکور ہوا
کہاں جا رہے تھے آپ ؟ اِسرا نے پوچھا- وہ عالیار کے پاس ہی پڑی دوسری کرسی پر بیٹھ گئ تھی 
ہم یہاں کچھ آگے ٹوؤر کے لئے آئے تھے
میرے دوست آگے چلے گئے اور میں پیچھے تھا لیکن یہاں آ کر گاڑی خراب ہو گئ کسی کو فون کرتا مگر بیٹری بھی نہیں تھی-اوو اچھا اَسرا نے سر ہلایا
آپ کو یہاں ڈر نہیں لگتا اکیلے پاس اتنا بڑا جنگل ہے 
عالیار نے ذہن میں آتے سوال کو زبان دی
نہیں یہاں آتے جاتے ہیں لوگ پاس ہی ایک جھیل ہے وہاں بھی سیر کے لئے لوگ آتے رہتے ہیں اور مجھے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے یہاں رہتے ہوئے
وااوؤ یہاں کوئی جھیل بھی ہے عالیار نے خوش ہو کر کہا
عالیار کو فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا اور ایسی جگہوں کی وہ تلاش میں ہی رہتا تھا
صبح آپ کو لے جاؤں گی جھیل پر....اوکے غزلیات نے مسکرا کر کہا

**********

صبح ہوئی عالیار اٹھا تو اِسرا ناشتہ تیار کر چکی تھی وہ حیران ہوا اتنی جلدی اٹھ گئی وہ
ارے اسکی کیا ضرورت تھی میں پہلے ہی آپ کو بہت زحمت دے چکا ہوں..ناشتہ رہنے دیتی آپ 
کوئی بات نہیں میرے مہماں ہو اور یہاں سے کوئی بھی خالی میں جانے نہیں دیتی
عالیار اس کے سراپے سے نظریں چرا رہا تھا وہ بہت دلکش تھی
اسے دیکھتے ہی عالیار کھو سا گیا تھا
اور یہ بات اَسرا نے بھی شاید نوٹ کرلی تھی

*********

موسم باہر ابھی بھی خوشگوار تھا بارش رک چکی تھی لیکن ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں 
وہ دونوں جھیل کی طرف چلے گئے 
وہاں اتنا خوبصورت منظر دیکھ کر عالیار وہیں کا ہو کر رہ گیا
سارا دن مختلف طریقوں سے تصویریں لیتا رہا
اسرا بھی اس کے کام سے لطف اندوز ہو رہی تھی
وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور وہیں پھر سے بارش شروع ہو گئی 
دونوں آتے ہوئے بھیگ چکے تھے- بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے
باہر تیز بارش شروع ہو چکی تھی 
عالیار تو شاکڈ تھا اسے جانے کا خیال ہی نہیں آیا
اَسرا کی طرف دیکھا وہ ٹیبل پر کچھ کھانے کے لیے لگا رہی تھی
عالیار کے دل نے کہا,  کہ اسے اسرا سے محبت ہو چکی ہے
وہ ہمیشہ اس کے پاس رہنا چاہتا تھا 
یہ دن اور رات اس کے ساتھ گزارنے کے بعد وہ اسکا اثیر ہو چکا تھا
اسرا نے خود پہ نگاہیں مرکوز دیکھیں تو مسکرا دی
عالیار شرمندہ سا منہ موڑ گیا

*********

ساری رات اسے نیند نہیں  آ رہی تھی, بار بار اسرا اسکے زہن میں آ رہی تھی
اس نے تنگ آ کر سوچ لیا کہ صبح اسے کہہ دے گا کہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے
یہی سوچتا ہوا وہ سو گیا
یہاں آ کر وہ سب کچھ بھول چکا تھا دوست فیملی جیسے نجانے کب سے یہاں ہی رہتا تھا

**********

صبح ہوئی تو اسے پاور بینک کا خیال آیا کہ موبائل چارجر کرلے
دیکھا تو وہ بھی ڈیڈ تھا
اس نے موبایل فون آن کیا تو پانچ فیصد بیٹری تھی موبائل شاید دباؤ کی وجہ سے آف ہوا تھا اور وہ سمجھا بیٹری بلکل ہی ڈیڈ ہے
اس نے اٹھ کر بیگ وغیرہ تیار کیا اور اسرا سے اظہار کرنا چایتا تھا
کمرے میں گیا اسرا سرخ سوٹ میں کوئی اپسرا لگ رہی تھی 
وہ بے خود سا ہوتا ہوا کمرے میں اس کے پاس گیا
وہ مسکرا رہی تھی
عالیار نے کچھ بھی کہے بغیر اسے گلے سے لگا لیا
اور آنکھیں بند کرلیں
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے اسرا
I love u so much
اتنی دیر میں اس کا موبائل بجا
اس نے گلے لگے ہوئے ہی فون پِک کیا اسکا دوست شاکر تھا
ارے کہاں ہو یار ہمارا برا خال ہو گیا ہے تمہیں ڈھونڈ کر, ہم واپس گھر جا چکے ہیں
عالیار نے زیادہ بات نہیں کی اس نے اپنا ٹھکانہ بتایا تو شاکر نے کہا ارے یار وہاں تو سنا ہے ایک سایہ رہتا ہے
اتنی بات ہوئی تھی کہ موبائل آف ہو گیا
موبائل بند ہونے پر اَسرا نے بھی اسے اپنے حصار میں لے لیا
لیکن پیچھے لگے آئینے میں جب عالیار نے دیکھا تو اسکی چینخ نکل گئی
آئینے میں صرف عالیار کا وجود دکھائی دے رہا تھا کوئی دوسرا وجود تو وہاں موجود ہی نہیں تھا
وہ لڑکی ایک سایہ تھی
اور آئینے میں سایہ اپنا آپ نہیں چھپا سکتا

ختم شد

نیچے دئیے ہوئے لنک سے یہ افسانہ پی ڈی ایف میں ڈاوٴنلوڈ کریں۔

Post a Comment

0 Comments